خبرنامہ

معرکہ سیالکوٹ اورچونڈہ حوالدار نصرت الہیٰ کے قلم سے

کیپٹن سرور شہید نشانِ حیدر کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ یہ قوم کے وہ مایہ ناز سپوت ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی قربانی دی۔ تاریخ پاکستان میں نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والوں میں ان کا نام سرِ فہرست ہے پنجاب رجمنٹ کی ایک بٹالین ہر سال ان کی یاد میں سرور ڈے مناتی ہے۔
جب دشمن نے ۶ ستمبر کو لاہور پر حملہ کیا تو دوسری جانب جسڑ کی طرف بھی پیش قدمی شروع کردی۔ دشمن کو یہاں سے مار بھگانے کا کام کیپٹن سرور کی بٹا لین کے سپر دکیا گیا۔ خوش قسمتی سے بٹا لین کی کمان اس وقت ایک آزمودہ کار، پر عزم،اور نڈر افسر کے پاس تھی۔ یہ بٹا لین کے لئے کوئی نئی شخصیت نہیں تھے۔ بٹا لیں میں یہ ایک سیکنڈ لفیٹنٹ کی حیثیت سے آئے تھے اور انہیں کیپٹن سرور کے ساتھ پہلو بہ پہلو لڑنے کا شرف حاصل تھا۔
ؓبٹالین نے ابھی چونڈہ سے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ دشمن نے چار وں فرنٹ پر حفاظتی دستوں کی اقلیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۷ اور ۸ ستمبر کی درمیانی شب کو پاک سر زمین پر دھاوا بول دیا اور اس مختصر سی جمعیت کو گھیرے میں لے لیا، دشمن نے سر حد کے اندر داخل ہوتے ہیں وحشت اور بربریت کا بازار گرم کر دیا۔
بٹالین تیزی کے ساتھ جسڑ کی طر ف بڑھ رہی تھی کہ اچانک اس کی مزید پیش قدمی روک دی گئی اور کمانڈنگ آفیسر کو بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں طلب کر لیا گیا۔ کمانڈنگ آفیسر جیپ میں بریگیڈ ہیڈ کوارٹر روانہ ہوئے۔آمدورفت کی کثرت نے سڑک کی مٹی کو غازہ بنا دیا تھا جیپ ہوا سے باتیں کرتی ہوئی جا رہی تھی۔ اور یہ غازہ اس میںسوارافسروں پر بہتات کے ساتھ اڑ اڑ کر پڑ رہا تھا۔ جب ان ک جیپ چونڈہ کے قریب پہنچی توان کی آنکھیں پر نم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ نوجوان لڑکیاں دریدہ گریباں،برہنہ پاﺅں چونڈہ کی طرف آرہی تھیں،بچے بلبلا رہے تھے، نوجوان بوڑھوں کے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے، عورتیں چیخ رہی تھیں۔کمانڈنگ آفیسر نے ڈرائیور کو جیپ کی رفتار تیز کرنے کو کہا ۔ ان کے دل میں انتقامی آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ اور وہ جلد ازجلد بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سے احکامات حاصل کرنے کے بعد دشمن سے پنجہ آزما ہونا چاہتے تھے۔
دوسرے طرف قوم کی نوجوان بہو بیٹیاں اور بے یارو مدد گار مر د و زن ،وحشی درندوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔کمانڈنگ آفیسر بجلی کی تیزی کے ساتھ بر یگیڈ ہیڈ کوارٹر سے احکام حاصل کرے واپس پہنچے۔ بٹالین کے افسر اور جے سی اوز ان کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے آتے ہی سب سے مخاطب ہوکر کہا۔
شاید آپ کو معلوم ہوگا کہ دشمن چونڈہ کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے اس آزمائش کی گھڑی میں آپ لوگوں کے سپرد بڑا اہم اور کٹھن کام کیا گیا ہے۔ آپ نے اس کی پیش قدمی کو روک کر آگے بڑھنا ہے اور اس طرح پنجاب رجمنٹ کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کرنا ہے۔ اللہ تعالےٰ نے ہمیں آج سرور کی یاد کو تازہ کرنے کا عملی موقع دیا ہے۔
اسکے بعد انہوں نے جنگی نوعیت کے اہم احکامات صادر کئے اور میجر ملک کو فوری طور پر ایک کمپنی کے ساتھ دشمن کے مقابلے پر بھیج دیا۔ چند ہی لمحوں میں قوم کے نامور سپوت کیپٹن سرور کے شیر دل جیالے ساتھی اپنے اولوالعزم اور سر فروش کر نل کی زیر قیادت” اللہ اکبر “کے فلک بوس نعروں کی گونج میں چونڈہ کی گلیوں میں سے گزررہے تھے۔ بچے اور بوڑھے،مر د اور عورتیں ہاتھ اٹھا اٹھا کر ان کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے۔ فرطِ مسرت سے انہوں نے تالیاں بجائیں اور ان الفاظ میں انہیں خد ا حافظ کہا۔
”غازیو تیزی سے بڑھو، تمہاری مظلوم بہنیں تمہاری امداد واعانت کے لئے ترس رہی ہیں“
کمانڈنگ آفیسر اپنے بہادروں کو ساتھ لئے دشمن کی توپوں اور لا تعداد ٹینکوں سے ٹکرانے جار رہے تھے۔ گو بظاہر یہ موت کو دعوت دے رہے تھے لیکن ان کے عزائم پختہ اور حوصلے بلند تھے۔ اور ہمت جوان تھی، تائید الہیٰ ان کے ساتھ تھی اور خدا تعالیٰ کی نصرت ان ک رہنمائی کر رہی تھی۔ اور دشمن کے ساتھ نبر آزما ہونے کے لئے بیتاب دشمن کی بہتات انہیں متاثر نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پہاڑوں سے ٹکرا جانے کا عزم لے کر نکلے تھے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
عزم صمیم کے پیکروں کی شیر دل بٹا لین عقاب کی طرح دشمن پر جھپٹی اور غروب آفتاب سے پہلے اسے روندتے ہوئے چوبارہ گاﺅں تک پہنچ گئی۔ یہاں سے وہ پھر سے دشمن پر کاری ضرب لگانے لے لئے تیاری میں تھے کہ میجر ملک مسکراتے ہوئے گرد آلود چہرے کے ساتھ نمودار ہوئے۔ میجر ملک نے فاتحانہ انداز کے ساتھ سلوٹ کیا۔
” ہیلو ملک یہ کیا لائے ہو؟“ کرنل صاحب نے کہا۔
میجر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے ایک نقشہ جس پر کچھ نشاتات لگے ہوئے تھے اور چند دیگر دستاویزات پیش کر دیں اور کہا”میں دشمن کے ہیڈ کوارٹر سے اٹھا کر لایا ہوں“
”وہ کیسے؟“ کمانڈنگ افسر نے پھر سوال کیا۔
”سر ۔جب میرے جیالے جوانوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے دشمن پر ہلہ بولا تو دشمن اپنے کئی ٹینکوں کے علاوہ انہیں بھی سراسیمگی کے عالم میں وہیں چھوڑ بھاگا“
میجر ملک نے فخر کے ساتھ سینہ تان کر کہا۔
کمانڈنگ آفیسرنے ایک لمبا سا کاغذ اٹھاتے ہوئے کہا۔ یہ دشمن کا آپریشن آرڈر ہے، ویل ڈن ، ملک تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔
اب دشمن کے آرمرڈ ڈویژن کا آپریشن آڈر ، ایک نقشہ اور چند دیگر کار آمد کاغذات ان کے ہاتھ لگ چکے تھے جو کہ بغرض مطالعہ فوری طور پر بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں بھیج دیئے گئے
کمانڈنگ آفیسر نے دشمن کی قوت، تجاویز حرب اور مقاصد کو بھانپ کر بٹالین کو از سر نو منظم کیا ۔ وہ ابھی دشمن پر پھر سے جھپٹنے کی تیاریوں میں ہی تھے کہ بریگیڈ کمانڈر نے انہیں اپنی مزید کر وائی سے روک کر دوسرے حکم تک گڈ گور گاﺅں میں جوکہ چوبارہ سے ذار ادھر تھا دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی بلوچ رجمنٹ کی ایک کمپنی اور چند مزید ٹینک ان کی معاونت کے لئے بھیج دئیے گئے۔
ابھی تھوڑی دیر ہی گزرنے پائی تھی کہ دشمن نے بھر پور حملہ کیا۔ لیکن اسے کیپٹن سرور کی بٹالین کے ہاتھوںگڈگور کے ارد گرد لاشوں کے انبار چھوڑ کر راہ فراراختیارکرنی پڑی۔ دشمن دوبارہ منظم ہو اس نے ایک ٹینک رجمنٹ کو بائیں اور دوسری کو دائیں بازو سے بڑھنے کا حکم دیا اور ایک آرمرڈ بریگیڈ کے ساتھ سامنے سے حملہ آور ہوا۔ اس نے اپنی ہوائی فوج کو بھی استعمال کیا۔
کمپنی کمانڈروں نے کمانڈنگ آفیسر کو تازہ ترین صورت حال سے مطلع کرتے ہوئے اپنے متعلق احکامات صادر کرنے کی درخواست کی انہیں اپنی اپنی جگہ پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کمانڈنگ آفیسر نے مارٹر والوں کو حکم دیا کہ وہ دشمن پر فائر گرائیں اور ساتھ ہی نقشے کو اٹھا کر ایک طرف سامنے رکھتے ہوئے بریگیڈ کمانڈر کو موجودہ حالات کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ درخواست کی کہ انہیں آرٹلری کے معاون فائر کی ضرورت ہے۔
کمانڈنگ آفیسر وائر لیس سیٹ سے ہٹ کرکمپنی کمانڈروں کو نئی ہدایات دے ہی رہے تھے کہ اپنی فضائیہ بھی میدان میں آگئی ۔آرٹلری نے درست نشانے پر فائر گرانا شروع کر دئیے، اپنی ٹینک شکن توپوں نے بائیں بازو سے حملہ آور ہو کر ٹینک رجمنٹ کے بیشتر ٹینک ناکارہ کر دئیے ۔ فضائیہ نے سامنے حملہ آور آرمرڈ بریگیڈکے ایڈوانس کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دائیں بازو سے بڑھنے والے ٹینک بٹالین ہیڈ کوارٹر سے صرف پچاس گز کے فاصلے پر پہنچ گئے۔ کمانڈنگ آفیسر نے اپنے ٹینک کمانڈروں کو ہدایت کی کہ وہ دائیں بازو سے بڑھنے والے دشمن کے ٹینکوںپر فائر گرائیں۔اب حملہ آورد شمن ہر طرف سے بری طرح پٹ رہا تھا۔ اور اس کے پاس سوائے ذلت آمیز پسپائی کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے ٹینک، خود کار ہتھیار اور بے شمار اسلحہ لاشوں کے میدان میں چھوڑ کی بھاگ نکلنے ہی میں عافیت سمجھی۔
ہزیمت خوردہ دشمن پھرسے منظم ہوا ،ٹینکوں،پیادہ فوج اور ہوائی جہازوں کی مدد سے ہماری جری سپاہ کو گڈ گور سے پیچھے دھکیلنے کے لئے پھر حملہ آور ہوا۔ لیکن کیپٹن شہید کی بٹا لین آج کٹ مرنے پر تلی ہوئی تھی۔ جنگ نرالے انداز سے پور ے جوبن پر تھی۔ دشمن پیادہ فوج کی ایک بٹالین پر اپنے پورے وسائل کے ساتھ حملہ آور تھا۔ ایک طرف طاقت کا مظاہرہ تھا اور دوسری طرف قوتِ ایمانی، جذبہ شہادت اور سر فروشی تھا۔
کمانڈنگ آفیسر وائرلیس سیٹ اٹھائے بیک وقت کمپنی کمانڈروں، ٹینک کمانڈروں اور توپ خانہ کو برابر ہدایات دے رہے تھے۔ ان کی لڑائی میں اپنے کمزور پہلوﺅں پر کڑی نگرانی تھی۔ اور ضرورت کے مطابق اپنے فائر کا رخ بدلوارہے تھے کہ اچانک اپنی فضائیہ بھی حرکت میں آگئی اس نے دل کھول کر دشمن کے ٹینکوں کا قلع قمع کیا ۔ اب جنگ کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔ چند ہی لمحوں میں دشمن کا ایک ہوائی جہاز فائر کی زد میں آکر بری طرح زخمی ہو گیااور وہ پیچھے کو بھاگا۔ دوسروں نے ا س کی تقلید کی ۔ ٹینکوں میں بری طرح بھگڈر مچ گئی اور وہ پیادہ فوج کو روندتے ہوئے پیچھے بھاگے۔اس دفعہ دشمن اپنے ساتھ بڑی بڑی امنگیں لے کر آیا تھا۔ لیکن اس نے پھر سے اپنے سامنے قوتِ مدافعت کا غیر متوقع مشاہدہ کیا اسے جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ کیپٹن سرور کی بٹالین جیسے حصار کو تسخیر کرنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا کہ وہ تصور کئے ہوئے تھا۔
اب ہمارے جیالے دشمن کے سر پر غرور کو جھکا چکے تھے، میدان ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ معرکہ گڈ گور کے ہیرو تھے ۔اب فائر بند ہو چکا تھا، دشمن کو اس کی سفا کی کی سزا مل چکی تھی۔ ڈویژن ہیڈ کوارٹر نے اسے فوری طور پر ریسٹ کے لئے پسرور بھیج دیا اور اس کی جگہ فرنٹیئر فورس کی ایک رجمنٹ کو تعین کیا۔
بٹالین کیپٹن سرور شہید کے نام کو آج عملی طور پر چار چاند لگا چکی تھی۔ پنجاب رجمنٹ اپنی اس بٹا لین پر جتنا بھی ناز کرے بجا ہے جنگ کے ماہرین کے لئے یہ بات باعث ِ حیرت ہوگی کہ صر ف آٹھ جوانوں کو شہادت کا درجہ نصیب ہو اور یہ سب کچھ افسروں ۔ سرور صاحبان اور جوانوں کی بے مثال جرات شجاعت ، بلند ہمتی اور جذبہ حریت کی بدولت تھا۔
شہید کو جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہوجو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰة ہے