خبرنامہ

ایم ایم عالم کی منہ بولی بیٹی خدیجہ محمود کی’ بابا ‘کے بارے میں

مجھے لکھنا کبھی اتنا دشوار نہیں لگا جتنا اس وقت لگ رہا ہے۔ کیونکہ جس شخصیت کے بارے میں لکھنے کو کہا گیا ہے اس کا مقام میرے دل میں اور ہر محب وطن پاکستانی

کے دل میں اتنا بلند ہے کہ اس شخص کی عظمت کے آگے نہ جانے کیوں اپنا ہر لفظ کم مایہ لگ رہا ہے اور بے یقینی کی وہ کیفیت ہے کہ نہ جانے حق ادا کر بھی پاؤں گی یا نہیں۔

محمد محمود عالم نام نہیں ایک عہد ہے۔ ایم ایم عالم سے میرا پہلا تعارف میری چھٹی جماعت کی اردو کی کتاب کے ایک باب یوم دفاع سے ہوا جس میں جہاں دیگر غازیان اور شہداء‘ میجر عزیز بھٹی شہید‘ سرفراز رفیقی شہید اور میجر شفقت بلوچ کا ذکر تھا‘ وہیں ایم ایم عالم کی اس فتح کا ذکر بھی تھا جس نے رہتی دنیا تک کے لئے ایک تاریخ رقم کر دی تھی۔ ایک منٹ سے کم وقت میں دشمن کے پانچ جہاز مار گرائے۔ یہ ناقابل یقین واقعہ ہوابازی کی تاریخ میں ایک معجزہ قرار دیا گیا اور دیومالائی کہانیوں کی تاریخ میں ایک شہزادے کے تصور نے حقیقت کا روپ بھرتے ہوئے ایک جیتے جاگتے ہیرو کا خاکہ ذہن میں بُننا شروع کیا اور ایک کھوج لگی جاننے کی۔۔۔ اور یہ ایم ایم عالم صاحب آخر کن کے جانشین ہیں۔ پڑھنا شروع کیا۔ امیر البحر خیرالدین باربروسہ‘ قطیبہ بن مسلم‘ موسیٰ بن نصیر‘ طارق بن زیاد اور ایسے کئی لازوال کردار کے جن کا یہ شاہین پیرو کار بنا، جس کی پرواز کی شان و شوکت کے قصے لازوال رہیں گے۔وقت گزرتا رہا اور ایم ایم عالم سے ملنے کا جنون بڑھتا رہا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے لئے کچھ کام کر رہی تھی کہ مجھے چھ ستمبر پر دستاویزی فلم بنانے کا حکم ملا۔ ایم ایم عالم سے ملنے کی ایک امید نظر آئی۔ ایئرفورس کے پی آر ڈائریکٹوریٹ نے جن آفیسرز کے نام دیئے، جن کے پیغامات مجھے ریکارڈ کرنے تھے ، ان میں ایم ایم عالم کا نام نہیں تھا۔ مجھے زندگی نے یہ ایک ہی موقع دیا تھا اپنے ہیرو سے ملنے کا اور میں کسی صورت اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔ میرے لئے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ 6ستمبر یوم دفاع کا ذکر ہو، 1965کی جنگ پر بات ہو اور ایم ایم عالم شامل نہ ہوں۔ بہت منت سماجت کی کہ صرف ایک جھلک دکھا دیں، درخواست قبول ہوئی اور زندگی کا ایک اور باب کھلا۔4ستمبر 2005 کو پی اے ایف بیس فیصل میں فالکن 2 بلاک میں کونے والے کمرے میں ،جہاں اس شاہین کا بسیرا تھا ،کہ جس کا مقروض آج بھی پورا پاکستان ہے، اور تاقیامت رہے گا، اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچی۔ عالم صاحب سے اس کارنامے کی بات شروع ہوئی کہ جس پر آج تک عقل حیران رہتی ہے۔ آواز میں وہی جوش اور ولولہ تھا۔ غازئ ملت ایم ایم عالم جب وہ واقعہ سنا رہے تھے تو کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ 40برس قبل کا ذکر ہے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی 40سیکنڈ قبل دشمن کے 5جہازوں کو نیست و نابود کر کے لوٹے ہیں، لیکن ان الفاظ کے بعد ایک خاموشی چھا گئی ’’ہم تو لوٹ آئے۔ رفیقی اپنے رفیق کے ساتھ شہید ہو گئے۔‘‘ ریکارڈنگ ختم کرنے کے بعد میں نے عالم صاحب سے پوچھا کیا دوبارہ ملاقات کا اعزاز مل سکتا ہے۔ انہوں نے کاغذ پر اپنا نمبر لکھا اور مجھے دیتے ہوئے کہا۔ فون کر کے معلوم کر لیجئے گا۔ اگر آپ کی ڈاکومنٹری ہمیں اچھی لگی تو دوبارہ ضرور ملیں گے۔

بہت عجیب شرط رکھ دی گئی ملاقات کی۔ دو دن بعد 6ستمبر کو ڈاکومنٹری آن ائیر ہوئی۔ 7 ستمبر کو ڈرتے ڈرتے فون کیا ۔ اپنا تعارف کروایا۔ جواب ملا! ہاں ہاں ہمیں یاد ہے، کب آنا چاہیں گی؟ ’’سر آج ہی آ جاؤں‘‘ کچھ ہمت بندھی۔ ’’ہاں عصر کے بعد آ جائیے گا۔‘‘ اور میرے منہ سے اس وقت وہ الفاظ نکل گئے جن سے میں بچپن سے اپنے ہیرو کو بلایا کرتی تھی۔ تھینک یو سو مچ فالکن شام کو اپنی امی کے ساتھ ملنے گئی۔ ایک طویل نشست کے بعد جب اجازت چاہی تو کہنے لگے۔’’ ہماری بیٹی بنو گی۔‘‘ بہت عرصے بعد یوم دفاع پر کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس کو دیکھ کر ایک بار پھر یقین ہو گیا کہ ابھی بھی مٹی زرخیز ہے۔ یہ کہا اور ’’ہمیشہ خوش رہو بیٹا۔‘‘ کہہ کر میرا ماتھا چوم لیا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہ کیا دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں۔ پھر وہ ساری دنیا کے لئے ایم ایم عالم صاحب رہے۔ لیکن میرے فالکن تھے۔ اور اسی نام سے آخری وقت تک میں انہیں پکارتی رہی۔ 7ستمبر 2005کو اس شاہین نے اپنے پروں کی پُر شفقت آغوش میں بیٹی کہہ کرایسا سمیٹا کہ پھر ہر اتوار کو ایک سے دو گھنٹے جا کر ان کے پاس بیٹھنا لازمی ہو گیا۔ بہت کچھ سیکھا ان سے اور کچھ ایسی چیزوں کا تجربہ ہوا جو عام انسان کی عقل ذرا مشکل سے ہی تسلیم کرتی ہے۔ شہید کا جو رتبہ ہے اور اس پر اﷲتبارک وتعالیٰ کے انعام و اکرام کس طرح کے ہوتے ہیں۔ وہ ہماری دنیاوی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ لیکن ایک غازی اور مجاہد کا چہرہ کیسا ہوتا ہے اس کے چہرے سے نور کی کیسی کرنیں پھوٹتی ہیں‘یہ میں نے اپنے فالکن کو دیکھا اور سیکھا کہ آنکھوں سے جو شعاعیں نکلتی ہیں ان کی آنکھوں میں زیادہ دیر تک نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔صحیح کہا تھا اقبال نے

یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے

فالکن کے ساتھ گفتگو کرتے وقت جب پاکستان کا ذکرآ تا تو وہ ہمیشہ ہی کہتے لوگ سمجھتے تھے کہ ہم بنگلہ دیش چلے جائیں گے۔ آپ دیکھئے گا ہم پاکستان کی مٹی میں ہی دفن ہوں گے۔

میں ان دنوں ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی اور ہر 6 ستمبر کو میں اپنے طالب علموں کے ساتھ فالکن کو سلیوٹ کرنے جاتی تھی کہ آج کی نسل کو بھی یاد رہے کہ ہماری تقدیرِ امم شمشیر و سنان ہے طاؤس و رباب نہیں۔فالکن ان کو بھی یہی کہتے تھے کہ کبھی مایوس نہ ہونا‘ جو کرسکتے ہو پاکستان کے لئے وہ ضرور کرنا‘ یہ مت سوچنا کہ ہمارے اکیلے کرلینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر وہ ہم سب کو ٹافیاں دیتے تھے جو وہ میرے لئے سنبھال کر رکھتے تھے۔ ان کے کمرے میں ایک ٹافیوں کا جاررکھا ہوتا تھا اور میں وہ ٹافیاں تبرک سمجھ کر کھاتی تھی۔ لکھنے بیٹھوں اور صفحوں کے صفحے بھر جائیں لیکن الفاظ اور ذہن ساتھ نہیں دے رہے۔ آنسوؤں کی دھند کے پار صفحہ دھندلا ہو رہا ہے۔ یہ سوچ کر کہ فالکن یہ مضمون میں آپ کی یاد میں لکھ رہی ہوں۔

اور پھر ایک دن خبر ملی کہ دنیا کا عظیم جنگی ہیرو ایم ایم عالم بسترِ علالت پر ہے۔ میں رہ نہ سکی۔ کس طرح پی این ایس پہنچی؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ وہاں جا کر جب فالکن کو بستر پر دیکھا توآنسوؤں پر قابو نہ پا سکی۔ کیونکہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میں ملنے جاؤں اور فالکن دروازے پر کھڑے میرا انتظار نہ کررہے ہوں۔ مجھے روتا دیکھ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور تھوڑی کمزور آواز میں بولے ’’آپ جانتی ہیں، ہم اپنی بیٹی کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، کیوں تکلیف دے رہی ہیں ہمیں۔ آیئے ہمارے ساتھ بیٹھیں اور پھر اپنے کاندھے سے میرا سر لگا کر بولے ’’بیٹیاں مسکراتی ہوئی اچھی لگتی ہیں۔‘‘ کچھ دن کے بعد عید آگئی۔ عید بھی اپنے فالکن کے ساتھ منائی۔ دو تین دن کے بعد خبر ملی کہ طبیعت پھر خراب ہوگئی ہے اور آئی سی یو میں داخل ہو گئے ہیں۔ بہت کوشش کے باوجود نہ بات ہو سکی نہ ملنے کی اجازت ملی۔ ایک دن فالکن کے نمبر سے فون آیا، کوئی ڈاکٹر صاحب تھے کہ سر عالم آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مختصر بات کیجئے گا۔ میں نے بات کی ان کی نحیف آواز آئی ’’ہماری بیٹی کیسی ہے؟‘‘ میں رو پڑی پھر یہ آواز آئی ’’ آپ روئیں نہیں‘ آپ کی ہنستی ہوئی آواز ہمیں اچھی لگتی ہے۔ جب آپ سے بات نہیں ہوتی تو آپ کی آواز ہمارے کانوں میں گونجتی ہے،آپ کی ٹافیاں بھی رکھی ہیں‘‘ اور پھر ان کی سانس اکھڑنے لگی۔ ڈاکٹر نے اُن سے فون لے کر مجھے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔

18 مارچ2013 صبح آٹھ بجے مجھے فون آیا اور بتایا گیا کہ وہ شاہین جس نے اتنے سال مجھے اپنے پروں کی آغوش میں رکھا، وہ اپنی ابدی منزل کی جانب پرواز کرگیا ہے۔ ہم ابھی جنازے کی خبر کا اعلان نہیں کر رہے لیکن آپ کو وہ بیٹی بلاتے تھے، اس لئے اُن کی آخری رسومات کے لئے جو ماڑی پور ایئر بیس میں ہونی ہیں، ہماری گاڑی آپ کو لینے آجائے گی۔ میں نے انکار کردیا کہ فالکن میرے دل میں زندہ ہے اور زندوں کی آخری رسومات نہیں ہوتی۔ میں سارا دن ٹی وی چینلز دیکھتی رہی کہ کہیں توکوئی خاص رپورٹ میرے فالکن کے کارناموں پر چل رہی ہو۔ لیکن نہیں، کہیں پر بھارتی گانوں پرمارننگ شو کی میزبان رقص کررہی تھیں، کہیں سیاست دان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے الزام تراشیوں پر اترے ہوئے تھے اور اس شو رو غوغا میں غلطی سے ایک سکرول چل جاتا تھا کہ 1965 کے جنگی ہیرو ایم ایم عالم انتقال کر گئے۔ میں سوچتی رہی کہ اگر آج کوئی انڈین اداکار مرتا‘ یا کسی کھلاڑی کی تیسری شادی ہوتی تو ہر چینل بڑھ چڑھ کر رپورٹنگ کررہا ہوتا۔ لیکن کیا کریں فالکن !

کرگسوں کے مندر میں زر، زمیں کی پوجا ہے

کچھ پتہ نہیں چلتا کب عقاب مرتے ہیں

کرگسوں کی بستی میں ذکر تک نہیں ہوتا

پر فضا تڑپتی ہے جب عقاب مرتے ہیں

میں آج تک فالکن کی قبر پر نہیں گئی۔ کچھ لوگ طعنہ بھی دیتے ہیں کہ دوسال ہوگئے تم ایک بار بھی اپنے فالکن کی آخری آرام گاہ پر نہیں گئی۔ ہاں فالکن میں نہیں آئی آپ کی قبر پر۔۔۔ اور نہ ہی آؤں گی۔

تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا

مجھے معلوم تھا تم مر نہیں سکتے

تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی

وہ جھوٹا تھا

وہ تم کب تھے

کوئی سوکھا ہوا پتہ ہوا سے ہل کے ٹوٹا تھا

تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا تھا

وہ جھوٹا تھا

تمہاری قبر میں میں دفن ہوں

تم مجھ میں زندہ ہو

کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا