دربار صحافت

آغا شورش کاشمیری از جمیل اطہر

پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش

آغا شورش کاشمیری از جمیل اطہر

آغا عبدالکریم شورش کاشمیری کا نام زبان یا نوکِ قلم پر آتے ہی ایک ایسی ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کا خاکہ قلب و ذہن میں ابھرتا ہے جس کی سیاست اور صحافت نے کم و بیش نصف صدی تک متحدہ ہندوستان اور پھر پاکستان میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا ڈنکے کی چوٹ پر منوایا۔ آغا شورش کا شمیری کے پیکر میں مولانا ظفر علی خان ، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر اور امیر شریعت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری کی خوبیاں اور محاسن اکٹھے ہوگئے۔ وہ مجلس احراراسلام کے متحدہ ہندوستان میں سیکرٹری جنرل رہے ۔ انہوں نے مجلسِ احرارکے سرکاری ترجمان روز نامہ ’’ آزاد‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے ۔ انہوں نے مجلسِ احرار کے خیبر سے راس کماری تک عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ اُردو زبان ان کے اپنے قول کے مطابق ان کی باندی تھی ۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا ۔ مولانا ظفر علی خان کی تحریریں اور تقریریں ، مولانا ابو الکلام آزاد کی علم و دانش کی خوشبو میں بسی ہوئی نگار شات اور مجلسِ احرار کے مفکر چوہدری افضل حق کی بصیرت و فراست اور شمع ختم نبوت سے امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری کی گہری وابستگی، ان سارے اجزانے مل کر آغا شورش کاشمیری کا پیکر تخلیق کیا۔ وہ پندرہ سولہ برس کے نوجوان تھے جب انہوں نے مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا ، پھر وہ احرار کی صفوں میں شامل ہوگئے جو اس وقت مسلمانوں کو آزادی کے لئے بیدار کرنے کا فریضہ نہایت جرأت و بہادری سے ادا کررہے تھے۔احرار میں شمولیت کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے سکون و عافیت کی زندگی کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کرلیاہے اور اب ہتھکڑیاں آپ کا زیور اور جیل آپ کا مسکن ہوگی ۔ آغا شورش کاشمیری نے خارزارِ سیاست میں قدم رکھا تو جیل کی مہیب دیواروں نے انہیں اپنی بانہوں میں لے لیا۔ پنجاب کی کئی جیلیں اس امر کی گواہ ہیں کہ آغا شورش کاشمیری نے قیدو بند کی صعوبتیں بڑی بہادری سے جھیلیں۔
میرے دل میں آغاشورش کاشمیری کی قدرو منزلت کا جذبہ اس وقت قوی تر ہونا شروع ہوا جب 1953ء کی تحریک ختمِ نبوت میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے سٹیشن پر ایک اجتماع میں قادیانیوں اور تختِ ربوہ کے خلاف ایک نظم پڑھنے کی پاداش میں مولانا محمد عمر لدھیانوی اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک رہنما عبدالحمید پہلوان اور سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لینے کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لاہور روانہ ہونے والے چار رضا کاروں کے ساتھ مجھے بھی گرفتار کرلیا گیا۔ان سب لوگوں کو ہتھکڑیاں لگادی گئیں مگر میرے بازو اتنے کمزور تھے کہ وہ ہتھکڑیوں کی گرفت میں نہیں آسکتے تھے۔ اس بنا پر میرے ہاتھوں کو ایک رسے سے باندھ دیا گیا اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو پولیس کی ایک گاڑی میں بٹھا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ تھانہ میں لے جایا گیا۔ میرا اپنا خیال تو یہ تھا کہ تھانے لے جا کر مجھے چھوڑ دیا جائے گا مگر وہاں پہلے تلاشی ہوئی ، میری جیب سے تمام نظمیں نکال لی گئیں اور پھر ہم سب کو حوالات میں بند کردیا گیا ۔ یہیں میرے قابلِ احترام رہنماؤں مولانا محمد عمرلدھیانوی اور جناب عبدالحمید پہلوان نے مجھے ’’شورش‘‘ کا لقب دے دیا اور جب میں رہا ہوا تو میرا استقبال کرنے والوں نے مجھے شورش زندہ باد کے نعروں سے نوازا ۔ نام تو میرا میرے والدین نے تاج الدین رکھا تھا لیکن گرفتاری اور رہائی کے ان مراحل نے مجھے پہلے ’’ تاج شورش‘‘ اور پھر ’’شورش پاکستانی‘‘ بنادیا ۔ میں جب بھی لائل پور جاتا ، جھنگ بازار میں پنے چچا قاضی علاؤ الدین سرہندی کی دکان پر ضرور حاضری دیتا جو مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور میں بھی ان کا بہت احترام کرتا تھا ۔ ان کے پاس جانے میں ایک کشش آغا شورش کاشمیری کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ بھی تھا جو ان کے پاس نہایت باقاعدگی سے آتا تھا اوروہ بے صبری سے اس کا انتظار کرتے تھے ۔ چٹان میں آغا شورش کاشمیری کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریریں ، اسرار بصری کے قلمی نام سے ’’قلم قتلے‘‘ کے زیر عنوان ان کی نشترزنی اور ’’چٹان‘‘ کے سرورق کے اندرونی صفحہ پر آغا صاحب کی سیاسی غزل یا نظم بہت ہی خاصے کی چیزیں ہوتی تھیں ۔ ان کے ادارۂ تحریر میں مولانا محمد وارث کا مل ، ابو صالح اصلاحی ، علی سفیان آفاقی ، مسکین حجازی، ریاض شاہد ، تجمل حسین ، حمید اصغر نجید اور بہت سے دوسرے قلم کار شامل تھے ۔ اس وقت لاہور سے ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ اور ’’قندیل‘‘ بعد ازاں ’’شہاب‘‘ اور ’’ نصرت‘‘شائع ہوتے تھے ۔ ’’اقدام ‘‘ کے ساتھ آغا شورش کا شمیری کے’’ چٹان ‘‘ کی ہمیشہ معرکہ آرائی رہی ۔ ظہور الحسن ڈار جو ’’ زمیندار‘‘ کے ادارہ تحریر سے وابستہ رہے تھے اور وہاں ’’اندھیرے اور اُجالے‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والا ان کا کالم بہت معروف تھا ، ان کے جریدہ’’ایشیا‘‘ اور آغا صاحب کے درمیان بھی بہت ٹکراؤ رہا اور پھر سب سے بڑا معرکہ آغا صاحب کے ’’چٹان‘‘ اور جناب کوثر نیازی کے ہفت روزہ ’’ شہاب‘‘ میں ہوا جہاں کوثر صاحب کے ساتھ نذیر ناجی اور بائیں بازو کے کئی اور صحافی’’چٹان‘‘ پر حملے کے لئے میدان میں آچکے تھے۔
جب میں 1958ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور گیا اور ’’آفاق‘‘ میں کام کرنے لگا تو چھ مہینے ، سال کے بعد ہی مصطفی صادق اور میں اپنا اخبار نکالنے کے لئے پر تولنے لگے۔ ہماری ساری کوشش کے باوجود ہمیں روزانہ اخبار نکالنے کا ڈیکلریشن نہ مل سکا ۔ اس دوران ہم نے ’’پاک نیوز سروس‘‘ کے نام سے ایک خبررساں ایجنسی اور ’’پاک ایڈورٹائزر‘‘ کے نام سے ایک اشتہاری ادارہ قائم کیا۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے حوالے سے ہمارا آغا شورش کاشمیری سے بھی رابطہ ہوا اور لائل پور کے کئی صنعتی اداروں کے اشتہارہماری ایجنسی کی وساطت سے ’’ چٹان‘‘ میں شائع ہونے لگے اور اسی تعلق کے بعد آغا شورش کاشمیری نے مجھے ( شورش پاکستانی ) لائل پور میں ’’چٹان ‘‘ کا نمائندہ مقرر کردیا۔ آغا شورش کاشمیری تقریباً ہر ہفتے بلکہ بعض اوقات ہفتے میں دو دو ، تین تین بار مصطفی صادق صاحب کے نام محبت و الفت میں ڈوبے خطوط لکھتے جن کا آغاز عام طورپر حبیبی فی اللہ یااأی مکرم و محترم کے الفاظ سے ہوتا تھا ۔ دسمبر1959ء میں ہمیں دو تین سال کی صبر آزما جدو جہد کے بعد حکومت نے ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ کا ڈیکلریشن دینے کی منظوری دے دی ہفت روزہ وفاق کے اجراء کا اشتہار رو ز نامہ نوائے وقت کے صفحہ اول پر شائع ہوا ۔ اشتہار میں یہ الفاظ بھی شامل تھے :’’ ادارہ تحریر! مصطفی صادق شورش پاکستانی‘‘ ۔ یہ اشتہار شائع ہوتے ہی آغا شورش کا شمیری مصطفی صادق صاحب اور مجھ سے سخت ناراض ہوگئے۔ شاید ان کا خیال ہو کہ ہم اپنی ایجنسی پاک ایڈورٹائزرز کے ذریعے ’’چٹان‘‘ کو جو اشتہارات دے رہے تھے اب وہ ’’وفاق‘‘ میں شائع ہونے لگیں گے یا ممکن ہے کوئی اور وجہ ہو! ہمیں آغا شورش کا شمیری کا رد عمل مشہور شاعر جناب حافظ لدھیانوی کی وساطت سے ملا جو لاہور میں آغا صاحب سے مل کر لائل پور واپس آئے تھے ۔ ہمیں حافظ صاحب کی بات کا یقین نہ آیا تو حافظ صاحب نے پیش کش کی کہ وہ ابھی ٹیلی فون کرکے آغا صاحب سے ہماری بات کرائے دیتے ہیں۔ حافظ صاحب نے آغا شورش کا شمیری سے تمہیدی گفتگو کے بعد ریسیور مصطفی صادق صاحب کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ آغا صاحب سخت برہمی کی کیفیت میں تھے اور انہوں نے اپنے جذبات کا کُھل کر اظہار بھی کردیا جس سے یہی بات سامنے آئی کہ انہیں یہ اندیشہ لاحق ہے کہ ہم نے شاید ’’چٹان‘‘ کے مقابلے کے لئے ’’وفاق‘‘ کا اجراء کیا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی ۔ ہم ہفت روزہ نکالنا ہی نہیں چاہتے تھے ، ہم دونوں کا تجربہ روزانہ اخبار کا تھا اور ہم روزنامہ’’ آفاق‘‘ چھوڑ کر روز نامہ ’’وفاق‘‘ نکالنے کے ہی خواہاں تھے مگر حکومت نے ہمیں روز نامہ کا ڈیکلریشن دینے کے بجائے ہفت روزہ کا ڈیکلریشن دے دیا اور اسی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی ہم ہفت روزہ کا اجراء کررہے تھے ۔آغا صاحب نے زبانی ناراضی پر اکتفانہ کیا اور ’’ چٹان‘‘ کے اگلے شمارے میں ’’ لائل پور میں جعلی شورش‘‘ کے عنوان سے ایک شذرہ بھی سپرد قلم کردیا۔ آغا صاحب کی اس ناراضی کا علاج قریبی دوستوں کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ شورش پاکستانی کا قلمی نام ترک کردیا جائے ۔ ہمارے بزرگ مولانا عبدالرحیم اشرف نے نیا نام جمیل اطہر تجویز کیا اور ایک نیا اشتہار جاری کیا گیا کہ روز نامہ ’’وفاق ‘‘ مصطفی صادق اور جمیل اطہر کی زیر ادارت شائع ہوگا۔ اس طرح آغا شورش کاشمیری سے کاروباری تعلقات کا یہ دور ناخوشگوار طریقے سے اختتام کو پہنچا ۔ دوسرے دور کا آغاز مارچ 1965ء میں ہوا جب ہم نے لاہور سے روز نامہ ’’وفاق ‘‘ کا ایڈیشن شائع کرنے کا پروگرام بنایا اور وفاق کے دفتر کے لئے ہم نے جگہ تلاش کی آغا شورش کاشمیری کی ملکیتی چٹان بلڈنگ میں ، جہاں سے ہفت روزہ ’’چٹان ‘‘ بھی نکلتا تھا اور گراؤنڈ فلور پر چٹان پر نٹنگ پریس واقع تھا ۔ اب یہاں آغا صاحب مالک مکان تھے اور ہم ان کے کرایہ دار ! یہ تعلق1971ء تک قائم رہا اور ان چھ سال کے دوران اس ناخوشگوار واقعہ کا کوئی ذکر آغا صاحب کی زبان پر آیا اور نہ مصطفی صادق اور میری زبان پر ۔ ہمارا اخبار آغا صاحب کے پریس میں چھپتا رہا ۔ انہوں نے کبھی ’’وفاق‘‘ میں چھپنے والے مواد پر کوئی اعتراض نہ کیا اور ہمیں پُوری آزادی عمل میسر رہی ۔ صرف ایک مرتبہ ان کے چہیتے کارندے نے ’’ وفاق‘‘ کی کاپی واپس کردی کیونکہ اس روز آغا شورش کا شمیری کی گرفتاری کی خبر آخری صفحہ پر سنگل کالم میں دی گئی تھی ۔ اس کارندے نے کہاکہ آپ یہ خبر صفحہ اول پر شائع کریں اور کم از کم دو کالم کی ہو۔ ہم نے یہ بات مان لی اور اخبار کی طباعت میں حائل ہونے والی رکاوٹ دُور ہوگئی۔
آغا شورش کاشمیری کی یہ گرفتاری 1965ء کے آخر میں اس وقت کے گورنر ، جنرل (ر) محمد موسیٰ کے احکام پر عمل میں آئی ۔ آغا صاحب نے یُوں تو بے شمار سیاسی نظمیں کہیں لیکن 1965ء کی جنگ میں بعض دوسرے شعراء کی طرح ان کے لکھے ہوئے ملّی نغمے اور قومی نغمے زبان زدِعام تھے ۔ کہتے ہیں کہ جب آغا صاحب کو شاہراہ قائد اعظم پر واقع ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرکے لے جایا جارہا تھا تو قریب ہی واقع ایک ہوٹل پر ریڈیو سے ان کا لکھا ہوا نغمہ فضا میں حب الوطنی کے سُر بکھیر رہا تھا :
مشرقی بنگال کے آتش بجا نوں کو سلام
میں نے دیکھا ہے انہیں مانندِ تیغ بے نیام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
حوصلے ان کے جواں تھے ولولے ان کے مدام
اُن کا نعرہ انتقام، انتقام، انتقام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
اس زمانے میں حنین و بدر کی آواز ہیں
یہ مجاہد قرنِ اول کے نشانہ باز ہیں
یہ دلاور سر زمین پاک کے دم ساز ہیں
ان کے سینوں میں دھڑکتا ہے محمدؐ کا کلام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
آغا صاحب عملی سیاست سے تو لاتعلق رہے لیکن ان کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ حکمرانوں کی ناراضی کا اکثر و بیشتر شکار بنتا رہا تھا ۔ ’’وفاق‘‘ کے ایڈیٹر اور میرے دوست مصطفی صادق صاحب کو ایسے معرکوں میں دخل دینے کا خوب ملکہ حاصل تھا ۔ حکومت کی آغاصاحب سے ناراضی کے ایک دور میں وہ کھینچ کھانچ کر آغا صاحب کو اس وقت کے سیکرٹری محکمہ اطلاعات پنجاب جناب مسعود الرؤف کے پاس لے گئے ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی کوشش اور مسعود الرؤف صاحب کی میانہ روی کے باعث آغا صاحب کچھ نرم پڑجائیں گے مگر آغا صاحب نے اپنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی اُنگلی کودوسرے ہاتھ کے انگوٹھے سے دباتے ہوئے مسعود الرؤف صاحب سے کہا ۔۔۔یہ اُنگلی میرے جسم کا کمزور ترین حصہ ہے ، آپ میرے دل و دماغ تو کیا اور میرا سر تو کجا ، میری اس اُنگلی کو بھی نہیں جُھکا سکتے۔۔۔ ! پھر ’’چٹان‘‘ میں ’’الحمدللہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک ادارتی شذرہ نے اس وقت کے صوبائی وزیر اطلاعات سید احمد سعید کرمانی کو مشتعل کردیا۔ انہوں نے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کی اشاعت پر پابندی اور آغاصاحب کے ’’چٹان‘‘ پرنٹنگ پریس ‘‘ کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا ۔ اس پابندی کے باعث ’’چٹان ‘‘ کی اشاعت تو بند ہوگئی مگر ’’چٹان‘‘ کا پریس حکومت کے کاری وار کی ضرب سے محفوظ رہا کیونکہ آغا صاحب نے حفظِ ماتقدم کے طورپر پریس کی اصل مشینیں بلڈنگ کے مرکزی ہال میں منتقل کردی تھیں اور ان مشینوں کے لئے ’’مسعود پرنٹرز‘‘ کے نام سے الگ ڈیکلریشن حاصل کرلیا تھا ۔ اس طرح جب پولیس چٹان پریس ضبط کرنے آئی تو ان کی بلڈنگ کے ایک کمرے پر چٹان پرنٹنگ پریس کا بورڈ لکھا دیکھا جس میں موجود ایک خستہ حال مشین حکومت کے احکام کے تحت ضبط کرلی گئی ۔ اِدھر مرکزی حکومت ڈھاکہ سے شائع ہونے والے بنگلہ اخبار روز نامہ ’’ اتفاق‘‘ کے خلاف پابندیاں عائد کررہی تھی ، اس طرح ’’چٹان‘‘ پر پابندی اور ’’اتفاق‘‘ کی اشاعت میں پیدا کی جانے والی رکاوٹیں صحافیوں کی ملک گیر تحریک کا حصہ بن گئیں۔ آغا صاحب کی ساری زندگی سیاسی و صحافتی داؤ پیچ لڑاتے گزر ی تھی ۔ وہ اور ان کا جریدہ’’چٹان‘‘ اس وقت جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے خلاف تیز و تند مضامین شائع کررہے تھے۔ آغا صاحب نے راتوں رات لائل پور سے اپنے دوست مولانا تاج محمود کو لاہور بُلایا جنہوں نے جمعیت علماء اسلام کی کانفرنس جو دوروز سے موچی دروازہ میں جاری تھی ، کے آخری اجلاس میں آغا شورش کاشمیری کی شرکت اور خطاب کے لئے راہ ہموار کردی ۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔ آغا صاحب نے اپنی تقریر میں احمد سعید کرمانی کے وہ لتے لئے کہ تو بہ ہی بھلی۔۔۔ ! ان کی آتش نوائی کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ مجمع سے یہ کہتے کہ کرمانی صاحب کے مکان یا دفتر پر حملہ کردو تو یہ آگ بگولا اجتماع اس کام میں ایک منٹ کی تاخیر نہ کرتا۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں نے اسی جلسہ میں یہ اعلان کردیا کہ وہ اگلے روز ’’چٹان‘‘پر پابندی کے خلاف علماء کا جلوس نکالیں گے ۔ یہ جلوس موچی دروازہ کی جلسہ گاہ سے شروع ہوا اور چٹان بلڈنگ سے ہوتا ہوا جی پی او چوک پہنچ کر منتشرہوا۔ راتوں رات ’’ چٹان‘‘ میں شائع ہونے والے شذرہ ’’ الحمد للہ‘‘ کے بیج تیار کرائے گئے جنہیں جلوس شروع ہونے پر ملک بھر سے آئے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کے بازوؤں پر باندھنے کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ شذرہ’’چٹان‘‘ کے مدیر معاون جناب حمید اصغر نجید نے سپرد قلم کیا تھا ۔ اتفاق یہ ہے کہ ’’ الحمد للہ‘‘ نجید صاحب کا تکیہ کلام بھی تھا اور ’’چٹان‘‘ پر پابندی اور چٹان پریس کی ضبطی کے بعد نجید صاحب ’’الحمد للہ‘‘ کے لقب سے ہی جانے جاتے تھے ۔ اگر ایک صحافی نے کسی مجلس میں نجید صاحب کا نام لیا تو ایک دوسرے صحافی نے ساتھ ہی الحمدللہ کہہ کر ان کا نام مکمل کردیا۔ اب مصطفی صادق صاحب پھر بیچ میں آئے ، انہوں نے لاہور کے تمام قابل ذکرایڈیٹروں سے حکومت کے نام ایک اپیل پر دستخط کرائے جس میں آغا صاحب کی خراب صحت کے باعث ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ۔آغا صاحب ذیابیطس کے باعث جیل سے میو ہسپتال کے اے وی ایچ وارڈ میں منتقل کئے جا چکے تھے ۔ انہیں سیاسی لحاظ سے حکمرانوں کو آنکھیں دکھانے کا خوب تجربہ تھا ۔ انہوں نے ہسپتال میں کچھ کھانے پینے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں تا مرگ بھوک ہڑتال شروع کررہا ہوں۔ ہم ’’ وفاق‘‘ میں روزانہ ان کی صحت کی حالت کے بارے میں خبریں شائع کرتے تھے جس پر آغا صاحب بہت خوش ہوتے تھے مگر تیسرے دن ان کی خوشی سخت ناراضگی میں تبدیل ہوگئی کیونکہ ہمارے رپورٹر نصر اللہ غلزئی (مرحوم)نے’’ وفاق‘‘ میں یہ خبر شائع کردی کہ آج آغا شورش کا شمیری کی بھوک ہڑتال تیسرے دن میں داخل ہوگئی ہے اور ان کی حالت کل کے مقابلے میں بہتر ہے ۔ بہر حال اس اپیل کے چوبیس گھنٹے بعد حکومت نے آغا شورش کاشمیری کو رہا کردیا۔ جناب مجید نظامی کی تجویز پر مصطفی صادق صاحب نے دیال سنگھ مینشن میں واقع شیزان ریسٹورنٹ میں ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا۔ مجید نظامی صاحب نے مصطفی صادق صاحب سے یہ بھی کہا تھا کہ دیکھنا ! آغا صاحب وہاں کوئی تقریر نہ کردیں اور معاملہ پھر خراب نہ ہوجائے ، مصطفی صادق صاحب نے نظامی صاحب کو یقین دلایا کہ انشاء اللہ آغا صاحب کی تقریر نہیں ہوگی۔ مجید نظامی صاحب نے ایک اور شرط بھی عائد کی تھی کہ ایک صاحب کو آغا صاحب کے ساتھ استقبالیہ میں نہ آنے دیا جائے، سوپا پڑ بیل کر اس امر کو بھی یقینی بنایا گیا کہ وہ صاحب شریک نہ ہوں، استقبالیہ میں فنگر فش چائے اور دیگر لوازمات سے مہمانوں کی تواضع کی گئی ۔ مصطفی صادق صاحب نے استقبالیہ کے آخر میں آغا صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ۔ ان کی رہائی کے لئے اپیل کرنے پر ایڈیٹروں کی تعریف کی اور حکومت کی طرف سے ان کی رہائی کے احکام جاری کرنے پر ارباب حکومت کا شکریہ ادا کیا ۔ آغا صاحب کا خیال تھا کہ مصطفی صادق صاحب کے بعد انہیں اظہار خیال کی دعوت دی جائے گی لیکن مصطفی صادق صاحب کے اس اعلان نے آغا صاحب کو حیران و پریشان کردیا کہ ’’ حضرات اب یہ محفل اختتام کو پہنچتی ہے ‘‘۔ آغا صاحب کی زبان سے ناراضی کے ایک دو فقرے بھی سرزد ہوئے مگر مجید نظامی آنکھوں ہی آنکھوں میں مصطفی صادق صاحب کو اس اقدام پر داد دے رہے تھے ۔
1967ء میں ہم نے چٹان بلڈنگ چھوڑ کر لاہور ہوٹل کے سامنے اس جگہ پر وفاق کا دفتر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جہاں اب منورا ہوٹل ہے۔ ہم نے دس ہزار روپے میں ایک ایسی مشین بھی خریدلی تھی جس پر پرنٹنگ پریس ہونے کی ’’تہمت‘‘ ہی تھی کیونکہ اس کے ایک پُرزے سے کوئی گائے بندھی ہوئی تھی اور دوسرے پرزے سے بکری۔۔۔ مشین بیچنے والے نے کہا تھا کہ قیمت اپنی مرضی کی دے دیں اور ادائیگی اپنی سہولت کے مطابق کردیں مگر یہ مشین لے کر میرے پاس واپس نہ آئیں کہ یہ چلی نہیں۔۔۔! اور پھر جب یہ مشین چلی تو آس پاس کی تمام عمارتیں ، مکانات اس کی گھن گرج سے لرز اٹھے اور جن محلہ داروں کے برتن ٹُوٹ گئے تھے اور کارنسیں اُلٹ گئی تھیں وہ اکٹھے ہوگئے ، ان میں سے ایک زیادہ غصیلے آدمی نے کہا ’’آپ کو پتہ نہیں میں ’’ انشورنس کاشمیری‘‘ کا بھانجا ہوں‘‘۔ وہ غصہ کی شدت میں شورش کا شمیری کو انشورنس کا شمیری کہہ رہے تھے ۔۔۔ بہر حال ان سب حضرات کی منت سماجت کی گئی۔ادھر آغا صاحب کو یہ علم ہوا کہ ہم ان کی بلڈنگ سے جارہے ہیں اور اپنا پریس بھی لگا رہے ہیں تو انہوں نے مجھے طلب کیا اور نہایت ہی ملائم لہجہ میں فرمانے لگے :’’ یار جمیل! یہ آپ کیا کررہے ہیں۔۔۔ آپ ایک ایسی بلڈنگ میں جارہے ہیں جہاں چند ماہ پہلے قتل ہوچکا ہے اور کوئی اس منحوس بلڈنگ میں جاتا نہیں، اوپر سے آپ نے ایک ایسی مشین لے لی جو قیامت تک چلے گی نہیں۔۔۔ بہتر تھا لاہور کے بجائے سر گودھا یارحیم یار خان میں لگالیتے ‘‘۔۔۔ میں نے ان کو بتایا کہ اب تو ہم فیصلہ کرچکے ہیں اور آپ کے نہایت ممنون ہیں کہ آپ نے طویل عرصہ تک ہمیں یہاں دفتر بنانے اور چٹان پریس سے اخبار چھپوانے کی سہولتیں دیئے رکھیں ، اس طرح تقریباً چار سال چٹان ’’ بلڈنگ میں گزارنے کے بعد ہم لاہور ہوٹل کے سامنے ایک بلڈنگ میں چلے گئے ۔ آغا شورش کاشمیری کی زندگی معرکہ آرائیوں کا مرقع تھی ، ان کے قلم میں بہت بانک پن تھا ۔ ان کی زبان میں بھی اللہ تعالیٰ نے نیا سے نیا نکتہ پیدا کرنے کی صلاحیت و دیعت کررکھی تھی ۔ ظہور الحسن ڈار، میم شین اور جناب کوثر نیازی سے ان کی قلمی جنگیں تو ہماری صحافت کی تاریخ کا اہم باب ہیں مگر’’ چٹان‘‘ اور ’’وفاق‘‘ میں بھی ایک ایسا ہی معرکہ برپا ہوتے ہوتے رہ گیا ۔ احرار رہنما مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری کی رحلت کے بعد دھوبی گھاٹ لائل پور کی تاریخی جلسہ گاہ میں مرحوم قائد کی یاد تازہ کرنے کے لئے ایک جلسہ ہوا جس میں آغا شورش کاشمیری نے بھی تقریر کی ، یہ ایک تاریخی اجتماع تھا مگر آغا صاحب نے اپنی تقریر میں یہاں لوگوں کو رُلانے کے بجائے ہنسانے کا فریضہ زیادہ ادا کیا اور اپنی تقریر کو اشعار سے مزین کئے رکھا ۔ مصطفی صادق نے ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ میں اپنے تأثرات لکھے اور یہ فقرہ چُست کیا کہ ’’آغا صاحب نے اپنی تقریر میں جو اشعار پڑھے ان میں سے کچھ بر محل تھے مگر زیادہ تر بے محل ‘‘! اور انہوں نے ایک المیہ تقریب کو ایک طربیہ تقریب میں تبدیل کردیا ۔ یہ تاثرات شائع ہونا تھے کہ آغا صاحب کا پارہ چڑھ گیا اور مولانا تاج محمود اور حافظ لدھیانوی جیسے دوستوں نے بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا اور اس طرح ایک صحافتی معرکہ ہوتے ہوتے رہ گیا ۔
جناب مصطفی صادق نے ہفت روزہ ’’ وفاق‘‘ کے شمارہ 8 اکتوبر 1961ء میں ’’ میں بھی حاضر تھا وہاں ‘‘ کے عنوان سے وفاقی کے قلمی نام سے امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری کی یاد میں منعقد ہ اُس تعزیتی جلسہ کی رُوداد لکھی تھی جس پر آغا صاحب نے برہمی کا اظہار کیا تھا ۔ یہ مضمون پُورے کا پُورا ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
لاہور جیسے اہم سیاسی مرکز اور تاریخی شہر میں پندرہ سال کی طویل مدت گزارنے کے باوجود مجھے کبھی یہ موقع نہ ملا تھا کہ سابق مجلس احرار کے لیڈروں کی تقریریں اس تفصیل کے ساتھ سُن سکوں جس تفصیل کے ساتھ لائل پور کے اس تعزیتی جلسہ میں ان حضرات کی تقریریں سننے کا موقع ملا جو 29 ستمبرکو سید عطا ء اللہ شاہ بخاری مرحوم کی یاد میں منعقد ہوا تھا اور جس میں بارہ بجے دوپہر سے لے کر۔۔۔ معمولی سے وقفہ کے ساتھ گیارہ بجے رات تک متعدد احرار رہنماؤں اور بعض غیر احراری مقررین نے خطاب کیا ۔ سابق احرار رہنماؤں میں قاضی احسان احمد شجاع آبادی ، مولانا مظہر علی اظہر ، ماسٹر تاج الدین انصاری ، شیخ حسام الدین اور آغا شورش کاشمیری اور غیر احراری حضرات میں مولانا عبدالرحیم اشرف اور جناب خلیق قریشی کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں ۔ ان کے علاوہ بعض مقرر ایسے بھی تھے جن کے بارے میں۔۔۔ معلومات کی کمی کے باعث ۔۔۔ قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تعزیتی جلسہ کا یہ پہلو مجھے سب سے زیادہ پسند آیا کہ ان مقررین نے بھی جنہیں احرار سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا عام مسلمانوں کی طرح بخاری مرحوم کی بعض نمایاں خوبیوں اور صلاحیتوں کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیا ، بالخصوص مولانا عبدالرحیم اشرف کے ان الفاظ نے تو حاضرین سے خوب خوب داد حاصل کی کہ
’’ہماری حالت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ ہیرا جب عام لوگوں کو دستیاب ہوتا ہے تو اس کی قدر نہیں کی جاتی لیکن جب وہ جوہری کے پاس چلا جاتا ہے تو اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے‘‘
مولانا اشرف صاحب نے باتوں باتوں میں منتظمین جلسہ کو یہ تلقین بھی کی کہ بخاری مرحوم کی یاد منانے کا صحیح حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے مشن سے وہی قلبی وابستگی اور ذہنی لگاؤپیدا کیا جائے جس نے اس عظیم کردار کی عظمت میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا۔ آپ نے کہا بخاری مرحوم احقاقِ حق اور ابطال باطل کا فرض انجام دینے میں کبھی بھی کسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے تھے ۔ آپ نے مزید کہا کہ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس قسم کے تعزیتی جلسے اسی صُورت میں مفید ہوسکتے ہیں اگر ہر قسم کی ذاتی منفعت ، سیاسی تگڑم بازی اور دنیا وی حرص و ہوس سے یکسر بالا تر رہتے ہوئے خالص دینی بنیادوں پرا پنی اور ملتِ اسلامیہ کی اصلاح کا ٹھوس اور مقدس فریضہ انجام دینے کا عزم کیا جائے۔
چنانچہ اس تقریر کے بعد قاضی احسان احمد شجاع آبادی نے اپنے بصیرت افروز خطاب میں واضح طورپر اس امر کا اظہار کیا کہ اپنے اس جلیل القدر رہنما کی یاد منانے سے ہماری غرض و غایت صرف یہ ہے کہ ہم اس مشن اور مقصدِ زیست کو اپنانے کا عہد کریں جس کی خاطر حضرت بخاری رحمتہ اللہ علیہ زندگی بھر سرگرم عمل رہے۔ قاضی صاحب کی تقریر معمول کے مطابق اگر چہ عوامی رنگ لئے ہوئے تھی لیکن تعزیتی جلسہ کے شایان شان سنجیدگی اور متانت اس تقریر میں مسلسل بحال رہی اور تبلیغی نقطۂ نظر سے بھی اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ قاضی صاحب کی تقریریں جذبات سے کھیلنے اور الفاظ کی شعبدہ بازی سے محض و قتی طورپر مجمع کو متاثر کرنے والی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں سوزو گداز کا پہلو غالب ہوتا ہے جو ہمیشہ دیر پا اثرات کا حامل ہوتا ہے چنانچہ ان کی یہ تقریر بھی انہیں خوبیوں کی آئینہ دار تھی۔
مولانا اشرف اور قاضی صاحب کی تقریریں نماز جمعہ کے بعد دن کے اجلاس میں ہوئیں ۔ باقی اہم تقریر یں رات کے اجلاس میں ہوئیں۔ ضلعی انتظامیہ نے چونکہ اصولی طورپر یہ طے کررکھا ہے کہ گیارہ بجے شب کے بعد لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت کسی صُورت بھی نہیں ہونی چاہئے اس لئے یہ جلسہ بھی اسی پابندی کی زد میںآتا تھا۔۔۔ مقررین کی تعداد زیادہ تھی ۔۔۔ اور وقت محدود ۔۔۔ اور پھر بعض بر خوردار قسم کے نو آموز اور نو خیز مقرر ایسے بھی فہرست میں موجود تھے جنہیں شاید سامعین کے ذوق اور منتظمین کی مجبوری سے زیادہ تقریر سنانے کی فکر تھی ۔ منتظمین بے بس تھے ۔ وہ ان کا دامن پکڑ پکڑ کر بیٹھ جانے کو کہہ رہے تھے اور یہ حضرات ’’ بس چند منٹ اور‘‘ کہنے کے بعد پھر سلسلۂ تقریر شروع کردیتے تھے ۔ ان تقریروں میں تصنع سے بھر پور لفاظی سخت بوریت کا باعث بنتی رہی ۔
رات کے اجلاس کی اصل رونق آغا شورش کاشمیری ہی تھے جو سب سے آخر میں بولے اور خوب بولے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ خوب گرجے۔ اگر چہ برسے کسی پر بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آغا صاحب نے شعر کی زبان میں شاہ جی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی بڑی ہی قابل قدر کوشش کی ۔ موصوف نے چوٹی کے بعض شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار۔۔۔ کچھ بر محل کچھ بے محل ۔۔۔ اس کثرت سے سنائے کہ بعض لوگ بالخصوص خلیق قریشی اور حافظ لدھیانوی واقعی جُھوم رہے تھے ۔ شورش صاحب اگر یہ تقریر پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال یا وائی ایم سی اے ہال لاہور میں کرتے تو اس کی قدر و قیمت یہاں کے مقابلے میں شاید کچھ زیادہ ہوتی اس لئے کہ اکثر اشعار اس جلسہ کے عام حاضرین کے لئے ناقابل فہم تھے ، یہی وجہ تھی کہ خلیق قریشی صاحب کو ہی بار بار داد دینی پڑتی اور شورش صاحب کے مخاطب نے غالباً اس احساس کے بعد کہ جلسے کا رنگ کچھ پھیکا سا ہے اپنے مخصوص پنجابی لہجہ اور گرجدار آواز میں کہا
اوہ بولو لائل پور والیو! ایتھے لٹھے دا کی بھا اے
اس پر زور دار قہقہے بلند ہوئے اور جلسے کی رونق بھی بڑھ گئی البتہ غم و الم کی وہ فضا بر قرار نہ رہ سکی جو اس جلسے کے حاضرین پر شروع ہی سے طاری تھی اور طاری رہنی بھی چاہئے تھی۔ اب آغا صاحب نے مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لئے مصرع ثانی یہ جڑدیا کہ
میں کفن دے لٹھے دا بھا پچھیا سی
اس پر رہی سہی سنجیدگی بھی جاتی رہی اور اب شورش صاحب دو چار منٹ کے لئے حاضرین کو ہنسالیتے اور پھر خلیق صاحب اور سی آئی ڈی والوں کو پکار پکار کر اشعار سنانا شروع کردیتے ۔ تقریر ختم کرتے ہوئے آغا صاحب نے حرفِ آخر کے طورپر بڑے پتے کی بات کہی اور یہی بات ان کی تقریر کا بہترین حصہ تھا ۔
آپ نے کہا :
سید عطاء اللہ شاہ بخاری سچے عاشق رسولؐ تھے ، وہ ہر معاملے میں غلطی کرسکتے تھے لیکن عشقِ رسول ؐ میں وہ آخر وقت تک ثابت قدم رہے ۔ ان کی زندگی فقرِ غیور کی زندگی تھی ۔
شاہ جی مرحوم و مغفور کے بارے میں یہ ایک ایسی رائے ہے جس سے شاید کسی کو بھی اختلاف نہ ہو۔ آغاصاحب کے الفاظ میں یہ توتھی شاہ جی کی شان۔۔۔ لیکن خود آغا صاحب اپنے اس محبوب رہنما کی تقلید کس شان سے کرنا چاہتے ہیں ۔ آغا صاحب ہی کے الفاظ میں سُن لیجئے، آپ نے کہا :
’’انہوں نے (شاہ جی نے) جو کچھ کیا ہمیں موقع ملا تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے ‘‘
آغا صاحب بُرا نہ مانیں تو ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ حضور! یہ’’ موقع ملا تو۔۔۔ سے آپ کی کیا مراد ہے ۔ ایک طرف اس شاہ جی سے بے پناہ اظہارِ عقیدت جس نے کبھی موقع تلاش کرنے میں وقت ضائع نہ کیا اور دوسری طرف یہ ڈھیلی ڈھالی سیاسی باتیں ۔ سوال یہ ہے کہ شاہ جی کی زندگی اگر ایک مشن کی تکمیل میں گزری ہے تو ’’ مشن ‘‘ کی اس بنیادی سپرٹ سے کیوں انکار کیا جارہا ہے کہ یہاں مواقع تلاش کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ہوتا ۔ مشن تو جہدِ مسلسل کا متقاضی ہوتا ہے اور پُوری زندگی کا سودا کیا کرتا ہے ،خدا جانے یہ حقیقت شورش صاحب سے کیونکر نظر انداز ہوگئی ؟
اگر جانباز مرزا ایسا کارکن ٹھوکر کھاجائے تو وہ زیادہ سے زیادہ کلماتِ اذان کی ادائیگی میں ہی غلطی کرے گا لیکن آغا شورش کاشمیری ۔۔۔ جو آئمہ احرار میں شمار ہوتے ہیں ۔۔۔ ایسے لیڈر کا بھٹک جانا پُوری جماعت کی نماز میں خلل انداز ہوسکتا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے دوست آغا شورش صاحب اس نکتہ پر غور و فکر کریں۔
رات کے اس اجلاس میں مولانا مظہر علی اظہر کی تقریر دوسرے تمام مقررین کے مقابلہ میں اس لحاظ سے زیادہ مؤثر اور دل نشین تھی کہ اس میں بعض اہم تاریخی واقعات کا تذکرہ تھا اور شاہ جی کے جذبہ حریت اور ولولۂ ایمان کی بہت عمدہ مثالیں بیان کی گئی تھیں ۔ ماسٹر تاج الدین انصاری اور شیخ حسام الدین نے بھی اپنے روایتی انداز میں جلسہ سے خطاب کیا ۔ یہاں یہ بات خاص طورپر قابل ذکر ہے کہ شاہ جی کے ان پس ماندگان میں سے کسی نے بھی ختمِ نبوت کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی ۔ اس کے برعکس ماسٹر جی تو یہاں تک کہہ گئے کہ :
’’شاہ جی کا زندگی میں ایک ہی مشن تھا اور وہ یہ کہ فرنگی ان کی زندگی میں اس سر زمین سے رخصت ہوجائے اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو وہ خود تختۂ دار پر لٹک جائیں۔۔۔ اور یہ مشن اُن کی زندگی میں پُورا ہوگیا‘‘ گویا ماسٹر جی کے نزدیک اس کے علاوہ شاہ جی کا اور کوئی مشن نہ تھا ۔ وقت کی پابندی کا احترام کرتے ہوئے یہ جلسہ رات کے گیارہ بجے پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد ، امیرِ شریعت زندہ باد کے نعروں کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔