دربار صحافت

احمد ندیم قاسمی از جمیل اطہر

پی ایس ایل فائنل اور کراچی!.

احمد ندیم قاسمی از جمیل اطہر

احمد ندیم قاسمی برصغیر پاک و ہند کی معروف علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ انہوں نے شاعری‘ افسانہ نگاری، انجمن ترقی پسند مصنفین کے سیکرٹری جنرل اور ادیبوں کی ترقی پسند تحریک کے رہنما کی حیثیت سے بہت ناموری حاصل کی۔ وہ کئی ادبی رسائل‘ ادب لطیف‘ سویرا‘ نقوش اورفنون کے مدیر رہے لیکن ایک اردو روزنامے کے مدیر کی حیثیت سے قاسمی صاحب نے جو کام کیا وہ اب نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے اور اکثریت کو تو اب یاد تک نہیں کہ احمد ندیم قاسمی مارچ 1953ء سے اپریل 1959ء تک پاکستان کے سب سے بڑے ترقی پسند روزنامے ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور اس کا اردو ایڈیشن ’’امروز‘‘ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (پی پی ایل) کی ملکیت تھے جس کے مالک و مختارترقی پسند سیاسی رہنما میاں افتخار الدین تھے۔ میں نے امروز کے لئے ترقی پسند روزنامے کا لقب محض اس وجہ سے استعمال نہیں کیا کہ امروز ترقی پسندوں (کمیونسٹ اور اشتراکی نظریات کے حامل صحافیوں) کا گڑھ تھا بلکہ امروز اس وجہ سے بھی واقعی ترقی پسند اخبارکہلانے کا حق دار تھا کہ یہ جہازی سائزکے کاغذ پر شائع ہوتا تھا‘ اس کے علاوہ تمام روزنامے اس سے قدرے چھوٹے سائز پرشائع ہوتے تھے۔ یہ روزنامے پہلے سویڈن اور ناروے سے درآمد کیا جانے والا نیوز پرنٹ استعمال کرتے تھے اور جب مشرقی پاکستان کے قصبہ کُھلنا میں کاغذ کے ایک کارخانے نے نیوز پرنٹ بنانا شروع کیا توکُھلنا کے اخباری کاغذ نے سویڈن اور ناروے کے درآمدی اخباری کاغذ کی جگہ لے لی اور اُدھر امروز اور پاکستان ٹائمز سوویت یونین سے درآمد کردہ اخباری کاغذ پر چھپتے تھے اور ان کی طباعت کا معیار بھی لاہور کے دوسرے اخبارات سے قدرے بہتر تھا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا چراغ حسن حسرت کی رحلت کے بعد امروز کا فکاہی کالم ’’حرف و حکایت‘‘ لکھنا شروع کیا تھا۔ یہ کالم ’’پنج دریا‘‘ کے قلمی نام سے شائع ہوتا تھا۔ مارچ 1953ء میں احمد ندیم قاسمی ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔
اُن سے میری پہلی ملاقات نومبر 1955ء میں ہوئی، مجھے ممتاز ترقی پسند شاعر جناب احمد ریاض نے قاسمی صاحب سے متعارف کرایا جو لائل پور (اب فیصل آباد) میں روزنامہ ’’غریب‘‘ کے جائنٹ ایڈیٹر‘ بچوں کے صفحہ کے نگران (بھائی جان) تھے اور بچوں کے صفحہ پر لکھنے ‘ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’بزم غریب‘‘ کی شاخ قائم کرنے اور پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’غریب‘‘ کا نمائندہ مقرر ہونے کے بعد ان کی یہ خواہش تھی کہ میں ’’امروز‘‘ کا بھی نمائندہ بن جاؤں‘ اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک خط لکھ کر مجھے قاسمی صاحب کے پاس لاہور بھیجا۔رتن چند روڈ پر میوہسپتال کے سامنے دفتر امروز میں جب میں نے جناب احمد ریاض کا خط قاسمی صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے مجھے چائے کا پوچھا، میں نے نفی میں سر ہلا دیا‘ اس کے بعد ان کا نائب قاصد پان لے کر آیا تو انہوں نے مجھے پان کھانے کی دعوت دی اس پر بھی میں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں پان نہیں کھاتا‘ قاسمی صاحب نے چائے پینے اور پان کھانے سے انکار پر بے ساختہ کہا ’’پھر تو آپ کبھی اخبار نویس نہیں بن سکیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے دوبارہ احمد ریاض کے تحریر کردہ خط پر ایک نظر ڈالی اور پھر پہلے سے ٹائپ شدہ ایک انگریزی خط پر میرا نام اور شہر کا نام لکھ کر مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں امروز کا نامہ نگار مقرر کردیا۔ یہ خط 23 نومبر 1955ء کو جاری ہوا ہے اور اس پر قاسمی صاحب کے دستخط بھی انگریزی میں ہیں۔ اس وقت اردو اخبارات میں صرف امروز ہی ایک ایسا اخبار تھاجو اپنے نمائندوں کو سات روپے فی کالم کے حساب سے معاوضہ ادا کرتا تھا بعد میں جب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انگریزی اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کا نامہ نگار بنا تو یہ اخبار ایک روپے فی انچ کے حساب سے ادائیگی کرتا تھا اور خبروں کے متن کے ساتھ ساتھ اس میں سرخی کے لئے استعمال کردہ جگہ بھی شامل کی جاتی تھی۔
بہرحال ذکر ہورہا تھا احمد ندیم قاسمی کے روزنامہ امروز کی ادارت کے دور کا۔ قاسمی صاحب کی ادارت کے زمانے میں ایک تواخبار کا علمی وادبی پہلو زیادہ اجاگر ہوا۔ اتوار کو دوصفحات پر مشتمل ادبی صفحات ’’قسمت علمی و ادبی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتے تھے‘ اس میں لکھنے والے ادیبوں اورشاعروں کو ان کی نگارشات کا معاوضہ ملنے لگا۔ اخبار میں ایک صفحہ اضلاع کی خبروں کے لئے مخصوص کیا گیا، ہر شہر اور جگہ کا نام نمایاں طور پر لکھ کر وہاں کی خبریں باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔ نامہ نگاروں کو متحرک اور فعال کیا گیا۔
ذیل میں قاسمی صاحب کے دستخطوں سے جاری ہونے والے دو ہدایت ناموں کا متن درج کیا جارہا ہے اس ہدایت نامے کی ایک ایک سطر اس امرکی مظہر ہے کہ یہ ایڈیٹر ’’امروز‘‘ کی اپنی تحریر ہے اور اس وجہ سے یہ مراسلے صرف نمائندوں اور نامہ نگاروں کو رہنمائی ہی مہیا نہیں کرتے بلکہ خود ادب پارے بن گئے ہیں۔
31 مئی 1958ء کو جاری ہونے والا ہدایت نامہ
محترمی ۔ تسلیم
’’امروز‘‘ کو خبریں بھیجتے ہوئے مندرجہ ذیل ہدایات کو پُوری طرح پیش نظر رکھئے:۔
1۔ خبریں صاف اورخوش خط لکھ کر بھیجا کیجئے۔ دو سطروں کے درمیان جگہ ضرور چھوڑیئے تاکہ تصحیح کی جاسکے۔
2۔ خبریں کاغذ کے صرف ایک طرف لکھئے اور پنسل سے بالکل نہ لکھئے۔
3۔ آپ کے علاقے کی ہر شکایت خبر نہیں ہے۔ شکایتوں کو ’’ایڈیٹر کی ڈاک‘‘ کے کالم کے لئے لکھ کر علیحدہ بھیجئے۔
4۔ سیاسی‘ معاشرتی اورادبی انجمنوں کے اجلاس منعقد ہونے کااعلان خبر نہیں بلکہ اطلاع ہوتی ہے۔ اس کو اطلاعات کے کالم میں شائع کرانے کے لئے علیحدہ کاغذ پرلکھ کربھیجیں۔
5۔ خبریں جتنی مختصر ہوں گی اتنی ہی بہترہوں گی۔تار بھیجنے کی صورت میں یہ احتیاط بڑی لازمی ہے۔
6۔ جو خبریں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان بھی بھیج سکتا ہے یا بھیجتا ہے ان کو بھیجنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں البتہ اگر آپ کو دفترنے تار بھیجنے یا ٹیلی فون کرنے کی اجازت دی ہے تو ایسی خبریں تاریا ٹیلی فون سے بھیجئے تاکہ ایسوسی ایٹڈ پریس کا مقابلہ کیاجاسکے۔
7۔ ہمارے اخبار میں سیاسی قیاس آرائیوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں اس لئے مقامی خیالات سے متاثر ہوکر سیاسی قیاس آرائیاں بالکل نہ کیجئے۔
8۔ کسی واردات کی خبر میں جب تک ملزم کا نام اوردفعہ جس کے تحت کارروائی عمل میں آئی ہے درج نہ ہو تو خبر ادھوری ہوتی ہے ماسوا ان خبروں کے جن میں ملزم کا پتہ نہ چلے وہ مفرور ہو اورپولیس نے کسی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہو۔
9۔ کسی خاص افسر کی تعریف یا بُرائی امروز کے صفحات پر شائع نہیں کی جاسکتی۔
10۔ افسر اطلاعات کے دفترکے شائع کردہ پریس نوٹ نہ بھیجئے کیونکہ یہ لاہور میں اضلاع سے پہلے مل جاتے ہیں۔
11 ۔ مقدمے کی کارروائی بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ ہم روز مرہ کی کارروائی شائع نہیں کرسکتے۔ عدالت کی خبروں میں صرف مقدمہ شروع ہونے اور مقدمہ کے فیصلے کا ملخص بھیجنے کی ضرورت ہے۔
12۔ جن نامہ نگاروں کے پاس تار بھیجنے کی اتھارٹی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ تار بھیجنے کے لئے شام کا انتظار نہ کریں بلکہ اہم خبریں دن کو ہی بھیج دیا کریں۔
دستخط احمد ندیم
ایڈیٹر ’’امروز‘‘
31 دسمبر 1957ء کو جاری ہونے والا ہدایت نامہ
محترمی۔تسلیم
آپ کے ضلع میں صرف قتل اوراغوا ہی کے واقعات نہیں ہوتے اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ لاکھوں باشندوں کے سینکڑوں دوسرے مسائل بھی ہیں۔ جو مار دھاڑ کے واقعات سے کہیں زیادہ اہم اور عدالتوں میں چھوٹے چھوٹے مقدمات کے فیصلوں سے کہیں زیادہ لائق توجہ ہیں۔ اس لئے خبروں کا دامن وسیع کیجئے۔ اس کے ساتھ ہی ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اپنے ضلع کے مختلف مسائل پرمضامین کا ایک سلسلہ شروع کریں۔ یہ مضامین محض جذبات پر مشتمل نہ ہوں بلکہ ان میں حقائق بیان کئے گئے ہوں‘ اعدادو شمار درج ہوں۔ عوام کی مشکلات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہو اور ممکن ہو تو ان مشکلات کا علاج بھی تجویز کیا گیا ہو۔ روزانہ زندگی کے مسائل میں ضروریات زندگی کی مشکلیں‘ ذرائع معاش کی تنگ دامانی‘ چھوٹی صنعتوں کی زبوں حالی‘ مزارعین‘ کاشت کاروں اور چھوٹے مالکوں کی مجبوریاں‘ سرکاری حکام کی دست درازیاں‘ سیم و تھور‘ کٹاؤ اور سیلاب‘ آپ کے سامنے موضوعات کا ایک چمن کھلا ہوا ہے۔ ممکن ہو تو متعلقہ مضمون کے ساتھ تصویریں بھی بھجوایئے جن کی اُجرت تین روپے فی تصویر ادا کی جائے گی۔ اس سلسلے میں آپ کے گہرے اورمسلسل تعاون کی ضرورت ہے۔
احمد ندیم ایڈیٹر ’’امروز‘‘ لاہور
یہ مراسلے آج بھی کارکن صحافیوں بالخصوص اضلاعی اور قصباتی نامہ نگاروں اور رپورٹروں کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔جب تک قاسمی صاحب امروز کے مدیر رہے ایک قصباتی نامہ نگار اور ایڈیٹر کے درمیان جس طرح کا رابطہ ممکن ہے وہ ہمارے مابین رہا۔ جناب احمد ریاض چونکہ خود ایک بلند پایہ شاعر اورانجمن ترقی پسند مصنفین کے رکن رکین تھے۔ ان کی سفارش اور تعارف کے باعث مجھے ایک نامہ نگار سے بڑھ کر توقیر ملی اورمیں نے بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کو خبروں کا ایک اہم مرکز بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی خاص طور پر ماچھی گوٹھ (رحیم یار خان) میں منعقدہ سالانہ اجتماع میں جماعت اسلامی میں اختلافات کے حوالے سے میری ارسال کردہ خبروں کو بہت شہرت ملی۔
احمد ندیم قاسمی نے جہاں جہاں کام کیا وہ جلد استعفے دینے کی شہرت رکھتے تھے‘ امروز میں بھی ایک دو مواقع ایسے آئے جب انہیں میاں افتخارالدین کے رویہ سے شکایت پیدا ہوئی یا دوسرے لفظوں میں میاں صاحب کو ان سے کسی بات پر گلہ ہوا‘ وہ استعفیٰ داغ دینے پر تُل گئے مگر کچھ رفقاء نے بیچ بچاؤ کرادیا اور اس طرح استعفیٰ کا مسئلہ ٹل گیا مگر جب حکومت نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کو اپنی تحویل میں لیا تو انہوں نے فوری استعفیٰ دینے کے بجائے چوبیس گھنٹے اس معاملے پر غور کیا اور فیصلہ یہی کیا کہ وہ اب امروز کے ایڈیٹر نہیں رہیں گے مگر اخبارات کو اپنی تحویل میں لینے کے ساتھ ہی حکومت نے پاکستان ٹائمز‘ اور امروز کے کارکنوں پر لازمی ملازمت کا قانون بھی نافذ کردیا۔ جناب احمد ندیم قاسمی اگلے روز پی پی ایل کے ایڈمنسٹریٹر اور وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک افسر جناب محمد سرفراز سے ملے اور انہیں بتایا کہ انہیں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کی جو آزادی اب تک میسر تھی چونکہ وہ اب انہیں حاصل نہیں ہوگی اور ان کی ادارت جاری رہنے سے حکومت کو بھی اپنی پالیسی پر عمل کرانے میں دشواری ہوگی اور وہ بھی بحیثیت ایڈیٹر یکسوئی سے اپنا فریضہ ادا نہیں کرسکیں گے‘ اس لئے انہیں ایڈیٹر کے منصب سے سبکدوش کردیا جائے اور لازمی ملازمت کے قانون کا اس معاملے پر اطلاق نہ کیا جائے۔ اس طرح جناب احمد ندیم قاسمی امروز کی ادارت سے سبکدوش ہوگئے اور ان کی جگہ ان کے بھانجے جناب ظہیر بابر کو امروز کا ایڈیٹر مقرر کردیا گیا جو پہلے ہی بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر امروز میں کام کررہے تھے۔ امروز سے الگ ہوجانے کے بعد قاسمی صاحب کو سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا اور انہیں کچھ عرصہ قیدوبند کے مصائب جھیلنا پڑے۔ رہا ہوتے ہی انہوں نے جناب محمد سلیم کی زیرادارت شائع ہونے والے لاہور کے روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ میں ’’موج در موج‘‘ کے عنوان سے فکاہی کالم لکھنا شروع کیا، لیکن جلد ہی یہ اخبار بھی مارشل لا کے ضوابط کی لپیٹ میں آگیا۔ حکومت نے اخبار بند کردیا، اُس کا پریس ضبط کرلیا اورجناب محمد سلیم کو فوجی عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا دے دی۔ جناب ظہیر بابر نے قاسمی صاحب کو امروز میں فکاہی کالم ’’حرف و حکایت‘‘ لکھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی وہ بمشکل تیار ہوئے مگر اس مرتبہ انہوں نے ’’پنج دریا‘‘ کے قلمی نام کے بجائے عنقا (احمد ندیم قاسمی کا مخفف) کے قلمی نام سے لکھا۔ پھر جب ’’ڈان‘‘ نے اردو اخبار ’’حریت ‘‘کا انتظام سنبھالا تب انہوں نے یہی فکاہی کالم امروز کے بجائے ’’حریت‘‘ میں لکھنا شروع کیا اور جب لاہور سے جنگ کا آغاز ہوا تو میر شکیل الرحمن نے جن ممتاز کالم نویسوں کو جنگ میں لکھنے پر راضی کیا ان میں قاسمی صاحب بھی شامل تھے مگر جنگ میں ان کا کالم فکاہات کے بجائے عمومی اظہارخیال کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے اسے جو مقبولیت امروز‘ ہلال پاکستان اور ’’حریت ‘‘میں حاصل تھی وہ ’’جنگ ‘‘میں شائع ہونے والے کالموں کو میسر نہ آسکی۔
قاسمی صاحب ادبی رسالہ ’’نقوش‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اس رسالہ کا ڈیکلریشن ادارہ فروغ اُردو کے محمد طفیل کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ قاسمی صاحب نے بڑے ارمانوں سے اس کی ادارت سنبھالی تھی لیکن ابھی نقوش کے تین شمارے ہی شائع ہوئے تھے کہ ادب لطیف اور سویرا کے ساتھ نقوش کو بھی سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ چھاپنے کے الزام میں سیفٹی ایکٹ کے تحت چھ ماہ کے لئے نظر بند کردیا گیا۔ جب نقوش اس قید سے رہا ہوا تو ندیم صاحب نے نقوش سے ہاتھ اٹھا لیا۔ وہ 1958 ء کے مارشل لاء میں گرفتار کئے گئے اور سیفٹی ایکٹ کے تحت لاہورجیل، راولپنڈی جیل اور شاہی قلعہ میں قید رہے ۔ اُنہوں نے حکیم حبیب اشعر کے ساتھ مل کر ادبی رسالہ ’’فنون‘‘ جاری کیا جو حکیم صاحب کی رحلت کے بعد قاسمی صاحب کی ملکیت میں آگیا اور اُن کے سانحہ ارتحال تک جاری رہا۔
احمد ندیم قاسمی نے بے شمار نظمیں کہیں اور غزلیں لکھیں لیکن وطن کے لئے اُن کی دُعا کے درج ذیل اشعار اس ارض پاک میں اُن کا نام ہمیشہ زندہ رکھنے کا باعث بنیں گے۔
خدا کرے کہ مِری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پُھول کھِلے وہ کھِلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن
اور اُس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مِرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
خدا کرے کہ مِری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہء زوال نہ ہو