خبرنامہ بلوچستان

کوئٹہ میں ماس ٹرین منصوبہ

کوئٹہ 🙁 اے پی پی )انسانی زندگی کی ابتدا کے ساتھ انسانی نقل و حمل کا بھی آغاز ہوا، رفتہ رفتہ ذرایع نقل و حمل وجود میں آئے۔ جوں جوں دنیا ترقی کرتی گئی اسی طرح ذرایع نقل و حمل میں بھی ترقی ہوتی چلی گئی۔ انسان نے مال برداری کے لیے جہاں جانوروں سے کام لیا، وہاں دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد جدید ذرایع نقل و حمل متعارف ہوئے۔ جن میں سے ریل گاڑی کی ایجاد سب سے بہترین اور سستا ذریعۂ نقل و حمل ہے۔ برصغیر میں انگریزوں نے 1886 میں ریلوے کی ابتدا کی۔1947 میں تقسیم ہند کے وقت برصغیر میں انگریزوں نے ریلوے لائن بہت حد تک بچھائی تھی۔ تقسیم کی بنیاد پر ریلوے کا کچھ نظام اور انفرا اسٹریکچر پاکستان کے حصے میں آیا، جو اب تک زیر استعمال ہے۔ پاکستان میں ریلوے کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں قایم کیا گیا، جو آج بھی فعال ہے اور ملک میں ریلوے نظام کو چلانے کا سرچشمہ ہے۔ کوئٹہ میں عوام کو سفر کی بہتر سہو لت فراہم کر نے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے ماس ٹرین چلا نے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کچلا ک سے اسپیزنڈ تک چلائی جا ئے گی۔ جس سے روزانہ ہزاروں لوگ مستفید ہوں گے۔ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ریلوے کوئٹہ محمد حبیب گل کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے ماس ٹرین کے حوالے سے میٹنگ ہو ئی اور انہیں ماس ٹرین کے حوالے سے مکمل طو ر پر بریفنگ دی گئی۔ جس پر وزیراعلی نے خوشی کا اظہار کیا اور اس کی منظور ی دے دی ہے اور امید ظاہر کی کہ ماس ٹرین سے کوئٹہ کے زیادہ سے زیادہ شہر ی مستفید ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اگر کچلاک سے ژوب تک براڈ گیج لائن چاہتی ہے تو اس کے لیے وہ درخواست کرسکتے ہیں۔ جس کا پروپوزل منظوری کے لیے ہم وفاق کو بھیجیں گے۔ کوئٹہ میں ماس ٹرین کا منصوبہ سہل بھی ہے، اور وہ اس لیے کہ یہاں کے لوگوں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں ریلوے لائن کاریڈور میں سے گزرتی ہے، جس کے ذریعے شہر بھر کے لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔ ماس ٹرین کے لیے انفرا اسٹریکچر پہلے سے ہی موجود ہے۔ دو یا ڈھائی ارب روپے خرچ کرنے سے ہم ایک مثالی ماس ٹرین چلا سکتے ہیں۔ یہ ماس ٹرین انتہائی محفوظ اور آرام دہ ہوگی، جس میں وزیراعلیٰ سے لے کر ایک غریب آدمی تک کو سفر کی سہولیات میسر آئیں گی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں وزرائے اعظم سمیت ہاؤس آف کامن کے ممبران بھی ریلوے میں سفر کرتے ہیں، ہمیں کوئٹہ شہر کو واک فرینڈلی شہر بنانے کے لیے ریلوے نظام کو ترجیح دینا ہوگا۔ ہر جگہ گاڑیوں کا استعمال بہتر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریلوے نظام کو پوری طرح بحال کیا جارہا ہے، ریلوے ایک قومی ادارہ اور ملک کی یک جہتی کی علامت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی اقتصادیات اس خطے کی اقتصادیات کا انجن بنیں اور یہاں کا اقتصادی انجن ریلوے بنے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئٹہ میں ماس ٹرانزٹ ٹرین چلانے کی وزیراعلیٰ کو تجویز دی تو انہوں نے اس سے فوری طور پر منظور کرلیا۔ 40کلومیٹر طویل ماس ٹرین کو چلانے کے منصوبے پر2 ارب روپے ہی خرچ ہوں گے۔ ہم نئے اسٹیشنز، لیول کراسنگ اور دیگر پر بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ لیول کراسنگ پر کسی ایک انسان کی بھی جان ضایع ہو۔ صوبے کے عوام کی جانب سے کوئٹہ میں ماس ٹرین منصوبے کو شہر کی ترقی اور عوام کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم منصوبہ قراردیا جارہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اس اہم منصوبے کو سرد خانے کی نذر نہیں ہونا چاہیے اور عملی طور پر کام کا جلد از جلد آغاز ہوجانا چاہیے۔ منصوبے کی تکمیل سے اسپیزنڈ سے کچلاک تک ریلوے لائن کی دونوں اطراف لاکھوں کی آبادی کو سستی اور اچھی ٹرانسپورٹ سروس مل جائے گی۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالحکومت ہے، اسے مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور جدید دورے کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلسل محنت، لگن، خلوص اور بہترین ٹیم ورک کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے بلوچ علاقوں، اندرون سندھ، پشتون علاقوں، افغانستان اور ایران سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کو جب وسائل ملتے ہیں تو وہ کوئٹہ میں سیٹل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں ان کے آبائی علاقوں کی نسبت تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروریات زندگی بہتر انداز میں باآسانی مل سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ کی آبادی میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ماس ٹرین منصوبے کو بہ تدریج شہر کے دیگر علاقوں کی طرف بڑھانے کے حوالے سے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ وزیراعلیٰ نواب ثنااﷲ خان زہری، وزیراعلیٰ پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے چائنا، ترکی اور دیگر دوست ممالک سے اس منصوبے کے لیے سرمایہ کاری حاصل کریں۔ اس کے ساتھ ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم بنائی جائے جو دُنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ماس ٹرین منصوبوں کا جائزہ لے اور اس کی روشنی میں اس منصوبے کو بروقت شروع اور مکمل کیا جائے۔