خبرنامہ

جنرل قدوائی کا لیکچر اور جوہری کانفرنس…..منیر احمد بلوچ

نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی نے پچیس مارچ کو انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد میں اپنے لیکچر کے دوران امریکہ سمیت مغربی ممالک پر صاف صاف واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کبھی بھی ٹیکٹیکل ہتھیاروں میں کمی یا ان کی تیاری کو منجمد نہیں کرے گا، اور نہ ہی ہم معذرت خواہانہ رویہ اختیار کریں گے ۔جنرل قدوائی کے یہ الفاظ قوم کے دل کی آواز ہیں۔امریکہ اور مغربی ممالک پر یہ واضح کرنا ضروری بھی تھا۔ انہوں نے یہ باتیں اُس وقت کہیں جب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے صرف ایک دن قبل امریکی سفیرڈیوڈ ہیل کو یقین دہانی کرائی کہ ”پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام اور اثاثوں کی سکیورٹی کیلئے تیار ہے‘‘۔جنرل صاحب کے لیکچر کے یہ الفاظ بھی قابل تحسین ہیں کہ” ملک کی سیا سی اور سفارتی قیادت کو فخر کرنا چاہئے کہ پاکستان کے ٹیکٹیکل ہتھیار وں نے جنگ کے امکانات کو کم کرتے ہوئے دشمن کو تمام اختلافی امور پر بات چیت کیلئے مجبور کیا ہوا ہے‘‘۔ اب یہ ملک کی سفارتی اور سیا سی قیا دت کا امتحان ہے کہ وہ اس نعمت کو کس طرح استعمال کرتی ہے کیونکہ گیند اب انہی کی کورٹ ہے؟۔وزیر اعظم نے اکتیس مارچ سے شروع ہونے والا اپنا دورۂ امریکہ شاید انہی وجوہ کی بنا پر ہی منسوخ کر دیا ہے کہ عسکری ادارے کی جانب سے دیا جانے والا پیغام ان کی یقین دہانیوں کے بالکل ہی الٹ ہے۔ اب ان کی جگہ ان کے انتہائی معتمد طارق فاطمی واشنگٹن میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کریں گے جس کا بنیادی ایجنڈا مستقبل میں
نیوکلیئر سکیورٹی کے بارے میں امریکہ کی خواہشات کے مطا بق ایک طریقہ کار طے کرتے ہوئے مضبوط و مر بوط لائحہ عمل کی تیاری ہے ۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت یقیناََعالمی رہنمائوں کیلئے باعث اطمینان ہو گی جس کا اظہار وائٹ ہائوس کے ترجمان نے پچیس مارچ کو ایک بیان میں یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ امریکہ نیو کلیئر سکیورٹی سربراہ میں شرکت کیلئے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کا بے تابی سے انتظار کر رہا ہے۔اور یہ بیان امریکی سفیر کو وزیر اعظم کی جانب سے کرائی جانے والی یقین دہانی کی روشنی میں جاری کیا گیا تھا۔ہو سکتا ہے کہ مارک جونز کے اس خیر مقدمی بیان اور امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو کرائی گئی یقین دہانی کے بعد جنرل قدوائی کے لیکچر نے امریکی انتظامیہ کی بے تابی کو جھاگ کی طرح بٹھادیا ہو۔ جس پر وزیر اعظم کو دورہ منسوخ کرناپڑا ہو۔ لیکن امریکہ کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جن خطرات میں پاکستان اس وقت گھرا ہوا ہے ان کو مد نظر رکھنا پاکستان کے دفاعی اداروں کا اولین فرض بنتا ہے۔ کیونکہ ان کی جانب سے ذرا سی بھی کوتاہی ہمیں بہت دور تک لے جا سکتی ہے جہاں سے واپسی مشکل ہی نہیں ناممکن بن کر رہ جائے گی۔ پاکستان اپنی قومی سلامتی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کئے بغیر نیوکلیئر سکیورٹی کے متعلق دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح سنجیدہ اور مخلص ہے اور اس بارے پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا چند ماہ قبل کا یہ اعلان سب کیلئے
با عث اطمینان ہونا چاہئے کہ” پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت ہمیں اپنی جان سے بھی زیا دہ عزیز ہے‘‘۔امریکی صدر اوباما اب جبکہ اپنی دوسری مدت صدارت پوری کرنے والے ہیں اور یہ ایشو ہمیشہ ان کے ایجنڈے کی اہم ترین بنیاد رہا ہے کیونکہ اپنی پہلی مدت صدارت کے آغاز میں ہی صدر اوباما نے اسے اپنا مشعل راہ بنا رکھا تھا اس کیلئے اوباما کی پراگ میں5 اپریل2009ء کی وہ تقریر سامنے رکھنا ہو گی جس میں انہوں نے جوہری مواد کی حفاظت کو اپنا اولین ایجنڈا قرار دیتے ہوئے دنیا کو یقین دلایا تھا کہ اگلے چار سالوں میں ان کی حفاظت اور سکیورٹی کیلئے وہ آخری حد تک جا سکتے ہیں گوکہ وہ اپنی پہلی مدت صدارت کے عرصہ مارچ 2014ء تک اس کو عمل جامہ پہنانے میں کامیاب نہیںہو سکے۔
پراگ کی کانفرنس کے بعد سے اب تک اس سلسلے کی تین مزید کانفرنسیں ہو چکی ہیں جن میں2010ء میں واشنگٹن، 2012ء میں سیئول جنوبی کوریا ا ور پراگ میں ہونے والی2014ء کی کانفرنس اور یکم اپریل کو ہونے والی صدر اوباما کی مدت صدارت کے آخر میں واشنگٹن میں حتمی اور آخری کانفرنس ۔ پاکستان کی سیا سی اور سفارتی قوتوں کو اپنے ارد گرد کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کانفرنس میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے صدر اوبامہ کی پراگ میں سات سال قبل کی جانے والی اس تقریر کو ہر صورت سامنے رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کو طے کرنا ہو گا۔یہ نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں بلکہ یہ کہ ہمیں کیا چاہئے؟۔
جوہری سکیورٹی سمٹ کے شرکاء کی جانب سے ان کے تیار کردہ ایجنڈے کے علا وہ ایک ایجنڈا وہ ہو گا جو صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ اپنے ”اہداف‘‘ سے ملاقات کے دوران طے کرائیں گے اور دوسرا ایجنڈا ان دو نکات کو سامنے رکھتے ہوئے طے کیا جائے گا جن میں سے اول، دنیا بھر کے نیو کلیئر اثاثوں کی سکیورٹی اور مکمل حفاظت کیلئے کسی خاص ٹیم کی تشکیل تاکہ دنیا بھر کو ایٹمی دہشت گردی کے کسی بھی مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہو گی کیونکہ گزشتہ دس سالوں سے امریکہ اور مغرب یہی راگ الاپنے میں مصروف ہیں جن میں خاص طور پر وہ بے بنیاد خدشات کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کسی وقت بھی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے سب نے دیکھا کہ بلجیئم میں امریکی فوجی اڈہ اور ایٹمی مرکز ہی داعش کے دہشت گردوں کا نشانہ بنتے بنتے رہ گیا اس لئے امریکی میڈیا سمیت اس کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے ہوئے ممالک کو کسی ایک کمزور ملک کو اپنے نشانے پر رکھنے کی بجائے اپنے اپنے گھر کی حفاظت کیلئے بھر پور توجہ مرکوز کرنا ہو گی ۔۔۔کیا اب دنیا مطمئن ہو چکی ہے کہ یورپ یا امریکہ سمیت کسی بھی ملک میں نائن الیون جیسی کارروائی دوبارہ نہیں کی جا سکتی؟۔
یکم اپریل کی اس کانفرنس کا دوسرا اہم ترین ایجنڈہ اعلیٰ ترین یورینیم کی کم سے کم پیداوار اور استعمال،نیوکلیئر کیلئے استعمال ہونے والے کسی بھی اہم ترین مواد کی چوری اور سمگلنگ کا مکمل سد باب۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی درد سر بن چکا ہے پاکستان، ترکی، عراق، یمن، افغانستان، بھارت، فرانس اور اب بلجیئم میں دہشت گردی کی گھنائونی کاروائیاں ہر اچھے اور مہذب انسان کیلئے دکھ اور تکلیف کا سبب بنی ہیں اس لئے کسی ایک کو نشانے پر لے لینا قطعی نا انصافی ہو گی۔ پاکستان کو اپنے دفاع سے رتی بھر بھی غفلت نہیں کرنی چاہتے کیونکہ ابھی حال ہی میںNuclear Threat Initiative کی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کو Nuclear Weapon useable material کی رینکنگ میں سب سے نچلے درجے پر رکھا گیا ہے لیکن یہ رپورٹ دینے والے معمولی سی مثال بھی نہیں دے سکے کہ اپنے ایٹمی اثا ثوں کی حفاظت ان کی ٹرانسپورٹیشن اور ان کی تیاری کے کسی بھی مر حلے میں پاکستان سے کوئی ایک ہلکی سی بھی کوتاہی ہوئی ہو؟۔ افسوس کہ دنیا کو بھارت کی جانب دیکھنے کی فرصت ہی نہیں مل رہی جس کی اپنے ایٹمی پروگرام کیلئے کسی بھی قسم کی ریگولیٹری اتھارٹی ہے ہی نہیں ۔