دربار صحافت

شاہد خاقان عباسی اور وزارت عظمیٰ کے چیلنجز۔۔مزمل سہروردی

شاہد خاقان عباسی ایک مشکل وقت میں وزیر اعظم بنے۔ وزارت عظمیٰ ان کے لیے کانٹوں کی سیج سے کم نہ تھی۔ وہ نواز شریف کی نا اہلی کے نتیجے میں وزیر اعظم بن رہے تھے۔ ان کے وزیر اعظم بننے پر ان کی جماعت میں بھی اتفاق رائے نہیں تھا۔ ان کی جماعت نے ہی ان کے بارے میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ کوئی مستقل وزیر اعظم نہیں ہیں بلکہ ایک عبوری وزیر اعظم ہیں۔ پہلے 45 دن کا اعلان ہوا پھر بات دس ماہ تک چلی گئی۔

ایسے میں شاہد خاقان عباسی کے لیے بطور وزیر اعظم خود کو منوانا ایک مشکل ٹاسک تھا۔ ایک عمومی رائے یہی تھی کہ وہ ڈمی وزیراعظم ہو نگے۔ سب فیصلے نواز شریف ہی کریں گے۔ شاہد خاقان عباسی صرف نام کے وزیر اعظم ہو نگے۔ کنٹرول کہیں اور ہو گا۔ وہ کبھی بھی خود کو نہ تو بطور وزیر اعظم پیش کر سکیں گے اور نہ ہی منوا سکیں گے۔ سب کو پتہ ہے کہ وہ ڈمی ہیں کوئی کیوں ان سے بات کرے۔ سب کو پتہ ہو گا کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے لوگ وہیں بات کریں گے۔ ان کے لیے اپنی پہچان بنانا ایک مشکل کام ہو گا۔ تاریخ میں ان کو ایک ڈمی وزیر اعظم کے طور پر ہی یاد رکھا جائے گا۔

سب کی رائے تھی کہ وہ چوہدری شجاعت حسین جیسے وزیر اعظم ہوں گے جن کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔ شوکت عزیز ان کے سر پر بیٹھے تھے۔ وہ ایک ڈمی تھے۔ وہ راجہ پرویز اشرف سے بھی زیادہ ڈمی ہوں گے۔ کیونکہ آصف زرداری نے پھر راجہ پرویز اشرف کو کچھ فیصلے کرنے کی اجازت دی تھی لیکن شاہد خاقان عباسی کے پاس تو شاید وہ بھی نہ ہو۔

پھر یہ بھی تھا کہ کابینہ نواز شریف نے بنائی ہے اگر کسی لمحہ پر شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم بننے کی کوشش بھی تو یہ وزراء انھیں نا کام بنا دیں گے۔ کابینہ کے اکثر ارکان ان سے حسد کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں شاہد خاقان عباسی کی لاٹری لگ گئی ہے ورنہ وزارت عظمیٰ پر حق تو ان کا تھا۔ ایک تو وہ دل سے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نہیں مانتے دوسرا وہ نواز شریف سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے شاہد خاقان عباسی کو ناکام کرنے کی سازش کرتے رہیں گے۔ لہذا اگر کسی لمحہ پر شاہد خاقان عباسی نے کوئی سر اٹھانے کی کوشش بھی کی تو ان کا سر کچلنے کا سارا نظام موجود تھا۔ ایک ایسی ٹیم کی کپتانی جس کے سنیئر کھلاڑی آپ کو دل سے کپتان نہ مانتے ہوں ایک نا ممکن کام ہے۔ اور پھر ایسی ٹیم کے ساتھ کوئی میچ جیتنا اس سے بھی بڑا نا ممکن کام ہے۔

ایک رائے یہ بھی تھی کہ شاہد خاقان عباسی اس ساری صورتحال میں ہر وقت اس قدر دباؤ میں رہیں گے کہ ان کے پاس جاتی عمرا کے طواف کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔لیکن آپ مانیں شاہد خاقان عباسی آہستہ آہستہ اپنے حوالے سے سب اندازے غلط ثابت کرتے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے شرع کر دئے ہیں۔ وہ قدم بقدم خود مختاری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے اس کام نے یہ ابہام پیدا کر دیا کہ کہیں شریف فیملی اور اسحاق ڈار میں تو اختلافات پیدا نہیں ہو گئے۔ لیکن اسحاق ڈار جاتی عمرا میں تو نظر آتے ہیں لیکن شاہد خاقان عباسی نے حکومت میں ان کی فلائٹ کاٹ دی ہے۔

شاہد خاقان عباسی ہر وہ کام کر رہے ہیں جو نواز شریف نہیں کرتے تھے۔ وہ باقاعدگی سے پارلیمنٹ میں جا رہے ہیں۔ وہ ہر اہم اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں اور ان اجلاسوں میں ان کے فیصلے ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لے رہے۔ انھوں نے یہ تاثر ختم کر دیا ہے کہ وہ جاتی عمرہ سے ڈکٹیشن کے محتاج ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی آگ اور خون سے کھیل رہے ہیں۔ بے شک وہ نواز شریف کے وفادار ہیں۔ انھوں نے ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا جس سے ان کی وفاداری پر سوال اٹھا یا جا سکے۔ لیکن وہ یہ ثابت بھی کر رہے ہیں کہ وہ ڈمی بھی نہیں ہیں۔ ان کی اپنی سوچ اور پالیسی ہے۔

ایک طرف نواز شریف اپنی نا اہلی کی ساری کی ساری ذمے داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے جا رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف شاہد خاقان عباسی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ قائم کر لی ہے۔ نواز شریف کے آخری ایام میں یہ ورکنگ ریلیشن شپ خراب ہو چکی تھی۔ لیکن شاہد خاقان عباسی نے اسے دوبارہ ٹھیک کر لیا ہے۔

آرمی چیف سے ان کی ملاقاتیں بتا رہی ہیں کہ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بتا دیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ نہیں کر رہے ہیں۔ نیوز لیکس کی وجہ سے قومی سلامتی کمیٹی کا ادارہ جو ڈیڈ لاک کا شکار تھا وہ دوبارہ فعال ہو گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا چار گھنٹے کا طویل اجلاس اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب وہاں بھی comfortable ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالہ سے جاتی عمرہ اور شاہد خاقان عباسی کی پالیسی میں فرق سمجھنے سے ہی ساری کہانی سمجھ آجاتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات بنا کر شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) میں اس گروپ کی قیادت کے لیے بھی خود کو اہل ثابت کر رہے ہیں جو محاذ آرائی کے خلاف ہیں۔ لیکن یہاں شاہد خاقان عباسی کے لیے سب سے بڑا چیلنج شہباز شریف ہیں۔ انھوں نے ایک واضح لائن لے کر شاید برتری حاصل کر لی ہے۔

شاہد خاقان عباسی کے لیے جہاں ملک کے اندر خود کو وزیر اعظم منوانا ایک چیلنج تھا۔ وہاں عالمی سطح پر خود کو پاکستان کا وزیر اعظم منوانا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ درست ہے کہ وزارت عظمی سنبھالنے کو عالمی سطح پر کوئی خاص پذیر ائی نہیں ملی۔ عالمی لیڈروں نے خاموشی رکھی۔ شاید سب کے لیے یہ طے کرنا مشکل تھا کہ نواز شریف سے ہمدردی کی جائے یا شاہد خاقان عباسی کو مبارکباد دی جائے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس محاذ پر ابھی وہ کمزور ہیں۔ ان کے دورہ سعودی عرب پر بھی ان کو وزیر اعظم نہیں مانا گیا۔

آپ دیکھیں کہ شاہ سلمان ان سے نہیں ملے۔ ورنہ شاہ سلمان تو آرمی چیف کے پہلے دورہ سعودی عرب کے موقع پر انھیں بھی مل لیتے ہیں۔ وہ شاہد خاقان عباسی کو نہیں ملے بلکہ ان کی ملاقات ولی عہد سے ہوئی ہے۔ لیکن ایسا پاکستان کے ساتھ پہلے بھی ہو تا رہا ہے۔ سعودی عرب ناراض ہے۔ اور ناراضی ایسے ہی بتائی جاتی ہے۔ ہم سعودی عرب کو منانا چاہتے ہیں لیکن سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ شاہد خاقان عباسی کی نہیں پاکستان کی عزت کا سوال ہے۔

اسی طرح امریکا کے ساتھ کشیدگی میں ابھی تک شاہد خاقان عباسی کا کردار نظر نہیں آرہا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے اندر شاہد خاقان عباسی کو ایک مضبوط وزیر اعظم کے طور پر دیکھا جائے، یہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی خواہش ہے لیکن عالمی سطح پر انھیں مضبوط نہ دیکھا جائے، یہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے تا کہ عالمی معاملات ان کے ہاتھ میں رہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے لیے یہ وزارت عظمٰی ایک عشق کی طرح ہی ہے جس میں ہر لمحہ امتحان ہی امتحان ہی ہیں۔