خبرنامہ

دو نومبر کو کیا ہوگا؟ …عمار چوہدری

عمران خان کا مطالبہ درست لیکن طریق کار غلط ہے۔ اس کی ایک وجہ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت ہے۔ بیس اکتوبر کو سپریم کورٹ وزیراعظم کو ان کے بچوں سمیت نوٹس جاری کر چکی ہے اور سماعت کی تاریخ یکم نومبر مقرر کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ بھی سپریم کورٹ کے اس اقدام پر اعتماد کا اظہار کر چکے۔ وہ چاہتے تھے کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کے حوالے سے لندن فلیٹس کی جو خبریں آئیں‘ ان پر اعلیٰ ترین سطح پر کیس چلنا چاہیے۔ سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے والااعلیٰ ترین فورم ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس کے چیف جسٹس کو پرویز مشرف نے دبانا چاہا تو یہی عمران خان لوگوں کے شانہ بشانہ سڑکوں پر نکلے اور آزادی عدلیہ کے لئے تحریک چلائی۔ آج جب عدلیہ آزاد ہو چکی اور اسی عدلیہ میں پاناما کا مقدمہ بھی پیش ہو چکاتو عمران خان سڑکوں پر اپنی عدالت کیوں لگانا چاہتے ہیں‘ وہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر کیوں لڑنا چاہتے ہیںا ور اس کے لئے انہوں نے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے اور حکومت کو مفلوج کرنے کا اعلان کیوں کیا ہے‘ یہ وہ سوال ہیں‘ دو نومبر سے قبل جن کے جواب جاننا ضروری ہیں۔
عمران خان بارہا کہہ چکے کہ حکومت نے فوج کے علاوہ تمام اداروں کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ فوج کے علاوہ باقی اداروں میں تو انصاف فراہم کرنے والے ادارے بھی آتے ہیں۔ ان کے بارے میں خان صاحب کھل کر نہیں بولتے۔ اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے بھی انہیں انصاف کی امید نہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا اور اگر کیا تھا تو اس پر بھروسہ کرتے۔ عدالت میں کیس لگ چکا ہے۔ یہ اپنا وقت لے گا۔ جس طرح دیگر کیسوں میں ہوتا ہے‘عدالتی فیصلے وقت کی بجائے قانونی ضروریات‘ ثبوت و شواہد کے محتاج ہوتے ہیں۔ ممکن ہے اس میں کئی ہفتے‘کئی ماہ لگ جائیں یا اس سے بھی زیادہ۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے قانونی نظام میں دادے کے زمانے کے کیسوں کا فیصلہ پوتے کی زندگی میں ہوتا ہے۔ عمران خان کو بھی یہی خدشہ سڑکوں پر لایا ہے۔وہ اتنا انتظار مگر کر نہیں سکتے۔ عام انتخابات میں ڈیڑھ برس باقی ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کا فیکٹر بھی ان کے مدنظر ہے۔ ان کے بعد کون آتا ہے‘ کس کا جھکائو کس کی طرف ہوتا ہے‘ یہ تمام باتیں خان صاحب کے لئے پریشان کن ہیں اور اسی لئے وہ عوامی عدالت کے ذریعے جلد از جلد فیصلہ چاہتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ عوامی عدالت سے فیصلہ ان کے حق میں آئے گا‘ نواز شریف کو اس کا فائدہ ہو گا یا تیسری قوت فائدہ اٹھالے گی؟ عوامی عدالت کا فیصلہ عمران خان کے حق میں تبھی آئے گا اگر نواز شریف خان صاحب کے حسب خواہش تلاشی دینے کو تیار ہو جائیں مگر وہ ایسا کیوں کریں گے۔ اگر انہوں نے جرم کیا ہے تب بھی اور نہیں کیا تب بھی وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ چاہیں گے کہ فیصلہ کسی مستند ادارے کی طرف سے آئے۔ دوسری صورت میں وہ شہید ہونے اور مظلوم بننے کو ترجیح دیں گے۔ چنانچہ پہلا امکان تو یہیں ختم ہو جاتا ہے۔دوسرا امکان وزیراعظم نواز شریف کو فائدہ ملنے کا ہے۔ یہ ا س صورت میں ہو گا جب دھرنے والوں کی جانب سے ماضی کی طرح بلنڈر کئے جائیں گے اور اس کی
وجہ تحریک انصاف کا وہ ابہام ہے جو وہ ابھی تک دُور نہیں کر سکی کہ ان کے پُرامن جمہوری احتجاج کی عملی شکل کیا ہو گی؟ گزشتہ روز عمران خان نے شہر کے نو بڑے راستے بند کرنے کا اعلان کیا۔ حکومت اپنے پلان کے مطابق کنٹینر ڈپلومیسی اور پکڑ دھکڑ شروع کرے گی۔ اس سے
تو اسلام آباد گھنٹوں میں جام ہو جائے گا۔ ایسا ہوا تو مریض ہسپتال کیسے پہنچیں گے‘ طالب علم تعلیمی اداروں میں کیسے جائیں گے اور جج عدالت کیسے پہنچیں گے اور اگر یہ سارے اپنی اپنی منزل تک نہ پہنچ پائے تو یہ احتجاج پُرامن کیسے کہلائے گا؟ گزشتہ دنوں لاہور پریس کلب کے سامنے انٹر میڈیٹ کے صرف پچاس ساٹھ نوعمر طلبانے دوپہر تین بجے صرف ایک سڑک بند کر کے احتجاج شروع کیا۔ باقی کام خودبخود ہو گیا۔ صرف دو گھنٹے کے دوران میں چوتھائی شہر جام ہو چکا تھا۔ مال روڈ‘ نہر‘ گڑھی شاہو کی ملحقہ سڑکوں پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں‘ گاڑیوں میں پٹرول ختم ہو گیا اور ایک ایک کلومیٹر کا فاصلہ تین تین گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔ ہمارے ایک
مہربان بھی چار گھنٹے کے لئے پھنس گئے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکے کہ کسی طرح گاڑی سڑک کے کنارے روکی۔ فٹ پاتھ پر بیٹھے‘سر پر پانی ڈال کر سانس بحال کیا اور احتجاجیوں کو صلواتیں سنانے لگے۔ ”پُرامن جمہوری احتجاج‘‘ کیا ہوتا ہے‘ ان سے بہتر کون بتا سکتا ہے چنانچہ اسلام آباد والوں سے بھی ہمیں ہمدردی ہونی چاہیے۔ جن جمہوری ممالک کے احتجاجوں کا ریفرنس دیا جاتا ہے‘ وہاں مگر نظام زندگی معطل نہیں کیا جاتا۔ سڑ ک کے ایک طرف لوگ خاموشی سے کتبے اٹھائے کھڑے رہتے ہیں‘ میڈیا جن کا پیغام دنیا تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک طرف دو نومبر کے احتجاج کو جمہوری اور پُر امن کہا جا رہا ہے ‘دوسری طرف عمران خان جڑواں شہروں کے عوام سے تنگی کی پیشگی معافی بھی مانگ رہے ہیں۔ تیسرا امکان تیسری قوت کی آمد ہے۔ اس میں فریقین کی ناکامی ہے ۔عمران خان ایسا چاہتے ہیں نہ نواز شریف۔ایسا تبھی ہو گا جب خدانخواستہ دھرنے والوں کو کچھ لاشیں حاصل ہوں۔ حکومت کبھی یہ نہیں چاہے گی۔ وہ دھرنے کی تعداد کو کم کرنے کی کوششیں کرے گی تو اس کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو ہو گا‘ بلا وجہ کنٹینر رکھنے اور پکڑ دھکڑ کرنے سے عوام تنگ اور مظاہرین چارج ہوں گے چنانچہ حکومت ایسا کر کے بھی اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارے گی۔
پہلے خیال یہی تھا کہ خان صاحب کو یہ احتجاج اپریل میں پاناما کی خبر آنے کے ایک ہفتے کے اندر اندر شروع کردینا چاہیے تھا۔ خان صاحب البتہ کچھ اور سوچ رہے تھے۔ انہوں نے یہ چھ ماہ یونہی ضائع نہیں کئے ۔شاہ محمود قریشی کو آگے کر کے انہیں ٹی او آرز کمیٹی سے مذاکرات میں لگا دیا اور خود مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔ اس سے انہیں دو فائدے ہوئے‘ یہ داغ بھی دُور ہو گیا کہ پی ٹی آئی نے کسی فورم پر کوئی کوشش نہیں کی اور یہ بھی کہ وہ ہمیشہ سولو فلائٹ کرتی ہے۔ فرض کر لیں عمران خان اسلام آباد بند کر دیتے ہیں‘ میڈیا انہیں بڑی کوریج دیتا ہے لیکن یہ سب کتنے دن جاری رہے گا اور کیا اس کا انجام ماضی کی طرح فیس سیونگ پر ہو گا؟ سابقہ دھرنا بھی اسی طرح شروع ہوا۔ شروع میں پر امن رہا ۔ بعد میں آہستہ آہستہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ تقریروں میں تلخی آتی گئی۔ کچھ لوگ پی ٹی وی میں بھی داخل ہو گئے‘ ان میں بظاہر طاہر القادری کے لوگ نمایاں تھے لیکن بہرحال یہ ان کے اتحادی تھے اس لئے الزام دونوں پر آ گیا۔اب کی بار کیا ہو گا؟ عمران خان زیروپوائنٹ پر کتنے دن بیٹھ سکیں گے‘ آہستہ آہستہ سردی بھی بڑھے گی‘ کیس کی سماعت کی تاریخیں بھی لگتی رہیں گی ‘عوامی تحریک کے سخت جان مظاہرین بھی ان کے ساتھ نہیں اور اگر یہ زیروپوائنٹ سے آگے نہیں بڑھتے تو پھر یہ حکومت پر دبائو کیسے بڑھا سکیں گے‘ کیسے یہ اپنا مقصد حاصل کریں گے؟
عمران خان کا مطالبہ درست ہے ‘لندن فلیٹس کا حساب سامنے آنا چاہیے لیکن اس کا فیصلہ سپریم کورٹ جیسے کسی فورم پر ہو تو اسے قبولیت عامہ حاصل ہوگی۔ دو نومبر کی تحریک واقعی پر امن رہی تو خان صاحب چاہے دو مہینے بیٹھے رہیں‘ کچھ بھی نہیں ہو گا لیکن اگر خان صاحب اپنے اعلان کے مطابق دس لاکھ لوگ نہ لا سکے‘ اگر وہ اپنے مظاہرین کو پُرامن نہ رکھ سکے اور اگر یہ معاملہ تشدد اور خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گیا تو پھر دو نومبرکو جو ہو گا‘ اس کا خمیازہ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی پہلے کی طرح ایک عرصے تک بھگتنا پڑے گا