خبرنامہ

شیشہ پینا سگریٹ سے کہیں زیادہ مہلک

شیشہ بار میں پھیلی مختلف خوشبوئیں، بار کا ماحول اور رنگین و جدید طرز کے حقوں سے لطف اندوز ہوتے نوجوان، بظاہر تو یہ سارا منظر بہت پُرکشش لگتا ہے لیکن طبی ریسرچ کے مطابق حقہ نوشی سگریٹ پینے سے کہیں زیاہ مہلک ہے۔

نوجوانوں میں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ شیشہ نوشی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں۔ انہیں شیشہ باروں میں بیٹھ کر ذائقے دار تمباکو پینا گلیمر سے بھرپور نظر آتا ہے۔ بلکہ آج کل تو نوجوان لڑکے لڑکیاں شیشہ نوشی کو سگریٹ نوشی کا متبادل سمجھتے ہوئے اسے بے ضرر بھی گردانتے ہیں۔

جرمنی میں ایک ہیلتھ انشورنس ادارے کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسویں کلاس کا ہر دوسرا طالب علم حقہ نوشی کر چکا ہے۔ یہ معلومات سات ہزار طالب علموں سے کیے گئے سوالات کے نتائج پر مرتب کی گئی ہے جس کے مطابق شیشہ پینے والے طلبا و طالبات اِن سات ہزار کا پندرہ فیصد بنتے ہیں۔

شیشہ کیفے یا شیشہ باریں مش رومز کی طرح پھلتی پھولتی جا رہی ہیں اور نوجوانوں کی وقت گزاری کا بہترین ذریعہ بن چکی ہیں لیکن ڈاکٹروں کے مطابق یہ نہ صرف راہ فرار اختیار کرنا ہے بلکہ صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ بھی۔

یونیورسٹی ہاسپٹل ڈووسلڈورف کے ڈاکٹر سوین ڈرائر کا کہنا ہے کہ شیشہ نوشی انسانی صحت کے لیےکم و بیش اُتنی ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ اسموکنگ کرنا۔ اگر آپ روزانہ ایک حقہ پیتے ہیں تو یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دس سگریٹ پینے کے برابر ہے۔

ڈاکٹر سوین ڈرائر کہتے ہیں کہ حقہ نوشی سے کاربن مونو آکسائڈ کا زہر پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سوین ڈرائر کے بقول، ’’ایسے کم سنجیدہ نوعیت کے مریضوں کو متلی، الٹی اور سر چکرانے کی شکایت ہو سکتی ہے اور بعض اوقات تو نوبت بے ہوشی تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

ایسے مریض جن کی شیشہ بار میں تفریح کا اختتام مذکورہ بالا شکایات پر ہوتا ہے وہ ڈاکٹر سوین ڈرائر جیسے ہی کسی طبیب کے پاس لائے جاتے ہیں۔ اس طرح کے زہر کا علاج صرف صاف آکسیجن ہوتی ہے۔ زیادہ سنجیدہ نوعیت کا علاج پریشر چیمبرز میں کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مختلف پھلوں کے ذائقوں اور دل موہ لینے والی خوشبوؤں سے بھر پور شیشے کا مزا وقتی لیکن اس سے ہونے والے نقصانات بڑے اور طویل المیعاد ہوتے ہیں۔