خبرنامہ

یہ تو ہمیں مارنے پر تُلے ہیں… عمار چودھری

یہ تو ہمیں مارنے پر تُلے ہیں… عمار چودھری

نئی دہلی کی حکومت سموگ سے بچنے کے لیے وفاق سے ہیلی کاپٹر اور طیارے مانگ رہی ہے تاکہ شہر پر پانی کا چھڑکاؤ کر کے شہریوں کی اذیت کم کی جا سکے جبکہ ہمارے حکمران مفاد پرستی کی سیاست‘ لوٹ کا مال اور اقتدار کا محل بچانے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوٹس لینے کے ماہر ہیں ‘ان کے صوبائی دارالحکومت کے ڈیڑھ کروڑ شہری سموگ کے باعث ایک ہفتے سے سانس اور پھیپھڑے کی بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن وہ آرام سے لندن میں تشریف فرما ہیں اور انہوں نے ویڈیو لنک پر بھی نوٹس لینے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ شاید ان کے نزدیک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح مسلم لیگ ن کی سیاست اور اپنے بڑے بھائی کو بچایا جا ئے یا پھر یہ کہ کسی طرح خود کو یا حمزہ شہباز کو مسلم لیگ نون میں مریم نواز کے مقابلے میں زیادہ قابل ثابت کیا جائے۔ عوام کے پھیپھڑے تباہ ہوتے رہیں‘ وہ دم گھٹنے سے مرتے رہیں یا پھر ماڈل ٹائون سانحے کی طرح پولیس ان کا قتل عام کرتی پھرے‘ ان باتوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔
ویسے یہ حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ سموگ آ کہاں سے رہی ہے کہ اس کی بنیاد انہوں نے دو سال قبل خود اپنے ہاتھوں سے ہی رکھی تھی۔جب لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ بن رہا تھا اور عدالت کی جانب سے صوبائی حکومت سے کہا جا رہا تھا کہ اس منصوبے سے ماحول کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں‘ آپ ہمیں اس کا کوئی فول پروف پلان بنا کر دیں تو حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ یہ جواب ہمیں آج سموگ دے رہی ہے۔ ستائیس کلومیٹر طویل ٹریک کے اردگرد کی آبادی دو سال سے روزانہ سموگ نگل رہی ہے۔ لوگ اونے پونے داموں اپنے گھر بیچ کر یہاں سے منتقل ہو چکے ہیں۔ اردگرد کی سڑکیں اور آبادیاں دوزخ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ کیا بچے اور کیا بوڑھے‘ سبھی دمے کا شکار ہو چکے ہیں اور اب جبکہ یہ آلودگی سموگ کا رُوپ دھار کر پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے تو سارے شہر کی چیخیں نکل رہی ہیں سوائے اُن کے جن کے محلات لندن اور دبئی میں ہیں یا پھر جن کے پیٹ ایسے ترقیاتی پراجیکٹس سے ملنے والے کمشنوں نے بھرنے ہیں۔ میڈیا کو بھی داد دینی چاہیے کہ وہ ریٹنگ کے اصولوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ شاید ہم میڈیا والے بھی حکمرانوں کی طرح اس انتظار میں ہیں کہ جب تک اس مسئلے سے خدانخواستہ سینکڑوں یا ہزاروں ہلاکتیں نہیں ہو جاتیں‘ تب تک ہمارا قلم حرکت میں آئے گا نہ کیمرہ۔اگر کسی پروگرام میں ذکر ہو بھی رہا ہے تو سرسری طور پر۔ یہی کچھ امریکہ یا برطانیہ میں ہوتا تو وہاں کی بریکنگ نیوز بن جاتا۔ ہم شاید بنگلہ دیش کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جس کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہر سال سموگ کی وجہ سے پندرہ ہزار لوگوں کی اموات ہوتی ہیں۔ لاہور کے شہریوں پر بھی آفرین ہے‘ یہ اور ان کی نسلیں جن کے ہاتھوں بربادہو رہے ہیں یہ انہیں دوبارہ ووٹ دے کر اقتدار میں لے آتے ہیں۔ اگلی بار بھی اگر پنجاب سے ن لیگ زیادہ نشستیں لے جاتی ہے تو پھر ایسے عوام سموگ جیسے عذابوں کے ہی مستحق ہیں کیونکہ یہ خود انہیں دعوت دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس ماحول میں جو بچہ آنکھ کھول رہا ہے اسے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ لاحق رہے گا کیونکہ جیسے ہی چار دن کا بچہ ہسپتال سے باہرآئے گا وہ زہریلی گیسیں نگلے گا اور بار بار بیمار ہونے پر اسے مصنوعی مشینوں سے سانس دلایا جائے گا جس کا وہ عادی ہو جائے گا۔ کبھی لندن اور ٹورنٹو بھی سموگ کا گڑھ ہوتے تھے لیکن انہوں نے جب سے ٹھوس اقدامات کئے ہیں وہاں یہ قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے وہ بھی دیکھ لیجئے۔گزشتہ برس پہلی مرتبہ یہاں سموگ آئی تو سب کے کان کھڑے ہو جانے چاہئیں تھے۔ لیکن یہاں تو کسی کے نزدیک پاناما اور شریف خاندان کے علاوہ ملک میںکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔سبھی عارضی اقدامات کے عادی ہیں۔ اب بھی مضافات میں چند چھوٹے کارخانوں اور فیکٹریوں پر چھاپے مار کر رسمی کارروائی پوری کر دی گئی ہے۔بارش ہو گئی تو یہ چھوٹے موٹے چھاپے بھی نہیں مارنے پڑیں گے اور مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن کچھ دیر بعد یہ مزید شدت سے سر اٹھائے گا۔ ابھی تو سموگ صرف لاہور میں ایک سال کے وقفے سے آ رہی ہے لیکن اگر اورنج ٹرین جیسے پراجیکٹس بنتے اور درخت کٹتے رہے تو یہ سلسلہ جلد ہی گوجرانوالہ اور فیصل آباد ڈویژن تک پہنچ جائے گا۔ یہ سارا علاقہ زہریلی گیسیں چھوڑنے والے کارخانوں اور فیکٹریوں سے بھرا پڑا ہے۔ ماحولیات والے چند ٹکوں کے عوض انہیں ماحول تباہ کرنے کا سرٹیفکیٹ نہ دیتے تو آج ہماری سانسیں نہ اکھڑتیں۔
ہماری بدقسمتی ہے حکومت میں کوئی ایک بھی بندہ آصف فاروقی جیسا نہیں ہے ۔ اگر کوئی ہوتا تو ہماری قسمت بدل چکی ہوتی۔آصف فاروقی بنیادی طور پر ماحولیات کے انجینئر ہیں‘ یہ 1981ء میں امریکہ میں تھے‘ وہاں اعلیٰ تعلیم کیلئے گئے‘نیویارک کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے تحت انوائرمینٹل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی‘ یہ وہ وقت تھا جب توانائی کے مسائل نے پوری طرح سر نہ اٹھایا تھا‘ اس وقت تیل کی قیمتیں اور تیل کی طلب بھی زیادہ نہ تھی اور فیکٹریوں او ر کارخانوں کی تعداد بھی کم تھی اور اس وقت گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں بھی فضا میں اوزون کی تہہ کو اتنا نقصان نہیں پہنچا رہا تھا ‘ اس کے باوجود آصف فاروقی ماحولیات کی طرف آ گئے‘ کیوں؟ کیونکہ ان کی آنکھ میں وہ عدسہ لگا تھا جس سے انسان مستقبل میں جھانک سکتا ہے اور یہ صلاحیت اور یہ خوبی اللہ بہت کم انسانوں کو عطا کرتا ہے۔ انہیں علم تھا‘ دریا سوکھ رہے ہیں‘ موسم بدل رہے ہیں‘ گلیشیرپگھل رہے ہیں‘ لائف سٹائل تبدیل ہو رہا ہے‘ دنیا فاسٹ فوڈ کی شکل اختیار کر رہی ہے اور چیزوں کو خریدنے اور پھر بے کار کر کے پھینک دینے سے بڑی مقدار میں کوڑا کرکٹ پیدا ہو رہا ہے اور اس کوڑے کرکٹ کو مناسب طور پر ری سائیکل نہ کرنے سے فضائی آلودگی میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ آصف فاروقی ایک صاف ستھرا پاکستان دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنا یہ خواب لانچ کر دیا‘ یہ آگے بڑھے‘ بیس بائیس لوگوں کی ایک ٹیم بنائی‘ چھ گدھا گاڑیاں اور چند سو شاپنگ بیگ خریدے اور لاہور کینٹ سے آغاز کر دیا‘ یہ گدھا گاڑیاں صبح سویرے کینٹ کے مختلف محلوں اور گلیوں میں پھیل جاتیں‘ گھروں کی بیل بجاتیں اور گھر والے انہیں شاپر میں گھر کا کوڑا کرکٹ ڈال کر دے دیتے‘ یہ گدھا گاڑیاں واپس چل پڑتیں اور دوپہر تک کوڑا لیکر فیروزپور روڈ پر واقع ایک پلاٹ پر آ جاتیں‘ یہ کوڑا ایک جگہ الٹ دیا جاتا‘ اس کے بعد نیا مرحلہ شروع ہوتا‘ کوڑے کو ایک الیکٹرانک بیلٹ پر ڈال دیا جاتا اور اس کے گرد درجنوں ملازم بیٹھ جاتے‘ یہ اپنے سامنے سے گزرنے والی اشیاء کو علیحدہ علیحدہ کرتے جاتے‘ کھانے پینے کی اشیا الگ اور شیشہ پلاسٹک شاپر وغیرہ کو الگ کیا جاتا‘ اس کے بعد کھانے کی اشیا کو ایک پلانٹ سے گزار کر طاقتور گرین فورس کھاد میں تبدیل کر دیا جاتا اور یہ کھاد ڈبوں میں پیک کر کے فروخت کیلئے بازار روانہ کر دی جاتی جہاں سے زمیندار اور کسان انہیں خرید کر اپنے کھیتوں میں استعمال کرلیتے‘ جبکہ کاغذوں‘ ڈبوں اور گتوں وغیرہ کو پیکیجز فیکٹری کو بھیج دیا جاتا جہاں ری سائیکل کر کے اس سے کاغذ اور پیکنگ کا سامان بنا لیا جاتا‘ اسی طرح شاپنگ بیگز کو ایک پلانٹ کے ذریعے فیول میں تبدیل کر لیا جاتا اور اس فیول سے گیس بنا لی جاتی اور اس گیس سے پلانٹ کے بوائلر اور فرنس جلا لئے جاتے یوں یہ پلانٹ گیس میں بھی خودکفیل ہو گیا‘ یہ سب عالمی معیار کے مطابق کیا جا رہا ہے‘ آج آصف فاروقی کی کمپنی لاہور سمیت آٹھ شہروں میں اپنا نیٹ ورک قائم کر چکی ہے‘ اس کے پاس دو سو چھوٹے بڑے ٹرک ہیں اور تین ہزار لوگ اس کمپنی کے باقاعدہ ملازم ہیں اور یہ سب کے سب ماحول کو بہتر بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ویسے داد دینی چاہیے عمران خان کو جنہوں نے بلین درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا۔ آج اس کی اہمیت سمجھ آرہی ہے۔ پنجاب اور وفاق میں جس بے دردی سے درخت کاٹے جا رہے ہیں‘ سرسبز کھیتوں کی جگہ ہائوسنگ سکیمیں اُگائی جا رہی ہیںاور ترقیاتی پروجیکٹس کے نام پر ماحول کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیںشاید خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہو گا جو سموگ سے بچ جائے گا اور قابل رہائش ہو گا۔ خدا حکمرانوں کو ہدایت دے اور جلد بارش برسا دے کہ یہ تو ہمیں مارنے پر تُلے ہیں۔