خبرنامہ

کیا بھارت نے ہمیں واقعی ابری کر دیا۔۔اسداللہ غالب

لڈو بانٹیں یا بھنگڑا ڈالیں یا سجدہ شکر ادا کریں۔بھارت نے پاکستان یا اس کی کسی بھی ایجنسی کو پٹھانکوٹ دہشت گردی سے بری کر دیا ہے۔یہ بھارت کی بہت بڑی مہربانی ہے، ورنہ جس طرح وہ ممبئی حملے،پارلیمنٹ حملے، یا لال قلعے حملے کے لئے آ نکھیں بند کر کے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا چکاہے،ا سی طرح پٹھان کوٹ کی گردان بھی جاری رکھ سکتا تھا۔مگر پاکستان نے ا سے ٹیسٹ کیس بنایا اور بھارت کے الزامات کو شروع دن سے مسترد کیا اور تحقیقات میں مدد دینے کی حامی بھری، اپنی ٹیم بھی بھارت بھیجی، جس سے بھارت نے کوئی تعاون نہیں کیا ، اپنے طور پر بھی اس ٹیم کو پاکستان کے گناہ کے کوئی شواہد نہ ملے، بھارت نے عیاری کا ایک مظاہرہ یہ کیا کہ جو پولیس افسر پٹھانکوٹ دہشت گردی کی تحقیقات پر مامور تھا، ا سے آدھی رات کو فائرنگ سے قتل کر دیا،ا س واردات میں ا س بے چارے کی بیوی بھی چل بسی۔حقائق کو چھپانے کے لئے بھارت کی یہ پہلی چال نہیں تھی، اس سے قبل جو پولیس افسر سمجھوتہ ایکسپریس کی دہشت گردئی کی تفتیش پر مامور تھا،ا س ممبئی حملے کے ابتدائی لمحات میں قتل کر دیا گیا۔ یہ ہیمنت کر کرے تھا جو سمجھوتہ ایکسپریس کے ساتھ ساتھ مالی گاؤں دھماکوں کی تفتیش بھی کر رہا تھا اور دونوں وارداتوں میں بھارتی فوج کاحاضر سروس کرنل ملوث پایا گیا، اب اس شخص کو بری کر دیا گیا ہے، ظاہر جب پراسیکیوٹر کا وجود ہی ٹھکانے لگا دیا گیا تو اس کرنل کو کون گناہ گار ثابت کرتا، مگر یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ یہ کرنل برسوں تک جیل کی ہوا کھاتا رہا۔ ممبئی حملوں کے الزام میں ایک نوجوان اجمل قصاب کو بھارت میں پھانسی وی چکی ، مگر بھارتی الزامات کے نتیجے میں پاکستان نے جماعت الدعوہ کی لیڈر شپ حافظ محمد سعید، مولانا امیر حمزہ اور مولاناذکی الرحمن لکھوی کو قیدو بندمیں مبتلا کئے رکھا۔ ان کے مقدمے اعلی عدالتوں میں چلے، کسی پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔مگر یہ بے گناہ مہینوں تک قید تنہائی میں پڑے رہے۔ذکی الرحمن لکھوی کے بارے میں تو ظلم یہ ہے کہ ا نہیں عدالتیں بری کر چکی ہیں مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس فیصلے کے باوجود انہیں آزادی کا سانس لینے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔
ایک ستم ظریفی ا ور ملاحظہ فرمائیے۔ پاکستان ، اس کی فوج ا ور سیکورٹی ایجنسیوں کے خلاف اس قدر شور بھارت اورا س کامیڈیا نہیں مچاتا جس قدر ہمارا میڈیااور سول سوسائٹی انہیں مطعون کرتی ہے اور انہیں گردن زدنی قرار دیتی ہے۔ آیئے فرض کر لیں کہ ریاستی اداروں نے لشکر پال رکھے ہیں تو ہمارا میڈیا خود یہ شواہد دیکھ چکا ہے کہ بلیک واٹر کو سی آئی اے کی سرپرستی حاصل تھی ا۔ اسی لئے ا س کے کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کو جیل کی کال کوٹھری سے نکال کر لے جایا گیا۔ امریکی فوج اور سی آئی اے صرف بلیک واٹر پر ہی انحصار نہیں کرتی، درجنوں مزید کنٹریکڑ ایجنسیاں اس کے پے رول پر ہیں اور یہ صرف امریکہ سے مخصوص نہیں، دنیا کے ہر ملک نے لشکر پال رکھے ہیں تاکہ وہ اپنی پکی فوج کے بجائے انہیں دہشت گردی اور جارحیت کے لئے استعما ل کریں ا ور اگر کبھی وہ پکڑے جائیں تو یہ ممالک ان سے ہر قسم کے تعلق سے انکار کر دیتے ہیں مگر پس پردہ وہ ان کی رہائی ا ور گلو خلاصی کے لئے کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ بھارت میں درجن بھر دہشت گرد تنظیمیں ہیں جنہیں کھلم کھلا بھارتی حکومت اور فوج کی پشت پناہی حاصل ہے، مگروہاں کا میڈیا ان کی سرگرمیوں کی کبھی مذمت نہیں کرتا، یہ شوق فضول ہمی کو لاحق ہے کہ اپنے پیٹ کو ننگا کرتے ہیں ، ممبئی حملوں کے بعد اجمل قصاب کے جس نام نہاد گاؤں فرید کوٹ، پاک پتن کا پتہ بھارتی حکومت نے بتایا، وہاں ہمارے ٹی وی چینل کیمرے لے کر پہنچ گئے۔
بھارت نے تو ہمیں ایک واردات سے بری کر دیا مگر بھارت کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سینکڑوں وارداتوں سے کون بری کرے گا، ابھی تو کل بھوشن رنگے ہاتھوں پکڑا جا چکا ہے، یہ طوطابول رہا ہے ا ور اپنے ساتھیوں ، سہولت کاروں اور سرپرستوں کے نام بول رہا ہے۔کشمیر سنگھ نے پاکستان میں وارداتوں کاا عتراف کیا، اس نے یہ بھی مانا کہ مشرقی پاکستان میں اس نے مکتی باہنی کو منظم کیا اور پاک فوج کے خلاف ا سے دہشت گردی کی تربیت دی۔یہ کشمیر سنگھ با عزت طور پر بھارت واپس چلا گیا اور ہمارے ایک وفاقی وزیر نے ا سے اپنی قومی جھنڈے والی کار میں امرتسر پہنچایا۔
یہ ہے ہمارا رویہ اور ادھر بھارت کی شیطنت کا سلسلہ ہے کہ بند ہونے میں نہیں آ رہا۔
یہ تو روز روشن کی طرح حقیقت واضح ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے بنگلہ دیش کے دورے میں اعلان کیا کہ بنگلہ دیش کی تشکیل میں ا س نے بھی کردارا دا کیا بلکہ ہر بھارتی کی خواہش تھی کہ بنگلہ دیش بنے۔
اس ثبوت کے بعد جو لوگ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے مظالم کی کہانیاں گھڑتے ہیں ا ور بنگلہ دیش کی حکومت سے ا عزازات پاتے ہیں۔اسی پر بس نہیں وہ ڈھاکہ ٹی وی پر بیٹھ کر مطالبہ کرتے ہیں کہ پاک فوج کے خلاف کاروائی کی جائے ا ور انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔
اور یہ جومودی نے اعتراف جرم کیا ہے ،اس پر کو ن مطالبہ کرے گا کہ اسے ایک آزاد ملک کو دولخت کرنے کے جرم میں نشان عبرت بنایا جائے۔
پاکستا ن ا ور بھارت بد قسمتی سے ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں ، ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے ،ا سلئے پاکستان کو اسی جابرا ور جارح ہمسائے کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان اچھی ہمسائیگی کے سے تعلقات کیسے استوار ہوں ، اس کے لئے صرف مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رو سے ہنوز حل طلب ہے۔ اس کے حل کا طریقہ بھی سلامتی کونسل طے کر چکی ہے۔مگر بھارت اس حل کی طرف نہیں آتا، اس نے کشمیر پر جارحانہ قبضہ مستحکم کرنے کے لئے آٹھ لاکھ فوج وادی میں داخل کر دی ہے۔ یہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی ہے، جب تک یہ دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے، برصغیر میں تناؤ اور تصادم کی کیفیت باقی رہے گی۔
بھارت کشمیر کا مسئلہ حل کر دے، ہم مٹھائیاں بانٹیں گے، بھنگڑا ڈالیں گے ا ور سجدہ شکر ادا کریں گے۔