خبرنامہ

موصل میں کرد جنگجوں کا داعش کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز

بغداد(ملت + آئی این پی)عراق کے شہر موصل میں کرد جنگجوں نے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو مشرقی اور شمالی حصے سے نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر دیا ، اتحادی فورسز نے خبردار کیا ہے کہ داعش موصل میں اپنے دفاع میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرسکتی ہے ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق عراق کے شہر موصل میں کرد جنگجوں نے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر دیا ہے ۔ اس آپریشن کا مقصد دولت اسلامیہ کے آخری مضبوط گڑھ میں شدت پسندوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔کرد جنگجوں کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق اس آپریشن کا مقصد دولت اسلامیہ کے قبضے سے قریبی دیہات کو خالی کروانے کے علاوہ ان علاقوں پر قبضہ مزید مستحکم کرنا ہے۔موصل کو دولت اسلامیہ سے آزاد کرانے کے لیے عراقی فوج کی جنوب کی جانب سے پیش قدمی جاری ہے اور اب خصوصی افواج بھی اس میں شامل ہو گئی ہیں۔اس سے قبل امریکی فوجی حکام کا کہنا تھا کہ انھیں ایسے اشارے ملے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عراقی فوج کے موصل کے محاصرے کے ساتھ ہی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے کئی رہنما شہر چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔جنرل گیری ولسکی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراقی سکیورٹی فورسز کی پیش قدمی جاری ہے۔’موصل شہر کو دولت اسلامیہ سے آزاد کرانے کے لیے عراقی فوجوں نے جنوب کی جانب سے جبکہ کردوں کے اتحاد نے مشرق کی جانب نے چڑھائی کر رکھی ہے۔جنرل ولسکی نے وہاں کے حالات سے متعلق اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ‘ہم نے موصل سے نقل و حرکت دیکھی ہے، ہمیں ایسے اشارے ملے ہیں کہ ان کے رہنما شہر چھوڑ چکے ہیں۔لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ موصل سے دولت اسلامیہ کے کون سے رہنما فرار ہوئے ہیں یا پھر فرار ہوکر کہاں گئے ہیں؟دولت اسلامیہ کے رہنما ابو بکر البغدادی کے ٹھکانے سے متعلق کچھ معلومات نہیں ہیں تاہم بعض اطلاعات کے مطابق وہ موصل میں ہیں جبکہ بعض کے مطابق وہ عراق کے اس شمالی شہر کو چھوڑ چکے ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اب بھی موصل میں دولت اسلامیہ کے تقریبا پانچ ہزار جنگجو موجود ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نقل و حرکت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو محاذ جنگ کی جانب کوچ کر رہے ہوں۔ ان کے مطابق دولت اسلامیہ کے سخت گیر جنگجو شہر میں رہ کر لڑنے کو ترجیح دیں گے۔جنرل ولسکی، جودولت اسلامیہ کے خلاف امریکی قیادت میں ہونے والے زمینی آپریشن کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں موصل میں لڑنے والے زیادہ تر جنگجوں کا تعلق دیگر ممالک سے ہوگا جو وہاں رکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی جنگجوں کی ایک بڑی تعداد کے رکنے کا امکان ہے کیونکہ مقامی جنگجں کے مقابلے میں وہاں سے ان کا نکلنا آسان نہیں ہوگا، تو ہمیں وہاں پر ان سے لڑائی کی توقع ہے۔’امدادی ادارے ‘سیو دی چلڈرین’ کا کہنا ہے کہ متنازع علاقے سے گذشتہ دس روز سے اب تک تقریبا 5000 ہزار لوگ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں جنھوں نے شام کی سرحد پر واقع کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ تقریبا ایسے 10000 لوگ سرحد پر انتظار کر رہے ہیں۔الہول نامی اس کیمپ میں تقریبا 7500 لوگوں کے ہی رہنے کی جگہ ہے لیکن اس وقت اس میں تقریبا 9000 لوگ موجود ہیں۔تنظیم کے مطابق یہاں کئی طرح کی سہولیات کی کمی ہے تاہم کیمپ کو وسیع کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔دوسری جانب عراق کے شمالی شہر موصل میں داعش کے خلاف نبرد آزما اتحادی فورسز نے کہا ہے کہ وہ اس جنگجو گروپ کی جانب سے اپنے دفاع میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی توقع کررہے ہیں۔اتحادی فوج کے ایک عہدے دار نے برطانوی خبررساں ادارے کو بتایا ہے کہ امریکی فورسز نے داعش کی جانب سے چلائے گئے گولہ بارود کے خول کیمیائی ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے لیے اکٹھے کیے ہیں کیونکہ یہ گروپ ماضی میں مسٹرڈ گیس کا استعمال کرچکا ہے۔امریکی عہدے داروں نے قبل ازیں ایک بیان میں کہا تھا کہ داعش کی جانب سے 5 اکتوبر کو چلائے گئے ہتھیاروں میں سلفر مسٹرڈ کے موجود ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔درایں اثنا عراقی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل طالب شغاتی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ موصل شہر کے اندر چھے ہزار کے لگ بھگ داعش کے جنگجو موجود ہیں۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ ان میں کتنے غیر ملکی ہیں۔