خبرنامہ

جرائم کا سرپرست کون، سابق گورنر میاں اظہر کا تجربہ…..اسداللہ غالب

جرائم کا سرپرست کون، سابق گورنر میاں اظہر کا تجربہ…..اسداللہ غالب


قصور کی بے قصورا ور بد نصیب زینب کو لوگ بھول گئے ہیں اور اب ہر کوئی اس کے مبینہ قاتل کی صفائیاں دینے میں مصروف ہے، چیف جسٹس نے عمران علی پرشاہد مسعود کے الزام کا فوری نوٹس لیا اور ٹی وی چینلز کے مالکان اور اینکرز کا ایک اکٹھ کر لیا تاکہ شاہد مسعود کی خبر پر ایکشن کا فیصلہ کیا جا سکے۔ پاکستان کی تاریخ میں میڈیا کا اتنا بڑا جرگہ کبھی نہیں لگا، ڈان لیکس کا مسئلہ فوج کے لئے بڑا نازک اور حساس تھا مگر اس پر کوئی ایسا اکٹھ نہیں ہوا، بس روٹین میں تحقیقات چلتی رہیں اور فیصلے سامنے آتے رہے۔ قصور کے عمران علی کو شاہد مسعود کے الزامات میںبے قصور ثابت کر نے کے لئے اسٹیٹ بنک کے گورنر نے بھی بیان داغا، پنجاب کے وزیر قانون نے بھی اسے اس الزام سے بری قرار دیا اور قصور ہی سے تعلق رکھنے والے پنجاب حکومت کے ترجمان نے بھی یہی فریضہ ادا کیا۔

اس طرح محسوس یہ ہوا کہ قصور کی بارہ معصوم کلیوں کی عصمت دری اور دردناک قتل کی وارداتیں تو پس پردہ دھکیل دی گئیں اور ساری توجہ عمران علی کے اکائونٹس کی تردید پر مرکوز کر دی گئی ہے۔ یعنی ا س درندے کو معصوم ثابت کرنے پر زور بیانی صرف کیا جارہا تھا۔ مگرشاہد مسعود کاا صل الزام یہ تھا کہ اس ملعون درندے کے پیچھے کوئی بااثرشخصیت ہے جسے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کے لئے اسے پولیس مقابلے میں پار بھی کیا جا سکتا ہے۔
میں اپنے آپ کو ملزم کے پس پردہ بااثر شخصیت کو بچانے والے سوال تک محدود رکھنا چاہوں گا۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے میں آپ کو ان دنوں میں واپس لے جائوں گا جب پنجاب میں میاںمحمد اظہر کو گورنر بنایا گیاا ور انہیں لاا ینڈ آرڈر کا چارج بھی دیا گیا۔ یہ فریضہ ماورا ئے ا ٓئین اور قانون تھا مگر حکومت وقت کی منظوری سے ایسا کیا گیا اوراسکے بعد بھی ماورائے آئین اورقانون اقدامات ہوتے رہے یعنی وزیراعظم کوئی تھا اور اس منصب پر حکم چلا نے والا کوئی اور۔ اسی طرح صوبوں میں وزیراعلیٰ کوئی ا ور تھا اور اسکی جگہ حکم چلانے والا کوئی اور ،یہ دستور اب تک چلا آرہا ہے، مجھے نام لینے کی ضرورت نہیں ۔۔بہر حال گورنر میاں اظہر کو یہ ڈیوٹی دی گئی ، ا سکی ایک وجہ یہ تھی کہ صوبے میں لاقانونیت حد سے بڑھ گئی تھی اور آئین کے مطابق جس شخص کو اس چیلنج سے نمٹنا تھا وہ ذات شریف انتہائی شریف واقع ہوئی تھی ، یہ کوئی الزام نہیں۔ایک حقیقت ہے کہ میاں غلام حیدر وائیں ذاتی اعتبار سے نرم خو شخص تھے اور قانون شکنوں سے نمٹنا ان کے لئے ممکن نہ تھا، میاں اظہر نے اپنے فریضے کی ابتدا گوجرانوالہ سے کی جو جرائم میں سر فہرست تھا۔ گوجرانوالہ کے پولیس آفیسر نے دو مطالبے کئے ، ایک یہ کہ گورنر یاکوئی ا ور ان کے ا ٓپریشن میںمداخلت نہیں کرے گا ، دوسرے اگر ان پر کوئی مصیبت آن پڑی تو ساری ذمے داری گورنر بہادر اٹھائیں گے، وہ پولیس آفیسر کو قربانی کا بکرا نہیں بنائیں گے، گونر اظہر نے دونوں شرائط قبول کیں کیونکہ ان میںمعقولیت تھی۔ آپریشن کا آغاز ہوا اور ہر روز ایسے لوگ گرفتار ہونے لگے جو ایم این اے یا ایم پی اے کے کار خاص ہی نہیں بلکہ ان کے گارڈز کے فرائض ادا کر رہے تھے، ان لوگوں کو ارکان اسمبلی کی طرف سے کھلی چھٹی تھی کہ وہ اپنا خرچہ پانی چوری یا ڈ اکے سے پورا کریں ، اگر انہیں پکڑا گیا تو وہ انہیں چھڑوا لیں گے مگر گورنر اظہر کے آپریشن میں ڈاکو دھڑا دھڑ گرفتار ہونے لگے اور انہیں چھڑوانے کی ہمت کسی میں نہ تھی کیونکہ گورنر کو وزیر اعظم کی اشیر باد بھی حاصل تھی ، مگر جب جیلیں بھرنے لگیں تو ارکان ا سمبلی نے ایکا کر لیا اور غلام حیدر وائیں کے پاس پہنچے ا ور انہیں اکسایا کہ ان کا اختیار ایک گورنر غیر آئینی طور پر استعمال کر رہا ہے اور ارکان ا سمبلی کو ناحق بد نام کر رہا ہے، بھولے بادشاہ غلام حیدر وائیں ارکان اسمبلی کے جھانسے میں آ گئے اور وزیر اعظم کے سامنے ڈٹ گئے کہ وہ اپناا ختیار ایک گورنر کو نہیں دے سکتے۔ اس پر گورنر ہائوس میں ایک میٹنگ ہوئی، درمیان میں وزیر اعظم تھے اور دائیں بائیں غلام حیدر وائیں اور میاں محمد اظہر، وائیں صاحب چیخ و پکار کرتے رہے، وزیر اعظم نے خاموشی اختیار کیے رکھی ا ور بالا ٓخر فیصلہ سنایا کہ یہ اختیار گورنر سے و اپس لے لیا جائے اور وزیراعلیٰ کے حوالے کر دیا جائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جتنے دنوں میاں اظہر کاآپریشن جاری رہا ، گوجرانوالہ ڈویژن جرائم سے پاک ہو گیا، ورنہ ایک وقت تھا کہ نارنگ منڈی کے ارد گرد کے دیہات میں سڑکوں کے کنارے چارپائیوں پر کلاشنکوفیں ، گرینیڈز اور مشین گنز فروخت کے لئے اس طرح رکھے ہوتے تھے جیسے شادی بیاہ کے لئے پٹاخے فروخت کیے جاتے ہوں۔ گورنر میاں اظہر کی مہم میں ہر ایم این اے اور ہر ایم پی اے لا قا نونیت کا سر پرست نکلا۔
وہ دن آج کا دن ارکان اسمبلی کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہی ہوتا رہا، انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ یہ صورت حال پورے پاکستان میں ایک جیسی ہے، سندھ اور جنوبی پنجاب کے وڈیرے ہو ں یا بلوچستان کے سردارہوں یا کراچی کے پتھاریدار۔ ان پر کوئی گرفت نہیں کر سکتاا ور وہ کسی بھی ملزم کو پولیس کی حوالات سے بھی نکال لاتے ہیں،۔ چالان کٹنے اور مقدمہ چلنا تو دور کی بات ہے۔
دنیا میں کسی رکن پارلیمنٹ کو یہ اثروسوخ حاصل نہیں ۔ کسی کو بھی قانون شکنی کی اجازت نہیں خواہ وہ کسی بڑے منصب پر ہی کیوںنہ فائز ہو، سرخ بتی تک کااحترام ہر ایک پر واجب ہے، کسی ملزم کو پولیس سے چھڑانے کا تو کوئی تصور تک نہیں کر سکتا، میں ایک بار کوالالم پور میں تھا، میرے ساتھ دیگر ممالک کے بھی صحافی تھے ، ہماری ٹیکسی کا ایک جگہ چالان ہو گیا، ڈرائیور سخت پریشان ہوا کہ اسے اتنا کرایہ نہیں ملے گا جتنے کا اسے چالان بھگتنا پڑے گا، ہم نے کہا کہ ہم صحافی لوگ ہیں پولیس کے پاس چلتے ہیں، آپ کی سفارش کرتے ہیں، ہمارے ممالک میں پولیس ہماری سفارش مان لیتی ہے، ٹیکسی ڈرائیور ایک سکھ بھائی تھا ،ا س نے کہا بھلے مانسو! یہ ملا ئیشیا ہے ، یہاں کسی مجرم کی سفارش کرنے والے کوبھی حوالات میںبند کر دیا جاتا ہے۔یہ سن کر ہمارے ہوش ٹھکانے آ گئے اور ہمارے سر سے سفارش کا بھوت اتر گیا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ قصور میں اس شخص کو تلاش کیا جائے جو پچھلے دو سال میں بارہ معصوم بچیوں کے درندوں کو گرفتاری سے بچاتا رہا ہے، قصور کو ایک مثال بنا دیا جائے اور اس بااثر شخص کو پکڑ کر عمران علی کے ساتھ ہی لٹکا دیا جائے تو پورے ملک کو کان ہو جائیں گے اور مجرموں کی سفارش کرنے والا کوئی نہ ہو گا ،، سزا یا رہائی کا فیصلہ صرف عدالتوں میںہو گا ۔
قصور میں با ثر افراد کتنے ہوں گے چند ارکان قومی ا سمبلی ، چند ارکان صوبائی اسمبلی ا ور کچھ وڈیرے اور جاگیر دار، پولیس نے کوئی بارہ ہزار لوگوں کو پکڑا ْ ان کا ڈی این اے کیا جس پر بی بی سی کے مطابق پندرہ کروڑ صرف ہوئے،اتنی بڑی رقم اور اتنے زیادہ لوگوں کی تفتیش تو ہوئی مگر کسی ایک رکن اسمبلی یا کسی ایک بااثر شخص کو ایک دن کے لئے بھی جے آئی ٹی میں طلب نہیں کیا گیا، جے ا ٓئی ٹی میں طلب کس کو کیا گیا، ڈاکٹر شاہد مسعود کو جس نے مطالبہ کیا کہ بااثر شخصیات کو بھی بے نقاب کیا جائے۔
دیکھا بااثر لوگ کیسے تفتیش سے بچ نکلے، ان کا دھندہ اسی طرح جاری رہے گا۔ اس زینب کو ہم بھولتے جا رہے ہیں ، اس سے پہلے کی گیارہ زینبوں پر تو ہم نے کوئی توجہ ہی نہ دی، ہم نے دو سو لڑکوں سے بد فعلی ا ور ان کی وڈیو فلمیں بنانے والے مافیا پر بھی ہاتھ نہ ڈالا۔ ہماری بے حسی کی وجہ سے باثر شخصیات کی قوت و حشمت ہمیشہ کامیاب رہے گی،ہم کسی زینب کو رونے کے قابل بھی نہ رہیں گے۔
ہم گورنرمیاں اظہر کے تجربے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے اور ارکان اسمبلی کی تفتیش کیوںنہیں کرتے، وہ بے گناہ ہوں گے تو انہیںصادق اور امین کا سرٹی فیکیٹ دیا جائے اور اگر وہ گھنائونے جرائم کے گروہ کے سرپرست نکلے تو انہیں ٹھکانے لگایا جائے۔ معاشرے کا سکون لوٹ ا ٓئے گا ورنہ اسی قصور میں رینجرز آئیں گے اورا سے بھی کراچی کی طرح جرائم سے صاف کر دیں گے ۔ شاید رینجرز کو مردان اور ڈیرہ ا سماعیل خان بھی جانا پڑے جہاں کی پولیس کے قصیدے پڑھتے اور گن گاتے عمران خان نہیں تھکتے۔ قصور کی بے قصور اور بد قسمت زینب کے سانحے کو لوگ بھول گئے ہیں۔