خبرنامہ

کوئی ستارہ نہیں ابھرتا…. شیخ منظور الہی کے قلم سے

شیخ منظور الہی ،مجھے آج بھی یا د ہے۔ہر رات یونیورسٹی کلاک سے دس بجنے کی صدا گونجتی تھی جسے میں نیو ہاسٹل کی چھت سے سنتاتھا، جیسے گونج کی لہریں گہرائیوں میں اُتر رہی ہوں جیسے ان میں صدیوں کا گداز پنہاں ہو، اس گجر میں ایک خاموش عظمت تھی ، وہ گونج دار آواز دل کو ایک ولولہ بخشتی تھی اور آنے والے برسوں کے لئے ایک عزم صمیم جو قلب کی گہرائیوں سے اُٹھے اور ساری شخصیت پہ جاری و ساری ہوجائے۔ وہ اوائل شباب کے دن تھے۔ عنفوان شباب کے ساحل سے ایک دلپذیر نظارہ ، آنکھوں کے سامنے بکھرا تھا، میں وقت اور عہد کے سنگم پر تھا۔ نازی بوٹوں کی چاپ مدھم پڑچکی تھی ۔ جنگ میں کام آنے والے سپاہیوں کا خون نوزائیدہ سبزے نے ڈھانپ لیا تھا۔ اور میں نے سوچا تھا ، یہ قربانیاں اکارت نہیں گئیں۔ نازی ازم جورواستبداد کا سمبل تھی جو کچل دی گئی، اب ہر طرف امن و امان کا دور دورہ ہوگا۔ انسانی صلاحیتیں ایک پر امن دنیا کی تعمیر میں صرف ہوں گی ۔ بڑے بڑے نیتا آورشوں کے علم تھام کے نکلے تھے، ونسٹن چرچل نے کہاتھا:
ATLANTIC CHARTER WAS NOT
AN AGREMENT BUT A STAR
ؒؒؒؒؒلیکن بڑی طاقتوں نے بھی اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کے حق میں جورواستبداور رکھا، یہ عقدہ دیر سے کھلا کہ صرف شخصی طور پر ہی انسان خود غرض نہیں ، بیشتر اقوام بھی عصبیت اور تنگ نظری کا شکار ہیں۔
وہ بھی کیا دن تھے جب قلو پطرہ کی طرح میں اپنے ارمان منقش ، مجلا سجرے میں سجا کر دریا کی سیر کو نکلا تھا، وہ بجراجو اپنی خود آرائی سے ازخود مست تھا۔
اور اب جو یونیورسٹی کا گھڑیال رات کو اس کا گھنٹہ بجاتا ہے اور اس کی گھمبیر گونج دار آواز کا ارتعاش کانوں سے ٹکراتاہے تو میں سوچتاہوں کہ اس آواز میں تو وہی درد پنہاں ہے جو پچیس سال اُدھر تھا ، ربع صدی اس طرف امنگوں اور آرزوﺅں نے رفعت کی آخری حدیں چھولی تھیں وہ سہانا خواب کیا ہو جس میں ہم نے ایک جنت ارضی بنانے کا عزم کیا تھا، ان آرزﺅں کی خوشہ چینی کس نے کرلی؟
اب کوئی ستارہ نہیں اُبھرتا ، کوئی سورج طلوع نہیں ہوتا، وہ حریفان ِ بزم عشق کہاں رہ گئے جنھیں میں یاران صادق الولا سمجھا تھا۔ وہ کون سی جل پریاں تھیں جن کے دامِ نزدیر میں وہ آگئے۔ وہ ہمراہان سست عناصر جانے کن گھاٹیوں میں بھٹک گئے۔
اب میں دل گرفتہ نہ ہوں تو کیونکر
بخاک ریز جرغہ مرد آزمائے ما
جوانی کی امنگیں کہان کھوجاتی ہیں۔ ذخاّر سمندروں کے بیچ زمرد کی طرح جڑے ہوئے وہ سرسبز ٹاپو کہا ںہیں جہاں سنہرے سپنے دفن ہو جاتے ہیں۔ آرزوئیں ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ جاتی ہیں اور انسان تنہا ہی رہ جاتاہے۔ نہتا بے آسرا ءیہ ازلی تنہائی جو انسان کو ودیعت کردی گئی جس سے نہ تو کوئی مفر ہے، نہ صحیح معنوں میں بچ نکلنے کی خواہش ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس کا رگاہ ہستی میںانسان خویش و اقارب سے گھرا ہونے کے باوجود تنہا ہی رہتاہے۔ زندگی کی گہما گہمی ، عزیزوں کی قربت ، ہمدردی موانست، ایک طلسم ، ایک خواب جو ختم نہیں ہو چکتا، جسے خواب کے بعد بھی انسان خواب کی سی حالت میں رہے۔ برف پوش چوٹیوں کے حضور انسان تنہا ہے۔ چاندنی رات کے کربناک حسن کے سامنے انسان تنہا ہے۔ تاحدّ نظر سمندر کے پر سکون پھیلاﺅ کے رو برو انسان تنہا ہے۔ اس تنہائی کو کیا کیجئے جو غیر متوقع طور پر دل پر شیخوں مارتی ہے جو چاہے تو بھری محفل کو سونا کردے ، کیا سوز تھا، جو جان میں سمو دیا گیا، کیا غم تھا جو روزِ ازل ودیعت ہوا، ابن آدم کو شجر ممنوع چھونے کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی ، یہ باغ جنت سے نکالے جانے کا غم ہے جو انسان کونعل و آتش رکھتا ہے یا قربِ حضوری سے بعُد
آشنا ہر خار رااز قصہ ما ساختی
دربیابان جنوں بردی ورکسو ساختی
ایک خلش ایک چھبن جو اپنا مداوا نہیں پاتی جو دبے پاﺅں آکر ہماری خوشیوں میں زہر گھول دیتی ہے اور دم واپسیں تک وہ خار کھٹکتا رہتاہے ۔ حتیٰ کہ موت ایک مہربان ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، کاش کوئی بتلا سکے ایسا کیوں ہے۔۔۔ ہیمر شولڈ کو بھی یہی الجھن درپیش تھی، اس نے مالک حقیقی سے فریاد کی تھی ”میرے آقا ! کیا تو نے مجھے یہ ازلی تنہائی اس لئے بخشی تھی کہ میرے لئے تجھے سب کچھ سونپ دینا سہل تر ہو“۔اس نے دوسروں کی خدمت میں عرق ریزی کی ، وہ اسی طور دل کی پاکیزگی حاصل کرنے کا متمنی تھا، وہ خوب سمجھتا تھا کہ ہمارے زمانے میں :
THE ROAD TO HOLINESS NECESSARILY
PASSES THROUGH THE WORLD OF ACTION
فطرت کے حسین نظارے اور روح کو بالیدگی بخشنے والی یادیں میں نے ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کرلی تھیں اور آج سے چند سال قبل یوں بھی ہوا کہ ان یادوں کو آواز دینے سے کلفت دھل گئی اور دل کا آئینہ صاف ہو گیا لیکن گزشتہ برسوں میںگردوغبار کی دبیز تہیں چڑھ آئی تھیں اور INNER INSPIRATION کے چشمے برابر خشک ہو رہے تھے ۔ جیسے بارش نہ ہونے سے سڑک کے کنارے دو رویہ درخت مٹی سے اٹ جاتے ہیں۔ ہرے بھرے درختوں کے چہرے میلے ہو جاتے ہیں اور وہ موسم سرما کی پہلی بارش کے منتظر رہتے ہیں جو ان کا منہ دُھلا سکے ۔ میرا بیکل دل باغ وفا سے ایک جھونکے کا منتظر رہ ، جو دل کی کدورت
اے بادِ خوش کہ ازچمن دوست می وزی
برمن بوز کہ مژ دہ ریحا نم آرزو ست
نہ جانے وہ باغ کیوں خاموش تھا۔
BLOW BLOW THOU WINTER WIND
THOU ARE NOT SO UNKIND
AS MAN’S INGRATITUDE.
شیکسپیئر کا یہ سانیٹ انٹرمیڈیٹ کے کورس کا حصہ تھا، اس زمانے میں میں سوچتاتھا، بھلا کہ کیا بات تھی ، موسم سرما کی سرد ہوا ﺅ تم اتنی نامہربان نہیں جتنی انسان کی احسان فراموشی!
اور اب میں کہتاہوں ۔ جنوری کی نا مہربان یخ بستہ ہواﺅ تم چلتی رہو، تمھاری چبھن وقتی ہے، طعن و تشنیع کی کسک دیر تک رہتی ہے۔ زندگی نے مجھے سب کچھ دیا لیکن میں نے گل بوٹے اور کانٹے چنے ، خیر کوئی بات نہیں۔ فلاسفر ہیو یر ایک جگہ لکھتے ہیں ”انسان کا ہاتھ ہمیشہ دو جیبوں کی طرف بڑھنا چاہئے، دائیں جیب میں یہ الفاظ ہوں “ یہ سب کچھ میرے لئے ہے۔ میرے لئے ہی اس جہان کی تخلیق ہوئی ۔“ اور بائیں جیب میں ”میں مشت خاک کے سوا کچھ نہیں۔“
شاید اس میں کسی کا دوش نہ ہو ۔ مروایام شیریں چشمے مکد رہو جاتے ہیں۔ سہانے سپنے دھندلا جاتے ہیں۔ پھر کوئی ستارا نہیں اُبھرتا، کوئی سورج طلوع نہیں ہوتا۔
سر شام جوسیر کو نکلا تھا تو دہکی ہوئی شفق سنو لانے لگی تھی جیسے دھیر ے دھیرے شعلوں پہ راکھ غالب آجائے، نہر کا ساکت پانی ایک طویل تالاب بن گیا تھا، ایک طرف بجلی کے کھمبوں اور سرد سہی کا عکس تھا۔ دوسرے کنارے سفیدے کے نوخیز پودوں کی نازک ٹہنیاں تھیں ،لیکن شفق کی لالی کا عکس ، لکڑی کا سبک پل ، پھولدار ٹہنیاں اور تناور درختوں کے بوڑھے تنے سب غیر مانوس تھے، محجوب آسمان پہ تیسری کا چاند بھی نظر سے نہ گزرا۔ اب تھوڑی دیر میں یونیورسٹی کلاک دس کا گجر بجائے گا۔ میں اپنے تھان کو لوٹ آﺅں گا۔ قالین اور پڑوں والے” تھان میں وہی روزمرہ کی زندگی ہوگی ۔ میں پکاروں گی“ ویمی ، ویمی ، ۔۔۔ومی می می می !“ اور تین سالہ بچے کی کلکاریاںہوں گی جو ہاتھ پھیلاکے چلائے گا۔ ”میرے ابو آگئے ، “ اور میری آغوش میں آجائے گا، انسانی زندگی مین ایک اور رات دن کے میان حائل ہو جائے گی ، پھر ایک نیا دن جنم لے گااور یہ لامتناہی سلسلہ چلتا رہے گا۔ حتی ٰ کہ ایک روز ہمیں نیند آجائے گی ، گہری میٹھی نیند جس میں کوئی مخل نہ ہو سکے گا۔
کار زارِ زیست میں جہاں سو د وزیاں کی جنگ جاری ہے وہاں موت سے سمجھوتہ کرلینا بڑی بات ہے۔ میں انہی خیالات میں سرگرداں تھا ، نیلگوں آسمان پہ بے ضررسالکہ ابررواں ، زمستاں کی چمکیلی دھوپ، نکھر اہوا موسم ، ثور و شعب سے دور پر سکوں ماحول اور اپنی پسندیدہ کتاب جیسے دنیا کے غم کا دل سے کا نٹا نکل گیا ہو۔ یا چاندنی میں نہائی ہوئی برف پوش پہاڑیاں اور رات گئے ان پر سیمیں تاروں کا رقص، حسن پیکراں اور میں اس طلسم میں اسیر جیسے میں بھی ان کرنوں کی طرح غیر مرٹی ہوں ۔ اس حس بیکراں کا جزو ہوں ۔ لیکن راتوں رات فرار کی کیفیت کافور ہوگئی ۔سرگردانی سے نجات حاصل کرنا ایک مہل بات بن کے رہ گئی اور یہ صداقت ایک حقیقت بن کے جلوہ گر ہوگئی کہ حق کی خاطر جان کی بازی لگا دینا ہی اصل زندگی ہے۔
دفتاََ زمانہ بدل گیا، زمین آسمان بدل گئے، جنگ کے شعلے بھڑک اُٹھے ، توپوں کی گھن گرج پر دروازے تک آگئی ۔ ۶ ستمبر کی صبح معصوم بچے خوشی خوشی بغل میں بستہ دابے سکول پہنچ چکے تھے، وہ اور ان کے ماں باپ اس سے قطعاََ بے خبر تھے کہ رات کے آخری حصے میں عروس البلاد لاہور پر تین اطراف سے حملہ ہو چکا ہے۔ دشمن نے اعلان جنگ کئے بغیر بین الاقوامی حدود پہ یورش کر رہی تھی، اس کا خیال تھا، یہ ایک کامیاب شبخون ہوگا۔ حسین نہروں اور سرسبز کھیتوں سے گھرا ہوا لاہور معصوم بچے کی طرح مسکرا رہا تھا، شاداں و فرحاں زندگی رواں دواں تھی ، اس قیامت خیز ہنگامے سے بے خبر جو اس کے نواح میں پرورش پا رہا تھا، اس بات سے بے خبر کہ نواحی دیہاتوں میں ہندوستانی افواج نے قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
شام تک تو زندگی کی ہمک تھی ، چہل پہل تھی،۔۔۔۔۔۔ ہرے بھرے گاﺅں راستے بستے گھر ، معصوم بچوں کے قہقہے ، جوانی کے میلے ٹھیلے ، بڑے بوڑھوں کے حقے کی گڑ گڑاہٹ اور چوپال کے قصے کہانیاں ۔۔۔۔۔۔پھر آن کی آن میں یہ سب کچھ جھلس دینے والے لاوے کی زد میں تھا، ایک آگ کا دریا ، دشمن نے ٹینکوں و توپوں اورمشین گنوں سے لیس ہو کر رات کی تاریکی میں بارڈر کے دیہاتوں پہ دھاوا بول دیا تھا۔ بیکس لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی اور بارڈر کے قصبات ”فتح “ کر لیے ، رات کے گہرے سناٹے میں گاﺅں کے دیوارو در پر ، شجر و حجر پر، قبرستان ایسی گہری بسیط خاموشی چھا گئی ۔ افسردہ ماتم کناں خامشی، جیسے زندگی کی آخری رمق سسک سسک کر خاموش ہوچکی ہو۔
ادھر ہمارے جوان لاہور کے دفاع کے لئے آگے بڑھے ۔ وفاشعاربیویوں کے خاوند توتلی زبان سے بات کرنے والے بچوں کے باپ بہنوں کی آنکھ کے تارے ،گولیوں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتے گئے ، میدان دعا میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ، جوان اور افسر آگے ہی بڑھتے گئے ، ٹینک کی آتشبازی اور توپ کے گولوں سے بے پرواہ ، بیوی بچوں کے خیال سے بے نیاز ،دنیا و مافیہا سے بے خبر ارض پاک پہ قربان ہونے والوں کے سامنے غنیم کی برتر فوج بے بس ہو کے رہ گئی ، دشمن کے ناپاک ہاتھ لاہور کو نہ چھو سکے۔
لاہور رابجان برادبر خریدہ ایم
جب میں نے پہلی مرتبہ نور جہاں کا یہ شعر پڑھا تھا
لاہور رابجان برابر خریدہ ایم
©©جاں و ادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
تو اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے تھے ، میں نے سوچا تھا ، صر ف جان دے ڈالنے سے تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ نورجہاں کے خواب کی تعبیر ساڑھے تین سو سال بعد پوری ہوئی جب پاکستان کے فرزند لاہو رپہ پروانہ وار نثار ہوگئے تاکہ وہ شمع ہمیشہ فروزاں رہے۔
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
اب سوچتاہوں اشارہ کس جانب ہے، شہداءکی جنت یا شہر جنت نظیر ۔۔۔ لاہور۔
چونڈہ کا محاذ آج خاموش ہے، ٹینکوں کی آتش بار فولاد ی لہریں ہمارے سجیلے جوانوں کے عزم آہنیں سے ٹکرا کے اپنا زور کھو چکیں ۔ دس سال ادھر دھرتی کے سینے کو چیرتا ہوا سیلاب یہاں سے گزرا تھا تو سو جانیں تلف ہو جانے سے راتوں کی نیند اُچٹ گئی تھی۔ آج ایک اور سیل سے اس مقدس سر زمین کا سینہ چھلنی ہے۔ یہ سیل سچیت گڑھ کی جانب سے ابھرااور بھر پور دیہاتوں ۔۔۔۔سرسبز ٹیلوں اور لہلہاتے کھیتوں کو روندتاہوا ایک عفریت کی طرح چونڈہ کے میدان میں اپنے شعلہ بار نتھتے پھیلائے پاکستان کے وسیع میدانوں کو للچاتی نظروں سے دیکھ رہاتھا۔ یہ وہی سیالکوٹ ہے جہاں دس سال ادھر جنرل ایوب خاں نے کہا تھا،ہمارے ملک میں وسعت نہیں ، ہم جنگ میں پیچھے نہیں ہٹ سکتے ، ہمیں موذی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ کیل کانٹے سے لیس فوج کی ضرورت ہے جو دشمن کی پیش قدمی روک دے ۔۔۔۔ اور دنیا نے دیکھ لیا کہ ایک زبردست حملے سے مغربی پاکستان کو دو حصوں میں منقسم کرنے کا منصوبہ خاک میں ملا دیا گیا۔ یہاں پاکستان کو سب سے بڑی اخلاقی فتح نصیب ہوئی ۔ تعداد میں تین گناہ دشمن کی فوقیت ختم کردی گئی ۔ یہ جنگ غنیم کی مسلح افواج کے لئے ”داٹر لو“ ثابت ہوئی ۔ مادی طاقت وہ سیل نہیں روک سکتی تھی، جذبے کی بے پناہ قوت ہی اس کی مدافعت کرسکتی تھی۔
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ چونڈہ میں لڑی گئی ۔ پھر وہ وقت آیا جب میدان کار زار جہاں لوہے سے لوہا ٹکرا یا تھا سینچورین ٹینکوں سے پٹا پڑا تھا۔ یہ ۷۱ پونا ہار س ایسی رجمنٹوں کے ٹینک تھے ۔ دوپہر کے سورج کی شعاعیں ہندوستانی ٹینک کمانڈرز سکے ستے ہوئے چہرے پر پڑ رہی تھیں جو اپنی سیٹوں سے چپک کے رہ گئے تھے، مکئی اور دھان کے کھیت سینکڑوں بکتر بند گاڑیوں کی نقل و حرکت سے پامال تھے۔ صدسالہ بڑکے درخت توپ کے گولوں سے زمیں بوس تھے، اب مغموم جھاڑیوں کے سائے میں شہدا حیات جاودواں کی آغوش میں ہیں۔ ازل سے ابد تک کی وسعتیں اپنے دامن میں سمیٹے ابدی راحتوں سے ہم کنار ہیں ۔ یہ کھیت میرے جانے پہچانے ہیں ۔ ۵۵۹۱ئ کے سیلاب کے بعد میرا ان راہوں سے بار بار گزر ہوا۔ کبھی گھوڑے نے یہ راستہ طے کیا، کبھی جیپ نے ان پگڈنڈیوں کو پاٹا، کبھی ریلوے سے ٹرالی کی کھٹ کھٹا کھٹ کھٹ کھٹا کھٹ نے ایک پڑاﺅ سے دوسرے پڑاﺅ تک پہنچایا۔اب جو جنگ کے شعلے سرد پڑچکے تو میرے ندیم بتا
رہ رہ کے جھومتے ہیں آموں کے باغ اب بھی جلتے ہیں جنگلوں میں دھندلے چراغ اب بھی
محفوظ تو ہیں اب تک طوفان کارواں سے ترشی ہوئی وہ راہیں کھیتوں کے درمیاں سے
چھائی ہوئی ہیں دل پر کیوں بدلیاں محن کی
مجروح تو نہیں ہیں صبحیں وطن کی۔
ہندوستان کی اٹھارہ سال کی جنگ کی تیاریاں سترہ روز جنگ میں ملیا مٹ ہو گئیں اور دشمن نہ خم خورد درندے کی طرح اپنے زخم چاٹنے لگا۔ اپنی خفت مٹانے کے لئے اسے کیاکیا حیلے تراشنے پڑے۔ لاہور ہمارا نصب العین نہ تھا۔ ہمیں سیالکوٹ سے کیا واسطہ تھا، ہم تو اکھنور سے انخلا چاہتے تھے۔
ہندوستانی نیتاﺅں نے کہا ہم نے یہ کبھی نہیں چاہا کہ لاہور یا سیالکوٹ کو فتح کرلیں ،عروس البلاد لاہور A GLITTERING PRIZE ۔ جب ہم لاہور پہ قابض ہوجائیں گے تو پاکستان گھٹنے ٹیک دے گا۔ ہم من مانی شرطیں منوائیں گے۔ ایک غیر ملکی نامہ نگار لکھتاہے کہ پاکستان پر چڑھائی کی خبر سنتے ہی فیروزپور کے لوگ فتح کے نشے میں پیش ازوقت سر شار گلی کوچوں مین چاچنے لگے لیکن چند روز بعد وزیر دفاع نے لوک سبھا میں اعلان کیا کہ فیروز پور پر توپوں کے گولے پڑ رہے ہیں تو ایوان پہ مردنی چھائی ہوئی تھی اور حزب مخالف نے اس خبر کا سواگت ایک طنز آمیز خاموشی سے کیا۔
تین طرف سے بھر پور حملے کے باوجود لاہور فتح کرنا نہیں چاہتے تھے تو پھر وہ کیا چاہتے تھے؟ وہ چاہتے تھے کہ زندہ دلان لاہور کی بذلہ سنجیوں پہ مہر سکوت لگ جائے۔ یہ میلے ٹھیلے ختم ہوجائیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ رستے بستے گھرانوں کا سکون لوٹ لیں اور معصوم بچوں کی کلکاریاں اور دلہنوں کا سہاگ ! ہندوستانی نیتاﺅں کے قول اور فعل میں کتنا تضاد ہے۔ اس کا ثبوت ہندوستانی فوجیں سرحدی دیہاتوں میں دے چکی تھیں، وہ چاہتے تھے کہ ہمارے معبدوں سے اذان کی صدا بلند نہ ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہو کر معصوم بچے مارے مارے پھریں اور ان کا کوئی پرسان حال نہ ہو ، بلکتے بچے اپنے ننھے دل میں ایک مبہم آرزو لیے کہ شاید کہیں ماں باپ کا شفیق چہرہ نظر پڑجائے ۔ شاید کسی اجنبی چہرے میں ہمدردی کی رمق نظر آجائے۔۔۔۔اور یوں ہندی سیناﺅں کی سفاکی اور بربریت کے جواز میں عالمی رائے عامہ کے سامنے یہ عذر پیش کیا جاتاکہ لاہور کے لوگوں نے ہمارے فوجی منصوبوں کے خلاف تعرض کیا تھا ہم انہیں من مانی کاروائی کی اجازت نہیں دے سکتے تھے ، انہوں نے چاہا تھا کہ بادشاہی مسجد میں گھوڑے باندھ دئیے جائیں اور مسجد کے مینار پھر وہ منظر دیکھیں جب صحن مسجد مقتل بناتھا اور ساری رات مسلمان قیدی ذبح ہوتے رہے تھے یا ۷۴۹۱ءکے اس خونیں باب کو پھر دہرایا جائے جب سارا مشرقی پاکستان پنجاب لالہ زار بن گیا تھا اور نہتے لوگوں کے قافلوں کوختم کرکے ہمارے ”دوستوں “نے اسے بہادری پہ محمول کیا تھا، وہ ہماری خوشیوں میں زہر گھولنے آئے تھے، وہ آبِ حیات مکدر کرنے آئے تھے لیکن چشمہ حیواں کا اندھیرا تیرہ بجتی بن کے ان کے راستے میں حائل ہوگیا۔
آتش بار فولاد کا یہ طوفان گو تم بدھ کی سرزمین سے اٹھا، اسی سرزمین سے ہاں گو تم نے امن و آتشی کا یہ پیغام سنایا تھا، وہ سر زمین جو اقوام عالم میں آہسناکی علمبردار ہے، کسی غلط فہمی کی بنا پر انہوں نے بسمارک کے مشہور مقولے پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا تھا” ہم قضیوں کا فیصلہ گفت و شنید اور جمہوری طریقوں سے نہیں تلوار اور لہو سے ہوتاہے ۔۔۔۔ ہمارے فولادی ہتھیار ہمارے دشمنوں کا خون “۔جب لاہور تین طرف سے محصور ہو چکا اور سیالکوٹ پہ بھر پور حملے کی تیاری مکمل ہو چکی تو ڈاکٹر رادھا کرشنن کی آواز سنائی دی ۔”ہم یدھ کرنے نہیں آئے ۔ ہمیں پاکستانی عوام سے کوئی کد نہیں، ہم نے تو اعلان جنگ تک نہیں کیا، ہمارا ان کا خون کا رشتہ ہے۔ ہم بگڑی دشا سدھارنے آئے ہیں ، یہ جھگڑا اصول کا ہے ، ایک خطہ زمیں کا نہیں ۔۔۔۔“ یہ طویل دیا کھیان اس وقت جب ہندوستان کے سرما سینک لاہور اور سیالکوٹ کے پر سکون قربوں میں ہزار ہا نہتے دیہاتیوں کو نہ تیغ کر رہے تھے ۔ راشٹر پتی بڑے اپد یشک بن کے آئے، انہوں نے بز غم خود کرشن مہاراج کا روپ دھارا تھا لیکن وہ ارجن کہاں تھاجس کے لئے یہ اپدیش دیا گیا تھا۔ وہ دروپدی کون تھی جسے سالہا سال سر بازار رسوا کیا گیا، وہ کشمیر کی حسین وادی تونہ تھی؟خون کا رشتہ؟ لیکن ہم زخم التفات کھائے ہوئے تھے ۔ ہم جانتے تھے کہ آتشی کے یہ پھول خونچکاں ہیں ۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا،” ہم جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ ہماری سرزمین میں سیکولرزم پروان چڑھی ہے، اگر ہمیں شکست ہوئی تو ایشیا بھر میں روشنیاں گل ہو جائیں گی۔“ ماڈرن انڈیا سیکولرزم کا گہوارہ ، اسرائیل سے جاپان تک جمہوریت کا واحد علمبردار ، رواداری اور اخلاقی اقدار کا مرگھٹ کیسی روشنی ؟ کشمیر میں جلتے گھروں کی روشنی جسے دیکھ کر تمھارے فوجی اورجن سنگھی تالیاں پیٹتے ہیں ۔ انسانی مشعلوں کی روشنی جو تم نے تاحد نظر روشن رکھی ہیں ۔ یہ کیسی روشنی تھی جس سے چاروں اور ایسا گھمبیر اندھیرا چھا گیا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سمجھائی نہیں دیتا، تعصب اور تنگ نظری کااندھیرا۔یہ کیسی شکست تھی جو ایک قوم کو زیر دست پہ ہاتھ اٹھانے اور بالاد ست کے چرن چھونے پہ مجبور کرے ۔ جن بلوانوں کی خون آشام تلوار نہتوں کے خون میں ڈوبی ہو جنہوں نے بیکس عورتوں پہ انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہوں ، انہیں یہ دعوے کہاں زیب دیتے ہیں؟
میں نے سوچا داکٹر رادھا کرشنن اک مہا پرش ہیں ، ایک عظیم فلسفی ، انہوں نے ایسی باتیں کیسے کہہ ڈالیں ۔ پھر مجھ پر یہ جانکاہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اس میں ان کا دوش نہ تھا، ایک اداس عفریت کی طرح روح ہندوستان ان پہ سایہ افگن تھی ، سورج گرہن کی طرح منحوس ، منو مہاراج ، تفرقے کا بیج بونے والا، اونچ نیچ ذات کے فتنے کا خالق ، شودروں کے حق میں ”قاہر بے دوزخ ، اور بے محشر“۔ اگر دیدوں کا بھجن کسی شودر کے کان میں پڑجائے تو اس کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دو تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو ۔ مقدس الفاظ میچھوں کے لئے نہیں ، اس پہ تو برہمن کیاجارہ داری ہے جس روز یہ چیز جاتی رہے گی ، ہندومت کی روح مرجائے گی ،کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ سب ہاتھ سے نکل جائے گا۔ برہمن جاتی کا محسن اعظم شنکر اچاریہ ، بدھ مذہب کا قلع قمع کرنے والا بدھوں کو ہندومت کے حلقے میں لے لو اگر وہ انکار کریں تو تہہ تیغ کردو۔ اور یوں شنکر اچاریہ جن سنگھیوں کے روحانی ، مورث اعلیٰ تھے، مکروفریب پہ مبنی چانکیہ کی ڈپلو میسی جس کے سامنے میکادلی پانی بھر تاہے۔ وہ ڈپلومیسی جس سے بھار ت کی سرکار دن رات فیض یاب ہوتی ہے، یہ پر چھائیاں ڈاکٹر رادھا کرشنن پر پڑرہی ہیں۔ وہ اس سے کیسے بچ سکتے تھے، وہ تو محض ایک سمبل ہیں صدیوں قرنوں کی مکاری ، عیاری اور بالادستی کا ، مکاری اور بالادستی جو رگ رگ میں جاری و ساری ہے۔
حذر اے چیرہ ستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
اور میں نے سوچا۔۔رادھا کرشنن اک مہا فلسفی ، راون اک مہا ودیار تھی، ابلیس اک برا عالم ۔۔ایسے گیانی سے فریب دی کی باتیں کہلوانا ، ہندوستان کا کمال ہے،لیکن اس آواز کے پیچھے ہندوستان کا ہزار ہا سال پرانا تمدن بھی تو ہے، فنون لطیفہ میں کمالات، لطیف ترین حیات کی عکاسی ، بہترین شاہکار ، نقاشی ، مصوری اور سنگتراشی کے نوادر ، راگ راگنیاں ،لیکن ارواح خبیثہ کے سامنے نازک حیات کی پیش نہیں چلتی ، راگنی کی نبضیں ڈوب جاتی ہیں ۔ یہ ظلم و ستم دیکھ دیکھ کر مندروں میں تراشیدہ اصنام کی بے خواب آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ مظلوموں کی آہ بکا اگنی کنڈ میں بھسم ہو کے رہ گئی ، کالی ماتا کے چرنوں میں خون کا تالاب لبالب بھرا ہے ۔
اقوام عالم کے لئے اس میں ایک سبق مضمر ہے کہ کیسے بظاہر نیک اور سادہ لوگ بڑی جگہ پہ پہنچ کے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں طاقت ہے، وہ اپنے آپ کو تہذیب کو عائد کردہ قیو د سے آزاد سمجھتے ہیں ۔ ان کی نظروں میں اخلاقی اقدار کی وقعت باقی نہیں رہتی ۔
ایک چیز ادب کے معیار سے گر کر پروپیگنڈا بن سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی چیز ادب میں جگہ پائے گی۔ نا تراشیدہ الفاظ میں حق کی بات کہہ دینا یا مکروریا کو تارحویرو ورنگ میںسمو کے پیش کرنا، اندھےری رات کے سناٹے میں شنجون مارنے والی سیناﺅں کی بوٹوں کی چاپ، ہبکیسوںکا لہوچاٹنے والی نوک سنگین یا حق کے راستے میں بہنے والا جوان و گرم خُون؟
ان حالات میں لکھنے والے کا کیا فرض ہے؟ یہ صحیح ہے کہ اُسے غیر جانبدار رہنا چاہیے ۔اسے جذبات کے تنددھارے میں بہہ نہیں جانا چاہیے۔ اس کی کسوٹی ،ابدی،اقدار،اس کی پرکھ انسانیت ،لیکن میں کب تک انسان دوستی کا لبادہ اوڑھے رہوں کشمیریوں پہ ظلم کے پہاڑ ڈھائے جائیں اور میری زبان گنگ ہے ہند ی سنیائیں میر گلستان کو،تاخت و تاراج کرتی ہوئی چوروں کی طرح دبے پاﺅں بڑھتی چلی آئیں اور میں خاموش رہوں کہ کوئی رام پجاری خفا نہ ہو جائے۔
یہ کیسا رام راجیہ ہے جہاںکوچن کا پاس نہیں؟
کہ کیسا رام راجیہ ہے جہا عورت کی عصمت کوڑیوں کے مول بکتی ہے؟
یہ کیسا رام راجیہ ہے جہا ہر طاقتور نے ظلم و تعدی کے جھنڈے گاڑے ہیں؟
کشمیر کی حسین وادی جو صدیوں شعراءکے تخیل کا مرکز رہی آج اس کے نیلگوں آسمان اور سیمابی آبشار کشمیریوں کی قسمت پہ آنسو بہا رہے ہیں،اس المیہ کی ذمہ داری کس پر ہے؟
بین الاقوامی خوش سگالی؟جب پاکستان اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہا تھا تو ہمارے طاقتور حلیف خاموشی سے یہ تماشا دیکھا کیے،دوش نردوش،ظلم انصاف ، یہ لفظوں کا الٹ پھیر انھیںان اقدار سے قطعاً دلچسپی نہ تھی ان کے نزدیک وفا داری بشرط استواری اک بے معنی چیز تھی یہ چند کروڑ نفوس نقشے پہ یہ زمین کے ٹکڑے ان کی کیا حقیقت ہے بساط عالم پہ ان مہروں کی کیا حقیقت ہے یہ فرزیں ہے اور یہ پیادہ شاطر نے سوچا تھا کہ پیادہ مات کھا جائے گا ہم انھیں ممنوں کرنے سے معذور رہے اپ شاید وہ از سرنو بازی ترتیب دے رہا ہے۔
عشائیہ پا میرا فرنگی مہمان مصر تھا کہ مغرب اب تشدّدو مظالم کی داستانوں سے متا ثر نہیں ہوتا اسے اصرار تھا کہ پاکستان کو ان لرزہ خیز مظالم کے دہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ جو ہندوستانی افواج نے کشمیری عورتوں کے حق میں روار رکھے۔ نازیوں کے مظالم، ہیروشیما ،فلسطین،الجیریا۔کانگو اور اب کشمیر کا کہنا تھا کہ یہ قصّے سن کے دنیا کا دل نہیں پگھلتا، دنیا سنگدل ہو چکی ہے ایک موقر جریدہ بھی رقم طراز ہوا تھا۔
AT THE U.N THE QUESTION OF
KASHMIR IS A CRASHING BORE
ضمیر مغرب مردہ ہو چکا، وہاں سے انصاف کی توقع نہیں ،لیکن تہذیب مغرب کا کیا ہوگا وہ تہذیب جو اہل مغرب کے سوا باقی سب کو انسانیت کے دائرے سے خارج سمجھتی ہے۔جب دو سال ادھر مغربی جرمنی میں تین کان کن زیر زمین پھنس گئے تھے تو انگلستان اور یورپ کے اخبارات میں سرورق کوئی اور سرخی نظر نہ آتی تھی۔اس واقعہ نے مغربی دنیا کے لیے معرکہ بیم ورجاکی صورت اختیار کر لی تھی، کوئی آواز آرہی ہے یا نہیں؟کیا یہ زندگی کی رمق باقی ہے؟اب سرنگ کھودی جا رہی ہے
ٓ Tappingکی صدا آرہی ہے اب نالی کے ذریعے خوراک پہنچائی جارہی ہے۔۔۔۔۔ تین جرمن کان کن!
فیلڈمارشل منٹگمری کے چینی رہنماﺅں کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں انھیں اعتراف ہے کہ انقلاب کے چین نے بے پناہ ترقی کی ہے انھیں چینیوںسے ہمدردی بھی ہے ،لیکن وہ یہ بات سوچ کر سخت متفکر ہو جاتے ہیں کہ چن سالوں میں جب یہ پچھترکروڑ لوگ سو کروڑ کی زندہ اور منظم قو م کی حیثت سے اقوام عالم کی صف میں آکھڑے ہوں گے تو تہذیب مغرب کا کیا ہوگا؟
لیکن میں بہت دور نکل آیا میں تو غازیوں کی بات کررہا تھااور شہدا کی کمانڈوز جان ہتھیلی پہ رکھ کے دشمن کے فوجی ٹھکانوں میں گھس جانے والے کمانڈوز جن کے خوف سے ہندوستان کے یونٹ اور آفیسرز میس لرزہ براندام رہے۔ وہ مٹھی بھر لوگ جنھوں نے ٹینکوں اور توپوں کا سیلاب گھنٹوں روکے رکھا۔ وہ لارنس نائیک جس نے گولیوں کی بوچھاڑ میں ہڈیارہ کا پل اڑا دیا ، وہ جانفروش جس نے نتہائی نیچی پرواز کرکے اسلحہ اور بارود سے بھری ٹرین کے پرخچے اڑا دیے اور خود بھی
پھر نہ دیکھا کچھ ،بحر اک شعلہ پر پیچ وتاب
وہ کرنل جس نے اسی جوانوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں اپنے نصب العین کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ وہ یاران ثابت قدم جو دراز قد فصلوں میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ جب دشمن کے ٹھکانے پہ پہنچے تو صرف آدمی ساتھ تھے۔
منزل عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی
یہ رول آف آنر ختم نہیں ہوتی، تاریخ کا یہ زریں باب ختم ہونے میں نہیں آتا۔جوڑیوں،واہگہ،اٹاری،برکی ،تصور کھیم کرن ، چونڈہ، جسڑ۔۔۔۔وہ تاریخ سنہرے حروف میں لکھی جائے گی وہ تاریخ ہمارے بہادروں نے اپنے خون سے لکھی ہے لیکن سینکڑوں گمنام بہادروں کی داستان شجاعت کون لکھے گا!
زندگی بڑی پیاری ہوتی ہے کسی حادثے میں بچ جانے کے بعد آپ نے لوگو ں کو کہتے سنا ہوگا۔
IT IS GOOD TO BE ALIVE
ٰٰیہ لوگ تھے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے مسکرائے، جو دشمن پہ بڑھ بڑھ کے وار کرتے تھے۔ شوق شہادت میں زندگی کی وقعت ان کی نظر میں پر کاہ سے بیش نہ تھی وہ عظیم تحفہ جو صرف ایک بار ملتا ہے ازل سے ابد تک زمانے کے محیط بیکراں میں صرف ایک بار وہ زخمی تھے یا نڈھال لیکن ہتھیار ڈال دینے کی بجائے وہ بجلی کی طرح کوندے اور کبھی migs کا خرمن راکھ کر دیا۔ کبھی دشمن کے ٹینکوں کو تبا ہ کر کے اس کی صفوں میں کھلبلی مچادی ان کے سینوں میں کو سا شعلہ فروزاں تھا جس کی لو سے آج بھی پاکستان کا گوشہ گوشہ بقعہ نو ر بنا ہے
جہاں قاف تا قاف پر نور کرد
آج پاکستان کی مائیں ایسے بچے جننے کی دعا کرتی ہیں جو حق کی خاطر میدان ِجنگ میں جان دیں آج پاکستان کے باپ پوچھتے ہیں
”میرا بیٹابزدلوں کی طرح بھاگتا ہوا مارا گیا یا اس نے بہادروں کی طرح لڑ کے جان دی“
”شہادت سے قبل اس نے دشمن پہ بڑھ بڑھ کے وار گئے“
”الحمداللہ میرا بیٹا سر خرو ہوا۔“
ہماری آنکھوں میں غم کے نہیںفخر کے آنسو ہیں ان کی یاد کی متا ع عزیز ساری قوم کے لیے سرمایہ عزو افتخارہے کل تک اپنے غیر تھے اور آج غیر اپنوں سے بڑھ کے عزیز ہیں جب ان کا ذکر ہوتا ہے تو بیبیاں اپنے دوپٹے سنبھال لیتی ہیں عزت واحترام سے ان کی نظریں جھک جاتی ہیں یہ خون ان کی آبرو کی حفا ظت کے لیے بہا تھا۔ کوئی بھائی بھی اس سے بڑ ی قربانی دے سکتا تھا ؟کبھی ادھر جا نکلوں تو اس خاک کو آنکھوں سے لگا لوں جس میں میر ے شہید بھائیوں کا لہوجھلکتا ہے وہ خاک جو ہماری بہو بیٹیوں کی عفت کی ضامن ہے
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
تشبیہات کے چشمے خشک ہتے استعاروں کے خزانے لٹ گئے۔ مضمون آفرینی دم تو ڑ چکی۔ دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے تابڑ توڑ حملے کئے لوہے کے چنے چبوادئے ، دشمن کے چھکے چھڑا دیے ، کانٹوں تو ں لڑائی ہوئی۔۔۔ یہ محاروے میر ارد گرد بکھرے ہیں لیکن میری تشنگی کم نہیں ہوتی۔ میں غازیوں اور شہید بھائیوں کا حق ادا نہیں کر پاتا
ہم نے اپنے شہید ا للہ کو سونپ دئیے وہی ان کے مقام سے باخبر ہے، وہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم ان کا احسان نہیں چکا سکتے۔
شہید باری تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر کہیں گے۔ ہم نے لاہو ر کے مرغزار دشمن کے خون میں نہلا دئیے، ہم نے سیالکوٹ کے زمّردیں فرش کو ارغوانی چادر اڑھا دی ۔ بار تعالیٰ ہم ناموس دینِ مصطفی کے محافظ تھے۔ ہم حملہ آوروںکو کیسے گزرنے دیتے ۔ اس زمین کا چپہ چپہ ہمارے لیے سجدہ گاہ تھی، تیرے ارشاد کے مطابق ہم ان کے راستے میں سیسہ پگھلا ئی ہوئی دیوار بن گئے۔ ہم نے ٹینک اپنے اوپر سے گزار دئیے۔ہم نے نیز سے کی انی سینے پہ سہی۔ ہم جذبہ عشق سے سر شار تھے۔ اس لیے کہ تیری راہ میں یہ بھی راحت تھی۔ ہم نے انموں موتی تیرے نام پہ نچھاور کردئیے۔ ہم میں وہ سجیلے خو برو بھی تھے جن کی مسیں ابھی بھیگ رہی تھیں۔ جن کی ماﺅ ں اور بہنوں نے جی بھر کے انہیں وردی پہنے بھی نہ دیکھا تھا لیکن ان کے لیے وہ لمحہ عالیہ آن پہنچا تھا عشق عظیم کی دولت سے ہمکنار ہونے کی ساعت آن پہنچی تھی اقبال نے اک لمحہ کرب و ا ضطراب میں کہا تھا۔:
کون سی وادی میںہے کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہءسخت جاں
عشق بلا خیز کا قافلہءسخت جاں منزل تک آن پہنچا تھا۔
جب دس کروڑ انسانوں نے اپنے قائد کے خطاب پر بیک آواز لبّیک کہا، جب وہ ایک مقدّس فریضہ کی ادائیگی میں اپنی عزیز ترین متاع لٹانے کے لیے تیا ہو گئے تو میں نے سوچا کہ یہ کتنی بھول تھی کہ میں تنہا ہوں، لذت آشنا ئی چشیدہ یہ لاکھوں کروڑوں انسان میرے ساتھ ہی تو ہیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ رجز پڑھتے ہوئے میدان شہاد کی طرف بڑھنا سب کی قسمت میں نہیں ہوتا۔
ُپھر ہزاروں ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ افق پر جلو ہ گر ہو ئے ان نور سے قاف تا قاف جگمگا اٹھا تھا ایک سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھی تھی۔ سہاگنوں نے اپنی افشاں چن کے محبوبہ وطن کی مانگ ستاروں سے بھر دی اب خاک وطن کا ہر ذرہ آفتاب تھا۔ یہ کس نے کہا۔ کوئی ستارا نہیں ابھرتا ، کوئی سورج طلوع نہیں ہوتا۔
اگرچہ وہ ستارے گرد کا ر راز میں روپوش ہو گئے اور کہکشاں کے جھرمٹ میں اپنا منہ چھپا لیا لیکن ان کے درخشاں کارناموں کی یاد حزر جان ہے طلوع عظمت کا یہ منظر میر ی آنکھوں نے دیکھا لیکن میں ان کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکا میں تنہا ہی رہ گیا ایک در ماندہ راہرو کی طرح تکتا ہی رہ گیا۔