دربار صحافت

راشد بٹ کی یاد میں…تحریر سید عباس اطہر

بعض موتیں انسان کو زندگی سے ڈرا دیتی ہیں۔ وہ اپنے آپ پر تو اعتماد کھوتا ہی ہے اسے اپنے ساتھ تعلق اور محبت کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہر شخص کے بارے میں یہ خوف بھی آنے لگتا ہے کہ پتہ نہیں وہ چند منٹوں، گھنٹوں، دنوں، ہفتوںیا مہینوں کے بعد کہیں آس پاس موجود ہو گا بھی یا نہیں۔ ہفتہ دس دن کی بات ہے راشد بٹ اور جنوبی کوریا میں پاکستان کے سابق سفیر سید پرویز علی شاہ میرے پاس نوائے وقت کے دفتر میں آئے۔ مقصد ایک چھوٹی سی تقریب کیلئے دعوت دینا تھا۔ رخصت ہوتے وقت بٹ صاحب نے میرے کوٹ کے کالر پر ہاتھ لگا کر کہا ’’بہت خوب ہے‘‘ میں نے جواب دیا ’’یہ وہی ہے جو آپ نے پچھلے سال مجھے دیا تھا‘‘ وہ اچانک پشیمان سے ہو گئے۔ اس طرح جیسے میں نے ان پر شک کیا ہو کہ وہ کچھ جتلا رہے ہیں۔خیر میں نے انہیں تسلی دی اور بتایا کہ میں نے ان سے اب تک جو کپڑے چھینے ہیں۔ ان میں اس کوٹ کے علاوہ دو کوٹ اور دو سوٹ آج بھی میرے گھر میں ٹنگے ہوئے ہیں اور ایک سوٹ اور دو کوٹ میں نے اس سال کسی دوست کو دے دئیے ہیں۔ میں نے یہ گلہ بھی کیا کہ اس سال آپ نے ابھی تک مجھے کچھ نہیں دیا۔ بٹ صاحب نے کہا کہ ایک اَن سلا کپڑا انگلینڈ سے آیا ہے وہ کسی دن پہنچا دوں گا۔ میں نے شرط لگائی کہ سلائی کے پیسے بھی آپ کو ساتھ دینے پڑیں گے ورنہ میرے لئے اس بار بھی ریڈی میڈ منگوا لیں۔ قصہ یہ تھا کہ راشد بٹ کے بڑے بھائی ہر سال انہیں تھوک کے حساب سے ریڈی میڈ کپڑے بھجوایا کرتے تھے۔ میں جب کبھی ان کے گھر جاتا الماری کھول کر اپنی پسند کا کوئی کوٹ یا سوٹ اٹھا لیتا۔ بٹ صاحب کے میرے جیسے اور ’’کلائنٹ‘‘ بھی ہوں گے۔ ایک مستقل کلائنٹ پنجاب کے سابق سیکرٹری اطلاعات اور موجودہ وفاقی سیکرٹری طارق محمود بھی تھے جو ان کے قریبی عزیز ہیں۔ میرے سمیت کچھ لوگوں کو بٹ صاحب کے بٹوے تک بھی دسترس حاصل تھی۔ وہ ایک ایسے دوست تھے جس کے بارے میں یہ یقین کیا جا سکتا تھا کہ ماتھے پر شکن ڈالے بغیر آپ کیلئے ہر وہ کام کر دیں گے جو اُن کے بس میں ہے۔ بدھ کی رات کو ساڑھے گیارہ بجے میرے موبائل پر حفیظ اللہ نیازی صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے کہا آپ کو پتہ تو چل گیا ہو گا بٹ صاحب کا جنازہ کل دوپہر 2 بجے اٹھایا جائے گا۔ میں نے کہا ’’کونسے بٹ صاحب‘‘ وہ بولے ’’راشد بٹ صاحب فوت ہو گئے ہیں‘‘ میرا دماغ سن ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ انہیں صبح کے وقت دل کا دورہ پڑا۔ ہسپتال لیجایا گیا۔کامیاب انجیو پلاسٹی ہوئی۔ ہوش میں آ کر باتیں بھی کرتے رہے۔ رات ساڑھے آٹھ بجے پھر دل کا دورہ پڑا اور وہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئے۔ زندگی کی کہانیاں خواہ کتنی بھی لمبی کیوں نہ ہوں آخر میں آ کر اسی طرح مختصر ہو جاتی ہیں۔
بٹ صاحب سے میری دُعا سلام 1967-68ء کے زمانے میں شروع ہوئی تھی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے مشہور لیڈروں میں شمار ہوتے تھے اور میں اخبار میں کام کرتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی وزارت چھوڑ کر سیاست شروع کی تو وہ ان کے حامی طالبعلم لیڈروں میں سب سے نمایاں تھا۔ مال روڈ پر ’’لارڈز‘‘ نام کا ایک ریسٹورنٹ ہوا کرتا تھا۔ جو اس دور کی سیاست کا مرکز تھا۔ شروع شروع میں بھٹو صاحب سے قربت بہت خطرناک کام سمجھا جاتا تھا۔ پولیس اور ایجنسیاں پیچھے پڑ جاتی تھیں اور بہت تنگ کیا کرتی تھیں۔ اس دور کے حالات کے حساب سے کام بڑا خطرناک تھا لیکن راشد بٹ نے بھٹو صاحب کی خواہش پر ’’لارڈز‘‘ میں ایک تقریب منعقد کی اور حکومت کی ’’بیڈ بکس‘‘ میں آ گئے۔ مفرور ہوتے اور گرفتار ہوتے رہے لیکن باز نہیں آئے۔ ایک واقعہ وہ بڑے مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے (دکھ کے لمحے ماضی کا حصہ بن جائیں تو دلچسپ ہو جاتے ہیں) ۔وہ اور خالد چودھری اکٹھے پولیس کے ہاتھ چڑھ گئے۔ انہیں سول لائنز تھانے میں صرف ایک کمبل دیکر شدید ٹھنڈی حوالات میں بند کر دیا گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے چمٹ کر ننگے فرش پر سونے کی کوشش کی لیکن نیند کہاں آنی تھی۔ وہ ساری رات کبھی ہاتھ رگڑتے کبھی ٹھنڈی دیواروں کے ساتھ لگ کر ان میں سے حدت نکالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اذیت تھی کہ ختم ہونے میں نہیں آتی تھی۔ رات جوں توں گزری صبح دونوں کو دفتر میں بلا کر معافی نامہ لکھنے کیلئے کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور پھر کئی راتیں اسی طرح گزارنی پڑیں۔ جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے توراشد بٹ غالباً یونیورسٹی یونین کے نائب صدر تھے۔ اُن کی دعوت پر بھٹو یونیورسٹی آڈیٹوریم آئے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ اس تقریب میں اچانک ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ حسین نقی نے ’’شاؤٹنگ‘‘ سے ملتی جلتی بلند آواز میں بھٹو مرحوم پر کوئی جملہ کسا۔ وہ برہم ہو گئے۔ سکیورٹی والے حسین نقی کی نشست کی طرف بھاگے۔ راشد بٹ سٹیج پر بے بس کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے اور کچھ نہیں کر سکتے تھے لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ ہونے سے پہلے بھٹو صاحب کو شاید حسین نقی کے ساتھ ماضی کا تعلق یاد آ گیا اور انہوں نے یہ کہہ کر سکیورٹی والوں کو روک دیا ’’کچھ نہ کہنا یہ میرا دوست ہے‘‘ ۔ہوا کچھ نہیں لیکن حسین نقی اور راشد بٹ سمیت بھٹو صاحب کی دوستی کے تمام دعویداروں نے یہ ضرور دیکھ لیا کہ اپوزیشن میں دوستی کا معنی کیا ہوتا ہے اور اقتدار میں آ کر وہ کتنا بدل جاتا ہے۔ راشد بٹ کو حکمرانوں کے پیچھے پیچھے پھرنا اور کچھ نہ کچھ مانگتے رہنا پسند نہیں تھا اس لئے بھٹو صاحب کے دور اقتدار میں وہ پس منظر میں چلے گئے۔ ملک معراج خالد مرحوم کے ساتھ ان کی دوستی بہت پکی تھی۔ جب ملک صاحب نگران وزیراعظم (برائے تقریبات) بنے تو راشد بٹ نے اپنے گھر کے سامنے والی گراؤنڈ میں ان کی دعوت کی۔ بہت زور دیکر مجھے بھی بلایا۔ ایک دوست نے راشد بٹ کو علیحدہ کرکے پوچھا کہ ملک صاحب تو اپنے لئے بھی کچھ نہیں کر سکتے آپ ان پر اپنا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں ۔بٹ صاحب کا جواب یہ تھا ’’ملک صاحب مجھے اس لئے پسند ہیں کہ وہ اقتدار کو کوئی وقعت نہیں دیتے وزیراعلیٰ بن جائیں یا وزیراعظم، ملک معراج خالد ہی رہتے ہیں‘‘۔
راشد بٹ بھٹو صاحب کے مصیبت کے دنوں میں سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ اقتدار کے دور میں سابق سٹوڈنٹ لیڈر ہو گئے اور یہ لفظ ’’سابق‘‘ ہی ان کی پہچان بنا رہا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اقتدار کے ایوانوں سے دور ہی رکھا ورنہ وہ بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔ شاہ خرچ تھے اس لئے والدین سے ورثے میں ملنے والی جائیداد بیچ بیچ کر بھی خوش رہتے تھے۔ موت نازل ہونے سے پہلے کبھی یہ نہیں پوچھتی کہ تم زندگی کے کاموں سے فارغ ہو چکے یا نہیں، بٹ صاحب اپنے تینوں بچوں کے مستقبل سمیت بہت سے کام ادھورے چھوڑ گئے ہیں۔ پسماندگان میں انہوں نے اپنے خاندان کے علاوہ بے شمار دوست چھوڑے ہیں جو اُنہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ وہ اپنے دوستوں کی بکھری بکھری چھوٹی چھوٹی دنیاؤں میں ویسا ہی ’’اِک شخص‘‘ تھے جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے’’سارے شہر کو ویران کر گیا‘‘۔