دربار صحافت

ابو صالح اصلاحی از جمیل اطہر

پی ایس ایل فائنل اور کراچی!.

ابو صالح اصلاحی از جمیل اطہر

ابو صالح اصلاحی جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی ؒ کے دستِ راست مفسر قرآن مولانا حمیدا لدین فراہی کے شاگرِد رشید حضرت مولانا امین احسن اصلاحی کے بڑے صاحبزادے تھے۔ نہایت ذہین فطین ، نکتہ داں اور نکتہ ور، صحیح معنوں میں عالم اور دانش ور، انہوں نے اپنے والد کے بر عکس کسی مدرسہ اور خانقاہ میں کام کرنے یا جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے اپنے لئے خاردار صحافت کا انتخاب کیا۔ وہ جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار ’’تسنیم‘‘ سے وابستہ ہوئے ،پھر ’’یثرب‘‘ کے نام سے ایک ماہانہ جریدے کا اجراء کیا اور یہ جریدہ نہ چلا تو وہ آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں مدیر معاون بن گئے اور قلم قتلے کے عنوان سے ایک نہایت شگفتہ صفحہ چٹان کی زینت بننے لگا۔ جناب نسیم حجازی نے جناب عنایت اللہ سے مل کر راولپنڈی سے روز نامہ’’ کوہستان‘‘ کا اجرا کیا تو ابو صالح اصلاحی کو وہ لاہور سے راولپنڈی لے گئے اور انہیں’’ کوہستان‘‘ راولپنڈی کا ایڈیٹر مقرر کردیا گیا۔ وہ اداریہ لکھتے تھے اور ’’آج کی باتیں‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک منفردشگفتہ کالم بھی اداریے سے ملحق ہی شائع ہوتا تھا۔ جس پر لکھنے والے کا کوئی نام درج نہیں ہوتا تھا۔ ہفتے میں ایک روز اداریہ اور کالم سید عالی رضوی لکھتے تھے جو لاہور سے روز نامہ ’’کوہستان‘‘ کے اجراء کے بعد ایڈیٹر بنے، ابو صالح اصلاحی ایک بر گد کے درخت کے نیچے’’ کوہستان‘‘ کی ادارت کا فریضہ انجام دے رہے تھے ۔ اخبار کی لوح پر نگران کی حیثیت سے نسیم حجازی کا نام شائع ہو تاتھا جب کہ اخبار کے روزمرہ معاملات سے نسیم صاحب کا کوئی تعلق نہیں تھا، وہ ایبٹ آباد میں رہتے تھے اور قومی کتب خانے کے لئے تاریخی اسلامی ناول لکھتے تھے، ایک ناول نگار کی حیثیت سے ان کا بہت شہرہ تھا۔ ابو صالح اصلاحی کے قلم میں بڑی طاقت تھی، وہ دلیر اور جرأت مند بھی بلا کے تھے ۔ کوہستان میں قلم کی جولانیاں تو وہ دکھاتے تھے لیکن مجلسوں میں شہرہ نسیم حجازی کا ہوتا تھا حتیٰ کہ جناب ابو صالح اصلاحی کی موجودگی میں بھی لوگ نسیم حجازی کو کوہستان کے اداریوں اور ’’آج کی باتیں ‘‘ کے حوالے سے داددیتے تھے مگر اصلاحی صاحب کو یہ شکایت رہی کہ نسیم حجازی نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ یہ تحریر تو ابو صالح کی ہے۔ مصطفی صادق اور میں ان دنوں لائل پور میں تھے۔ 19جناح کالونی میں ہمارے اداروں پاک نیوز سروس، پاک ایڈور ٹائزرز اور ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ کے دفاتر تھے ۔ جناب ابو صالح اصلاحی نے عجیب مزاج پایا تھا، وہ سال میں ایک ماہ دفتر سے چھُٹی کرتے تھے اور اس مہینے کے 15 دن لائل پور کے قریب واقع اپنے سسرال کے ہاں گزارتے تھے۔ ان پندرہ دنوں میں ان کا یہ معمول رہتاکہ وہ 2 بجے کے قریب دفتر ’’وفاق‘‘ آجاتے ، 2 بجے کے وقت کا انتخاب انہوں نے اس وجہ سے کیا تھا کہ ا س وقت تک’’ کوہستان‘‘ راولپنڈی ڈاک کے ذریعے ہمارے دفتر میں موصول ہوجاتا تھا ۔ ایک ماہ کی رخصت پر ہونے کے باوجود وہ اخبار پر گہری نظر رکھتے تھے حتیٰ کہ وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ کوہستان میں راولپنڈی کے مشتہر اداروں کے کون کون سے اداروں کے اشتہار شائع ہوئے ہیں۔ ایک ایسے ہی موقع پر میں نے لطف لینے کے لئے ان سے پوچھا کہ اصلاحی صاحب ایڈیٹر کا کیا تعلق ہے اشتہاروں سے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں ایڈیٹر کا اشتہارات سے واقعی کوئی تعلق نہیں ہوناچاہئے مگر کچھ عرصہ پہلے عنایت اللہ صاحب ایک ڈیڑھ ماہ کے لئے لندن چلے گئے اور مجھے ادارتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انتظامی اور اشتہاری معاملات پر توجہ دینے کے لئے بھی تاکید کرگئے ۔ ان کے جانے کے بعد میں نے’’ کوہستان‘‘ اور’’ تعمیر‘‘ کا موازنہ کیا تو اتفاق سے ڈسٹرکٹ بورڈ کا ایک اشتہار ’’تعمیر‘‘ میں تو شائع ہوا تھا مگر’’ کوہستان ‘‘میں نہیں، میں نے فوراً اپنے چیف رپورٹر کو بلایا اور کہا کہ آج ہی یہ اشتہار’’ کوہستان‘‘ کے لئے حاصل کریں ۔بس وہ دن اور آج کا دن میری نظر اشتہارات پر ٹھہر ہی جاتی ہے ۔ ہمارے دفتر کے قریب ہی مولانا عبدالرحیم اشرف کی قائم کردہ جامعہ تعلیمات اسلامیہ واقع تھی جہاں ممتاز عالم دین مولانا امین احسن اصلاحی کے رفیق خاص مولانا عبدالغفار حسن حدیث کے استاد تھے ۔ ابو صالح نے ایک روز خواہش ظاہر کی کہ وہ مولانا عبدالغفار حسن سے ملنا چاہتے ہیں۔مصطفی صادق اور میں انہیں مولانا عبدالغفار حسن کے پاس لے گئے، ان دنوں ’’کوہستان‘‘ میں نئے نئے فلمی اشتہار شائع ہونا شروع ہوئے تھے ۔ مولانا عبدالغفار حسن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنی طبیعت اور مزاج کے برعکس ابو صالح اصلاحی پر ناراضگی کا اظہار کرنے لگے کہ آپ لوگ !یہ کیا کررہے ہیں ۔ ابو صالح نے اپنے مخصوص شگفتہ پیرائے میں اپنے والد کے گرامی قدر دوست کا پُورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے عرض کیا ، مولانا قارئین فلمی اشتہارات دیکھنے کے لئے دوسرے اخبار خرید تے ہیں اور ہمارے دینی کالم پڑھنے سے رہ جاتے ہیں۔ فلم دیکھنے والوں کو مولانا صدر الدین اصلاحی کے دینی کالم پڑھانے کے لئے ہم یہ اشتہار شائع کررہے ہیں ۔ مولانا کا غصہ فرو ہوگیا اور بات کسی اور طرف چل نکلی ۔ پھر مولانا رنگین صحافت پر برس پڑے جو’’ کوہستان ‘‘نے نئی نئی متعارف کرائی تھی۔ اس پر بھی ابو صالح اصلاحی نے برجستہ اپنا استدلال پیش کیا اور کہا کہ مولانا ایک زمانے میں ہمارے علماء کچے درودیوار اور خستہ حال حجروں میں طلبا کو دین کی تعلیم دیتے تھے مگر اب آپ جناح کالونی کی اس کوٹھی میں درس و تدریس کررہے ہیں۔ کل کلاں کوئی گستاخ اس تضاد پر اعتراض کر بیٹھے تو آپ کیا کریں گے؟ مولانا نے پھر ایک مسکراہٹ کے ساتھ ابے ابو صالح! کہا اور کوئی دوسرا موضوع زیر بحث آگیا۔جب ہم نے لائل پور چھوڑکر سرگودھا سے ’’وفاق‘‘ کا اجراء کیا اس وقت تک ابو صالح اصلاحی روز نامہ مشرق کے ایڈیٹر بن کر راولپنڈی سے لاہور آچکے تھے ، جس روز وہ ریل کے ذریعے راولپنڈی سے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچے تو جناب عنایت اللہ نے مشرق کے عملے کے سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا ۔ وہ کہتے تھے کہ جب ہم ایک ٹانگے میں سوار ہو کر ریلوے سٹیشن سے نسبت روڈ جارہے تھے تو راستے میں میکلوڈ روڈ پر ہم نے روز نامہ’’ زمیندار ‘‘کے دفتر کی عمارت پر زمیندار ہوٹل کا بورڈ دیکھا اور روزنامہ’’ زمیندار‘‘ کا بورڈ اس ہوٹل کے سامنے واقع گیراج پر لگا ہوا تھا ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اور عنایت اللہ صاحب نے کانوں کو ہاتھ لگا ئے اور’’ زمیندار‘‘ جیسے بڑے اخبار کے اس زوال پر اللہ کی پناہ مانگی۔
ہمارا معمول تھا کہ جب بھی ہم کسی کام سے لاہور آتے تو مشرق کے دفتر میں ابو صالح اصلاحی سے ملنے ضرور جاتے ۔وہ کہتے تھے کہ دفتر میں صفائی کرنے والے عملے کے بعد جو پہلا شخص دفتر میں داخل ہوتا ہے وہ میں ہوں۔ اس سے ان کی اخبار کے ساتھ لگن کا اظہار ہوتا تھا۔ ابو صالح بہت خوش پوش انسان تھے، ایک مرتبہ کہنے لگے کہ لباس کے معاملے میں میرا مقابلہ صرف شاہ سعود سے ہے۔ وہ ہمارے لئے چائے اور بسکٹ منگوانے کے بجائے اپنے قاصد کو بُلا کر کہتے۔ بھائی وہ میرے پھل والے کے پاس جاؤ اور وہ سارے پھل لے آؤ جو میں گھر لے جاتا ہوں ۔ ایک بار جب ہم ان کے پاس گئے تو ’’وفاق‘‘ کا تازہ پرچہ ان کے ہاتھوں میں تھا ، انہوں نے اخبار کی طباعت کا پست معیار دیکھ کر بہت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ آفسٹ طباعت کے اس دور میں آپ لیتھو پر اخبار چھاپ رہے ہیں۔ دو تین سال کے بعد کو ئی چغد ہی ہوگا جو لیتھو پر چھپا ہوا اخبار پڑھے گا۔ میں نے آفسٹ مشینوں کا کاروبار کرنے والے ایک ادارے کو آپ کا پتہ دے دیا ہے وہ آپ سے رابطہ قائم کرے گا آپ جلد از جلد وسائل اکٹھے کریں اور ایک آفسٹ مشین خریدلیں۔ جب ہم نے 1965ء میں لاہور سے روز نامہ’’ وفاق‘‘ کا اجراء کیا اور چٹان بلڈنگ میں ’’وفاق‘‘ کا دفتر قائم کیا تو اس سے اگلے روز ہم انہیں ملنے دفتر مشرق چلے گئے اور ابو صالح اصلاحی کو اپنے عزائم سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے ایک لمحہ کے ۂوقف کے بعد کہا لاہور سے شام کا اخبار نکالنے کا فیصلہ درست ہے مگر آغا شورش کا شمیری کی بلڈنگ میں دفتر قائم کرنے کا فیصلہ غلط ہے ۔ کیا آپ لوگوں کو شورش صاحب کے مزاج سے کوئی واقفیت نہیں ہے ؟ بہتر ہوگا کہ اب بھی کوئی اور جگہ لے لیں ۔ افسوس صد افسوس کہ ابو صالح اصلاحی پی آئی اے کی قاہرہ کے لئے افتتاحی پرواز میں پاکستان کے سر برآوردہ صحافیوں، ایڈیٹروں اور ٹریو لنگ ایجنسیوں کے مالکوں کے ساتھ جام شہادت نوش کر گئے۔ اپنے انتقال سے چند روز پہلے انہوں نے’’ آج کی باتیں‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں یہ لکھا تھا کہ فضائی کمپنیوں کو اپنی پروازوں میں کسی خاص پیشہ یا پیشوں سے وابستہ اشخاص کو بڑی تعداد میں اپنی پروازوں میں لے جانے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ کسی ناگہانی سانحہ کی صورت میں قوم کو بڑے نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے اور حادثہ قاہرہ میں یہی ہوا کہ بے شمار صحافی، ایڈیٹر اور ٹریولنگ ایجنٹ لقمہ اجل بن گئے ۔ مولانا امین حسن اصلاحی 1965ء میں کچا نسبت روڈ پر رہتے تھے اور سینکڑوں لوگ ابو صالح اصلاحی کی رحلت پر اپنے اپنے انداز میں ان سے تعزیت کر رہے تھے، میں بھی ان کے قریب بیٹھا ہوا تھا جہاں مصطفی صادق کو دیکھ کر مولانا اصلاحی کی آنکھیں بھیگ گئیں اور مولانا کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہوگئے ۔ ابو صالح تو قلم کا بادشاہ تھا۔