خبرنامہ

کیوں نہیں ڈرتے؟ …..عمار چودھری

کیوں نہیں ڈرتے؟ …..عمار چودھری
ایک فقیر برگد کے درخت تلے لیٹا تھا کہ بادشاہ کا گزر ہوا‘ فقیر پرنظر پڑی تو وزیرسے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ وزیر بولا ” عالی جاہ! اس کا نام مانوس ہے‘ یہ گائوں کا سب سے غریب شخص ہے مگر اس کی ذہانت کے بڑے چرچے ہیں‘‘ بادشاہ حیرانی سے بولا ” ایک فقیر اور ذہین‘ یہ کیسے ممکن ہے‘‘۔ بادشاہ بگھی سے اترا ‘ مانوس کے قریب آیا اور اس کے سامنے مملکت کا ایک اہم مسئلہ رکھا۔ مانوس نے مسئلہ سنا اور اس کا دانشمندانہ حل بتلا دیا۔ بادشاہ عش عش کر اٹھا اور وہ مانوس سے اتنا مانوس ہو گیا کہ اسے محل کے انتہائی اہم عہدے کی پیشکش کر دی۔ مانوس راضی ہو گیا‘ بادشاہ اب ہر فیصلے سے قبل اس سے مشورہ کرتا‘ مانوس کے مشورے ٹھیک نشانے پر لگتے اور یوں وہ بادشاہ کے قریب اور عوام میں مقبول ہو گیا۔ یہ صورتحال حاسدوں کو راس نہ آئی‘ وہ مانوس کو ہٹانے کا پلان کرنے لگے۔ بادشاہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے ”مانوس کی نظر کرسی اقتدار پر ہے ‘ یہ آپ کو راستے سے ہٹانا چاہتا ہے‘یہ ہر شام ایک کھنڈر میں پہنچتا ہے اور ایک کمرے میں داخل ہو جاتا ہے‘ اس میں یقینا وہی لوگ ہوتے ہیں جن سے مل کر یہ سازش کر رہا ہے۔ عالی جاہ! یقین نہیں آتا تو خود چل کر دیکھ لیجئے‘‘ اگلی شام بادشاہ بھی وزیروں کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا‘ بادشاہ بولا ”میں بادشاہ ہوں‘ دروازہ کھولو‘‘ دروازہ کھلا اور بادشاہ اندر داخل ہو گیا۔ اندر مانوس کے سوا کوئی نہ تھا‘ صرف تین چیزیں تھیں‘ پھٹا پرانا سوٹ‘ ایک لاٹھی اور لکڑی کی ایک پلیٹ‘ بادشاہ غصے میں بولا ” تم میرے خلاف سازش کر رہے ہو؟ ‘‘ مانوس معاملہ سمجھ گیا‘ بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا ” سازش‘ کیسی سازش‘ میں بھلا سازش کیوں کروں گا؟ایک سال قبل جب میں آپ کے محل پہنچا تو میرے پاس یہ لاٹھی‘ یہ پلیٹ اور یہ سوٹ تھا‘ آپ نے مجھے عزت بخشی ‘ احترام دیا‘ اعتماد کیا‘ اعلیٰ پوشاک‘ پرکشش عہدہ اور شاندار مقام دیا لیکن عالی جناب! یہ سب حاصل کرنے کے بعد بھی میں ایک بات نہیں بھولا‘ میں روزانہ یہاں آتا رہا‘ میں ہر روز فقیری کے اس ماحول میں کچھ پل گزارتا‘ پیوند لگے ان کپڑوں‘ ٹوٹی ہوئی لاٹھی اور لکڑی کی اس پلیٹ پر نگاہ ڈالتا‘ انگلیوں کے لمس سے ان کی قدر اور تسکین محسوس کرتا اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ واپس چلا جاتا اور یہ میں اس لئے کرتا کہ اپنی اوقات اور اپنی پہچان نہ بھول جائوں‘ غرور مجھ پر حاوی نہ ہوجائے‘ تکبر مجھے اندھا نہ کر دے‘ نشہ اقتدار مجھے پاگل نہ بنا دے اور خود کو انسان ہی سمجھوں ‘ خدا نہ سمجھنے لگوں‘‘۔
تاریخ ایسے مسلمان حکمرانوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اقتدار کو ہوس کی آماج گاہ بنایا‘ نہ ذاتی فوائد اٹھانے کے لئے استعمال کیا بلکہ ہر لحظہ ان کی یہی کوشش رہی‘ وہ خود کو عوام کا سچا خادم ثابت کریں اور عوام کی فلاح اور ریاست کی خوش حالی کے لئے کام کریں۔ خلیفہ ہارون الرشید کا دور بھی ایسا ہی شاندار دور تھا جب رعایا خوشحال اور سلطنت ترقی کی طرف گامزن تھی اورسڑکوں پر کوئی بھوکا‘ کوئی سائل ڈھونڈنے سے نہ ملتا تھا۔ ہارون الرشید کے پاس اقتدار بھی تھا‘ مال بھی اور جاہ و جلال بھی لیکن اس کے باوجود اس نے خود کو ہر قسم کے لالچ اور تکبر سے دور رکھا۔ آج حکمران تو دور کی بات کوئی چھوٹا موٹا کونسلر بھی بن جائے تو اس کے سر پر سینگ نکل آتے ہیں‘ گردن میں سریا پھنس جاتا ہے اور وہ عام آدمی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دس مرتبہ سوچتا ہے یہ میرا ووٹر ہے یا نہیں۔ آج کے ”جمہوری‘‘ حکمران آمر وں کو گالیاں دیتے ہیں لیکن عوام کو جمہوریت کا فائدہ نہیں پہنچنے دیتے۔ یہ درست ہے کہ ہارون کا تئیس سالہ دور جمہوری نہیں بلکہ شخصی حکمرانی کا دور تھاا ور شخصی حکومت میں بڑے عیب ہوتے ہیں۔ مگر شخصی حکمران ہارون جیسا وسیع الظرف‘ عالم‘ مجتہد اور عوام کا خیرخواہ ہو تو شخصی حکومت جمہوریت سے بازی لے جاتی ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ایوب‘ یحییٰ‘ ضیاء یا پرویز مشرف میں سے کوئی بھی ہارون الرشید کے راستے
پر چلتا تو عوام اسے سرآنکھوں پر بٹھا لیتے۔ لیکن کسی آمر اور کسی جمہوری حکمران کو تاریخ میں جھانکنے اور ان درخشندہ ستاروں سے روشنی حاصل کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ آج نواز شریف جیسے ”جمہوری‘‘ حکمران اپنی ناکامیوں کا سارا دوش آمر حکمرانوں کے سر ڈالتے ہیں جبکہ پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر عوامی حکمرانی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ نواز شریف یا پرویز مشرف شاید یہ نہیں جانتے کہ ماضی کے حکمرانوں کی کامیابیوں کی بنیادی وجہ علم دوستی‘ غریب پروری اور انصاف پسندی تھی۔ ہارون الرشید کے زمانے میں جگہ جگہ محتاج خانے کھلے ہوئے تھے‘ جہاں مفلوک الحال اور معذور افراد مستقل طور پر رہائش رکھتے۔ آج ہمارے سپیشل افراد کے محکمے معذور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اور ایسی ویڈیوز ٹی وی پر آنے کے بعد بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ہارون کے دور میں ہر شہر میں بیوائوں اور یتیموں کی الگ الگ تربیت گاہیں تھیں جن کے سارے اخراجات حکومت کے ذمہ تھے۔ آج بیوائیں اور یتیم سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور دو کلو آٹے کے لئے قطار میں کیڑے مکوڑوں کی طرح پیروں تلے کچلے جاتے ہیں۔ ہارون کے ذاتی محتسب ملک کے ہر ضلع‘ ہر تحصیل اور ہر حصہ میں پھیلے ہوئے تھے اور اگر کبھی کسی غریب کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی تو اس کی آواز ہارون کے کانوں تک پہنچے بغیر نہ رہتی۔ آج الیکٹرانک میڈیا بھی ہے‘ سوشل میڈیا بھی اور پرنٹ اخبارات بھی۔ ہر طرح کی خبر لمحوں میں پوری دنیا تک پھیل جاتی ہے لیکن حکمران لا علم ہی رہتے ہیں۔ آج عوام چیخ چیخ کر اپنا دُکھ حکمرانوں کو سناتے ہیں‘ میڈیا اور اخبارات کے ذریعے نوٹس لینے کی التجا کرتے ہیں اور جب تک خود پر تیل چھڑک کر آگ نہیں لگا لیتے‘ کوئی حکمران‘ کوئی منصف ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ دوسری جانب خلیفہ ہارون الرشید تھا جو اس وقت تک کھانا نہ کھاتا تھا جب تک محل کے آس پاس رہنے اور جمع ہونے والوں کو کھانا نہ مل جاتا۔ آج کے حکمرانوں کا اپنا پیٹ ہی نہیں بھرتا تو عوام کی فکر کیسے کریں گے۔ نواز شریف صاحب جب بطور وزیراعظم مری حتیٰ کہ امریکہ بھی جاتے تھے تو خانساموں کی فوج ظفر موج سرکاری خرچ پر ان کے ہمراہ جاتی تاکہ سری پائے‘ ہریسہ اور نہاری کا ناغہ نہ ہو سکے۔ ایک دورتھا کہ جب کسی شہری کو غیر اسلامی ٹیکس نہیں دینا پڑتا تھا اور جب ہر قسم کی سبزیاں‘ پھل‘ غلہ اور ملکی کپڑا ٹیکس سے آزاد تھا۔آج اورنج لائن ٹرین بنانے کے لئے حکمران نہ صرف جبری ٹیکس لگا رہے ہیں بلکہ قبرستانوں اور عوامی سکیموں پر لگنے والا بجٹ بھی اورنج ٹرین پر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ جمہوری زمانہ شاید یہ سن کر شرمائے کہ اس شخصی حکمران کے زمانہ میں پوری مملکت اسلامیہ میں کوئی چنگی اور کوئی محصول نہ تھا اور اس زمانہ میں بغداد نے ریکارڈ ترقی کی۔ وہ مفاد پرست ‘ خوشامدی اور لالچی ٹولے کی بجائے علمائ‘ شعرا‘ ادیبوں اور دانشوروں کو اپنے قریب رکھتا تھا جو اُسے اقتدار کی حقیقت سے آگاہ رکھتے اور ہر قدم پر رہنمائی کرتے۔آج کے حکمرانوں کے پاس کیا ہے؟طلال چودھری‘ سعد رفیق اور دانیال عزیز؟جو بولیں تو لوگ چینل بدل لیں یا آواز بند کر دیں۔
کہا جاتا ہے کہ بیس تیس برس قبل اسحاق ڈار موٹر سائیکل پر تھے اور چند ہی برسوں میں ان کی دولت میں نوے فیصد اور رعونت میں نو ہزار فیصد اضافہ ہو گیا۔ یہی حال نواز شریف صاحب کا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل وہ عام کاروباری شخصیت تھے لیکن اقتدار میں آ کر وہ خود کو ہر شے کا مالک و مختار سمجھنے لگے اور یہی ان کی نا اہلی کی وجہ بنی جبکہ زرداری صاحب کے متعلق کہا جاتا ہے وہ سینما کی ٹکٹیں فروخت کرتے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر فقیر اور بادشاہ سبھی نے دو ضرب چھ فٹ کے گڑھے میں دفن ہونا ہے تو پھر یہ تکبر‘ غرور اور لالچ کی جگہ تونگری‘ فقیری اور درویشی کیوں نہیں اپناتے؟ یہ قارون‘ فرعون اور ہامان کے انجام سے کیوں نہیں ڈرتے؟