خبرنامہ

کوئی منزل‘ کوئی کنارا …عمار چوہدری

ہمارے طلبا کو کامیابی کے لئے کون سا شعبہ‘ کو ن سا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور ہمارے وہ نوجوان جوبہتر روزگار اور اعلیٰ مستقبل چاہتے ہیں انہیں ایک مرتبہ انتونیومنوز کی کہانی ضرور پڑھنی چاہیے۔
یہ کہانی گوئٹے مالا اور امریکہ کے ایک بہترین کار ریسر‘ ایک بہترین سیلز مین اور ایک بہترین ایکٹر کی ہے۔ انتونیو منوز 2جنوری 1966ء کو گوئٹے مالا میں پیدا ہوا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں ایک کار ریس کے دوران اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا وہ دو سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے موڑ کاٹ رہا تھا‘ ایک سیکنڈ کیلئے آنکھ بند ہونے کا نتیجہ چند سیکنڈ میں دھماکے کی صورت میں سامنے آ گیا‘ اس کی گاڑی سائیڈ ریمپ سے ٹکرا گئی اور اس کے پرخچے اڑکر کئی میل دو جا گرے‘انتونیو کی گاڑی بری طرح پچک گئی تھی‘ انتونیو اس حادثے میں شدید زخمی ہو گیا‘ اس کا جبڑا ٹوٹ کر باہر آ گیا اور وہ چکھنے اور سونگھنے کی حس بھی کھو بیٹھا۔ یہ اس کیلئے بہت مشکل وقت تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کانوں کو ہاتھ لگا لیتا‘ توبہ کرتا اور دوبارہ کار ریس تو کیا کار کے قریب آنے کی ہمت نہ کرتا۔ لیکن یہ انتونیو تھا‘کار ریسنگ کے میدان کا سب سے بڑا جنونی۔ کار ریسنگ کا جنون اسے دوبارہ میدان میں لے آیا اور وہ مختلف مقابلوں میں شریک ہوتا رہا۔ اس دوران اس نے تین مرتبہ کارریسنگ میں نیشنل چیمپئن کا اعزاز جیتا۔ ایک عالمی مقابلے میں اس کا ایک اور ایکسیڈنٹ ہوا اور
اس کیلئے فارمولا ون ریسنگ کے دروازے بند ہو گئے۔ وہ ہمت نہیں ہارا۔ 2000ء میں وہ امریکہ چلا گیا۔ اس کی جیب میں دو چیزیں تھیں۔ ایک سو پچیس ڈالر اورون وے ٹکٹ۔وہ کئی ماہ تک پٹرول پمپ اور سٹورز پر ملازمت کرتا رہا۔ اسی سال اُسے بی ایم ڈبلیو کے مرکزی شو رُوم میں سیلز مین کی ملازمت مل گئی۔ وہ ایک پرکشش شخصیت کا مالک تھا۔ ایک سال کے دوران انتونیوکی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے بی ایم ڈبلیو نے اسے سیلز مین آف دی ایئر کا اعزاز دیا۔ 2002ء میں اس نے امریکہ کی سب سے بڑی انڈسٹری میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کبھی ایکٹنگ نہیں کی تھی لیکن وہ بورن ایکٹر تھا۔ اسے اپنی صلاحیتوں کا پورا علم تھا۔ ہالی وڈ کے ایک معروف ڈائریکٹر ڈیسمنڈ گمبز نے اسے اپنی فلم سٹریٹ آئوٹ میں کاسٹ کر لیا ۔ انتونیو نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا اور یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس کے بعد وہ کیلیفورنیا منتقل ہو گیا اور اس پر ایک ایک کر کے خوش بختی کے دروازے کھلنے لگے‘ وہ ٹی وی شوز کی دنیا میں داخل ہوا اور کنگ آف کوئینز‘ دِی رن ڈائون اور کیرن سسکو جیسے ٹاپ ریٹڈ شوز میں میزبانی کے جوہر دکھائے۔ وہ اب مکمل سٹار بن چکا تھا‘ اشتہاری کمپنیاں اس سے ملاقات کرنے کیلئے باقاعدہ وقت مانگتی تھیں اور جب بینک آف امریکہ نے اپنا پہلا اشتہار چلایا تو اس کے وہ دوست ایک مرتبہ پھر حیران ہو گئے‘ انہوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں ‘ انہیں یقین ہی نہیں تھا کہ یہ وہی ہے جسے وہ سیلز مین کی نوکری چھوڑنے پر مذاق کرتے تھے لیکن وہ اب ہالی وڈ فلم انڈسٹری کے ساتھ ساتھ امریکہ کی ٹاپ ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کی ڈیمانڈ بھی بن چکا تھا۔ پانچ برس قبل وہ بی ایم ڈبلیو کے شو روم سے سیلز مین کی حیثیت سے ماہانہ سوا لاکھ ڈالر لیتا تھا ‘ اداکاری آٹھ ہزار ڈالر سے شروع کی لیکن اب وہ ٹی وی کے پندرہ سیکنڈ کے کمرشل کا پانچ لاکھ ڈالر معاوضہ وصول کر رہا تھا‘ وہ زندگی کی اصل خوشبو سونگھنے اور زندگی کا اصل ذائقہ چکھنے میں ماسٹر تھا اور اس کی یہی خوبی اسے ایک کامیاب انسان بنا گئی۔
آپ انتونیو کو دیکھئے اور اسے اپنی زندگی سے کمپیئر کیجئے‘ آپ کو پانچ بنیادی فرق دکھائی دیں گے‘ پہلا‘ انتونیو وہی کام کرتا تھا جو اس کے دل کو لگتا تھا‘ جس سے اسے عشق تھا اور جس کی اس میں صلاحیتیں موجود تھیں دو‘ انتونیو کی کامیابی سے علم ہوتا ہے کہ انسان کو بنیادی طور پر جنونی ہونا چاہیے‘ اسے اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت ہونی چاہیے‘ تین‘ حادثے انسان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے‘ انسان چاہے تو انہیں عبور کر سکتا ہے‘ چار‘ انسان ایک سے زیادہ شعبوں میں بھی اعلیٰ ترین کارکردگی دکھا سکتا ہے اور پانچ‘انسان کو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے‘ جب انسان ایک کام کر رہا ہو تو اس کی نظر اگلے منٹ‘ اگلے کام اور اگلی منزل کی جانب ہونی چاہیے‘ یہ انتونیو کی زندگی تھی‘لیکن ہم کیا کرتے ہیں۔ ہمارے خاندان میں اگر ایک دو ڈاکٹر بن جائیں تو سارا خاندان ڈاکٹر بننے چل پڑتا ہے‘ کوئی پراپرٹی ڈیلر بن جائے تو سارے زمینیں خریدنے اور بیچنے نکل پڑتے ہیں‘ کسی کی دکان چل نکلے تو سب ڈیپارٹمنٹل سٹور ڈالنے لگتے ہیں ‘ حتیٰ کہ کسی کی غلطی سے کوئی لاٹری نکل آتی ہے تو اس کی دیکھا دیکھی لوگ دھڑا دھڑ پرائز بانڈ خریدنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید ان کی قسمت بھی جاگ اٹھے‘ یوں ہم اپنے اندر کی صلاحیتوں کو پرکھنے اور جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور ایک چھوٹے سے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ صرف اور صرف پاکستان جیسے ممالک میں ہوتا ہے۔ جدید ممالک میں ایسے ایسے شعبوں کی مانگ ہے جن کا نام بھی ہمیں معلوم نہیں یا پھر ہم انہیں متروک سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جو بندہ اگر ڈاکٹر‘ انجینئر یا اینکر نہیں بن سکتا‘وہ بے روزگار ہوتا ہے نہ خودکشی کرتا ہے بلکہ اس کے لئے سینکڑوں راستے کھلے ہوتے ہیں اوروہ جس شعبے میں بھی زیادہ محنت کرتا ہے‘ نہ صرف کامیاب رہتا ہے بلکہ بہتر روزگار اور لائف سٹائل بھی حاصل کر لیتا ہے۔ ہم لوگ ان کے برعکس دھڑا دھڑ ایک ہی طرح کے گریجوایٹس پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں‘ ہر سال لاکھوں گریجوایٹس جب مارکیٹ میں نوکریاں لینے کے لئے نکلتے ہیں تو ان میں یا تو زیادہ تر ڈاکٹر‘ انجینئر اور ایم بی اے ہوتے ہیں یا پھر معمولی نمبروں میں پاس ہونے والے نوجوان جو ہر صورت میں اعلیٰ روزگار حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند سو لوگ تو سسٹم میں آ جاتے ہیں اور باقی ڈگریاں اٹھائے پھرتے ہیں اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے سسٹم کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ وہ ایک شعبے میں اگر ناکام رہتے ہیں تو دوسرے میدان میں محنت کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور ساری عمر ایک سطح سے اوپر نہیں نکل پاتے۔ انتونیو بھی اگر ایسا کرتا تو وہ بھی زندگی میں کامیابی کی بلندیوں کو کبھی چھو نہ پاتا۔ یہاں حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں اور جاب مارکیٹ میں ایک مضبوط تعلق پیداکرنے کے لئے کوئی شعبہ کوئی محکمہ مختص کرے اور اس کی ٹیم کے لئے ایسے افراد چنے جو اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ مہارت اور تجربہ رکھتے ہوں۔ یہ لوگ طلبا کو میٹرک کے مضامین کے انتخاب سے لے کر ماسٹرز تک اور اس کے بعد کی بدلتی جاب مارکیٹ سے پل پل آگاہ رکھیں ‘ حکومت کی یہ ٹیم ایک ویب سائٹ‘ ایک خصوصی سیل قائم کرے جہاں چوبیس گھنٹے فون ‘ ایس ایم ایس یا ای میل کر کے طلبا اور بیروزگار افراد رہنمائی حاصل کر سکیں ۔ یہ ٹیم جاب مارکیٹ کی تمام سرکاری و نجی چھوٹی بڑی کمپنیوں کا ڈیٹا آن لائن کرے اور جن شعبوں میں کھپت درکار ہو اس کے لئے طلبا کو ساتھ ہی ساتھ سیمینارز‘ میڈیا اور ایس ایم ایس کے ذریعے آگاہ کرتی رہے تاکہ طلبا اور بیروزگاروں کی جو فوج ہم تیار کر رہے ہیں وہ سسٹم پر بوجھ بننے اور دربدر کی خاک چھاننے سے بچ جائے‘ اسے بھی کوئی منزل‘ کوئی کنارا مل جائے