خبرنامہ بلوچستان

بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری تک مردم شماری قبول نہیں، اختر مینگل

کو ئٹہ(آئی این پی)بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری، افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور نقل مکانی کرنے والے مقامی افراد کی دوبارہ آبادکاری تک مردم شماری قبول نہیں۔ موجودہ حالات میں مردم شماری بلوچ عوام کو اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ اس اقدام کے خلاف اسمبلیوں میں آواز اٹھانے ،عوام سے رجوع ، سیاسی جماعتوں کو متحرک کرنے اور بائیکاٹ سمیت تمام آپشنز پرغور کررہے ہیں۔ اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کے بعد وفاقی حکومت نے خدشات دور کرنے کیلئے اسٹیئرنگ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن آج تک کمیٹی بنی اور نہ کوئی اجلاس ہوا ۔ سردار اختر مینگل نے ان خیالات کا اظہار کوئٹہ میں اپنی رہائشگاہ پر بی این پی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کے ہمراہ پارٹی کے مرکزی عہدیداران سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، ملک عبدالولی کاکڑ، آغا حسن بلوچ، موسیٰ جان بلوچ ، احمد نواز بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ بی این پی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سابقہ اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ دس جنوری کو بی این پی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد ساحل و وسائل پر دسترس اور اختیار سمیت گوادر پورٹ ، سی پیک اور جغرافیائی تبدیلیوں سے متعلق بلوچستان کے عوام کے خدشات سے حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور عوام کو آگاہ کرنا تھا۔ اگرچہ آل پارٹیز کانفرنس میں بعض سیاسی جماعتوں نے اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ سے متعلق بھی اپنی آواز اٹھائی تاہم روٹ بی این پی کی ترجیح نہیں دی تھی لیکن اپنی بات پہنچانے کیلئے دوسروں کی بات بھی سننا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جغرافیائی تبدیلی کے اثرات اور بلوچ قوم کے اقلیت میں تبدیل ہونے سے متعلق قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ ہماری کل جماعتی کانفرنس کے بعد حکومت نے بھی تمام جماعتوں کو بلایا اور کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ اس کانفرنس میں حکومت نے ہمارے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا تاہم آج تک اس کمیٹی کے خدوخال کے بارے میں بتایا گیا اور نہ ہی اس کے ممبران کا اعلان کیا گیا۔ کمیٹی کو کوئی اجلاس بھی آج تک نہیں بلایا گیا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت نے ہماری کانفرنس کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کا ڈرامہ رچا کر ہماری آواز، تجاویز اور خدشات کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر بی این پی ملک کے تمام شہروں میں پریس کانفرنس کرکے میڈیا کے ذریعے عوام تک اپنی بات پہنچائے گی اور آل پارٹیز کانفرنس میں شریک جماعتوں سے بھی دوبارہ رابطہ کرکے متحرک کیا جائے گا۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں ہمیں مردم شماری کے انعقا د پر بھی خدشات ہیں کیونکہ صوبے کے بلوچ اکثریت علاقوں میں جنگی صورتحال ہیں جہاں مردم شماری کی نسبت آسان انتخابی عمل بھی انتہائی مشکل حالات میں انجام پذیر ہوا۔ نہ صرف پولنگ عملے نے فرائض کی انجام دہی سے انکار کیا بلکہ ووٹرز نے بھی سیکورٹی خدشات کی وجہ سے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرنے سے اجتناب کیا۔ حالانکہ انتخابی عمل کے دوران حکومت نے سیکورٹی کی فراہمی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انتخابی عمل مردم شماری کی نسبت محددو ہوتا ہے اور اس میں چند پولنگ اسٹیشنوں کو سیکورٹی دینا ہوتی ہے اور عوام خود پولنگ اسٹیشنوں تک آتی ہے ۔ انتخابی عمل صرف ایک دن ہوتا ہے جبکہ مردم شماری کا عمل نسبتاً طویل ہے اور اس میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں اور عملے کو گھر گھر ، گاؤں گاؤں اور شہر شہر جانا پڑتا ہے ایسی صورتحال میں ان کی سیکورٹی نہ صرف انتہائی مشکل ہے بلکہ عملے کی جانب سے بھی اس عمل کا حصہ بننا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ علاقوں میں 2013ء کے عام انتخابات کے دوران سیکورٹی کی صورتحال کسی کو یاد نہیں تو حال ہی میں بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 50پر ضمنی انتخاب کو دیکھا جائے جہاں 70میں سے صرف7پولنگ اسٹیشن پر پولنگ ہوئی ۔ اس بارے میں بھی اعتراضات الیکشن ٹربیونل میں اٹھائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف دور دراز علاقوں بلکہ صوبے کے دار الخلافہ میں بھی حالات سازگار نہیں۔ یہاں پولیو ٹیمیں محفوظ ہیں اور نہ ہی سیکورٹی فورسز ۔ آئے روز پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس صورتحال پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے اور انہیں آگاہ کریں گے کہ وہ بلوچستان کی مشکلات اور یہاں کے عوام کی مجبوریوں سے آگاہ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے سبب بہت سے لوگ اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کی اپنے علاقوں کو دوبارہ واپسی، غیر ملکی مہاجرین کی وطن واپسی تک مردم شماری بے معنی ہوگی۔ بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری 46ارب ڈالر کا منصوبہ ہے جس کا محور گوادر ہے ۔اگر گوادر کو نکال دیا جائے تو یہ منصوبہ کچھ بھی نہیں لیکن آج بھی گواد رکی عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ وہاں پانی کا ایک ٹینکر بارہ سے پندرہ ہزارر روپے میں ملتا ہے۔ دوسری جانب نوشکی، چاغی ، دالبندین اور خاران کے علاقوں میں قحط اورخشک سالی ہے جس کے باعث لوگ اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ لوگ اور مال مویشی مررہے ہیں لیکن مرکزی اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کی اس طرف کوئی توجہ ہے۔ان کی ساری توجہ ٹرین سروس ،سڑکوں کے افتتاح اور ذاتی مفادات کے حصول پر مرکوز ہے۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ہمارے لئے قابل قدر ہیں ان کی جانب سے مردم شماری سے متعلق بلوچ عوام کے تحفظات کو رد کرنا درست اقدام نہیں۔ وہ ہماری مجبوریوں اور مشکلات کو سمجھیں جیسا کہ ہم نے رضا ربانی اور دیگر جماعتوں کا مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان جل رہا ہے۔ ان حالات میں مردم شماری نہیں ،’’گور شماری ‘‘ہوسکتی ہے کیونکہ ایسے حالات میں صرف قبرستان ہی گنے جاسکتے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ موجودہ حالات میں مردم شماری کرانے پر زور دینے والی جماعتیں بلوچ عوام کی مجبوریوں کا احساس کریں ۔ بلوچ پشتون صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ ایک ہمسائیہ کو دوسرے ہمسائیے کی مشکلات کا خیال رکھنا چاہیے۔ سربراہ بی این پی نے کہا کہ اگر تمام غیر ملکیوں کو بھی اس ملک کا حصہ بنایا جارہا ہے تو پھر سرحدوں کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان کی سرحد سے باہر آنے والا ہر کوئی غیر ملکی ہے اس میں چاہیے بلوچ ہو، پشتون، ہزارہ یا تاجک۔ مہاجر چاہیے جس بھی قومیت کا ہو ان کی اپنے وطن با عزت واپسی چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مردم شماری کے بائیکاٹ کا کوئی شوق نہیں ، صرف لوگوں کو حقیقی تصویر دکھانا چاہتے ہیں۔ اختر مینگل نے کہا کہ ان حالات میں بھی مردم شماری کی گئی تو یہ بلوچ عوام کو اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انیس سو اناسی میں افغانستان سے آنیو الوں کو پہلے بھگوڑا کہا گیا۔ پھر انہیں مجاہدین کا نام دیا گیا اور اب بھگوڑے کہنے والے انہیں اپنا بھائی کہتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی موجودگی کا سب سے بڑا نقصان پشتون آباد ی کو ہی ہورہا ہے ۔ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد تین لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ اتنی تعداد میں مہاجرین صرف کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو ہزار گیارہ میں خانہ شماری کا انیس سو اٹھانوے کی خانہ شماری سے موازانہ کیا جائے تو افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں آبادی میں چار سو فیصد اضافہ ہوا ہے جو فطری پر ناممکن عمل ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آسمان سے نہیں اترے ۔ اس سے ہمارا مؤقف درست ثابت ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہوئی ہے اور ان کے پاس دستاویزات بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس حوالے سے اعداد و شمار اور نادرا دستاویزات بھی موجود ہیں جو ضرورت پڑنے پر پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری سے متعلق احتجاج، اسمبلیوں میں آواز بلند کرنے ، عدالتوں سے رجوع کرنے اور دیگر جماعتوں کی مدد لینے سمیت تمام آپشن موجود ہیں ۔ بائیکاٹ کے آپشن پر بھی ہم جماعتی سطح پر غور کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جب افغان کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ان کی مقامی پشتون آبادی نہیں بلکہ افغانستان سے آنے والے پشتون، بلوچ ، ہزارہ اور دیگر اقوام کے افغان باشندے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کے حق میں بیانات دینے والی یہاں کی پشتون قوم پرست جماعتوں کو خیبر پشتونخوا کے وزیراعلیٰ کے بیان سے سیکھنا چاہیے ۔ انہیں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کے نقصانات کا اندازہ ہے تو انہیں کیوں نہیں۔