دربار صحافت

اکرام رانا از جمیل اطہر

ہلکا کرنے والا بوجھ....ایم ابراہیم خان

اکرام رانا از جمیل اطہر

اکرام رانا اللہ کو پیارے ہوگئے، اخبارات میں چند سطروں پر مشتمل خبر شائع ہوئی، بعض اخبارات میں ان کا نام بھی درست شائع نہیں ہوا، چند سطری خبر ان کی زندگی، ان کے کارہائے نمایاں اور صحافت کے میدان میں ان کی معرکہ آرائی کی کوئی صحیح تصویر تو کیا پیش کر سکتی ان کی ہمہ گیر اور جامع شخصیت کا کوئی پہلو بھی اس سے نمایاں نہ ہوا، ہم اہل صحافت کا اپنی بزرگ شخصیتوں سے یہ سلوک اب ایک روایت ہی بن گیا ہے، ہمارے نوجوان ساتھیوں کو کچھ علم ہی نہیں کہ ہماری صفوں سے اٹھ کر جانے والوں میں کیسے کیسے عبقری شامل ہیں۔
اکرام رانا سے میری پہلی ملاقات 1956 ء میں لائل پور (اب فیصل آباد) کے ریلوے سٹیشن پر تھرڈ کلاس کے ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر ہوئی جہاں میں لائل پور کے روزنامہ ’’غریب‘‘ کا بنڈل ہاتھ میں تھامے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے لئے ٹکٹ حاصل کرنے کی غرض سے قطارمیں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ رانا صاحب نے اخبار کا بنڈل دیکھ کر بڑے اشتیاق کے ساتھ مجھ سے اخبار کی ایک کاپی طلب کی، اپنا بطور اخبار نویس تعارف کرایا، جواب میں راقم نے بھی انہیں بتایا کہ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں روزنامہ ’’غریب‘‘ کا نامہ نگار ہوں اور گزشتہ شب کمالیہ میں مسلم لیگی رہنما سردار بہادر خان کے جلسہ میں ہنگامہ آرائی کی رپورٹ دینے لائل پور آیا تھا، اکرام رانا سے یہ اتفاقی اور سرِ راہ ملاقات بعد میں گہرے دوستانہ تعلقات میں تبدیل ہوگئی۔ میں حصول تعلیم کے لئے 1958 ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور منتقل ہوگیا اور سعید سہگل کے اخبار روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں ملازمت کر لی، گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا جہاں پروفیسر سید کرامت حسین جعفری، پروفیسر مرزا محمد منور اور پروفیسر افتخار احمد چشتی میرے اساتذہ میں خاص طور پر قابلِ ذکر تھے۔ اکرام رانا ان اساتذہ کے حلقۂ احباب میں شامل تھے، پروفیسر مرزا محمد منور سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی جو مجلسِ اقبالؒ لائل پور کی روح رواں تھے، اکرام رانا بھی مجلسِ اقبالؒ کے کاموں میں خوب سرگرمِ عمل تھے۔
1965 ء میں جناب مصطفی صادق اور اس خاکسار نے لاہور سے شام کا اخبار روزنامہ ’’وفاق‘‘ نکالا اور سرگودھا سے، جہاں ہم 1962 ء سے صبح کا اخبار ’’وفاق‘‘ شائع کررہے تھے، لاہور منتقل ہوگئے جہاں پروفیسر مرزا محمد منور اور اکرام رانا پہلے ہی موجود تھے۔ اکرام رانا کوہستان کے ادارتی عملہ کے رکن تھے اور مرزا محمد منور گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تھے، شام کو یہ سب حضرات اپنے دوسرے ہم عصروں کے ساتھ کچہری روڈ پر چوہدری عبدالحمید کے مکتبہ کارواں میں جمع ہوتے تھے اور ہر موضوع پر آزادانہ تبادلہ خیال اس نشست کی روایت بن گیا تھا۔ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر بشیر احمد ارشد اور چیف نیوز ایڈیٹر ظہور عالم شہید سے رانا صاحب کی دوستی اس مجلس آرائی کا نتیجہ تھی۔ ایوب خان کے زوال اور کنو نشن مسلم لیگ کے سرکاری ترجمان روزنامہ ’’کوہستان‘‘ کے مختلف ہاتھوں میں چلے جانے کے بعد اکرام رانا نے ’’کوہستان‘‘ سے علیحدگی اختیار کرلی اور بشیر احمد ارشد اور ظہور عالم شہید انہیں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں لے گئے۔ ’’نوائے وقت‘‘ کا یہ دور اس لحاظ سے منفرد تھا کہ مجیدنظامی ’’نوائے وقت‘‘ سے الگ ہوکر ’’ندائے ملت‘‘ شائع کررہے تھے اور شعیب نظامی اور عارف نظامی کی ملکیت میں ’’نوائے وقت‘‘ شیخ حامد محمود کی سربراہی میں بائیں بازو کی طرف مائل ہوچکا تھا، بشیر احمد ارشد ’’نوائے وقت‘‘ کا اداریہ لکھتے تھے اور ادارتی صفحہ کا بقیہ حصہ اکرام رانا کے ہاتھوں میں تھا جنہوں نے مالکوں کی پالیسی کے علی الرغم اپنے نام اور قلمی نام آر اے علی (رانا اکرام علی) سے بھٹو صاحب کے سوشلسٹ نظریات اور رجحانات کے خلاف قلم کا مورچہ سنبھال رکھا تھا۔ اکرام رانا کا ایک وصف دوسرے اخبار نویسوں کے مقابلے میں بہت نمایاں تھا اور وہ تھا ان کا مختلف سیاسی، سماجی اور صحافتی شخصیتوں سے مسلسل اور متواتر رابطہ۔ وہ اخبار کے دفتر میں مشکل سے چند گھنٹے ہی گذارتے ہوں گے، دفتر سے نکلے، اپنا سکوٹر سنبھالا اور کبھی مکتبہ کارواں پر، کبھی کیکسٹن پریس پر حامد مجید کے ہاں اور کبھی محمود مرزا ایڈووکیٹ کے پاس کبھی سید کرامت حسین جعفری کی ’’شامِ لاہور‘‘ میں اور کبھی فلم سٹار محمد علی اور اداکارہ زیبا کے ہاں۔ گفتگو، مکالمہ اور بزم آرائی نے اکرام رانا کو لاہور کے مختلف ہم خیال لوگوں کی پسندیدہ شخصیت بنا دیاتھا، ان کا مطالعہ تو پہلے ہی بہت تھا اچھے حافظہ نے ان کے علم کو سونے پر سہاگہ بنادیا تھا، اکرام رانا نے ’’نوائے وقت‘‘ کے ادارتی صفحہ پر سوشلزم اور بھٹو کی آزاد خیالی کے خلاف ایک بڑا محاذ کھول دیا تھا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ جیسے نابغہ لوگ ان کو کمک مہیا کررہے تھے۔ بشیر احمد ارشد اور ظہور عالم شہید سے ان کی بڑھتی ہوئی دوستی اور بھٹو دشمنی کے مشترک نصب العین نے ان کی ’’نوائے وقت‘‘ سے علیحدگی اور مشترکہ ملکیت میں روزنامہ ’’جاوداں‘‘ کے اجراء کی راہ ہموار کی اس کے لئے تمام تر مالی وسائل مہیا کرنے کا بیڑہ اکرام رانا نے اٹھایا جنہیں یہ ملکہ حاصل تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور جاننے والوں سے منت سماجت کے بجائے حکماً مالی تعاون حاصل کرلیتے تھے، اس سلسلے میں ’’جاوداں‘‘ کے لئے آغا شورش کاشمیری مرحوم سے کچھ رقم کے حصول کا قصہ ایک طویل عرصہ تک لاہور کی محفلوں میں ہنسی مذاق کا موضوع بنا رہا، ’’جاوداں‘‘ فنی اور تکنیکی اعتبار سے ایک نہایت معیاری روزنامہ تھا۔ ’’نوائے وقت‘‘ تین حصوں ’’نوائے وقت‘‘ ’’ندائے ملت‘‘ اور ’’جاوداں‘‘ میں تقسیم ہوچکا تھا اور اسی نسبت سے اسے ’’نوائے وقت‘‘ کی اشاعت کا ایک حصہ بھی میسر آچکا تھا لیکن مالی اور کاروباری اعتبار سے ’’جاوداں‘‘ کی بنیاد مضبوط و مستحکم نہ ہو سکی اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ پر یحییٰ خان کی حکمرانی کے خلاف لاہور کے لوگوں کو سڑکوں پر نکال کر روزنامہ ’’جاوداں‘‘ بالآخر حیاتِ جاوداں پاگیا۔ ظہور عالم شہید نے کچھ وقفہ کے بعد ہفت روزہ ’’استقلال‘‘ نکالا، بعد میں ’’استقلال‘‘ جناب بشیراحمد ارشد کے دوبارہ ’’نوائے وقت‘‘ میں چلے جانے کے بعد جناب اکرام رانا کی ادارت و ملکیت میں شائع ہونے لگا مگر یہ تینوں اصحاب قومی صحافت میں اعلیٰ مقام و مرتبہ کے باوجود ’’جاوداں‘‘ اور ’’استقلال‘‘ کے محاذ پر کامیابی و کامرانی سے سرفراز نہ ہوئے، ان کی اخباری تحریروں میں بے شک بہت جان تھی مگر کاروباری پہلو سے وہ ان اداروں کے تقاضے کماحقہ پورا نہ کرسکے۔
جناب اکرام رانا کے ’’استقلال‘‘ کا دفتر شاہ دین بلڈنگ میں ہی تھا جہاں 1971ء سے روزنامہ ’’وفاق‘‘ کا دفتر کام کررہا تھا۔ بشیر احمد ارشد جنہوں نے 1955 ء میں مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ لاہور کا دس روپے ماہانہ الاؤنس پر نامہ نگار مقرر کیا تھا اور جن کے ساتھ مجھے 1964 ء میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں کام کرنے کا موقع بھی ملا تھا ’’استقلال‘‘ کی ادارت کے ساتھ ساتھ کئی سال روزنامہ ’’وفاق‘‘ کا اداریہ بھی لکھتے رہے جب ارشد صاحب ’’نوائے وقت‘‘ میں واپس چلے گئے تو ’’وفاق‘‘ کا اداریہ لکھنے کی ذمہ داری خاصا عرصہ اکرام رانا نے قبول کئے رکھی۔ یہ ادارتی تحریریں زیورِ اشاعت سے مزین ہونے سے پہلے میری نظر سے گذرتی تھیں، اس اعتبار سے مجھے ان بلند مرتبت شخصیتوں کے افکار سے استفادہ کا موقع ملتا رہا۔ میں نے خوشہ چینی بھی کی اور ان کی رفاقت کا لطف بھی اٹھایا۔ جناب اکرام رانا کا آخری اخباری محاذ ہفت روزہ ’’ثالث‘‘ تھا۔ یہ بھی ’’جاوداں‘‘ اور ’’استقلال‘‘ کے تجربوں سے مختلف نہ رہا، لیکن یہ تمام اخبارات و جرائد جتنا عرصہ بھی شائع ہوئے اپنی جرأت و بے باکی کا ڈنکا ضرور بجاتے رہے۔
اکرام رانا سنجیدہ فکری و عملی نگارشات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح بھی بہت اچھا لکھتے رہے، ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’سرِ راہے‘‘ اور ’’جاوداں‘‘، ’’استقلال‘‘ اور ’’ثالث‘‘ میں ان کے ہلکے پھلکے کالم ان کے قارئین کے ذہن میں بہت دیر تک تازہ رہیں گے۔
گذشتہ سال ان سے آخری ملاقات گلشن راوی کے ایک شادی ہال میں ان کے صاحب زادے کی دعوت ولیمہ میں ہوئی انہیں داڑھی کے ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ان کے شاداں و فرحاں چہرے سے ان کی علالت کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا تھا البتہ ان کی رفیقۂ حیات ڈاکٹر نزہت اکرام جو ’’کوہستان‘‘ میں ان کی رفیقِ کار ہوتی تھیں ایک وھیل چیئر پر شادی کی تقریب میں آئیں۔ صحافتی جوڑوں میں اکرام رانا اور نزہت اکرام کی اپنے علمی پس منظر کے باعث الگ ہی شان تھی، افسوس اکرام رانا نزہت کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا