خبرنامہ

ہماری خارجہ پالیسی کا رُخ؛ عمار چوہدری (کل اور آج)

گزشتہ برس کے چند بڑے واقعات نے دنیا کا منظر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ان میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کا امریکہ کا صدمنتخب ہونا سب سے بڑی خبر تھی جس نے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کے دعوے غلط کر دئیے۔اسی طرح بریگزٹ کے ذریعے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی بھی مغرب کے ساتھ ساتھ دیگر خطوں پر بھی اثرانداز ہو گی۔چین جس طرح بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے پوری دنیا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے چل نکلا ہے‘ اس سے دنیا میں چین ایک ایسی ابھرتی ہوئی طاقت بن رہا ہے جو امریکہ‘ روس اور مغربی ممالک کے لئے معاشی میدان میں زبردست مشکلات پیدا کرے گا۔ چین پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ سن دو ہزار پچاس تک دنیا بھر کی معیشت کو سرنگوں کر چکا ہو گا جس کے بعد امریکی اور مغربی ممالک کی بڑی بڑی فیکٹریاں تالے لگانے پر مجبور ہو جائیں گی اور یہ تالے بھی میڈ اِن چائنہ ہوں گے۔ چنانچہ طاقت کے یہ تبدیل ہوتے محور اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان بھی خطے میں اپنی مضبوطی کے لئے اہم کردار ادا کرے اور اس سلسلے میں اپنی خارجہ پالیسی کو اس قدر توانا کرے کہ جس سے وہ بیرونی دنیا کے ساتھ مل کر چلنے اور درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے۔
اگر ہم پہلے افغانستان کی بات کریں جس کے ساتھ ہماری طویل ترین سرحد ہے‘ تو ماضی کے برعکس یہ قدرے پرسکون دکھائی دیتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک افغان تعلقات میں جتنی زیادہ بہتری آئے گی‘ دونوں ممالک میں امن و امان کی فضا اتنی زیادہ خوشگوار رہے گی۔بھارت اور امریکہ کا بڑھتا ہوا تعاون خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ امریکہ بھارت اور افغانستان کے نئے ٹرائیکا کا مقصد ہی پاکستان کو دبائو میں رکھنا ہے۔ مقام شکر ہے کہ گزشتہ دو برس سے جاری ضرب عضب آپریشن نے کراچی کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔کراچی سے اگرچہ دارالحکومت اسلام آباد شفٹ ہو چکا لیکن معاشی دارالحکومت ابھی تک کراچی کو ہی شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کراچی میں امن قائم کرنے کا مطلب ملک کی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرنا ہے۔چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ کو بھی کھٹک رہی ہے۔پاکستان کا بھی اسی میں فائدہ ہے۔ چین نہ صرف ہمارا ہمسایہ ہے بلکہ دنیا کی سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بھی بن چکا ہے۔پاک چین تعاون صرف معاشی میدان میں ہی نظر نہیں آ رہا بلکہ عسکری میدان میں بھی پاک چین منصوبے ہماری دفاعی طاقت کو بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان چین کے تعاون سے جے ایف تھنڈر جنگی طیارے یہیں تیار کر رہا ہے بلکہ دنیا کو برآمد بھی کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو گزشتہ دنوں جے ایف تھنڈر کا پہلا برآمدی آرڈر بھی مل چکا ہے۔چین سے آگے چلیں تو روس اور وسط ایشیائی ریاستیں بے پناہ وسائل کا ذخیرہ نظر آتی ہیں۔ بیشتر وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ہمارے گیس پائپ لائن کے منصوبے زیرتکمیل ہیں۔ صرف اومان کی بات کی جائے تو اومان دنیا سے جتنا چاول درآمد کر رہا ہے اس کا اسی فیصد پاکستان سے جاتا ہے۔یورپی یونین کی جانب سے جب سے پاکستان کو
جی ایس پی پلس سٹیٹس کا درجہ ملا ہے‘ ٹیکسٹائل جیسے شعبوں میں برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔شام میں اس وقت جو شورش جاری ہے اور ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں‘ اس میں پاکستان کو اپنا سفارتی کردار ادا کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں روس نے شام پر بمباری کرنے والے اپنے پہلے فضائی بیڑے کو واپس بلانے کا احکامات جاری کر دئیے ہیں۔شامی عوام کئی اطراف سے جنگ کا سامنا کر رہے ہیں اور ہجرت پر مجبور ہیں۔ حلب میں جاری ظلم کے مناظر دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔ خطے کے تمام ممالک کو اس مسئلے کا مل بیٹھ کر حل نکالنا ہو گا۔ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات پہلے ہی کافی بہتر ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بیشتر ترقیاتی شعبوں میں کام جاری ہے ۔ ترکی اس وقت اسی طرح دہشت گردی کی زد میں ہے جس طرح کبھی پاکستان تھا۔ گزشتہ سال کی آخری رات بھی ترکی دہشت گردوں کے حملے کی زد میں رہا اور حملہ آوروں نے ایک کلب میں پچاس سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پاکستان نے جس طرح اپنے ہاں دہشت گردی کو کنٹرول کیا ہے‘ ترکی بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔داعش کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے سب کو ایک ہونا ہو گا۔
جہاں تک پاک امریکہ تعلقات کی بات ہے تو اس میں بھی کئی اتار چڑھائوآتے رہے۔اس کی وجہ گزشتہ برسوں میں پیش آنے والے چند واقعات تھے جن کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ٹھوس بنیادوں پر استوار نہ ہو سکے۔ان میں سلالہ‘ ایبٹ آباد اور ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات تھے۔ گزشتہ دور حکومت میں جس طرح امریکی امداد میں خرد برد کی گئی‘ ا س سے بھی پاک امریکہ تعلقات خرابی کی طرف گئے۔ موجودہ دور میں جس طرح امن و امان کے قیام پر خصوصی توجہ دی گئی امریکہ کو اسے سراہنا چاہیے تھا۔ ڈرون حملے بھی اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ ضرب عضب آپریشن نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کراچی میں بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ برائے نام ہو چکی۔ یہ سب اگر دنیا کو دکھائی دے رہا ہے تو امریکہ کو بھی نظر آنا چاہیے۔ بھارت جان بوجھ کر پاک امریکہ تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔اسی طرح امریکہ بھی خطے میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بھارت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اس علاقے کو عدم توازن کا شکار کر رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو بھارت امریکہ کی مدد سے پاکستان پر جب چاہے چڑھ دوڑتا۔ پاکستان بھارت کے ساتھ امن کا خواہشمند نظر آتا ہے لیکن بھارت کا رویہ مختلف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں برہان وان کو شہید کر کے اس نے خود کشمیر میں جاری تحاریک کو مہمیز دی ہے۔کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو
وہ دہشت گردی کا نام دے کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی بلوچستان کی طرف انگلیاں اٹھاتا ہے۔ خود اس کا حال یہ ہے کہ تنہا بھارت میں ڈیڑھ سو کے قریب آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔کبھی وہ افغان صدر کے ساتھ مل کر پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں حصہ ڈالتا ہے تو کبھی براہ راست دہشت گرد داخل کر کے کارروائیاں کرتا ہے۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کا جس انداز میں ذکر کیا‘ اس سے بھارت کو خاصی تکلیف محسوس ہوئی جس کے بعد اس نے کنٹرول لائن پر بھی مسلسل خلاف ورزی شروع کر دی جس سے ہمارے لوگ شہید ہوئے اور املاک کو نقصان پہنچا۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کو لگام ڈالنے کے لئے خطے میں خود کو مضبوط تر کرے اور دنیا کو بھارت کے مکروہ چہرے سے آگاہ کرے۔ چین، روس اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر کرے۔ وسط ایشیائی ریاستوں پر خصوصی توجہ دے کیونکہ سی پیک کی تکمیل کے بعدیورپ تک رسائی انہی ممالک کے راستوں سے ہونی ہے۔اس طرح پاکستان میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی بھی ہماری معیشت پر بوجھ ہے۔ان کی واپسی کے لئے میکانزم بننا چاہیے اور افغانستان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی واپسی کا مکمل پلان ترتیب دینا چاہیے۔ان چند اقدامات سے پاکستان کی خارجہ پالیسی مزید نکھر کر سامنے آئے گی جس سے بیرونی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوں گے جو خطے میں پاکستان کے دیر پا معاشی استحکام کے لئے سود مند ثابت ہوں گے۔