خبرنامہ

امریکہ کی پاکستان کو طلاق۔۔۔اسداللہ غالب

ایہہ گھر وسدا نظر نئیں آؤندا۔
یہ ہے پاک امریکہ تعلقات کی نئی صورت حال۔
امریکہ سے ہم نے ایف سولہ لینے تھے، ضروری کاروائی بھی ہو گئی مگر درمیان میں امریکی کانگرس نے ٹانگ اڑا دی۔اور ایف سولہ کی فراہمی کا مسئلہ کھٹائی میں چلا گیا۔
امریکی حکومت کا ڈنڈا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا صفایا کرے، یہ دہشت گرد ایسے پہاڑوں میں پناہ لیئے ہوئے ہیں جہاں فاتحین عالم بھی قدم رکھنے سے ڈرتے تھے، افغانستان میں تورا بورا کی ایسی ہی غاروں کو تباہ کرنے کے لئے امریکہ نے وحشیانہ بمباری کی تھی اور پہاڑوں کو سرمہ بنا کر رکھ دیا تھا، مگر پاکستان کوایف سولہ سے محروم کر کے امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان دنیا کی بہترین کمانڈو فورس کو ان غاروں میں جھونک دے اور اپنی اس طاقت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اب تک پاکستان اپنے پانچ ہزار بہترین تربیت یافتہ ا ور پیشہ ور افسروں اور جوانوں سے محروم ہو چکا ہے، امریکی نائن الیون میں اتنی جانیں ضائع نہیں ہوئیں مگر جتنی بھی ہوئیں ، ان کا بدلہ لینے کا فریضہ امریکہ نے پاکستان پر ٹھونس دیا ہے ورنہ دھمکی یہ تھی کہ پتھر کے دور میں دھکیل دیاجائے گا، مشرف بزدل تھا تو ا سکے بعد آنے والے حکمران اس کے مقابلے میں بہادر ثابت نہیں ہو سکے۔وہی جنگ انہوں نے بھی لڑی اور یہ کہہ کر لڑی کہ یہ ہماری جنگ ہے، ہماری جنگ بنانے میں امریکہ کو کوئی ہینگ لگانی پڑی،، نہ پھٹکری،ا س نے افغانستان کے دہشت گردوں کو مار مار کرپاکستان کے قبائلی علاقوں میں دھکیل دیا جو ہمارا خون پینے لگے۔ہمارے ساٹھ ہز ار بے گناہ شہید ہو گئے اور ہم نے ا سے اپنی جنگ بنا لیا، اب یہ بلا ہمارے سر سے ٹل نہیں رہی، امریکہ نے اس بلا کو ہماری بلا کا نام دے دیا ہے، پاکستان میں ایک بہت بڑی امریکی لابی ہے جو ڈالر ڈکارتی ہے ا ور امریکی زبان بولتی ہے ا ور طعنے دیتی ہے کہ یہ وہ جہادی ہیں جن کو پاک فوج نے پا لا پوسا،ا ن کے ذریعے افغان جہاد لڑا۔اس لابی کو ذرہ بھر شرم نہیں آتی کہ افغان جہاد بھی امریکی جنگ تھا جس میں ہمارا ہی خون کرویا گیا ،ہمیں کلاشنکوف کلچر کا تحفہ دیا گیا، ہیروئن مافیا نے بھی طاقت پکڑی۔اور انتہا پسندی کو بھی غلبہ حاصل ہو گیا، یہ سب کچھ امریکی گیم کا حصہ تھا مگر ہمیں مجبور کیا گیا کہ اسے اپنا گیم پلان سمجھیں اور ہم نے سچ مچ اس جنگ کو اپنا لیا۔اب حال یہ ہے کہ دہشت گرد بھی وہی جو امریکہ ڈالروں پر پلے، جن کے پاس امریکی اسلحہ اور تربیت بھی ہے اور ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے گئے ہیں، اگر ہمی نے ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہے تو ہمیں ایف سولہ درکار ہیں مگر امریکی کانگریس کہتی ہے کہ نہیں ملیں گے، ان سے ڈنڈوں سے لڑو، مومن ہو تو بے تیغ لڑو۔
امریکہ ہمارے بازو کئی طرح سے مروڑ رہا ہے، وہ شکیل آفریدی کو واپس مانگتا ہے تاکہ اسے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے صلے میں انعام و اکرام سے نوازے۔وہ ہمارے بازو مروڑ کر کہتا ہے کہ کشمیر کو بھول جاؤ اور بھارت کو منی سپر پاور مانو اور اس کے پاؤں چاٹو۔وہ چاہتا ہے کہ لشکر طیبہ کے لیڈروں کو جیلوں میں ٹھونسو اور حسینہ واجد کی طرح انہیں پھانسیوں پر لٹکاؤ۔ وہ بھارت کو شہہ دے رہاہے کہ اپنی را کے غنڈوں کو پاکستان میں پھیلا دے، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کو ہوا دے، کراچی کے امن کو غارت کرے اور پاک فوج کو ایک ایک شہر، ایک قصبے اور ایک گاؤں میں الجھا دے۔اور وہی حالت پید اکر دے جو اکہتر میں مشرقی پاکستان میں رونما ہو ئی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بڑی ڈھٹائی سے کہا ہے کہ کانگرس کو جو تحفظات ہیں ، ان کا جواب اراکین کانگرس ہی دے سکتے ہیں لیکن پاکستان کو ڈو مو رکا حکم دینا ہو تو وہ امریکی محکمہ دفاع جاری کرتا ہے،ا سوقت وہ اراکین کانگرس سے پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ور ایک ہم ہیں کہ امریکی احکامات کو بلا چون وچرا مانتے چلے جاتے ہیں ، ہمیں یہ کہنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ ہم اپنی پارلیمنٹ سے پوچھتے ہیں ۔ مشرف کے پاس تو کوئی پارلیمنٹ نہیں تھی مگر زرداری اور نوازشریف دونوں کے پاس پارلیمنٹ موجود ہے اور وہ سیاستدان جو پانامہ لیکس کے لئے وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں گھسیٹ رہے ہیں، وہ بھی امریکہ کے سامنے منہ نہیں کھولتے کہ ہمیں آپ کی ڈکٹیشن پر تحفطات ہیں، ماشاا للہ ، یہی پارلیمنٹ تھی جس نے سعودی عرب کی امداد کی قرارداد مسترد کر دی تھی، سعودی عرب کے لئے اس قدر طاقتورا ور شیر پارلیمنٹ، امریکہ کے سامنے کیوں بھیگی بلی بن جاتی ہے، اس پر بھی تو ارکان پارلیمنٹ کوئی روشنی ڈالیں یا کہیں ایساتو نہیں کہ ا مریکہ سے جو ڈالر آتے ہیں، ان کا حصہ رسدی ان کو بھی پہنچ جاتا ہے، مشرف تو سارے ڈالر باہر لے گیا ، اب اگر ڈالر مل رہے ہیں تو کہاں جاتے ہیں ، حکومت تو قرض پہ قرض لے کر ملک چلا رہی ہے یا اورنج ٹرین چلانے کا ارداہ رکھتی ہے یا پاک چین کاریڈور بنا رہی ہے یا بجلی کے منصوبے مکمل کر رہی ہے۔اصل میں بھارت نے پروپیگنڈے کی ا نتہا کر دی ہے کہ پاکستان اس کیخلاف طاقت جمع کررہاہے ، اس کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کی فوجی امداد میں کٹوتی کی جائے اور ایف سولہ نہ دیئے جائیں کیونکہ یہ بھارت کے خلاف ا ستعمال ہوں گے۔ادھر بھارت جو اسلحہ اکٹھا کر رہاہے ، وہ کس کے خلاف ا ستعمال ہو گا، ظاہر ہے ، نیپال، مالدیپ، سکم اور بھوٹان کے خلاف تو نہیں، بنگلہ دیش کے خلاف بھی نہیں اور چین کے خلاف تو بھارت کی چیں بول جاتی ہے، ماضی میں یہ ا سلحہ پاکستان ہی کے خلاف جارحیت کے لئے استعمال ہوا اور�آئندہ بھی ہو گا مگر بھارت کی امداد کوئی نہیں روکتا، اس کو کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی یہ جو امریکی کمانڈر�آئے روز منہ اٹھا کرا سلام آباد آتے ہیں ، ان کا یہاں کیا کام ہے، یہ افغانستان میں امن قائم کریں ، تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ مگر یہ دھڑلے سے آتے ہیں اور ہمارے ہاں میٹنگیں کرتے ہیں، ہم ان کے ماتحت کب سے ہوگئے ، میری آرمی چیف سے اپیل ہے کہ وہ ان امریکی کمانڈروں کو گھاس نہ ڈالیں اور اپنے کام سے کام رکھنے کی نصیحت کریں۔ پتہ نہیں مودی کی طرح یہ بھی پاکستان کا ویزہ لینے کی ضرورت سمجھتے ہیں یا یونہی دخل در معقولات کرتے ہیں۔اس ضمن میں وزیرداخلہ کو وضاحت جاری کرنی چاہیے۔کئی معاملات میں وزیرداخلہ کا رویہ سختی اور حب الوطنی پر مبنی ہے، کچھ سختی وہ امریکی جرنیلوں پر بھی کریں۔
امریکہ کو ہمارے بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ذکاا للہ کے اس بیان پر توجہ دینی چاہیئے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے پڑوس میں حاکمانہ ا ور جابرانہ سوچ مستحکم ہو رہی ہے۔
امریکہ اس بیان کو خاطر میں نہیں لاتا تو پاکستانی قوم کو اس حاکمانہ ا ور جابرانہ سوچ کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے۔وہی پینسٹھ کی طرح !!