خبرنامہ

شام میں جنگ بندی کے باوجود باغیوں کے زیر قبضہ قصبے پر بمباری ، 2افراد ہلاک،20 زخمی

دمشق/واشنگٹن (ملت + آئی این پی) شام میں جنگ بندی کے باوجود دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع باغیوں کے زیر قبضہ ایک قصبے پر فضائی بمباری کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک ہوگئے ،روس نے اس حملے سے قریبا 24 گھنٹے قبل ہی لڑائی روکنے کا اعلان کیا تھا،دوسری جانب امریکا نے اپنے سینکڑوں میرینز کو شام میں تعینات کر دیا ۔غیرملکی میڈیا کے مطابق شام میں جنگ بندی کے باوجود دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع باغیوں کے زیر قبضہ ایک قصبے پر فضائی بمباری کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک ہوگئے ۔برطانیہ میں قائم شامی رصد گاہ برائے انسانی حقوق کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ الدوما پر فضائی حملوں میں ایک نوجوان مرد اور ایک عورت ہلاک ہوگئی ہے۔شامی فوج نے مشرقی الغوطہ میں واقع ایک اور قصبے اربعین پر بھی فضائی حملے کیے ہیں اور الحرستا پر توپ خانے سے گولہ باری کی ہے جس سے 20سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔رامی عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ منگل کو اعلان کردہ جنگ بندی کے بعد یہ پہلے فضائی حملے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک لڑاکا طیارے نے قصبے پر بمباری کی ہے اور اس حملے کے بعد باہر موجود مکین اپنے گھروں کی جانب بھاگ دوڑے تھے۔ایک شہری نے انٹرنیٹ کے ذریعے الدوما پر شدید گولہ باری کی اطلاع دی ہے اور کہا ہے کہ قصبے میں صورت حال بہت ہی ابتر ہے۔روسی وزارت دفاع نے مشرقی الغوطہ میں دو ہفتے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور اس کو خاموشی کا رجیم قرار دیا تھا۔شامی دارالحکومت کے نزدیک واقع یہی علاقہ اب شامی باغیوں کے زیر قبضہ رہ گیا ہے اور یہ ان کا مضبوط گڑھ ہے۔شامی باغیوں کے ایک بڑے دھڑے جیش الاسلام کے ترجمان حمزہ بیرقدار نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ انھیں اس جنگ بندی کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے لیکن خونریزی اور شہریوں کو درپیش مصائب ومشکلات کے خاتمے کے لیے وہ ایسے کسی سمجھوتے کو مسترد نہیں کریں گے۔جیش الاسلام کے سینیر رہ نما محمد علوش نے مشرقی الغوطہ پر حملوں کے بعد بشارالاسد کے اتحادی روس پر کڑی تنقید کی ہے۔انھوں نے کہا کہ روس کی جانب سے مشرقی الغوطہ میں جنگی کارروائیاں روکنے کا اعلان سیاسی ہے کیونکہ فوجی لحاظ سے اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔انھوں نے کہا کہ روس خود کو ایک غیرجانبدار ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے ،وہ خود کو شامی تنازعے کے سیاسی حل کے علمبردار کے طور پر پیش کررہا ہے لیکن برسرزمین معاملہ بالکل مختلف ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگ بندی کا اعلان تاخیر سے کیا گیا ہے،یہ پانچ مارچ کو کیا جانا تھا لیکن شامی رجیم نے اس کی پاسداری کا وعدہ نہیں کیا۔اب اس اعلان کے باوجود بھی شامی حکومت کی جانب سے جنگی کارروائیاں روکنے سے متعلق کوئی بیان یا سمجھوتا سامنے نہیں آیا ہے۔شامی صدر بشار الاسد کی وفادار فوج نے 2012 سے مشرقی الغوطہ کا محاصرہ کررکھا ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران میں اس نے اس علاقے میں واقع قصبوں پر متعدد فضائی حملے کیے ہیں۔اس کے علاوہ شامی فورسز نے باغیوں کے ساتھ مصالحتی سمجھوتوں کے بعد بعض دیہات کا کنٹرول واپس لے لیا ہے۔روس اور ترکی نے دسمبر میں شامی فورسز اور حزب اختلاف کے جنگجوں کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود شام کے مختلف علاقوں میں اسدی فوج اور اس کے مخالف شامی باغیوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ملک میں مارچ 2011 سے جاری تنازعے میں اب تک تین لاکھ دس ہزار سے زیادہ افراد مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں۔ان میں چالیس لاکھ سے زیادہ پڑوسی ممالک میں مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔دوسری جانب امریکا نے اپنے سینکڑوں میرینز کو خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں تعینات کر دیا ہے۔ امریکی حکام نے ملکی فوجیوں کی اس تعیناتی کو شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جاری آپریشن کا حصہ قرار دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ فوجی داعش کے خود ساختہ دارالحکومت الرقہ میں جاری آپریشن میں حصہ لیں گے اور ان کی تعیناتی عارضی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام اس امر کی طرف اشارہ بھی ہے کہ وائٹ ہاؤ س پینٹاگون کے لیے اپنے فیصلے کرنے میں زیادہ آزادی کا حامی ہے۔