دربار صحافت

آغا اسلم کی ادھوری کہانی…تحریر سید عباس اطہر

ایک اُدھوری زندگی
اتوار کا دن تھا اور ہفتہ وار چھٹی کی وجہ سے میں گھرپر تھا۔ دوپہر کے وقت اطلاع ملی کہ دو معزز اصحاب مجھ سے ملنے آئے ہیں اور انہیں باہر والے کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ مجھے انہیں ملنے کیلئے بستر سے اٹھ کر باہر جانا پڑا، وہاں آغا اسلم اور ان کے ’’باس‘‘ بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا کہ میں ’’انہیں‘‘ یہ بتا کر ساتھ لایا ہوں کہ آپ کے گھر آ کر جو بھی بات کہی جائے، آپ مان لیتے ہیں۔ میں ایک بے تکلفانہ بلکہ تقریباً فحش جواب دیکر ان کے پاس بیٹھ گیا، چائے منگوائی اور پوچھا بات کیا ہے۔ آغا صاحب نے ایک خاص موضوع پر کالم لکھنے کی فرمائش کی۔ وہ مجھ سے حکومت کے ایک ایسے اقدام کی حمایت کروانا چاہتے تھے جو میرے خیال میں ٹھیک نہیں تھا۔ میں نے انکار کر دیا۔
بہت عرصے بعد ہم ایک جگہ اکٹھے بیٹھے تھے۔ صحافت اور حکومت کے محکمہ تعلقات عامہ پر بات شروع ہو گئی۔ آغا صاحب کہنے لگے کہ جس طرح آپ لوگ صحافت کے پیشے میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح میرے لئے تعلقات عامہ صرف نوکری نہیں ایک پیشہ ہے۔ جس میں، میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ مجھے کبھی مایوسی نہ ہو۔ پھر انہوں نے مجھے دو سال پرانی اتوار کا مکالمہ یاد دلایا اور کہا کہ مجھے اس روز کی ناکامی کبھی نہیں بھولے گی۔ میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ آخر آپ معاملے کے اس پہلو کو کیوں سامنے نہیں رکھتے کہ آپ کی فرمائش ہی غلط تھی۔
آغا اسلم نے پریس برانچ میں ٹرانسلیٹر کے طور پر اپنا کیرئیر شروع کیا تھا۔ اس دور میں اخبارات کیلئے پریس برانچ بہت اہم شعبہ ہوا کرتا تھا۔ وہ دوستیاں بنانے کا فن جانتے تھے اس لئے محکمہ میں اپنے سینئرز شیخ حفیظ الرحمٰن اور سید عابد علی شاہ سے ان سے بہت قریبی تعلقات تھے۔ میری اور آغا صاحب کی ابتدائی ملاقاتیں نامور مصور صادقین کی محفلوں میں ہوئیں۔ 1988ء میں جب میں نے امریکہ سے واپس آ کر نوائے وقت جوائن کیاتو آغا صاحب لاہور پولیس کے پی آر او تھے۔ تقریباً ہر روز انہیں مجھ سے کوئی نہ کوئی کام پڑتا کبھی وہ بڑی وارداتوں کو بہت زیادہ نمایاں نہ کرنے کی فرمائش کرتیتو کبھی پولیس مقابلوں کے اصلی یا جعلی ہونے کے بارے میں پولیس کے موقف کی وکالت کرتے لیکن ہر بار میرے اعتراض کے جواب میں یہ کہہ کر اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرتے کہ پبلک ریلیشنگ صرف میری نوکری ہی نہیں، پیشہ بھی ہے اور میں اپنے اس پیشے سے اتنا ہی مخلص ہوں جتنا آپ اپنے پیشے کے ساتھ۔
آغا صاحب کو بات کہنے کا ہنر بھی آتا تھا اور عجیب سی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دوستوں کی شخصیت کا حصہ بن جاتے تھے۔ مشکل میں ان کے کام آتے تھے۔ کبھی کبھار اکھڑپن کا مظاہرہ کرنے کے سوا دوستی میں بہت کچھ برداشت کر لیتے تھے۔ اتنے ان تھک تھے کہ بارہ گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کے باوجود اپنے رویوں کو قابو میں رکھتے۔
کئی سال تک وہ لاہور اور پھر لاہور ڈویژن پولیس کے پی آر او رہے۔ بے شمار لوگوں کے کام کرتے اور کراتے رہے۔ نیک نامیوں کے ساتھ کچھ بدنامیاں بھی سمیٹیں۔ پھر ڈائریکٹر نیوز کے طور پر ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کے دفتر میں تعینات ہو گئے۔ دو ماہ پہلے وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہو گئے تھے لیکن ڈی جی پی آر محی الدین احمد وانی کے اصرار پر انہیں محکمے کی ضرورت سمجھ کر کنسلٹنٹ کے طور پر کنٹریکٹ دے دیا گیا اور وہی پرانی ڈیوٹی مل گئی۔ کوئی ایک سال پہلے آغا صاحب کو شدید ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ وہ ایسی حالت میں ہسپتال لیجائے گئے کہ بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا، دل تقریباً بند تھا پھر بھی یہ معجزہ ہوا کہ نہ صرف بچ نکلے بلکہ کام پر واپس آ گئے اور دوبارہ دس بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے لگے۔ میری اور آغا صاحب کی آخری ملاقات شاید آٹھ دس دن پہلے ہوئی تھی۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اچانک میرے کمرے میں داخل ہو گئے۔ پھولی ہوئی سانس دیکھ کر میں نے انہیں کہا کہ اوپر آنے کی کیا ضرورت تھی، آپ مجھے نیچے بلا لیتے۔ سانس درست کرنے کے بعد انہوں نے مسکرا کر کہا: یار ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ سانس ہمیشہ کیلئے بند ہونے سے ایک دن پہلے جب وہ معمولی سی گڑبڑ محسوس کرنے پر ہسپتال میں داخل ہوئے تو آصف عفان کے بقول ان کا خیال تھا کہ ایک دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہو کر واپس آ جائیں گے۔ پچھلے ایک سال سے ان کا دل صرف بیس تیس فیصد کام کر رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ یہی سمجھتے تھے کہ منڈلاتی ہوئی موت کے خلاف لڑائی جیت سکتے ہیں۔ زندگی کے ادھورے کام مکمل کرنے کیلئے جینے کا ایک پختہ عزم تھا جو انہیں ہتھیار ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ بہرحال موت کے خلاف لڑائی خواہشوں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ ہر آدمی جانے کیلئے ہی دنیا میں آتا ہے اور مرضی سے اپنی رخصتی کا وقت مقرر نہیں کر سکتا۔
یہ ایک بے وقت موت تھی۔ بڑے بیٹے کے سوا کوئی برسر روزگار نہیں۔ ایک بیٹا سپیشل چائلڈ کے زمرے میں آتا ہے جس کا باپ کے سوا کوئی آسرا نہیں تھا۔ ایک بیٹا روزگار کی تلاش میں ہے۔ ایک بیٹی باقی ہے جس کے ہاتھ پیلے نہیں کر سکے۔ 40 سالہ ملازمت کا واحد حاصل ایک گھر ہے جو کڑی دھوپ میں اپنے درخت کے سائے سے محروم ہو گیا۔ زندگی کے حوالے سے آغا صاحب کی کہانی یوں ہے۔
تیرا ہم نے دیکھا کیا
تجھ سے کیا ملا ہم کو
درد کی کڑی راتیں
اور دن مشقت کے
ماہ و سال حسرت کے
اس کہانی کا عنوان ہے۔ He died with his boots on.
آغا صاحب ان خوش قسمت لوگوں میں شامل نہیں ہو سکے جو اپنے خاندانوں کی فکر سے آزاد ہو کر آخری چند سال اس اطمینان میں جیتے ہیں کہ ان کا کوئی کام ادھورا نہیں رہا۔ آغا صاحب کا تقریباً سب کچھ ادھورا رہ گیا بلکہ زندگی ہی اتنی ادھوری رہ گئی کہ اب جب وہ منظر سے ہٹے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ زندگی محض ایک رکھ رکھاؤ تھا۔ ایک ایسے آدمی کا رکھ رکھاؤ۔ جس کے ہاتھ خالی تھے اور جسم پر ایک ملازمت کے سوا کوئی لباس نہیں تھا۔
ہفتے کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا ڈنر تھا۔ انہوں نے چین کے دورے کی تفصیل سنائی، کچھ ایسے سوالوں کے جواب بھی دئیے جو صرف اس لئے کئے جاتے ہیں کہ پنجاب میں سیاسی کشیدگی اور تنازعے کا ماحول پیدا کیا جائے۔ جب میاں صاحب گفتگو ختم کرکے جانے لگے تو عطا الحق قاسمی، ہارون رشید اور میں نے ان سے درخواست کی کہ آغا اسلم کے بیٹے کیلئے نوکری کا بندوبست کر دیں، خاندان کو معقول مالی امداد دیں اور ان کی پنشن اور دوسرے واجبات کے علاوہ کنسلٹنٹ کے طور پر دو ماہ سے رکی ہوئی تنخواہ ادا کروا دیں۔ انہوں نے سارے کام کرنے کا حکم جاری کر دیا تاہم 60 سالہ زندگی اور 40 سالہ بامشقت ملازمت کی یہ ’’شان‘‘ کی ناپائیداری دیکھ کر بہت ہی دکھ لگا جس کی چمک پہلی ہی دھوپ میں اُس کی چمک ماند پڑ گئی تھی۔
(یکم دسمبر 2008ء )