خبرنامہ بلوچستان

چمن: پاک افغان باب دوستی چھٹے روز بھی بند رہا

کوئٹہ (آئی این پی ) بلوچستان کے سرحدی شہر چمن پاک افغان باب دوستی چھٹے روز بھی بند رہا ،باب دوستی کی بندش کے باعث اس سرحدی علاقے سے سفر کرنے والے لوگوں اور تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔تفصیلات کے مطابق پاک افغان سرحدی شہر چمن سے متصل پاک افغان باب دوستی 18اگست کو افغانی شہریوں کی جانب سے بارڈرپر پتھراؤ کے باعث دونوں ممالک کے درمیان معاملہ شدت اختیارکرگیا ہے باب دوستی کی بندش کے باعث اس سرحدی علاقے سے سفر کرنے والے لوگوں اور تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سرحدی شہر چمن سے متصل باب دوستی کو 18 اگست کو پاکستانی حکام نے بند کیا تھا۔چمن سے ایک تاجر اور سماجی کارکن شیر زمان اچکزئی نے بتایاکہ پہلے صرف گاڑیوں کی آمد روفت بند تھی لیکن اب پیدل آمدورفت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے باعث دونوں اطراف سفر کی خواہشمند لوگوں بالخصوص خواتین، بچوں، عمر رسیدہ افراد اور مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انھوں نے بتایا کہ باب دوستی کی بندش کے باعث زیرو پوائنٹ پر اجرت کی بنیاد پر محنت مزدوری کرنے والے لوگوں کو کام نہ ملنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستانی حکام نے باب دوستی کو بند کرنے کا ذمہ دار افغان سیکورٹی حکام کو ٹھہرایا ہے چمن میں انجمن تاجران کے صدر محمد صادق کے مطابق باب دوستی بند ہونے کی وجہ سے تاجروں اور عام لوگوں کے علاوہ سرحد پر پھنسی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو بھی شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ان کا کہنا تھا اس سلسلے میں دونوں ممالک کے سرحدی حکام کے درمیان مذاکرات تاحال کامیاب نہیں ہوسکے۔پاکستان کے سرحدی سکیورٹی سے متعلق ذرائع نے باب دوستی کو بند کرنے کا ذمہ دار افغان سیکورٹی حکام کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ 18 اگست انڈین وزیر اعظم کے خلاف احتجاج کے دوران افغانستان کے سیکورٹی حکام نے افغان سرحدی علاقے سپین بولدک کے لوگوں کو کسی جواز کے بغیر اشتعال دلایا تھا۔ذرائع کے بقول اس پر وہاں کے لوگوں نے نہ صرف پاکستان کی جانب پھترا کیا بلکہ قابل اعتراض جملوں کے اظہار کے علاوہ پاکستانی پرچم بھی نذر آتش کیا۔اگرچہ پاکستانی حکام نے باب دوستی کو بند کرنے کا ذمہ دار افغان سیکورٹی حکام کو ٹھہرایا لیکن رابطے میں مشکلات کی وجہ سے اس سلسلے افغان حکام کا موقف معلوم نہیں کیا جاسکا تاہم سماجی رابطے کی میڈیا پر وہ پاکستانی حکام کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔