دربار صحافت

بشیر احمد ارشد از جمیل اطہر

ہلکا کرنے والا بوجھ....ایم ابراہیم خان

بشیر احمد ارشد از جمیل اطہر

دورِ حاضر کے صحافیوں کو اب کیا معلوم کہ بشیر احمد ارشد کون تھے ، انہوں نے کیا کچھ لکھا اور پھر کیسے گوشۂ گمنامی میں چلے گئے۔ بشیر احمد ارشد ، جناب حمید نظامی کے دورِادارت میں نوائے وقت کے اداریہ نویس رہے ، جناب حمید نظامی کا اپنا اسلوب نگارش تھا اور پاکستان کے بانی صحافیوں میں شمار ہونے کے باعث انہیں ملک کی صحافت و سیاست میں امتیازی مقام و مرتبہ حاصل تھا۔، بشیر احمد ارشد انہی حمید نظامی کے اسلوب اور فکر و فلسفہ کے مقلد تھے۔ 1955ء میں جب سہگل پبلشرز لمیٹڈ کے زیر اہتمام روز نامہ ’’ آفاق‘‘ کا اجرا ہوا تو نوائے وقت سے کچھ صحافی الگ ہو کر آفاق میں چلے گئے، میں بھی روز نامہ ’’آفاق‘‘ کاٹوبہ ٹیک سنگھ میں نامہ نگار مقرر ہوا ، میرا معاوضہ تھا دس روپے ماہانہ اور میرے تقرر کا خط بھی بشیر احمد ارشد کے دستخطوں سے ہی جاری ہوا تھا مگر مجھے تین ماہ تک کوئی ادائیگی نہ ہوئی ، میں5 اپریل1956ء کو لاہور آیا ہوا تھا اور معاًیہ خیال آیا کہ آفاق کے دفتر جاؤں اور گزشتہ تین ماہ کے ڈاک خرچ (نامہ نگاروں کو معاوضہ ادا کرنے کے لئے یہی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی) کی ادائیگی کا تقاضا کروں، حُسنِ اتفاق سے وہاں میری ملاقات بشیر احمد ارشد سے ہوئی جنہوں نے میرے تقرر والے کاغذپر ہی چیف اکاؤنٹنٹ کو انگریزی میں ایک ڈیڑھ سطر لکھی کہ انہیں رقم کیوں ادا نہیں کی گئی ۔ انہوں نے مجھے اکاؤنٹنٹ کے پاس بھیج دیا جنہوں نے دس دس کے تین نوٹ مجھے دے کر ایک واؤچر پر یہ رقم وصول کرنے کے دستخط مُجھ سے کرالئے۔ میں خوش خوش دفتر سے باہر نکلا اور شاہ عالم مارکیٹ گیا اور وہاں سے خرید ے گئے سُوت کے بنڈل اٹھائے، والد صاحب نے مجھے سُوت خریدنے کے لئے لاہور بھیجا تھا ، رات کو میں ماڑی انڈس ٹرین میں سوار ہوگیا ۔ لائل پور ریلوے سٹیشن پر مجھے گاڑی تبدیل کرنا تھی، رات گئے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچ گیا۔ سوتے وقت اپنی قمیص کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ تین نوٹ نکالنے لگا مگر وہ نوٹ وہاں ہوتے تو میرے ہاتھ آتے، خیال یہی ہے کہ ٹرین میں سفر کے دوران جب میں سو گیا تو کسی نے میری جیب سے یہ نوٹ نکال لئے جس کا مجھے بہت افسوس ہوا ، ایک تو یہ میری تین ماہ کی محنت کا معاوضہ تھا اور دوسرے یہ نوٹ بالکل نئے تھے اور میں اپنے والد صاحب کو پیش کرکے انہیں خوش کرنے کا متمنی تھا مگر یہ خواہش دل کی دل میں رہ گئی ۔
بشیراحمد ارشد سے میری دوسری ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں 28 اکتوبر1963ء کو نوائے وقت میں سب ایڈیٹر مقر ہوا، میرے تقرر کودس پندرہ دن گزر گئے تھے اور مجھے کوئی تقرر نامہ نہیں ملا تھا اور نہ ہی مجھے اس کا کوئی علم تھا کہ میری کیا تنخواہ مقرر کی گئی ہے۔ ایک روز میں نے بشیر احمد ارشد سے درخواست کی کہ ارشد صاحب ! اس معاملے میں آپ میری مدد کریں اور مجید نظامی صاحب سے کہہ کر میرے تقرر کا خط جاری کرادیں تاکہ مجھے اپنی تنخواہ کا بھی علم ہوجائے ۔ ارشد صاحب نے نہایت رُوکھے انداز میں کہا تنخواہ اور نکاح دو معاملے ایسے ہیں جو انسان کو خود ہی حل کرنے چاہئیں ۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئے ۔ ایک روز میری ڈیوٹی بشیر احمد ارشد کے ساتھ لگا دی گئی ۔ میں رات کو دو بجے نیوز ڈیسک پر لیٹ نائٹ ڈیوٹی کرکے گیا تھا اور صبح آٹھ بجے مجھے دوبارہ دفتر جانا تھا اور ارشد صاحب کے ساتھ کام کرنا تھا ، بے آرامی اور تھکن کے باعث مجھے شدید سردرد تھا ، میں نے دفتر پہنچ کر ارشد صاحب سے عرض کیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، آپ آج کی رخصت عنایت فرمادیں، انہوں نے مجھ سے میری علالت کی علامات معلوم کیں اور دراز میں سے ایک دو ٹیبلٹ نکالیں، چپراسی کو پانی اور چائے لانے کے لئے کہا ، مجھے اخبار کے دفتر میں کام کرنے کے آداب پر لیکچر دیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر کسی جنازہ میں بھی شریک ہونا ہوتو کاپی بھیج کر جائیں۔ کام ادھورا چھوڑ کرچُھٹی کا تصور ذہن سے نکال دیں ۔ ارشد صاحب نے مجھے کسی موضوع پر شذرہ لکھنے کی ہدایت کی اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ میں نیوز روم میں ان کی ہدایت کی تعمیل میں کچھ لکھ رہا تھا کہ ایک بزرگ خوش نویس نے مجھے بتایا کہ ارشد صاحب کے ساتھ جو سب ایڈیٹر اداریہ کی کاپی پر متعین کیا جاتا ہے اُسے مضامین لکھنے، ترجمہ کرنے اور کبھی کبھی فکاہی کالم سرراہے لکھنے کے ساتھ ساتھ کاپی بھی جوڑ نا پڑتی ہے۔ یہ سُن کر میری پیشانی پر پریشانی کے آثار نمودار ہوئے جنہیں ان خوش نویس صاحب نے بھی بھانپ لیا، میں نے انہیں بتایا کہ میں اخبار کے ہر شعبے کے کام سے واقف ہوں مگر میں نے آج تک خود کاپی نہیں جوڑی، میں کسی خوشنویس کی مدد کرسکتا ہوں کہ کاپی جوڑنے کے لئے مواد اور جگہ کی نشان دہی کردوں کہ کہاں کہاں کون سا مضمون لگایا جائے ، ان بزرگ ہستی نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں، آج میں اداریہ کی کاپی جوڑ دیتا ہوں، ایک دو روز میں آپ خود کاپی جوڑنے کے قابل ہوجائیں گے ۔ میں اُن کی اس بات سے مطمئن ہوگیا، اس دوران چپراسی نے مجھے پیغام دیا کہ مجھے اے ڈی اظہر صاحب بُلا رہے ہیں جو نوائے وقت کے ٹیکنکل ڈائریکٹر تھے۔جب میں ان کے کمرے میں گیا تو انہوں نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا تمہاری شادی ہوئی ہے، میں نے نفی میں سر ہلا یا۔ میرا خیال تھا کہ وہ شاید مجھے کوئی رشتہ بتانے والے ہیں مگر انہوں نے دوسرا غیر متوقع سوال داغ دیا کہ کیا تم ملتان جاسکتے ہو، میرے حواس پر چونکہ کاپی جوڑنے کا مسئلہ سوار تھا اس لئے میں نے سوچے سمجھے بغیر کہا ’’جی ہاں! جاسکتا ہوں‘‘۔ انہوں نے بھی سوال پر سوال کرنے کی ٹھان رکھی تھی ، کہنے لگے کب جاسکتے ہو، میں نے کہا’’ابھی‘‘ انہوں نے کہا تمہاری تنخواہ میں پچاس روپے اضافہ کیا جارہا ہے ، اب تمہیں ملتان جا کر تین سو روپے کی بجائے ساڑھے تین سو روپے ماہانہ تنخواہ ملے گی اور رہائش کے لئے کمرہ بھی دفتر میں ہی دے دیا جائے گا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں جنرل منیجر شیخ سعید الدین احمد سے مل کر اپنے تبادلے اور تنخواہ میں اضافے کے آرڈر لے لوں، مگر میں کاپی جوڑنے کے ڈر سے جلد از جلد دفتر سے چلے جانا چاہتا تھا ، میں نے ان سے گزارش کی کہ میرے آرڈر مجھے ملتان بھیج دیئے جائیں جو کل مجھے مل جائیں گے،اس کے ساتھ ہی میں نے اظہر صاحب سے اجازت لی اور ان کے کمرے سے نکلتے ہوئے پھر واپس پلٹا اور گزارش کی کہ سر! ارشد صاحب کو بتادیجئے کہ آپ نے مجھے ملتان بھیج دیا ہے ۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ روز نامہ ’’کوہستان‘‘ کی اشاعت پر دو ماہ کے لئے پابندی کے باعث ملتان دفتر کو از سر نو منظم کیا جارہا ہے اور میرا تبادلہ اسی وجہ سے عمل میں آیا ہے۔
میں شاہ دین بلڈنگ سے سیدھا میکلوڈ روڈ پر واقع لاہور ہوٹل پہنچا جہاں میں نے تین روپے روزانہ کرائے پر ایک کمرہ لے رکھا تھا، مختصر سا سامان باندھا، ہوٹل والوں کو ادائیگی کی اور بس سے عازمِ ملتان ہوگیا۔ ملتان پہنچا اورگُل دین کالونی تلاش کرتے کرتے دفتر نوائے وقت جا پہنچا جہاں ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب مقبول احمد میر ے منتظر تھے۔ میں آفاق میں ان کے ماتحت کام کرچکا تھا ۔ مقبول احمد صاحب ریڈیو سے خبریں مانیٹر کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے مگر انہیں میری زُودنویسی کا بھی کچھ کچھ اندازہ تھا ، انہوں نے مجھے ریڈیو سے آٹھ بجے شب کی خبریں لینے پر مامور کردیا، دوسرے ارکانِ ادارہ کے لئے یہ بات حیرت کا باعت تھی کیونکہ مقبول صاحب جس اخبار میں کام کرتے ہوں ریڈیو سے خبریں لینا صرف ان کا کام ہوتا تھا ۔ وہ کسی اور کو اس کام کا اہل نہیں سمجھتے تھے ۔ میں نے خبریں مرتب کرکے ان کے حوالے کیں اور ساتھ ہی یہ مقبول صاحب کا حکم بجلی بن کر مجھے پر گرا۔ مولوی صاحب! آپ دوسرے کمرے میں جائیں اور کاپی جوڑیں، میں کمرے سے باہر نکل کر برآمدے میں آگیا مگر اس خیال سے میرے پسینے چُھوٹ گئے کہ کاپی جوڑنے کے کام سے جان بچانے کے لئے میں نے لاہور چھوڑامگر کاپی نے مجھے یہاں بھی نہیں چھوڑااور کاپی جوڑنے کا کام کسی آسیب کی طرح میرا پیچھا ہی کرتا آرہا ہے ۔ یہ خیال آتے ہی میں نے فیصلہ کرلیا کہ آج میں کاپی جوڑوں گا ، اور کسی کو بتاؤں گا بھی نہیں ، کہ میں لاہور سے ملتان کیوں آگیا اور نہ ہی کسی کو یہ پتہ چلنے دوں گا کہ میں زندگی میں پہلی بار کسی اخبار کی کاپی جوڑ رہا ہوں اور میں نے یہ معرکہ انجام دے ہی دیا اور میرے ہاتھوں کی جوڑی ہوئی کاپی والا اخبار پریس سے چھپ کر بازار میں آگیا اور کسی کو یہ خبر نہ ہوسکی کہ یہ ایک نئے سب ایڈیٹر کی زندگی میں جوڑی ہوئی سب سے پہلی کاپی ہے۔
بشیر احمد ارشد کے ساتھ تعلقات کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب روز نامہ ’’جاوداں‘‘ بند ہوجانے کے بعد انہوں نے بعض قریبی دوستوں کے مالی اشتراک سے ہفت روزہ ’’استقلال‘‘ نکالا اور اس کا دفتر میاں منظر بشیر کی شہرہ آفاق عمارت ’’شاہ دین بلڈنگ‘‘ میں قائم کیا ، اس بلڈنگ کے ایک حصے میں جہاں نوائے وقت کا دفتر ہوا کرتا تھا ’’وفاق بھی لاہور ہوٹل کے بالمقابل 41 میکلوڈ روڈ سے وہاں منتقل ہوچکا تھا ، اب فرصت کے لمحات میسر آنے پر میں’’ استقلال‘‘ کے دفتر میں بشیر احمد ارشد صاحب سے ملنے چلا جاتا اور کبھی کبھار وہ بھی دفتر وفاق میں میرے پاس تشریف لے آتے ۔ وفاق کا اداریہ ارشاد احمد حقانی صاحب لکھ رہے تھے اور وہ روزانہ قصور سے اداریہ لکھ کر بھیجتے تھے ۔ ارشاد صاحب کا جمہوریت سے عشق کی حدتک لگاؤ تھا اور مصطفی صادق جمہوریت کو ایک بُت سمجھتے تھے جس کی پرستش ان کے نزدیک کُفر اور شرک کادرجہ رکھتی تھی ۔ مصطفی صادق کبھی کبھی ارشاد احمد حقانی کی جمہوریت پرستی سے بہت عاجز آجاتے تھے تب اداریہ لکھنے کا فریضہ مجھے انجام دینا پڑتا تھا ، میں اداریہ لکھتے ہوئے خود فراموشی کی کیفیت میں چلا جاتا اور مصطفی صادق صاحب کی سوچ اور فکر کو سامنے رکھ کر اداریہ لکھتا۔ پھر ایسا ہوتا کہ میرا قلم بعض مسائل پر زیادہ تندو تیز ہوجاتا تو مصطفی صادق کو پھر حقانی صاحب یاد آجاتے، ایسے ہی ایک موقع پر میں نے تجویز دی کہ اداریہ لکھنے کے لئے جناب بشیر احمد ارشد سے درخواست کی جائے کیونکہ وہ جمہوریت پر ست ہونے کے باوجود قدرے اعتدال اور توازن سے کام لے سکتے تھے۔ ارشد صاحب نے ہماری درخواست مان لی اور وفاق کا اداریہ لکھنے لگے۔
ایک مرتبہ جنرل محمد ضیاء الحق نے ایڈیٹروں کو اسلام آباد بلایا، مصطفی صادق صاحب سعودی عرب گئے ہوئے تھے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر نے مجھے فون کرکے کہا کہ میں اسلام آباد جاؤں یا اپنے کسی سینئر ایڈیٹر کو اس اجلاس میں شرکت کے لئے نامزد کردوں۔ میں نے فوراً ہی بشیر احمد ارشد کا نام تجویز کردیا ، ارشد صاحب ایڈیٹروں کے اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد چلے گئے، جب واپس آئے تو ہنستے ہوئے کہنے لگے تمہیں تو میرا اسلام آباد بھیجنا مہنگا پڑا کیونکہ میں کل سے نوائے وقت میں واپس جارہا ہوں، خیر! میں نے کوئی منفی رد عمل ظاہر نہ کیا اور ان کا فیصلہ خوشی خوشی قبول کرلیا۔ ارشد صاحب نے تفصیل یہ بیان کی کہ وہ ہوٹل کے جس کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے اس کے سامنے ہی مجید نظامی صاحب کا کمرہ تھا ، ایک موقع پر وہ اپنے کمرے سے نکل رہے تھے کہ سامنے مجید نظامی کے کمرے سے ہدایت اختر باہرآئے جو نوائے وقت راولپنڈی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور بشیر احمد ارشد اور ظہور عالم شہید کے گہرے دوست تھے ، ہدایت اختر ہاتھ پکڑ کر بشیر احمد ارشد کو مجید نظامی کے کمرے میں لے گئے جہاں معافی تلافی ہوگئی اور ارشد صاحب نے دوبارہ نوائے وقت میں جانے کا فیصلہ کرلیا،حمید نظامی کی زندگی اور مجید نظامی کے ابتدائی دورِ ادارت میں بشیر احمد ارشد اور ظہور عالم شہید کو نہایت اہم مقام حاصل رہا مگر نوائے وقت کے دفتر کے باہر ایک ہڑتالی کیمپ میں شرکت اور بعد ازاں ’’جاوداں‘‘ کی اشاعت کے بعد جو دُوریاں ہوگئی تھیں اُن کی وجہ سے ارشد صاحب نوائے وقت کے ا داریہ نویس ضرور مقرر ہوئے مگر اعتبار اور اعتماد کی وہ فضا میسرنہ آسکی جو ان کے دور اول میں اُنہیں حاصل تھی ۔
بشیر احمد ارشد نوائے وقت کی اداریہ نویسی کے سارے عرصہ میں جناب حمید نظامی کے فکر و فلسفہ کے مقلدر ہے ۔ ان کی تحریر کا انداز بھی حمید نظامی کی تربیت کے طفیل بہت سادہ اور دل نشیں ہوتا تھا اور اس طرح انہوں نے حمید نظامی کے دورِادارت میں بھی انہی نظریات کی پاسداری کی جو حمید نظامی کو ہمیشہ عزیز رہے۔ بشیر احمد ارشد کا انتقال اس طرح ہوا کہ وہ رات کو اپنے گھر پر دوستوں کے ساتھ محوِگفتگو رہے۔ اس گفتگو میں ’’ جب امرتسر جل رہا تھا ‘‘ کے مصنف جناب خواجہ افتخار بھی شریک تھے، رات کو کسی وقت انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا اور ان کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی ، بشیر احمد ارشد ایک نہایت سنجیدہ اور بُرد بار صحافی تھے مگر مجلس احباب میں وہ سنجیدگی کا دامن جھاڑ کر شگفتگی کے پھُول کھلاتے تھے ۔ چوہدری عبدالحمید کے مکتبہ کا رواں پر ان کی اپنے دوستوں کے ساتھ نشستیں ان محفلوں کے شرکاء کبھی بھلا نہیں سکیں گے اور پاکستان کے اردو اخبارات میں اداریہ لکھنے والے ممتاز صحافی کی حیثیت سے بشیر احمد ارشد ہمیشہ زندہ رہیں گے۔