دربار صحافت

سید فصیح اقبال از جمیل اطہر

گنہگار لیڈر: کنبھ کرن کے خراٹے

سید فصیح اقبال از جمیل اطہر

اس رائے سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ سینیٹر (ر) سید فصیح اقبال کی رحلت سے قوم اپنے ایک مایہ ناز سپوت اور قابل فخر فرزند سے محروم ہوگئی ہے اور علاقائی اخبارات کے سر سے اپنے عظیم قائد اور رہبر کا سایہ اٹھ گیا ہے اور اے پی این ایس اور سی پی این ای کے اجلاسوں کی ایک پُر جوش آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی ہے۔ سید فصیح اقبال سے میرے دوستانہ اور برادرانہ روابط کاعرصہ کم و بیش نصف صدی پر محیط ہے ان ماہ و سال اور شب و روز کی داستان کسی مختصر تحریر یا گفتگو میں نہیں سما سکتی۔ ان کی طویل جدوجہد اور سیاست، صحافت اور معاشرت کے میدانوں میں ان کی خدماتِ جلیلہ کم از کم ایک کتاب کا تقاضا کرتی ہیں اور مجھے امید ہے کوئی اور یہ کام کرے یا نہ کرے کم از کم سی پی این ای کے صدر جنا ب مجیب الرحمن شامی اس کام کا بیڑہ ضرور اٹھائیں گے۔
سید فصیح اقبال سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب مصطفی صادق صاحب اور اس خاکسار نے سہگل پبلشرز لمیٹڈ (مالکان میاں سعید سہگل، میاں یوسف سہگل اور میاں رفیق سہگل) کے روزنامہ آفاق کے لائل پور (اب فیصل آباد) ایڈیشن سے الگ ہو کر 25 دسمبر1959 ء کو اپنے ہفت روزہ اخبار وفاق لائل پور کا اجراء کیا جو 18 فروری 1962 ء سے روزانہ شائع ہونے لگا، 25 دسمبر 1959 ء سے قبل میں نے پاک نیوز سروس کے نام سے ایک مقامی خبر ایجنسی شروع کی جس کا کام لائل پور کی مقامی خبریں اسی شہر کے روزانہ اخبارات کو مہیا کرنا تھا۔ بعض اخبارات نیوز سروس کا معاوضہ باقاعدگی سے ادا نہیں کر پاتے تھے جس کا حل ہم نے یہ سوچا کہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی قائم کی جائے جو نہ صرف ان اخبارات بلکہ لاہور، کراچی، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ کے اخبارات کو بھی مقامی صنعتی اداروں کے اشتہارات مہیا کرے تاکہ اشتہارات کے معاوضہ میں سے نیوز ایجنسی کا ماہانہ بل منہا کیا جاسکے۔ ہماری یہ کوشش بہت کامیاب ہوئی اور کوہ نور ٹیکسٹائل ملز (جن کے ملکیتی اخبار سے ہم نے علیحدگی اختیار کی تھی)کے سوا لائل پور کی تمام ٹیکسٹائل ملیں اور ادویات ساز ادارے مثلاً کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز، نشاط ٹیکسٹائل ملز، رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز،اشرف یونانی لیبارٹریزاور حمید سنز لیبارٹریز کو ہماری ایڈورٹائزنگ ایجنسی۔۔۔ پاک ایڈورٹائزرز۔۔۔ کے ذریعے اشتہارات جاری کرنے لگے، لائل پور میں اس وقت دو اخبار نویس احمد لطیف ظفر اور سردار محمد اختر پہلے ہی ’’بے مثال پبلسٹی‘‘ کے نام سے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی چلا رہے تھے۔
سید فصیح اقبال سے ملاقات کا ذریعہ بھی ہماری ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنی، 1960 ء میں ایک جوان رعنا 19 جناح کالونی لائل پور میں ہمارے دفتر میں داخل ہوا۔ میں اس وقت ٹائپ رائٹر پر کوئی خط ٹائپ کررہا تھا کام روک کر ان کی طرف متوجہ ہوا۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ سید فصیح اقبال ایڈیٹر روزنامہ زمانہ کوئٹہ۔ ان صاحب سے گفتگو کیا شروع ہوئی کہ انہوں نے کسی وقفہ کے بغیر اپنے اخبار کاکردار، بلوچستان کی تاریخ اور کوئٹہ کی صحافت میں اپنے رول کا اتنے دل نشین انداز میں اظہار کیا کہ فصیح اقبال نے میرے دل و دماغ میں ایسی جگہ بنالی جو نہ صرف ان کے دم آخریں تک برقرار رہی بلکہ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اس کے سائے اور بھی گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ سید فصیح اقبال 10 جنوری 1936 ء کو پیدا ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ الہ آباد سے ہجرت کرکے کراچی آئے، ان کے خاندان کے دوسرے لوگوں نے مستقل سکونت کے لئے ملتان اور کراچی کا انتخاب کیا۔
فصیح اقبال نے 1953 ء میں کوئٹہ کا رخ کیا اور وہاں سے اُردو ہفت روزہ زمانہ کا اجرأ کیا۔ کوئٹہ میں اس وقت کوئی روزنامہ نہیں تھا۔ فصیح اقبال نے ’’زمانہ‘‘ کے علاوہ چھ دیگر ہفت روزہ اخبارات کے ایڈیٹروں کو قائل کیا کہ ہم مل کر ’’کوئٹہ ڈیلی نیوز پیپر گروپ‘‘ کے زیر انصرام روزانہ ایک پرچہ اخبار کی صورت میں شائع کریں اور ان خبارات کی سرکولیشن اور اشتہارات کی آمدنی ایک جگہ اکٹھی کرکے باہم مساوی تقسیم کریں۔ یہ انتظام کچھ عرصہ چلتا رہا مگر بعد میں باہمی اختلافات کی نذر ہو کررہ گیا۔ تب فصیح صاحب نے ہفت روزہ زمانہ کو ’’روزنامہ ’’زمانہ‘‘ میں تبدیل کیا۔ یہ کوئٹہ میں قحط الرجال کا زمانہ تھا، اخبار کے لئے خوش نویس اور کارکن صحافی وہاں میسر نہیں تھے، فصیح اقبال اس مقصد کے لئے لاہور آتے اور افرادی قوت کی تلاش میں اخباری دفاتر اور کاتبوں کی بیٹھکوں میں وقت گزارتے اور کارکن صحافیوں اور خوش نویسوں کو زیادہ تنخواہ اور مفت رہائش اور موسم سرما الاؤنس کی ترغیب دے کر لاہور چھوڑنے اور کوئٹہ جانے پر آمادہ کرلیتے، ان میں سے کم ہی لوگ لاہور واپس آئے اور کچھ عرصہ زمانہ میں کام کرنے کے وہ بعد میں نکلنے والے ’’مشرق‘‘ اور ’’جنگ‘‘ میں چلے جاتے۔ انہوں نے 1964 ء میں علاقائی اخبارات کے مالکوں، ایڈیٹروں اور ناشرین کا ایک کنونشن بلایا جس میں لائل پور، جو علاقائی صحافت کا پہلا اہم مرکز تھا، کے ایڈیٹروں چودھری ریاست علی آزاد، چودھری شاہ محمد عزیز، جناب خلیق قریشی اور جناب ناسخ سیفی اور بہاولپور سے روزنامہ رہبر کے مدیر و مالک ملک محمد حیات کو اس کنونشن میں بلایا۔ اس موقع پر آل پاکستان ریجنل نیوز پیپرز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے صدر سید فصیح اقبال خود منتخب ہوئے۔ انہوں نے علاقائی اخبارات کو صحافت کے میدان میں ان کا جائز مقام دلانے کے لئے زبردست جدوجہد کی ۔ انہوں نے اضلاع سے نکلنے والے اخبارات کے لئے انگریز کے زمانہ سے رائج اصطلاح Mufassil کو ریجنل میں تبدیل کرایا اور اے پی این ایس اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر کی حیثیت سے سرکاری اشتہارات کے نرخوں میں اضافہ، رنگین اشتہارات کے اضافی نرخ اور سپلیمنٹوں میں چھپنے والے سرکاری اشتہارات کے نرخ بڑھوائے۔ سید فصیح اقبال دوسروں کو قائل بلکہ گھائل کرنے والی گفتگو کا خصوصی ملکہ رکھتے تھے اور اپنی بات منوائے بغیر نہیں رہتے تھے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے ایڈیٹر اورناشر ہونے کو انہوں نے کبھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا بلکہ اسے اپنی قوت اور طاقت کا منبع بنایا۔ انہوں نے 1976 ء میں کوئٹہ سے پہلے انگریزی اخبار ’’بلوچستان ٹائمز‘‘ کا اجراء کیا اور اس کی افتتاحی تقریب میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا۔
سیدفصیح اقبال میں پاکستان اور اس کے نظریہ سے محبت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ لاہور میں جناب مجید نظامی کی سربراہی میں قائم کردہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز کے بورڈ آف گورنرز کے رکن بھی رہے وہ 1985 ء سے 1994 ء تک سینیٹر منتخب کئے گئے اور سینیٹ کی اطلاعات و نشریات کی مجلس قائمہ کے چیئرمین رہے وہ اے پی پی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور پریس کونسل آف پاکستان کے رکن بھی رہے۔ انہیں 14 اگست 2010 ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز کا سول اعزاز دیا گیا۔
سید فصیح اقبال کے کردار کا یہ پہلو بہت تابندہ اور روشن ہے کہ انہوں نے صحافت کے پہلو سے ایک بے آب و گیاہ علاقے میں روزانہ اخبار نویسی کا ڈول ڈالا ان کی صحافت میں پاکستان سے محبت ان کے ایمان کا لازمی حصہ رہی بلوچستان میں بدترین صورت حال کے باوجود انہوں نے پاکستان کا پرچم بلند رکھا اور اسے سرداروں کے بعض کوتاہ اندیش سرداروں کے دباؤ کے باوجود سرنگوں نہیں ہونے دیا۔
سید فصیح اقبال کے دوست کی حیثیت سے پُر خلوص جذبات کا مظہر ایک واقعہ یاد آتا ہے ۔ 22 اگست 1980 ء کومصطفی صادق اور روزنامہ وفاق کے ساتھ بائیس سال کی رفاقت و شراکت کے بعد جب میں نے روزنامہ ’’تجارت‘‘ کا دفتر قائم کیا تو چند روز بعد ہی جب میں دفتر گیا تو سید فصیح اقبال ہمارے دفتر میں کاتبوں کے لئے مخصوص تخت پوش پر بیٹھے چپراسی سے میرے متعلق دریافت کررہے تھے کہ میں کتنے بجے دفتر آتا ہوں۔ مجھے دیکھ کر وہ گلے لگ گئے اور کسی وقفہ کے بغیر فرمانے لگے تمہیں میرے کسی تعاون اور مالی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں، مجھے جب ’’وفاق‘‘ سے تمہاری علیحدگی کا پتہ چلا تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں لاہور جاؤں گا اور تمہارے دفتر پہنچ کر تمہیں اپنے تعاون کی پیشکش کروں گا۔
انہوں نے میرے ساتھ تعلق خاطر کا یہ رشتہ آخری دم تک برقرار و استوار رکھا۔ اس میں میری طرف سے کوتاہی کا صرف ایک موقع آیا جب 1987ء میں اے پی این ایس کے صدارتی انتخاب میں سید فصیح اقبال اور میر خلیل الرحمن کے مابین مقابلہ ہوا اس وقت میں نے میر صاحب کا ساتھ دیا اس انتخاب میں ’’ قاضی اسد عابد نے سید فصیح اقبال کے حق میں ووٹ ڈالا اور فصیح صاحب وہی ایک ووٹ زیادہ لے کر اے پی این ایس کے صدر منتخب ہوگئے، میر خلیل الرحمن نے جنگ کے لئے خبر مرتب کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی، میں نے خبر میں لکھا کہ سید فصیح اقبال میر خلیل الرحمن کو ہرا کر اے پی این ایس کے صدر منتخب ہوگئے میر صاحب نے خبر سے ’’میر خلیل الرحمن کو ہرا کر‘‘ کے الفاظ یہ کہتے ہوئے حذف کر دیئے کہ بھائی ہم اپنے قارئین کو کیوں بتائیں کہ میر خلیل الرحمن کو سید فصیح اقبال کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے۔
جب 2010 ء میں سی پی این ای دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی اور ایک گروپ نے خوشنود علی خان کو اور ایک گروپ نے مجھے صدر منتخب کیا تو وہ ہمارے گروپ میں شامل رہے اور دونوں گروپوں کو دوبارہ متحد کرنے کے لئے جتنی کوششیں ہوتی رہیں ہمارے گروپ کی طرف سے وہی ہمارے مرکزی ترجمان اور نمائندہ رہے بالآخر یہ کوشش بار آور ہوئیں اور سی پی این ای متحد ہوئی جس پروہ بہت خوش ہوتے تھے۔
سید فصیح اقبال خوش رو، خوش لباس اور خوش خصال شخص تھے، انہیں کبھی افسردہ اور غمگین نہیں دیکھا تھا، ہمیشہ ہنستے، مسکراتے، قہقہقے لگانے والا فصیح اقبال یاد آتا ہے تو دل میں ہُوک سی اٹھتی ہے، یہ غیر شادی شدہ فصیح اقبال تھے، باغ و بہار اور ہنسی مذاق کے خوگر، اگر انہوں نے شادی کی ہوتی تو شاید ہم اس خوش مزاج فصیح اقبال سے محروم رہتے اور ان کا مزاج بھی ہم شادی شدہ لوگوں کی طرح برہم برہم ہی دکھائی دیتا۔
اے پی این ایس ہاؤس کے لئے پلاٹ بھی انہوں نے گورنر سندھ سے اس وقت الاٹ کرایا تھا جب وہ اے پی این ایس کے صدرتھے، اگرچہ وہ موجودہ اے پی این ایس ہاؤس کی تعمیر پر اٹھنے والے بھاری اخراجات پر خوش نہیں تھے، گزشتہ سالانہ اجلاس کے موقع پر انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ جگہ مرکزی شہر سے بہت دور ہے اے پی این ایس کا صدردفتر کسی ایسی جگہ ہونا چاہئے جہاں اخبارات اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے لوگ آسانی سے آجاسکیں۔ ان کی تجویز تھی کہ اے پی این ایس ہاؤس حکومت کو فروخت کر دیا جائے اور شہر کے مرکز میں اے پی این ایس ہاؤس بنایا جائے۔
سید فصیح اقبال پبلک ریلیشننگ کی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے، اے پی این ایس اور سی پی این ای کے اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہوتے تو لاہور، کراچی، اسلام آباد سے کوئٹہ جانے والی پی آئی اے کی پروازیں جب کوئٹہ کی حدود میں داخل ہوتیں تو کپتان کی طرف سے یہ اعلان سننے میں آتا کہ میں سید فصیح اقبال کی طرف سے مندوبین کا کوئٹہ آمد پر خیر مقدم کرتا ہوں۔ اسی طرح ایسے مواقع پر وزیراعلیٰ اور گورنر کی طر ف سے ظہرانوں اور عشائیوں کے علاوہ فصیح اقبال کوئٹہ سے بیس تیس کلو میٹر کی دوری پر کسی نہ کسی سیاسی شخصیت اور سردار کی طرف سے پُر تکلف عشائیہ کا اہتمام کراتے جو ارکان کے لئے تفریح اور لطف کے سامان مہیا کرتا تھا۔
سیدفصیح اقبال سے آخری ملاقات15 فروری 2013 ء کو اسلام آباد ہوٹل میں منعقدہ اے پی این ایس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ہوئی جہاں میں کرسیوں کی ایک قطار کے آخر میں بیٹھا ہوا تھا وہاں سے مجھے سید فصیح اقبال کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا اورمیں اجلاس میں تاخیر سے بھی پہنچا تھا۔ اچانک ان کی آواز سن کر میں چونکا وہ صدر سید سرمد علی سے کہہ رہے تھے، میری طبیعت بہت خراب ہے اورمجھے جلد چلے جانا ہے، کوئٹہ کے اخبارات کی ایسوسی ایٹ ممبر شپ کا مسئلہ ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ میں اپنی علالت کے باعث ان درخواستوں پر بلوچستان کمیٹی کی سفارش اے پی این ایس سیکرٹریٹ کو بروقت نہیں بھیج سکا۔ میری درخواست ہے کہ ایجنڈے میں شامل نہ ہونے کے باوجود ان درخواستوں کو منظور کرلیا جائے، میں نے فوراً ہی ان کی آواز میں اپنی آواز ملائی اور ان کی تجویز کی حمایت کی ، دوسرے ارکان نے بھی بڑھ چڑھ کر فصیح صاحب کی عزت افزائی کے لئے یہ درخواستیں کسی بحث اور رائے شماری کے بغیر منظور کرلینے پر زور دیا۔ ان اخبارات کو سید فصیح اقبال کی سفارش قبول کرتے ہوئے ایسوسی ایٹ ممبر شپ دے دی گئی۔
ان اخبارات کے نام اپنے ذہنوں میں تازہ کریں۔
-1 روزنامہ ’’عصر نو‘‘ کوئٹہ -2 روزنامہ’’عسکر انٹرنیشنل‘‘ کوئٹہ
-3 ماہنامہ ’’گدِروشیا‘‘ کوئٹہ -4 روزنامہ ’’ سالار‘‘ کوئٹہ
-5 روزنامہ ’’گوادر بزنس‘‘ کوئٹہ -6 روزنامہ ’’گوادر ٹائمز‘‘ کوئٹہ
-7 روزنامہ ’’تعمیر وطن‘‘ کوئٹہ -8 روزنامہ ’’نوائے ژونگ‘‘ کوئٹہ
یہ کوئٹہ کی علاقائی صحافت کے لئے ان کی دلچسپی اور لگن کی ایک درخشندہ مثال ہے، ایک ایسے ماحول میں جب کوئی پرانا اخبار کسی نئے اخبار کو اپنی صفوں میں آمد پر خوشگوار اور مثبت رد عمل کا اظہار نہیں کرتا یہ سید فصیح اقبال ہی تھے جنہوں نے ایک دو نہیں بلکہ آٹھ اخبارات کو اے پی این ایس کی ایسوسی ایٹ رکنیت دلائی۔ پاکستان کی صحافت عمومی طور پر اور کوئٹہ کی صحافت بالخصوص سید فصیح اقبال کو اپنے ایک محسن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کرے گی۔
یہ منظوری ملتے ہی فصیح اقبال اپنی نشست سے اٹھے اور ہال سے باہر جانے کے لئے میری نشست کے قریب سے گزرے میں ان کے احترام میں کرسی سے اٹھا، ان کی طرف دیکھتے ہی مجھے شدید جھٹکا لگا وہ بے حد کمزور ہو چکے تھے اور ان کے سرخ و سفید صحت مند گالوں کی حالت ان کی شدید خرابئ صحت کی خبر دے رہی تھی۔
فصیح صاحب سے میں نے دریافت کیا کہ آپ کو کیا ہوا ہے انہوں نے کہا کہ مجھے پیشاب کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔ میرا حال ہی میں پِتّے کا آپریشن ہوا ہے اس کے بعد سے میں ٹھیک نہیں ہوں، میں ان کے ساتھ باہر لاؤنج تک گیا ان کی حالت دیکھ کرمیری چھٹی حِس کہہ رہی تھی کہ فصیح صاحب اب جارہے ہیں۔ چند روز بعد ہی 20 فروری کو یہ اطلاع مل گئی کہ وہ اسلام آباد سے کراچی چلے گئے تھے، حالت خراب ہونے پر انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور اے پی این ایس اور سی پی این ای میں ان کے رفقاء اپنے عظیم قائد سے محروم ہوگئے جن کے بیش قیمت مشوروں اورآرا کی وجہ سے صحافت کا چمن نصف صدی سے زائد عرصہ تک معطر رہا۔ ذاتی طور پر میں ایک ایسے بزرگ دوست کی جدائی کے غم میں مبتلا ہوں اور میرے تأثرات یہ ہیں جیسے میرے حقیقی بڑے بھائی مجھے داغ مفارقت دے گئے ہوں وہ آزمائشوں اور امتحانوں میں حوصلہ بڑھاتے اور ہمت دلاتے رہے اور مایوسی و افسردگی کے اندھیروں سے نکال کر امید اور روشنی سے سرفراز کرتے رہے:
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین