خبرنامہ

دال نہیں تو مرغی…عمار چودھری

وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پندرہ سولہ کروڑ غریبوں کو مفت مشورہ دیا ہے کہ اگر انہیں دال مہنگی لگتی ہے تو مرغی کھا لیا کریں۔ شکر ہے وزیرخزانہ سے کسی نے یہ نہیں پوچھ لیا کہ اگر کوئی مرغی بھی افورڈ نہ کر سکے تو؟ اس پر کوئی بعید نہیں کہ جھنجھلاتا ہوا جواب آتا‘ مرغی نہیں تو زہر کھا لیں‘ میری بلا سے۔
درحقیقت وزیرخزانہ نے یہ بیان بالکل نیک نیتی کے تحت دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پائے کے لوگ آٹے دال کا بھائو جانتے ہیں نہ ہی مہینے کی لگی بھگی تنخواہ پر ان کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ دال سبزیوں کی قیمتیں‘ لوڈشیڈنگ‘ صاف پانی‘ علاج معالجے کے مسائل‘یہ سب غریب عوام کی فکریں ہیں‘ ان سے حکمران طبقے اور اشرافیہ کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اسحاق ڈار سے قبل بھی جتنے وزیرخزانہ آئے‘ سبھی ہر سال بجٹ میں حاتم طائی کی قبر کو لات مارتے رہے۔ مزدور کی تنخواہ میں سالانہ ایک ہزار اضافہ کر کے دادو تحسین کے ڈونگرے وصول کرتے رہے۔ موجودہ وزیرخزانہ تو دس قدم آگے نکل گئے۔ انہوں نے پچاسی سال سے زیادہ عمر کے بزرگوں کی پنشن میں پچیس فیصد اضافہ کر کے انگلیاں دانتوں میں دبانے پر مجبور کر دیا۔ جس ملک میں اوسط عمر پینسٹھ ستر سال ہو‘ وہاں پچاسی سال سے زیادہ کتنے بزرگ پنشنرز حیات ہوں گے اور جتنے بھی ہوں گے‘ ان کی ادویات کے اخراجات کس قدر بڑھ چکے ہوں گے۔ حکمرانوں نے انتہائی قلیل تعداد کو ٹارگٹ کیا اور ظاہر یوں کیا جیسے انہیں بڑے بزرگوں کا بہت زیادہ خیال ہو۔ اسحاق ڈار برسوں سے کروڑ وںعوام کیلئے اربوں کھربوں کے بجٹ بناتے آ رہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی ایسے گھر کا بجٹ نہیں بنا سکتے جس کے سربراہ کی تنخواہ انہوںنے تیرہ سے چودہ ہزار مقرر کی ہے۔ ایسا کرتے وقت کیا انہوں نے ایک چھوٹے سے گھرانے کا بجٹ بنایا ہو گا؟ وہ بنا ہی نہیں سکتے اور نہ ہی بنانا چاہتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے ایسا کیا تو انہیں مزدور کی کم از کم تنخواہ پچیس سے تیس ہزار مقرر کرنا پڑے گی کیونکہ اس سے کم میں گزارا ہو ہی نہیں سکتا۔
حقیقت ہے آج اس ملک میں نوٹ چھوٹے اور آمدنیاں تنگ پڑ چکی ہیں‘ کروڑ پتیوں کو بھی معاش کی فکریں کھائے جا رہی ہیں اور حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کل تک کھاتے پیتے لوگ بھی آج بچوں کے تعلیمی اخراجات تک افورڈ نہیں کر پا رہے۔حکمرانوں کو کبھی وقت ملے تو اپنے ڈرائیورز اور خانساموں سے پانچ منٹ کی گفتگو کریں اور پوچھیں کہ ان کا گزارا کیسے ہوتا ہے۔ لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے۔ وہ پاناما سے نکل گئے تو دوبارہ نئی لوٹ مار میں مصروف ہو جائیں گے۔ عوام کا خیال انہیں پھر بھی نہیں آئے گا۔ یہ درست ہے کہ حکمران عوام کی حالت سنوارنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن اگر حکمران یہ ذمہ داری احسن طریقے سے ادا نہیں کرتے تو کیا عوام اپنی مدد آپ اور اسلامی تعلیمات کے تحت کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جس سے وہ اپنے اور اعزا اور اقربا کے حالات زندگی بہتر کر سکیں؟ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں والدین کی قیمتی ترین متاع ان کی اولاد ہوتی ہے اور اولاد کیلئے ان کی سب سے بڑی خواہش ان کی تعلیم ہوتی ہے اور آپ ذرا اس باپ کے جذبات کا اندازہ لگائیے جس کے بچے آٹھ دس جماعتیں پڑھ جائیں اور پھر ایک روز اسے مہنگائی سے تنگ آ کر انہیں سکول سے اٹھانا پڑ جائے۔ یہ درست ہے اس حالت کو پہنچانے میں ہماری موجودہ اور سابق حکومتیں بڑی حد تک ذمہ دار ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم کب تک حکومتوں اور سیاستدانوں کو کوستے
رہیں گے۔ اگر ذرا سی ہمت‘ عقل اور ہوش مندی سے کام لیا جائے تو بہت سے مسائل ہماری دہلیز پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔آج تعلیم ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم بطور والدین زندگی کی ہر آسائش اور سہولت چھوڑ سکتے ہیں لیکن بچوں کو تعلیم دلائے بغیر نہیں رہ سکتے چنانچہ میں آپ کے سامنے اس مسئلے کے حل کے طور پر ایک اچھوتا ماڈل پیش کرنا چاہوں گا۔ آپ جانتے ہیں ہم کسی نہ کسی محلے‘ کسی نہ کسی سوسائٹی اور کسی نہ کسی ٹائون‘ سیکٹر‘ سکیم‘ فیز یا کالونی میں رہتے ہیں اور تقریباً ہر محلے‘ سوسائٹی اور ٹائون وغیرہ میں ملے جلے لوگ رہتے ہیں‘
آپ کسی ایک محلے کو ہی لے لیجئے‘ اس میں دو چار تاجر رہتے ہوں گے‘ چار چھ افراد سرکاری اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے‘ دو چار گھروں کے سربراہ بیرون ملک ہوں گے اور اسی علاقے میں آٹھ دس درمیانے اور دس بارہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان بھی ہوں گے اور یہی آٹھ دس درمیانے اور دس بارہ نچلے طبقے کے گھرانے ایسے ہوں گے جو ہانڈی میں پانی رکھ کر بچوں کا دل بہلاتے ہوں گے‘ جو منہ توڑ مہنگائی کا براہ راست شکار ہوں گے اور یہی وہ لوگ ہوں گے جو بچوں کو سکولوں سے اٹھا کر دکانوں پر بٹھانے کا سوچ رہے ہوں گے۔یہاں پر ہمیں ایک کام کرنا ہو گا‘ اگر ہم محلے کے چار لوگوں کو لے کر نکلیں‘ یہ لوگ ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹائیں‘ یہ انہیں اپنا مقصد بتائیں اور یہ انہیں کسی ایک بلاک یا سوسائٹی کے لوگوں کی ایک چھوٹی سی انجمن یا کمیٹی بنانے کیلئے راضی کریں۔ اس انجمن میں علاقے کے بااثر‘ پڑھے لکھے‘ بزنس مین‘ سرکاری افسر‘ بزرگ اور مسجد کے امام شامل ہوں۔ یہ لوگ صدر‘ نائب صدر‘ سیکرٹری‘ خزانچی وغیرہ کے عہدے سنبھال لیں‘ یہ ایک منشور بھی بنا لیں اور یہ منشور علاقے کے ہر گھر میں بانٹ دیں‘ اس کے بعد علاقے کے پڑھے لکھے نوجوان آگے آئیں‘ یہ بچوں کے سکول اور تعلیمی اخراجات سے متعلق معلومات اکٹھی کریں‘ اس کے بعد ان لوگوں کی فہرست بنائیں جو بچوں کی تعلیم افورڈ نہیں کر پا رہے‘ یہ ان سے درخواستیں لیں اور انجمن کے سامنے رکھ دیں‘ اس کے بعد انجمن کے مخیر حضرات ایک تعلیمی فنڈ قائم کریں اور ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر ڈونیشن کا اعلان کریں‘ یہ وعدہ کریں کہ ہر سال یہ اپنی زکوٰۃ بھی اسی فنڈ میں داخل کریں گے اور یہ اپنے فالتو اخراجات بھی کم کر کے یہیں جمع کرائیں گے‘ اس تعلیمی فنڈ کو بالکل شفاف رکھا جائے اور بچوں کے سکول کی فیسوں اور دیگر اخراجات کی رسیدوں کو باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے‘کامیاب بچوں کو تقریبات میں انعامات سے نوازا جائے اور اس سارے عمل میں میڈیا کو بھی دعوت دی جائے تاکہ یہ ماڈل ملک کے دیگر علاقوں میں بھی متعارف ہو سکے اور یہی نہیں بلکہ اس میں کبھی کبھار سیاستدانوں کو بھی دعوت دی جائے تاکہ وہ بھی کچھ شرم کھائیں اور جا کر ایوانوں میں اس ماڈل کا تذکرہ کریں۔ یقین کیجئے اگر ہم نے اپنے اپنے علاقے سے بسم اللہ کر لی تو اس کے حیرت انگیز اور شاندار نتائج سامنے آئیں گے‘ یہ ماڈل ملک کے کونے کونے میں پھیل جائے گا اور غریب اور نادار بچوں کے ہاتھ میں بھی قلم اور کمپیوٹرآ جائے گا اور اگر آپ کو اس کاوش کے آغاز میں کسی قسم کی جھجھک محسوس ہو رہی ہے تو میں آپ کے سامنے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں امام زہریؒ اور امام حسن مجتبیٰؒ کا ایک قول رکھ دیتا ہوں کہ ایک انسان کا پڑوس چالیس گھر دائیں‘ چالیس گھر بائیں‘ چالیس گھر سامنے اور چالیس گھر پچھواڑے پر مشتمل ہوتا ہے‘ یہ کل ملا کر ایک سو ساٹھ گھر بنتے ہیں اور اگر اس ماڈل کا نام ”ماڈل ایک سو ساٹھ‘‘ رکھ لیا جائے اور اس پر صدق دل سے عمل کیا جائے تو بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات ہی نہیں‘ ہمسایوں کے دیگر حقوق بھی پورے ہو جائیں گے اور اگر ہم نے یہ سمجھا کہ ایک صبح ہم سوئے اٹھیں گے اور ہماری حالت بدل چکی ہو گی تو ایسا کبھی نہیں ہونے والا۔ حکمران عوام کی غربت اور بے بسی کو ووٹوں میں کیش تو کر سکتے ہیں‘ وہ دال نہیں تو مرغی کھا لو‘ کا مشورہ دے کر ہماری سفید پوشی پر نمک تو چھڑک سکتے ہیں لیکن عوام کی حالت کبھی نہیں بدل سکتے‘ ویسے بھی اللہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنے پر آمادہ نہ ہو۔