خبرنامہ

ضمیر فروش … کالم عمار چوہدری

ضمیر فروش … کالم عمار چوہدری
آج کل حکمران خاندان کے ترجمان بڑی مشکل میں ہیں۔ سیاسی بھی اور غیر سیاسی بھی۔ سیاسی ترجمان تو کم ہی بچے ہیں کہ کرپشن کا کوئی دفاع کیسے کرے اور کب تک؟ لے دے کے طلال چودھری اور دانیال عزیز ہی رہ گئے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ چینل بدل لیتے ہیں یا آواز بند کر دیتے ہیں۔خواجہ آصف اور سعد رفیق ایسوں کو کوئی سیریس نہیں لیتا۔ زبیر عمر کسی وقت فرنٹ لائن پر تھے لیکن انہوں نے جلد ہی اس کی قیمت وصول کر لی۔ وہ گورنر سندھ بن کر اچھے رہ گئے ‘ اب انہیں کم از کم آئے روز ٹاک شوز میں جا کر کرپٹ مافیا کو بچانے کے لئے بوگس دلیلیں تو نہیں دینا پڑتیں۔ غیر سیاسی ترجمان وہ ہیں جو کرپشن کا براہ راست دفاع تو نہیں کرتے لیکن جیسے ہی عمران خان کی کوئی کمزوری سامنے آتی ہے وہ جھٹ سے میدان میں آتے ہیں‘ درفنطنیاں چھوڑتے ہیں اور پھر جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں وہ بھی پس پردہ چلے جاتے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے وہ سمجھتے ہیں شریف خاندان اور پاکستان خدانخواستہ لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں: مثلاً یہ کہ شریف خاندان عرصہ تیس برس سے حکومت اور کاروبار کے سیاہ و سفید کا مالک چلا آ رہا ہے۔ یہ بیک وقت داخلی اور خارجی محاذ پر گہرا اثرونفوذ اور تعلقات رکھتا ہے۔یہ الیکشن سائنس کو بھی سب سے بہتر سمجھتا ہے اور ووٹ اور ضمیر خریدنے میںبھی اس کا کوئی ثانی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے لوگ مگر قارون کو بھول جاتے ہیں جس کے بارے میں ارشاد ہوا”ہم نے اسے مال ودولت کے اتنے خزانے دیئے کہ انھیں اٹھانا ایک طاقتور گروہ کے لئے بھی مشکل تھا۔قارون کے پاس اس قدر سونا چاندی اور قیمتی اموال تھے کہ ان کے صندوقوں کو طاقتور لوگوں کا ایک گروہ بڑی مشکل سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتا تھا‘‘۔یہی قارون پھر اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنس گیااور اس کا نام و نشا ن تک مٹ گیا۔ چلیں قارون کو ایک عرصہ بیت گیا‘ عرب حکمرانوں کو دیکھ لیں۔ صدام حسین‘ معمر قذافی‘ محمدمرسی‘ شاہ ایران‘ زین العابدین …کہاں ہیں یہ سب؟ کیا ان کے بغیر آج عراق‘ لیبیا‘ مصر‘ ایران یا تیونس کا وجود مٹ چکا؟ کیا شریف خاندان کے پاس ان حکمرانوں سے زیادہ دولت ہے؟کیا وہ ان سے زیادہ طاقتور ہیں؟ دولت کا یہ خمار ہی تو ہے جو ان سیاسی وغیر سیاسی ترجمانوں کو مجبور کر رہا ہے کہ اس سارے عمل کو سازش بنا کر اس کی اتنی گرد اڑائی جائے کہ چھ سو کروڑ کے لندن فلیٹ اس گرد میں دب کر رہ جائیں اور عوام جناب وزیراعظم کی اس بات پر یقین کر لیں کہ یہ احتساب نہیں استحصال ہو رہا ہے۔ بعض تو خوشامد کی اس دوڑ میں اتنے جذباتی ہوئے جاتے ہیں کہ میاں صاحب کے گزشتہ تیس برس کے ”کارناموں‘‘ کو گنواتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب آپ کا احتساب ہونا تھا تو پھر آپ نے اس ملک کو ایٹمی پروگرام سے لے کر سی پیک تک اتنا کچھ کیوں دیا ‘ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں اگر انہوں نے چند سو کروڑ کے فلیٹ کے لئے رقم اِدھر اُدھر کر لی تو اس میں اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو ان کا احسان عظیم ہے کہ انہوں نے اپنے تینوں ادوار میں کچھ نہ کچھ عوام کے لئے کیا بھی ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو عوام ان کا کیا بگاڑ لیتے۔ ایسے ہی چند مہربان شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں یہ بتا رہے ہیں کہ اگر آپ کا بھی احتساب ہونا تھا تو آپ نے فلاں فلاں کام کیوں کیا۔ آپ نے پاکستان میںامن کیوں قائم کیا‘ آ پ نے ملک کو سی پیک جیسی نعمت سے کیوں نوازا؟چین‘ ترکی اور روس سے تعلقات کیوں مضبوط کئے‘ کشمیر کاز پر آواز کیوں بلند کی‘ کراچی کی روشنیاں واپس لانے کی کوشش کیوں کی‘ ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں کیوں لائے‘عام صارفین اور انڈسٹری کو بجلی کی فراہمی کیلئے نئے منصوبے کیوں شروع کئے ۔ان کا استدلال ہے کہ انہیں اس بنا پر معاف کر دیا جائے کہ انہوں نے ملک پر کئی احسانات کئے ہیں‘ موٹر وے جیسا عظیم منصوبہ بنایا اور چلایا ہے اور اگر اس موٹر وے میں سے آٹھ ارب الگ کر لئے ہیں تو کیا ہوا‘ عوام اس پر سفر بھی تو کرتے ہیں‘ فائدہ بھی تو اٹھا رہے ہیں‘ سبحان اللہ… کیا دلیل ہے!
یہ سب عمران خان اور نواز شریف کے مقدمہ کو ایک ہی ترازو میں کیوں تولنا چاہتے ہیں ‘ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اگرچہ کہہ رکھا ہے کہ وہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے لیکن ان کا ماضی گواہ ہے کہ کیسے 1997ء میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران مسلم لیگی کارکنوں نے عدالت پر دھاوا بولا تھا اور کس طرح ججوں کو پچھلے دروازوں سے جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ اب کی بار حالات مگر مختلف ہیں۔ آج درجنوں ٹی وی چینلز کی موجودگی میں ایسی حرکت کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔بات ٹی وی چینلز کی ہوتی تب بھی ٹھیک تھا، لیکن یہ موبائل فونز اور سی سی ٹی وی کیمرے تو بھرے بازار میں رسوا کر دیتے ہیں۔ ”ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے‘‘ کی گردان کرنے کا واحد مقصد ایک خاص قسم کی فضا بنانا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاناما کیس کا اصل مدعی آئی سی آئی جے ہے جس نے سب سے پہلے پاناما سکینڈل میں وزیراعظم نواز شریف سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کے حکمرانوں‘سیٹھوں اور اداروں کی کرپشن کھول کر رکھ دی لیکن شریف فیملی اس کیخلاف مقامی عدالت میںبھی جانے کو تیار نہیں۔ چنانچہ اب ”مر جائو یا مار دو‘‘ کی نئی تھیوری پر عمل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف دے دیتی ہے‘ نواز شریف نا اہل ہو جاتے ہیں‘عمران خان کی پیش گوئی کے مطابق اڈیالہ جیل میں ایک مہمان کا اضافہ ہو جاتا ہے اور لندن فلیٹس کی منی ٹریل دینے میں ناکامی پر حکمران خاندان اور ساتھیوں کے خلاف احتساب کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اگر عدالت عمران خان کی منی ٹریل سے مطمئن ہو جاتی ہے‘ ان پر کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوتا اور دس اگست کو عدالت انہیں شک کا فائدہ دے کر بری کر دیتی ہے تو شریف خاندان اور ان کے حواری درباری دونوں کیسوں کے اس موازنے کی بنا پر نہ صرف آسمان سرپہ اٹھا لیں گے بلکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے بھی صاف انکار کر دیں گے کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ عمران خان اور نواز شریف کا کیس ایک جیسا ہے‘ دونوں نے آف شور کمپنی بنائی‘ دونوں نے فلیٹ لئے اور دونوں نے نا مکمل منی ٹریل پیش کی لیکن فیصلہ ہمارے خلاف آیا ہے۔ عام آدمی چونکہ قانون کی باریکیوں کو نہیں سمجھتا لہٰذا جب وہ یہ پراپیگنڈا دیکھے گا تو لامحالہ یہی سمجھے گا کہ حکمران خاندان پر ظلم ہوا ہے اور عمران خان کو رعایت دی گئی ہے۔ یہ ایسی ہی خوف ناک صورت حال ہو گی جیسی کہ جسٹس سجاد علی شاہ کیس کے وقت بن گئی تھی۔کوئی بعید نہیں کہ وہی پیپلزپارٹی جو اس وقت بظاہر نواز شریف کے خلاف تھوڑا بہت سٹینڈ لے رہی ہے‘ اس وقت اداروں کے خلاف محاذ آرائی میں مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے پر اُتر آئے کہ وہ بھی اُدھار کھائے بیٹھی ہے کیونکہ ماضی میں اس کا ایک وزیراعظم عدالت کے ذریعے گھر بھجوایا جا چکا ہے اور اگر ایسا ہوا تو ملک ایک نئی بحرانی کیفیت سے دوچار ہو جائے گا۔
گزشتہ روز عمران خان نے کہا جو صحافی شریف خاندان اور میرے فلیٹس کو ایک جیسا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ضمیر فروش ہیں۔عمران خان ایسے صحافیوں کی فکر چھوڑیں‘ اگر انہوں نے ساٹھ لاکھ روپے کے فلیٹ کی مکمل منی ٹریل دے دی ہے اور عدالت اس سے مطمئن ہو جاتی ہے تو پھر ان کی وہ منزل قریب آ چکی جس کا خواب انہوں نے اکیس برس قبل دیکھا تھا‘ انہیں اللہ کی نصرت ‘ اس کے عدل پر بھروسہ رکھنا چاہیے‘ رہ گئے عوام تو اس کی اکثریت اُن کے ساتھ ہے‘ سوائے بھاڑے کے چند ٹٹوئوں کے!