دربار صحافت

زیڈ اے سلیری از جمیل اطہر

زیڈ اے سلیری از جمیل اطہر

میں اسے حسنِ اتفاق ہی کہوں گا کہ جناب مجید نظامی نے جناب زیڈ اے سلیری کی یاد میں پریس انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام یہ اجتماع اس دن منعقد کیا ہے جب یوم آزادئ صحافت بھی منایا جارہا ہے۔ آئیے اس موقع پر وطن عزیز میں آزادئ صحافت کی جنگ لڑنے والے اس بوڑھے جرنیل (کرنیل تو وہ 1965ء میں ہوگئے تھے) کی کچھ یادیں تازہ کریں، میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں زیڈ اے سلیری کے مضامین اور کالم پڑھ کر اور اخبارات و جرائد میں ان کی تصاویر دیکھ کر احساس تفاخر ہوتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر کے مواقع بھی عطا کئے کہ بانئ پاکستان حضرت قائد اعظم کے سپاہی، قومی اور ملی صحافت کے درخشندہ ستارے، دنیا کی ایک بڑی اسلامی مملکت میں مسلم قومیت کے عظیم علمبردار کے ساتھ بیٹھنے اور ان کے رفقاء میں شامل ہونے کا اعزاز نصیب ہوا۔ یقین جانیں دُور سے ان کی شخصیت کا جو سحر قائم ہوا تھا قریب ہونے سے اس میں اضافہ ہی ہوا اور اس اعتبار سے فخر کا احساس بھی فزوں تر ہوتا چلا گیا خاص طور پر اس وقت جب اپریل 94ء میں وہ تیسری بار سی پی این ای کے صدر منتخب ہوئے اور یہ عاجز سیکرٹری جنرل چناگیا۔ جب یہ انتخاب ہوا تو میں اندر سے بہت ڈرا اور سہما ہوا تھا۔ کہاں دنیائے صحافت کی اتنی بڑی شخصیت کہاں یہ حقیر پُر تقصیر، مجھے سلیری صاحب کے ساتھ کام کرنا بہت ہی مشکل اور دشوار دکھائی دیتا تھا لیکن ان کے ساتھ، ان کی قیادت اور رہنمائی میں کام کرنے کا تجربہ بہت ہی خوشگوار اور بیش قیمت ثابت ہوا۔ انہوں نے ایک بزرگ کی شفقت مرحمت فرمائی اور ایک رہنما و قائد کے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کیا اور ایک ایک قدم پر حوصلہ افزائی کی اور ہمت بڑھائی۔
جس طرح یہ بحث چلتی رہی ہے کہ ہم دین اور سیاست کی تفریق کے قائل نہیں ہیں اسی طرح سلیری صاحب کی تقریریں اور گفتگوئیں سن کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ صحافت اور سیاست کی کسی تفریق کے قائل نہیں تھے، وہ دونوں کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے اور جس طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں صاحب مسلمان پہلے ہیں اور پاکستانی بعد میں اور کچھ حضرات اس سے مختلف تاثر کا اظہار کرتے ہیں تو سلیری صاحب کے متعلق یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ وہ اپنی شخصیت میں سب سے پہلے صحافی تھے اور اس کے باقی تمام اوصاف یا شناختیں اس کے بعد ہی آتی ہوں گی۔ سلیری صاحب کے نزدیک سیاست کے میدان میں ہر واقعہ اور ہر تبدیلی پر گہری نظر رکھنا ایک صحافی کا اولین فریضہ ہے اور واقعات کے اس نشیب و فراز کو درست سمت میں رکھنے کے لئے قلم کی قوت کا استعمال صحافی کی دوسری بنیادی ذمہ داری ہے۔ سلیری صاحب نے یہ فرائض اور ذمہ داری بڑی جرأت و بہادری سے ادا کیں، انہیں اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی ان کے اپنے ملکیتی اخبارات ’’ٹائمز آف کراچی‘‘ اور ’’ایوننگ ٹائمز‘‘ جاری نہ رہ سکے۔ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں ان کا آنا جانا رہا۔ ’’نوائے وقت‘‘ عام طور پر ان کی پناہ گاہ رہا اور اس مورچے میں بیٹھ کر انہوں نے بڑی زبردست تیراندازی کی۔ سلیری صاحب کا اس بات پر ایمان کی حد تک یقین تھا کہ پاکستان جن مقاصد کے لئے معرض وجود میں آیا ہے اس کی تکمیل کے لئے مختلف ادوار کے حکمرانوں میں “Political Will” سیاسی قوت فیصلہ یا سیاسی قوت ارادی کی کمی رہی۔ وہ جہاں کہیں اور جب کبھی اس فقدان کو محسوس کرتے بڑی بہادری سے اس کا اظہار کرتے اور کوئی مصلحت ان کے عزم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتی۔ آزادئ صحافت کی جدو جہد میں انہوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کا خیال تھا کہ حکمران صحافیوں کو آزادی کبھی طشتری میں سجا کر پیش نہیں کریں گے بلکہ صحافیوں کو اپنے زور بازو سے آزادی حاصل کرنا اور چھیننا پڑے گی۔ اس مقصد کے لئے وہ اخبار نویسوں بالخصوص ایڈیٹروں میں اتحاد کو اس جدوجہد اور اس منزل کی شرطِ اول اور پہلا زینہ تصور کرتے تھے۔ ایک موقع پر جب وہ سی پی این ای میں سرگرم نہیں تھے اور یہ جماعت دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔انہوں نے سی پی این ای میں فعال کچھ ایڈیٹروں سے دریافت کیاکہ آپ کے اتحاد میں اصل رکاوٹ کیا ہے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ایک بزرگ ایڈیٹر متحدہ سی پی این ای کو نیا نام دینے کے خواہاں ہیں تو سلیری صاحب نے بلاتامل کہا کہ اتحاد کے لئے یہ بہت معمولی قیمت ہے۔ نئے نام سے جماعت کی تشکیل پر سرِ تسلیم فوراً خم کردیں۔
1994-95ء میں سی پی این ای کے ان کے دور صدارت کے ایک دلچسپ واقعہ کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ میں نے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ایک بیان جاری کردیا جس میں اخبارات پر جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ واپس لینے کے حکومتی فیصلہ کا خیر مقدم کیا گیا تھا، سلیری صاحب کو اس بیان کے جاری ہونے پر اعتراض تھاکیونکہ ان کے خیال میں پالیسی امور پر بیان جاری کرنا صدر کی ذمہ داری ہے سیکرٹری جنرل کی نہیں اور اگر صدر موجود نہ ہو یا اس سے رابطہ نہ ہوسکتا ہو تو کسی ناگزیر صورت میں سیکرٹری جنرل ایسا کرسکتا ہے مگر جب صدر شہر میں موجود ہے اور سیکرٹری جنرل اس سے رسمی مشورہ اور منظوری کی ضرورت بھی نہ سمجھے تو اس صورت میں سیکرٹری جنرل کے اس اقدام کا نوٹس لینا ضروری ہے۔ مجیب الرحمن شامی نے جب مجھ سے سلیری صاحب کی اس شکایت یا گلہ کا ذکر کیا تو ان کی ناراضی اور خفگی کی بھی تصویر مجھے دکھائی۔ جب میں نے سلیری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر افسوس اور معذرت کا اظہار کیا تو انہوں نے میری معذرت کو اس قدر کشادہ دلی سے قبول کرلیا کہ انہوں نے اس موضوع پر کوئی ایک لفظ بھی نہ کہا۔ یہ تھی سلیری صاحب کی بڑائی اور عظمت۔
اب پیش کرتا ہوں سلیری صاحب کے ان تقریروں میں سے چند اقتباسات جو انہوں نے صدر سی پی این ای کی حیثیت سے مختلف مواقع پر کیں۔ ان اقتباسات سے آزادئ صحافت کے بارے میں ان کا اعلیٰ و ارفع تصور بہت واضح انداز میں سامنے آتا ہے۔ 25 اپریل 1994ء کو سی پی این ای کا صدر منتخب ہونے کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا، ’’سی پی این ای صحافت کی آزادی کے اس تصور کو فروغ دے گی جو ملک کی تعمیر میں مددگار ثابت ہو، ہم ایسی آزادی کے خواہاں ہیں جس کا مقصد تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ عوام کو درپیش مسائل حل کرنا ہے۔ پاکستان کے مدیران اخبارات و جرائد ہر بات کو ملک کے مفاد کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے اور اپنے قلم سے وطن عزیز کو مضبوط و مستحکم کرنے کا فرض انجام دیں گے۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ملک کے حالات دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ ان حالات میں فوج کے بعد قومی پریس ہی ملک کو متحداور مستحکم رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکتا ہے‘‘۔
27 اپریل 1995ء کو جب انہیں چوتھی بار سی پی این ای کا صدر منتخب کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں جب بیشتر قومی ادارے عضوِ معطل بن کر رہ گئے ہیں پریس کے کردار نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے اور پاکستان کے اخبارات کو اپنی ان گراں بہا ذمہ داریوں کا بخوبی احساس ہے جو ملک اور قوم کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ ہمارے قومی پریس نے اپنے فریضہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے اور وہ آئندہ بھی تمام مشکلات اور پابندیوں کے باوجود اپنا یہ فرض ادا کرتا رہے گا۔ ہم آزادئ صحافت کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور اپنا مقدس فرض جرأت کے ساتھ ادا کریں گے۔
21 جون 1995ء کو انہوں نے سی پی این ای کی مجلس قائمہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کراچی کی صورت حال پر گہرے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کراچی کا مسئلہ کسی ایک جماعت یا گروہ اور حزب اختلاف اور حزب اقتدار کا مسئلہ نہیں بلکہ پُورے ملک کا مسئلہ ہے اس مسئلہ کو اس نقطۂ نظر سے دیکھا جانا چاہئے۔ کراچی کے شہریوں کو ریاستی اقتدار اور اختیار میں شریک کرنا، ان کے نمائندوں کو جلد از جلد ان کے جائز دستوری، قانونی اور انتخابی حقوق واپس کرنا قومی سالمیت کے نقطۂ نظر سے اشد ضروری ہے۔ کراچی پاکستان کی واحد بندر گاہ اور صنعتی و معاشی لحاظ سے اہمیت رکھنے کے علاوہ ملک کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ کراچی کے عوام کو دہشت گردی، تخریب کاری اور حکومتی بے حسی کا جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اگر وقت کی آواز پر کان نہ دھرے گئے تو کراچی میں تخریبی کارروائیاں کرنے والے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے اور ملک کا سیاسی، معاشی اور انتظامی ڈھانچہ مزید خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔ انہوں نے اخبارات سے اپیل کی کہ وہ کراچی کے مسئلہ کے اطمینان بخش سیاسی حل کے لئے فضا کو سازگار بنانے کی غرض سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
16 جون 95ء کو کراچی میں ’’نوائے وقت‘‘ پر شر پسندوں کی فائرنگ اور راکٹ پھینکنے کے افسوس ناک واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ واقعہ صدر مملکت سے سی پی این ای اور اے پی این ایس کے عہدیداروں اور رہنماؤں کی ملاقات کے تین روز بعد پیش آیا جس میں سی پی این ای نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ کراچی کی صورت حال ایک اہم ترین قومی مسئلہ کو حل کرنے میں حکومت کے عزم و ارادہ کے فقدان کی مظہر ہے۔ پاکستان میں اخبارات کے خلاف تشدد کی تاریخ میں کراچی کا یہ سانحہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا سنگین واقعہ ہے جس میں مسلح حملہ آوروں نے راکٹ استعمال کئے۔ انہوں نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کی انتظامیہ اور کارکنوں سے پُر خلوص ہمدردی اور مکمل یک جہتی کا اظہار کیا۔ 11 اپریل 96ء کو لاہور میں سی پی این ای کی سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو پریس کے ساتھ تعلقات رکھنے کے لئے برداشت، رواداری اور حقیقت پسندی سے کام لینا اور دشنام طرازی سے گریز کرنا چاہئے۔ حکمرانوں کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے صحافت کو آزادی بخشی درست نہیں کیونکہ آزادی مانگنے سے نہیں ملتی بلکہ جدوجہد اور مسلسل کوشش سے حاصل کرنا چاہئے اور پاکستان میں ہر دور میں صحافیوں نے اس کے لئے گراں قدر قربانیاں دی ہیں۔ میں خود لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین کے زمانے میں آزادئ صحافت ہی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر چکا ہوں۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ایک طرف اخبارات سے بہتر تعلقات کی خواہاں ہیں جبکہ دوسری طرف وہ اخبارات کو بار بار جُھوٹا قرار دے کر ان کی توہین کرتی ہیں۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے جو باقی تینوں ستونوں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے لئے تقویت کا باعث بنتا ہے اس لئے حکومت کو اخبارات و جرائد کا احترام کرنا چاہئے اور ان کے ایڈیٹروں سے شائستہ لہجہ میں بات کرنی چاہئے۔ ’’یہ تھے قومی صحافت کے آزادانہ کردار کے بارے میں جناب زیڈ اے سلیری کے خیالات و تصورات جو صحافت کی آزادی کے لئے کام کرنے والوں کو ہمیشہ روشنی عطا کرتے رہیں گے اور ان کی راہوں کو فروزاں کرنے کا باعث بنیں گے‘‘۔