دربار صحافت

اظہر سہیل،نارنگ منڈی سے نارنگ منڈی تک…تحریر سید عباس اطہر

محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، آصف علی زرداری صاحب پورے زوروں پر تھے اور اظہر سہیل مرحوم کا بوجھ زمین بڑی مشکل سے سہہ رہی تھی۔ اس زمانے میں وہ ایک معاصر اخبار کے راولپنڈی ایڈیشن کا ایڈیٹر تھا۔ تبادلوں، برطرفیوں اور معطلیوں کا شغل کر رہا تھا۔ایک رات اس کے رویے سے تنگ آئے ہوئے دو رپورٹرز نے دفتر میں اس پر حملہ کیا اور اسے زخمی کر دیا۔ اس واقعہ سے کوئی دو گھنٹے پہلے وہ میرے ساتھ تھا اور مجھے اپنی گاڑی میں ہوٹل چھوڑ کر واپس دفتر گیا تھا۔ راستے میں میں نے حکمرانوں سے اس کی قربت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ’’یار انہیں کچھ سمجھاؤ، اس ملک میں کبھی تو کسی حکمران کو آئین اور قانون کی پاسداری، رواداری، مروت اور انصاف کے دور کا آغاز کرنا چاہئے ورنہ ہر آنے والا دور، گزر جانے والے دور کو دہراتا رہے گا اور یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہو گا‘‘ اظہر سہیل نے کہا ’’میں ایک چھوٹے سے اخبار کا ایڈیٹر ہوں، جب مجھے کوئی نہیں سمجھا سکتا، انہیں کون سمجھائے گا‘‘۔
یہ تھا وہ رویہ جس نے اظہر سہیل جیسے باصلاحیت اور ذہین صحافی کو ’’عینک والا جن‘‘ بنا دیا اور ہر قسم کی بدنامی اس کے نام سے منسوب ہوئی۔
وہ برا آدمی ہو گا لیکن سب سے برا آدمی نہیں تھا۔
وہ بہت سارے لوگوں کے نزدیک اتنا ہی برا ہو سکتا ہے جتنا میں یا کوئی دوسرا آدمی نسبتاً کچھ کم لوگوں کیلئے ہو گا۔
اس نے حکومت سے فائدے حاصل کئے، اپنی اولاد کیلئے مراعات لیں، لیکن یہ سارا فائدہ اتنا ہی تھا جو اس سے پہلے یا بعد میں آنے والے اور حکومتوں سے قربت رکھنے والے صحافی اٹھاتے رہے ہیں یا اٹھا رہے ہیں۔
وہ آخری عینک والا جن نہیں تھا، اس کے بعدآنے والے جنات بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو وہ کرتا رہا ہے۔ ہر اس صحافی کو اسے پتھر مارنے کا حق ہے جس نے اپنے اخبار کے نام پر کبھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا ہو اور کبھی کوئی ناجائز کام نہ کیا ہو۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اسے پتھر مارنے کا کوئی حق نہیں۔
اظہر سہیل ایک شاندار رپورٹر اور زبردست کالم نویس تھا۔ کبھی کبھی ایسا ایسا خوبصورت فقرہ لکھ جاتا کہ پڑھنے والے عش عش کر اٹھتے تھے۔ وہ نارنگ منڈی میں پیدا ہوا۔ کوہستان اور چٹان سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا۔ کچھ سال مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں پبلک ریلیشنز افسر رہا۔ پھر روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ جنگ سے منسلک رہا نامور اور مقبول ہوا اور آخر میں اے پی پی کا ڈائریکٹر جنرل بن کر راندہ درگاہ قرار پایا۔
اسے دوستوں سے زیادہ دشمن بنانے اور پالنے کا شوق تھا، لوگوں کی توہین کرکے لطف آتا تھا اور تو اور مرحوم غلام حیدر وائیں جیسا متحمل اور منکسر المزاج انسان ایک بار اس کے کسی جملے پر اتنا مشتعل ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے پیٹنے کیلئے اس کے پیچھے دوڑ پڑا تھا۔
جب انور عزیز چودھری لائیو سٹاک بورڈ کے چیئرمین تھے، میں نے ان کے ساتھ بڑی زبردستی کرکے اسے وہاں پبلک ریلیشنز آفیسر رکھوایا تھا۔ بعد میں جب وہ وفاقی وزیر بنے تو انہوں نے اسے اپنے ساتھ رکھا۔ اظہر سہیل اسی سیڑھی پر چڑھ کر زندگی کے مینار تک پہنچا، لیکن جب اس کا اپنا وقت آیا تو اس نے چھوٹی بات پر انورعزیز چودھری سے بھی گستاخی کر ڈالی۔ ہوا یہ کہ وہ ایک ایکسیڈنٹ کے بعد ہسپتال میں پڑا تھا اور چودھری صاحب اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس کی مزاج پرسی کیلئے نہیں پہنچ سکے تھے۔ وہ چودھری صاحب کا محسن نہیں احسان مند تھا اس کے باوجود شکوہ کرتے وقت ان کی بزرگی کا لحاظ بھی نہیں کیا۔
میں نے نصرت جاوید اور خوشنود علی خان سے اس کی گہری دوستی اور بعد میں بدترین دشمنی کے مظاہرے بھی دیکھے ہیں۔ ایک دفعہ اس نے بڑی عقیدت سے مجھے مجید نظامی صاحب کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ اس زمانے میں وہ نوائے وقت میں تھا، اس کی کسی خبر یا مضمون پر جنرل ضیاء الحق ناراض ہو گئے تھے اور اسے اپنے پاس طلب کیا تھا۔ خیال تھا وہ اس کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کریں گے۔ نظامی صاحب اس کی پیشی سے کوئی ایک گھنٹہ پہلے خود اسلام آباد پہنچے اور اس وقت تک باہر انتظار کرتے رہے جب تک وہ ’’زندہ سلامت ‘‘واپس نہیں آ گیا۔ بعد میں، میں نے جنگ میں اس کی وہ تحریر بھی پڑھی جس میں اس نے مجید نظامی صاحب بارے میں بھی نازیبا الفاظ لکھے تھے۔
اظہر سہیل کا المیہ یہ تھا کہ وہ کمزوری کی حالت میں انتہائی کمزور ہوتا تھا اور طاقت مل جانے پر گھمنڈ میں ہر تعلق اور ہر رشتہ بھول جاتا تھا۔ میں نے اسے بیروزگاری اور برے حالات میں بچوں کی طرح روتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور بعد میں لوگوں کو بیروزگار ی کی اذیت پہنچا کر قہقہے لگاتے ہوئے بھی۔ مصیبت میں وہ بالکل ایک ڈرا ہوا بچہ بن جاتا تھا۔ خدا ہی جانتا ہے اقتدار سے اترنے کے بعد اس نے جیل، بیماری اور موت کا کس طرح سامنا کیا ہو گا؟ وہ یقیناً ایسے لوگوں میں سے نہیں تھا جن کے بارے میں فیض احمد فیض نے کہا ہے ؂
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
اظہر سہیل 1969-70ء سے اس رات تک میرا انتہائی گہرا دوست تھا جب اس نے مجھے اسلام آباد کے ہوٹل میں چھوڑا اور پھر دفتر میں اس پر حملہ ہو گیا۔ اس کے ملزموں اسلم خان اور فاروق فیصل خان سے میرا بہت گہرا تعلق تھا اس لئے اس نے احتیاطاً میرے کمرے پر بھی صبح تین بجے صبح پولیس کا چھاپہ ڈلوایا۔ اس کے باوجود تاہم اگلے دن میں ہسپتال میں اس کی خیریت پوچھنے چلا گیا تھا۔ اس چھاپے کے حوالے سے اسے کوئی خاص شرمندگی نہیں تھی کیونکہ اس دور میں آصف علی زرداری اس کیلئے کچھ بھی کرنے پر تیار تھے۔
میں ان چند خوش نصیبوں میں سے ایک ہوں جس سے اس نے انتقام نہیں لیا اور محض نظر انداز کر دیا۔ بعد میں اس سے میری ایک دو ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن اس نے میری توہین نہیں کی شاید اسے میری کوئی نیکی یاد رہ گئی تھی۔ حالانکہ اسے کبھی کسی کی کوئی نیکی یاد نہیں رہتی تھی۔
اظہر سہیل منوں مٹی کے نیچے ہمیشہ کیلئے سو گیا ہے۔اس نے طویل بیماری کاٹی اور وقت سے پہلے چلا گیا۔
اس کی فتوحات، اس کے کارنامے، اسلام آباد کی روشنیاں، دنیا بھر کے خوبصورت شہروں کی رنگینیاں، اس کا سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔
اب وہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ پیچھے مڑ کر دیکھے اور سوچ سکے کہ یہ سب کچھ جو کچھ عرصے کیلئے اسے ملا، حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھا۔
ایک حادثہ یا مختصر سا سفر تھا
ظاہری طور پر شاندار اور قابل فخر
لیکن حقیقت میں بے کیف اور بے معنی
نارنگ منڈی سے نارنگ منڈی تک
محض نارنگ منڈی سے محض نارنگ منڈی تک!