دربار صحافت

خلیق الرحمن سیفی از جمیل اطہر

گریبان بھی تو ہے

خلیق الرحمن سیفی از جمیل اطہر

اسم بامسمیٰ۔ خلیق الرحمن سیفی مدیر روزنامہ ’’سعادت‘‘ لاہور کا سانحہ ارتحال جہاں علاقائی اور مقامی صحافت کے لئے ایک ایسا نقصان ہے جس کی کبھی تلافی نہیں ہو سکے گی وہیں میرے لئے خلیق کی رحلت ذاتی لحاظ سے ایک بڑی کمی اور خلا کی حیثیت رکھتی ہے۔ روزنامہ ’’سعادت‘‘ سے میرے رشتہ اور تعلق کی کہانی پچاس برس سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔ میں نے پچپن سال پہلے جن اخبارات کے بچوں کے صفحات پر لکھنا شروع کیا ان میں روزنامہ ’’سعادت‘‘ بھی شامل ہے جس کے بچوں کے صفحہ کے نگران ممتاز نعت گو شاعر جناب اختر سدیدی تھے جنہوں نے عمر بھر روزنامہ ’’سعادت‘‘ سے وابستگی اختیار کئے رکھی، روزنامہ ’’سعادت‘‘ کے بانی اور مدیر جناب ملک امام بخش ناسخ سیفی، جناب اختر سدیدی کے بہنوئی تھے اور سیفی صاحب کا یہ لائق بیٹا خلیق الرحمن، جناب اختر سدیدی مرحوم کا داماد تھا۔
جناب ناسخ سیفی نے جب لائل پور کے علاوہ لاہور سے بھی ’’سعادت‘‘ کی اشاعت شروع کی تو لاہور دفتر کے انتظامی اور ادارتی فرائض جناب خلیق الرحمن کو سونپے جو اس وقت ایک بہت ہی کم گو اور کم آمیز نوجوان تھے۔ سیفی صاحب اس سے پہلے بھی ایک دو بار لاہور سے ’’سعادت‘‘ کی اشاعت کا تجربہ کر چکے تھے مگر اچھی ٹیم میسر نہ آنے کے باعث یہ تجربات زیادہ خوشگوار نہیں رہے تھے، اسی بنا پر ’’سعادت‘‘ لاہور کے نئے دور میں جواں سال خلیق نے اپنے والد گرامی کا دایاں بازو بننے کا فیصلہ کیا، میکلوڈ روڈ پر نیشنل بینک کی برانچ (جو اب بند ہو چکی ہے) کے قریب ایک عمارت کی بالائی منزل میں ’’سعادت‘‘ کا دفتر قائم کیا گیا۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد یہ دفتر کُوپر روڈ پر فضل بلڈنگ میں منتقل ہو گیا۔ جناب ناسخ سیفی کا اپنی زندگی کے آخری برسوں میں یہ معمول رہا کہ وہ جب بھی لاہور آتے تو ’’سعادت‘‘ کے دفتر جانے کی بجائے ضروری کاموں سے فارغ ہو کر اپنا سارا وقت -14 ایبٹ روڈ پر روزنامہ ’’تجارت‘‘ (اس وقت جرأت کا اجراء عمل میں نہیں آیا تھا) کے دفتر میں میرے کمرے میں گزارتے، چائے، کھانا اور نمازوں کی ادائیگی اسی کمرے میں ہوتی۔ سیفی صاحب ایک زاہد شب بیدار اور صُوفی منش شخص تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ اپنے بیٹے خلیق کو کام کے لئے زیادہ سے زیادہ آزادانہ ماحول مہیا کریں تاکہ وہ ان کی موجودگی کے باعث اپنے اُوپر کسی طرح کا دباؤ محسوس نہ کرے، مگر وہ خلیق کو اس بات کی بہت تاکید کرتے تھے کہ وہ دفتر تجارت آ کر مجھے تواتر سے ملتا رہے اور اگر اُسے روز مرہ کاموں کے سلسلے میں کوئی دشواری پیش آئے یا اسے کوئی مسئلہ درپیش ہو تو مجھ سے مشورہ کر لیا کرے۔ خلیق نے اپنے والد محترم کی اس نصیحت اور ہدایت کو پلّے باندھ لیا۔ وہ ناسخ سیفی صاحب کی زندگی میں اور ان کے خالق حقیقی کے پاس چلے جانے کے بعد بھی مجھ سے رابطہ میں رہتا، کبھی ٹیلی فون پر اور کبھی خود میرے پاس آ کر۔ خلیق نے ’’سعادت‘‘ کو مالی اور انتظامی طور پر مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے شبانہ روز محنت کی۔ گوجرانوالہ سے ’’سعادت‘‘ کے ایک ایڈیشن کا اجراء کیا۔ شیخوپورہ سے ہفت روزہ ’’یقین‘‘ نکالا اور خواتین کے لئے ایک ماہانہ جریدہ ’’اساطیر‘‘ کی اشاعت شروع کی، اپنے ادارہ کے لئے اس نے ٹیلی ویژن سٹیشن اور ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ پنجاب کے دفتر کے سامنے چند مرلوں پر مشتمل عمارت تعمیر کرائی اور اس کے تہہ خانہ میں ’’سعادت آرٹ پریس‘‘ کے نام سے ایک پرنٹنگ پریس بھی قائم کر لیا۔ خلیق نے ’’سعادت‘‘ کے لئے صوبہ بھر میں نامہ نگاروں کی ایک فعال ٹیم بنائی اور اس ٹیم کے محنتی کارکنوں کے تعاون سے اس نے قومی تہواروں پر ’’سعادت‘‘ کے ضخیم خصوصی سپلیمنٹ شائع کرنا شروع کئے، نامہ نگاروں کو ان کے کمیشن کی بروقت اور بیشتر مواقع پر پیشگی ادائیگی نے اشتہارات کے حصول کا کام کرنے والے اس کے رفقاء کو اس کا گرویدہ بنا دیا، جب ایک نگران وزیراعلیٰ کے دور میں خصوصی سپلیمنٹوں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی تو ’’سعادت‘‘ کو اس سے بہت دھچکا پہنچا اور خلیق بھی اس صُورت حال سے پریشان رہنے لگا، اُس کے میرے پاس آنے کے معمول میں بھی کمی آنے لگی، اسی دوران پتہ چلا کہ اسے ڈیپریشن کا شدید دورہ پڑا ہے اور اس کے بڑے بھائی عتیق الرحمن آرام اور علاج کے لئے اسے اپنے پاس فیصل آباد لے گئے ہیں، چند ماہ کے آرام اور علاج کے باعث اس کی صحت سنبھل گئی۔ وہ لاہور واپس آ گیا اور ’’سعادت‘‘ کے روز مرہ کاموں میں پھر منہمک ہو گیا، میرے پاس اس کی آمد کا سلسلہ بھی بحال ہو گیا۔ خلیق کے دُوسرے اوصاف کے علاوہ اس کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس نے ’’سعادت‘‘ کے نظریاتی تشخص کو زندہ رکھا۔ سعادت کو یہ منفرد اعزاز حاصل رہا کہ تحریکِ پاکستان کے دوران جب ’’سعادت‘‘ کمالیہ اور پھر لائل پور سے ہر ہفتے شائع ہوتا تھا قائداعظمؒ نے مدیر سعادت جناب ناسخ سیفی کو اپنے گراں قدر اور بیش قیمت پیغامات سے نوازا اور انہیں ’’سعادت‘‘ کو ہفت روزہ سے روزانہ اخبار میں تبدیل کرنے کی ہدایت کی۔ خلیق، ناسخ سیفی اور اختر سدیدی مرحوم کی طرح ’’سعادت‘‘ کے صفحہ اول پر مقالات خصوصی شائع کرتا۔ جناب ناسخ سیفی قیامِ پاکستان اور تعمیر پاکستان کی جدوجہد میں ایک صحافی کی حیثیت سے شریک و شامل رہے اور اپنی زندگی کے آخری دس پندرہ برسوں میں انہوں نے اہل سُنت و الجماعت کے مؤقف و مسلک کی ترجمانی کے لئے بھی ’’سعادت‘‘ کو وقف کر دیا تھا۔ خلیق الرحمن نے نظریہ اور مسلک کے ان پرچموں کو اپنی فعال اور سرگرم زندگی کے آخری لمحے تک تھامے رکھا۔ اُس نے ’’سعادت‘‘ کے ان شماروں کو آثار قدیمہ کی مرکزی وزارت کے خصوصی شعبے میں محفوظ کرایا اور اپنے دفاتر میں بھی ان خصوصی شماروں کی کاپیاں LAMINATION سے محفوظ کر لیں۔ خلیق علاقائی صحافت کے تمام تر تقاضوں اور ضروریات سے کماحقہ آگاہ تھا اور اس نے مقدور بھر کوشش کی کہ اپنے عظیم والد جناب ناسخ سیفی کے ہاتھوں لگائے ہوئے ’’سعادت‘‘ کے اس پودے کو اپنے خُون سے سینچتا رہے۔ اُس کی زندگی کے تمام شب و روز اسی پیچ وتاب میں گزرے کہ خزاں کا کوئی جھونکا ’’سعادت‘‘ کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن ملکی صحافت میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں، بڑے اخباری گروپوں کے بڑھتے ہوئے اثرات اور علاقائی اور قومی سطح پر اخبارات کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ نے مقابلہ اور مسابقت کی جو فضا پیدا کر دی تھی خلیق کا دل و دماغ اس سے بُری طرح متاثر ہوئے۔ اس کی صحت جواب دے گئی، وہ اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود تندہی سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہا مگر حقیقتاً اس کے اعصاب نے قلب و ذہن پر پڑتے ہوئے بوجھ کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا، کئی سال کی خرابی صحت اور طویل علالت کے باعث خلیق 29 نومبر 2009ء بروز اتوار اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔
بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ گلستانِ سیفی کے اس پُھول کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور حضرت ناسخ سیفیؒ کے ہاتھوں پروان چڑھنے والا روزنامہ ’’سعادت‘‘ اُفقِ صحافت پر ہمیشہ جگمگاتا رہے اور اختر سدیدیؒ ، شفیق الرحمن اور خلیق الرحمن نے ’’سعادت‘‘ کے شجر کی آبیاری کے لئے جو شبانہ روز جدوجہد کی تھی اللہ تعالیٰ اسے برگ و بار لائے اور ’’سعادت‘‘ ناسخ سیفیؒ ، اختر سدیدیؒ اور ان کے خاندان کا نام تاابد روشن رہے۔ آمین۔