خبرنامہ

بندر کو انسانی سر لگانے کا تجربہ

بندر کو انسانی سر لگانے کا تجربہ
لاہور (ملت آن لائن) ممتاز متنازع سائنسدان سرجیو کینا ویرو نے اپنی ٹیم کے ساتھ پہلا انسانی دماغ ٹرانسپلانٹ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ 18گھنٹے جاری رہنے والا یہ تجربہ چین کی معروف میڈیکل یونیورسٹی ہربین میڈیکل یونیورسٹی میں ڈاکٹر یائو پینگ رین کی مدد سے کیا گیا۔ سائنسدانوں نے چوہوں کے علاوہ کتوں پر بھی اس قسم کے تجربات کئے جب ایک کتے کا سر دوسرے کتے کے دھڑ کو لگا کر اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ تجربہ بھی کامیاب رہا۔ 15جون 2017ء کو سائنسدانوں نے کتوں پر تجربات کی روشنی میں اعلان کیا کہ اگلے مرحلے میں زخمی کھوپڑیوں والوں کی زندگیاں بچانا آسان ہو جائے گا۔
سائنسدان 2015ء سے چوہوں پر انسانی کھوپڑیوں کی ٹرانسپلانٹیشن پر تحقیق کر رہے تھے۔ ایک چوہے کا سر دوسرے چوہے کو لگا نے میں بھی انہیں جزوی کامیابی ملی تھی۔کچھ عرصے بعد چوہا مر گیا تھا۔ ان تجربات میں گزشتہ دوسالوں میں کافی پیش رفت ہوئی ہے، 2015 ء میں سی این این نے اظہار حیرت کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ۔۔ انسانی سروں کی ٹرانسپلانٹیشں کے تجربات کامیابی سے ہمکنار ہوں گے یا نہیں؟۔ مگر پچھلے ہی برس scalp کی ٹرانسپلانٹیشن کا تجربہ امریکہ میں کامیاب ہو گیا تھا جبکہ 22 مئی 2015ء کو ہیوسٹن میں اینڈرسن کینسر سنٹر کے سربراہ نے سرطان کا علاج کرتے ہوئے جم بوائے سن کا آدھا سر تبدیل کر دیا تھا۔ یہ آپریشن 15گھنٹے جاری رہا۔ اس ٹرانسپلانٹیشن کو مدافعتی نظام نے بھی قبول کر لیا تھا۔
اٹلی کے سرجن سرجیو کیناویرو اس حوالے سے کافی متناز ع شہرت کے حامل ہیں اور ا س قسم کی سرجری میں پیش رفت کے پہلے بھی کئی مرتبہ دعوے کرچکے ہیں۔متنازع اس لئے نہیں کہ وہ جھوٹے دعوے کرتے ہیں بلکہ اس لئے ہیں کہ انہیں یورپ اور امریکہ میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ،وہ مغربی مذہبی فلسفے سے ٹکرا رہے ہیں اور مغربی دنیا میں انہیںاس قسم کے تجربات کرنے کی اجازت نہیں ہے، ان پر سماجی دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں انسانی سر کی ٹرانسپلانٹیشن کے تجربات کو وہ اہمیت حاصل نہیں جو دنیا کے کسی کمیونسٹ ملک میں ہو سکتی ہے۔ درجنوں قوانین ان تجربات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اسی لیے وہ چین منتقل ہو گئے ہیں ،اب چین ان تجربات کامرکز بن چکاہے۔
چین کی مایہ ناز ہربل یونیورسٹی میں 15چوہوں کی ریڑھ کی ہڈی نکالنے، اسے محفوظ اور تبدیل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔ ان میں سے 9 چوہے زندہ بچ گئے۔ بہت زیادہ خون رسنے سے خود چوہوں کی حالت ’’پتلی‘‘ ہو گئی لیکن پھر بھی وہ 30دن تک زندہ رہے۔ ایک تواس سے بھی زیادہ عرصہ تک زندہ رہا۔ سائنسدانو ں نے د و چوہوں کو بالکل نارمل قرار دیا۔ چین میںٹوٹی ہوئی یا نکالی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کے لیے پولی تھائی نین نامی کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ چوہوں کی ہڈیوں پر یہی کیمیکل آزمایا گیا۔ اس طرح چوہوں پر ریڑھ کی ہڈی کی ٹرانسپلانٹیشن کا کامیاب تجربہ دو سال قبل ہی ہو چکا تھا۔
ریڑھ کی ہڈیاں انتہائی پیچیدہ اور نازک ہیں، ذرا سے خم یا چوٹ کی صورت میں بیماریوں پر قابو پانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر انسانی ریڑھ کی ہڈی چوہے جیسی نہیں یہ تو’’ شیر‘‘ جیسی ہے۔ یہ چوہوں سے کہیںزیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔ انسانی جسم کا مدافعتی نظام سائنسدانوں کے تجربات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اب تک ایسا کوئی تجربہ نہیں ہو سکا جس میں مدافعتی نظام کو جسمانی نظام کے ساتھ جوڑنے میں کامیابی ملی ۔ جیسا کہ نظام ہاضمہ ، نظام تنفس یا خون کی گردش۔اصل پیچیدگی دوسرے ٹرانسپلانٹ شدہ جسم کو پہلے جسم کے لیے قابل قبول بنانا ہے۔ مگر یہ سائنسدان بہت پر امید ہیں۔ ان کے دعوئوں کو کئی سائنسدان متنازع بھی سمجھتے ہیں۔
دو مختلف اجسام کے سر اور دھڑ ملاپ پر ان کے مدافعتی نظام کے ٹکرائو کا نتیجہ موت کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا جواب کینا ویرو نے اپنے ہی انداز سے دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی ایک سر کو دوسرے کے دھڑ کو لگائیں گے تو مجھے امید ہے کہ دونوں کے مدافعتی نظام ہم آہنگ ہوں گے ۔ کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ کام ابتدائی نوعیت کا ہے۔ اس تحقیق کے لئے ایک صدی درکار ہے، تب کہیں جا کر سائنسدان کامیاب ہوں گے۔