دربار صحافت

شمس الحق جالندھری از جمیل اطہر

شمس الحق جالندھری از جمیل اطہر

آج تذکرہ ہے جناب شمس الحق جالندھری کا! ایک جری اور دبنگ نوجوان جو سیاست کے راستے سے صحافت کے میدان میں داخل ہوا تھا اور اچانک منظر سے غائب کردیا گیا تھا۔ میں نے جب صحافت کے خار زار میں قدم رکھا تو شمس الحق کی گُم شدگی کا ہر زبان پر چرچا سُنا۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی شمس الحق نے لائل پور سے اپنا ایک اخبار نکالا تھا ۔ شمس الحق ذہنی طورپر ایک باغی اور انقلابی سوچ کا مالک تھا ۔ اس نے اپنے قلم کو معاشرتی خرابیوں کو بے نقاب کرنے کے لئے وقف کردیا مگر وقت کے فرعونوں کو اس کی تحریریں پسند نہ آئیں اور ان کی پیشانیوں پر اس کا اخبار دیکھ کر ناراضی اور خفگی کی شکنیں ابھرنا شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر میاں نعیم رضا کی روایت ہے کہ شمس الحق کی باغیانہ سر گرمیوں کی ہی بنا پر پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب کی حکومت نے ان کے چھ اضلاع میں داخل ہونے پر تین ماہ کے لئے پابند ی عائد کردی تھی ۔ انہیں لدھیانہ سے فوراً نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ لدھیانہ کے علاوہ ہوشیار پور، گورداس پور، امرتسر ، فیروز پور اور جالندھر کے اضلاع میں بھی داخل نہیں ہوسکتے تھے ۔ ان کے لئے صرف ایک ہی راستہ کھلا تھادہلی کا چنانچہ وہ دہلی چلے گئے ۔ ان پر پابندی کی تین ماہ کی مُدت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ تقسیمِ ہند کا اعلان کردیا گیا ۔ مشرقی پنجاب کے اضلاع میں مُسلم کش فسادات کے باعث اپنے گھر والوں سے ان کا رابطہ نہ رہا۔ دہلی میں قیام کے دوران کبھی وہ بستی حضرت نظام الدین اولیاؒ اور کبھی اجمیر شریف جا کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے مزاروں پر حاضر ہوتے اور اپنے گھر والوں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے۔ دہلی سے وہ بمبئی پہنچے، بمبئی سے سٹیمر کے ذریعے کراچی آئے اور وہاں سے اپنے گھر والوں کی تلاش میں لاہور آگئے۔ وہ ان کی تلاش میں قریب قریب مایوس ہوچکے تھے کہ انہیں والٹن کے قریب ریلوے ٹریک کے ساتھ اپنی والدہ کی جھلک نظر آئی ، وہ ان سے لپٹ گئے ، ان کی اہلیہ بھی قریب ہی موجود تھیں ۔ اگلی صبح وہ اپنی والدہ اور اہلیہ کے ساتھ لائل پور روانہ ہوگئے جہاں جالندھر کے زیادہ تر لوگ آباد ہوئے تھے ۔ وہاں شمس الحق کو ایک گھر اور ایک چھاپہ خانہ الاٹ ہوگیا۔ انہوں نے اپنا اخبار شائع کرنا شروع کیا ۔ ڈاکٹر میاں نعیم رضا کی ہی روایت ہے کہ جالندھر میں ایک صاحب خواجہ صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ یہ جالندھر میں بھی رئیس تھے اور لائل پور آ کر تو رئیس اعظم کہلائے ۔ پولیس حکام سے ان کی دوستی بہت گہری تھی ۔ جالندھر میں بھی انہیں پولیس کا ٹاؤٹ سمجھا جاتا تھا اور لائل پور میں بھی انہوں نے اسی لقب سے شہرت پائی۔ لوگ انہیں شک و شبہہ کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ ان کی دوستی کو اچھا سمجھتے اور نہ ان کی دشمنی کو پسند کرتے ۔ خواجہ صاحب کے تین دوست اور بھی تھے جو اُنہی جیسی خوبیوں کے مالک تھے ۔ وہ کبھی کسی کی جان لے لیتے تو کبھی کسی کی دولت پر ہاتھ مارنے میں کامیاب ہوجاتے اور لوگوں کی بہو بیٹیوں کی عزت سے کھیلنا تو ان کا روز مرہ کا معمول تھا ۔چار کے اس ٹولے میں پولیس کے ایک اعلیٰ افسر تھے جو خان صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ایک میاں صاحب تھے جن کی اپنی ٹیکسٹائل مل تھی۔ ایک میر صاحب تھے جو ہمہ صفت موصوف تھے۔ یہ سب ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے ۔ اس قسم کے لوگوں کا ٹولہ خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو ان کی راتوں کی کہانیاں لوگوں کی زبان پر آہی جاتی ہیں اور سینہ بہ سینہ گردش کرتے ہوئے یہ شمس الحق تک بھی پہنچیں۔ ان جیسا باضمیر اور غیرت مند صحافی یہ سب کچھ برداشت نہ کرسکا ۔ شمس الحق نے ’’قصۂ چہار درویش‘‘ کے عنوان سے یہ کہانیاں بے نقاب کرنے کا کام شروع کیا ۔ پاکستان نیا نیا بنا تھا ۔ لوگ تحریک پاکستان کے جذبے سے سر شار تھے ۔ قصۂ چہار درویش کے انکشافات نے لوگوں میں ہیجان پیدا کردیا ۔ خان صاحب شہر میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تعینات تھے اورانتقامی کارروائی کے طور پر ہوا یہ کہ شہر میں کوئی بھی واردات ہو ، قتل کی ، اغواء کی ، چوری کی یا ڈکیتی کی ایف آئی آر میں شمس الحق کا نام ضرور شامل ہوتا تھا ۔ ہر روز نیا مقدمہ اور نئی واردات ! ایک دن خواجہ صاحب اچانک ان کے دفتر میں تشریف لائے اور آتے ہی بولے ’’ بیٹا شمس الحق ! تم ہمارے ہی بچے ہو، بہت دنوں سے تمہارا دفتر دیکھنے کا سوچ رہا تھا ۔ سُنا ہے تم نے کوئی اخبار شروع کیا ہے۔ میں نے یہ اخبار تو نہیں دیکھا البتہ اس کی تعریفیں بہت سُنی ہیں‘‘۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد انہوں نے اچانک موضوع بدل کر کہا ، سُنا ہے پولیس تمہیں پریشان کررہی ہے ، تم نے ہم سے کیوں نہیں کہا ، آخر ہم کس مرض کی دوا ہیں ۔ میاں صاحب میرے دوست ہیں ، فلاں مل کے مالک ہیں ، میرصاحب بھی میرے دوست ہیں بہت کاروباری آدمی ہیں شہر کی پولیس میں ان کا بہت اثر ہے۔ تم کہو تو میں اُن سے بات کروں ۔ سمجھ لو تمہاری ساری پریشانی ختم ہوئی ۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ شمس الحق یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ وہ آخر کہنا کیا چاہ رہے تھے ۔ دوسرے روز میاں صاحب کا فون آگیا ، انہوں نے شمس الحق کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کرلیا۔ کہنے لگے ۔۔۔ خواجہ صاحب کا حکم ہے کہ پولیس والوں کو راہ راست پر لاؤں۔ میں نے میر صاحب اور خان صاحب کو بھی کھانے پر بُلایا ہے۔ خواجہ صاحب بھی آئیں گے ، آپ ضرور آجائیں ورنہ میری بے عزتی ہوجائے گی ۔ میں چونکہ خواجہ صاحب کا حکم ٹال نہیں سکتا اس لئے آپ کو بھی بُلایا ہے۔ ہم پولیس والوں کو سیدھا نہ کردیں تو ہمارا نام نہیں! شمس الحق نے اپنے قریبی دوستوں کے علاوہ اپنی وا لدہ اور بیگم سے بھی مشورہ کیا۔ سب کی رائے تھی کہ آپ ضرور چلے جائیں۔ کوئی مصالحت ہوجائے تو اچھا ہے۔ شمس الحق طے شدہ وقت پر میاں صاحب کی ٹیکسائل مل میں چلے گئے۔ خواجہ صاحب ، میر صاحب ، خان صاحب اور خود میاں صاحب سراپا انتظار تھے ، ان کا بڑے تپاک سے خیر مقدم کیا گیا ۔ خان صاحب بولے ارے بھائی آپ نے مجھ سے براہ راست بات کرلی ہوتی۔ میرے ہوتے ہوئے کوئی آپ پر انگلی اٹھائے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں سارے کیس ختم کردوں گا ، آپ بے فکر رہیں۔ آخر میاں صاحب اور میر صاحب ہمارے مہر بان ہیں ، دوست ہیں ان کے کہنے پر اگر یہ بھی نہ کرسکے تو کس کام کے ! سب نے ایک ساتھ کھانا کھایا ، چائے کی ایک ایک پیالی پی ، چاروں شمس الحق سے گلے ملے اور انہیں رُخصت کیا۔ میاں صاحب نے چپراسی کو حکم دیا کہ میاں صاحب کو چھوٹے گیٹ سے لے جاؤ ۔ گیٹ پر ڈرائیور گاڑی لے آیا ہے ، وہ ان کو گھر پہنچادے گا ۔ چپراسی انہیں چھوٹے گیٹ پر لے آیا اور سلام کرکے چلا گیا۔ وہاں تنومند قسم کے چوکیدار نما چارپانچ لوگ بیٹھے تھے جنہوں نے شمس الحق کو زبردستی پکڑ کر مل کے سٹیم بوائلر میں ڈال دیا۔ شمس الحق کی آواز تک نہیں نکلی اور وہ ختم ہوگیا ۔ اس کا سارا جسم گوشت پوست ،ہڈیاں، اس کا لباس تک بوائلر میں پگھل کرپانی کی طرح نالیو ں میں بہہ گیا ۔ جب شمس الحق گھر نہ پہنچا اور یہ بات پولیس کے علم میں لائی گئی تو پولیس نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ مقابلے سے گھبراکر کہیں رُوپوش ہوگیا ہے ۔ ان کی والدہ اور بیگم روتی پیٹتی پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشترسے ملیں جنہوں نے پولیس کے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ شمس الحق مقدمے سے گھبراکر خود رُوپوش ہوگیا ہے۔ انہوں نے تحقیقات کے لئے لاہور سے اپنی ٹیم فیصل آباد بھیجی ۔ ادھر آغا شورش کاشمیری میدان میں آگئے ۔ انہوں نے لائل پور میں جلسۂ عام سے خطاب کیا اور شمس الحق کی بازیابی کا مطالبہ کیا ، ان کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ بھی اس تحریک میں پیش پیش تھا ۔ اس دوران لاہور کے ایک تاریخی اُردو روز نامہ کے ایڈیٹر کے صاحبزادے یعنی ان کے ولی عہدکا ایک بیان ان کے اپنے ہی اخبار میں صفحہ اول پر شائع ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ شمس الحق زندہ ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے شمس الحق کو کراچی کی الفنسٹن سٹریٹ میں دیکھا ہے ، میں نے اس کو دیکھا اور آواز دی، اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور دیکھتے ہی پُرہجوم گلیوں میں رُو پوش ہوگیا۔ اس عجیب و غریب بیان کے شائع ہوتے ہی مقامی پولیس کے خلاف تحقیقات روک دی گئیں ۔ شمس الحق کی والدہ اور اہلیہ نے کراچی جا کر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے فریاد کی ، وہ بھی سردار عبدالرب نشتر کی طرح شمس الحق کو ذاتی طور پر جانتے تھے کیوں کہ وہ اپنی جوانی سے ہی پاکستان کے مطالبہ کا حامی تھا اور تحریک پاکستان میں اس نے سر گرمی سے حصہ لیا تھا اور کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اس نے جالندھر ریلوے سٹیشن پر متحدہ قومیت کے حامی مولانا حسین احمد مدنی کی شان میں گستاخی بھی کی تھی اور انہیں تھپڑ مار دیا تھا ۔ نیچے سے اوپر تک پولیس کی رپورٹوں میں شمس الحق کی گم شدگی کے پُر اسرار معاملہ سے لاتعلقی کا دعویٰ کیا گیا ۔ ان رپورٹوں کے سامنے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور گورنر سردار عبدالرب نشتر بھی بے بس ہوگئے۔ وزیر اعظم نے بھی مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں ’’یوم شمس الحق‘‘ منانے کا اعلان کردیا۔ ان کے سوگ میں ایک دن کے لئے تمام سر کاری اور تعلیمی ادارے بند رہے۔ ایک دن قومی پرچم سرنگوں رہا۔ قائد اعظم ؒ کے سچے سپاہی، تحریک پاکستان کے سپاہی اور عظیم صحافی کا ایک دن سوگ مناکر اس کہانی کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا گیا۔
شمس الحق کی یہ رُوح فرساداستان سنانے کا مقصد ایک اور واقعہ سنانا تھا ، جب 25 دسمبر 1959ء کو ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا تو میں نے اس میں شمس الحق جالندھری کی یاد میں ایک مضمون سپرد قلم کیا تھا ۔ اس مضمون کی اشاعت کی خبر ہوتے ہوتے شمس الحق کی والدہ صاحبہ کو بھی پہنچ گئی ۔ وہ کچہری بازار میں روز نامہ’’غریب ‘‘ کے دفتر کی بالائی منزل پر رہتی تھیں اور اس دفتر کے پیچھے گلی میں روز نامہ ’’ عوام‘‘ کا دفتر تھا جس کے ایڈیٹر ممتاز صحافی جناب خلیق قریشی تھے ۔ شمس الحق کی والدہ صاحبہ نے خلیق صاحب سے کہا کہ وہ انہیں یہ مضمون پڑھ کر سنائیں۔ مضمون سُننے کے بعد ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور انہوں نے خلیق صاحب سے درخواست کی کہ مجھے اپنے اس بیٹے سے جلد از جلد ملاؤ جس نے یہ مضمون لکھا ہے ۔ خلیق صاحب نے اپنا چپراسی اماں جی کے ساتھ کیا ، ان کے ہاتھ میں ’’وفاق‘‘ کے دفتر کے پتے کی چٹھی تھمائی اور چپراسی انہیں جناح کالونی جانے والے ایک تانگے میں چھوڑ آیا۔ اماں جی تانگے سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے ’’وفاق‘‘ کے دفتر پہنچیں اور وہاں پہنچ کر میرا پتہ معلوم کیا کہ میں کہاں بیٹھتا ہوں۔ میری میز کے قریب آئیں اور مجھے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ وہ ایک ہی بات کہے جارہی تھیں۔۔۔ بیٹا میں نے اپنا ایک بٹیا کھودیا ، میں دوسرا کھونا نہیں چاہتی ، تم آئندہ شمس کے لئے کچھ نہ لکھنا۔۔۔ گوری چٹی باوقار خاتون ، بیٹے کی جدائی کے غم نے جن کے بال سفید کردیئے تھے ، مجھے بار بار چُوم رہی تھیں ۔ مجھے دعاؤں سے نواز رہی تھیں اور اپنے بیٹے کو بھی یاد کرتی جارہی تھیں۔ لائل پور کے لوگوں میں ایک عرصے تک میاں صاحب ، میرصاحب، خواجہ صاحب اور خان صاحب کے پُورے نام گونجتے رہے مگر شمس الحق کے خُون کا حساب نہ مل سکا اور قوم اپنے ایک مایہ ناز سپُوت کے لئے چند آنسو بہا کر صبر کے گھونٹ پی گئی ۔ کبھی کبھی ماضی کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے تو اس میں سے شمس الحق کی دل دوز چیخیں بھی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں جسے ظالموں نے نہایت سفاکانہ طریقے سے بوائلر میں پھینک کر ابدی نیند سُلا دیا ۔
میرا جو مضمون ہفت روزہ’’ وفاق‘‘ کے پہلے شمارے25 دسمبر1959ء میں شائع ہوا تھا میں نے اس میں لکھا تھا کہ میاں شمس الحق جالندھری جنہیں عرف عام میں ’’ شمی‘‘ بھی کہا جاتا تھا ، تحریک پاکستان کے ایک مخلص کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان آمد کے بعد لائل پور سے روز نامہ ’’ انصاف جاری کیا ، اس طرح جذبہ استحکام وطن سے سر شار اس نوجوان کارکن نے لائل پور میں آزاد صحافت کی داغ بیل ڈالی ۔ وہ 1950 ء میں لائل پور کے اس آباد شہر سے نہایت پُر اسرار طورپر غائب ہوگئے تھے اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔ اب جب کہ خدا کے فضل سے بد عنوان سیاسی حکومتوں کی تاریکیاں ایک ایک کرکے دُور کی جارہی ہیں ، قومی زندگی کے ہر شعبے میں صفائی و تطہیر کا دور دورہ ہے ، کیا میاں شمس الحق کی ضعیف ماں، سوگوار بیوی (بیوہ)اور غم زدہ بچے بھی یہ تصور کریں کہ اس عام روشنی کے دور میں ان کے بیٹے ، شوہر اور باپ کی پُراسرار گم شدگی پر تاریکی کا جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ اس روشن عہد میں بد ستور مسلط نہیں رہ سکے گا ۔ ممتاز صحافی قمر تسکین نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ انہوں نے فروری 1947ء کی ایک شام کو لاہور سنٹرل جیل کی ڈیوڑھی میں چوبیس پچیس سال کے ایک نوجوان کو ہتھکڑی میں جکڑے آہنی پھاٹک سے نمودار ہوتے دیکھا ۔ موزوں قدو قامت ، چہرے پر مسکراہٹ، ٹھوڑی پر چھوٹی چھوٹی داڑھی، شلوار قمیص میں ملبوس ، جناح کیپ پہنے ایک نوجوان داخل ہوا۔ اس کے ہسٹری ٹکٹ پر لکھا تھا ، نام قیدی’’ میاں شمس الحق‘‘ جرم نمبر1: تین سیفٹی ایکٹ ، نمبر2: بھوک ہڑتال۔ میاں شمس الحق جالندھر مسلم لیگ کے سب سے سر گرم کارکن تھے ۔ جب فروری 1947ء میں پنجاب مسلم لیگ نے تحریکِ سول نافرمانی چلائی تو جالندھر میں سب سے پہلے میاں شمس الحق اور ان کے ساتھیوں انور خان ، ایوب اور ارشد منہیس نے حصہ لیا ۔ شمس الحق گاؤں گاؤں گھومے، جالندھر شہر کے چوکوں اور گلی کُوچوں میں جا کر قوم کو سوتے سے جگایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے ضلع جالندھر میں اپنی تقریروں سے آگ لگا دی تھی ۔ پنجاب میں جب انگریز اور کانگریس کی پٹھو خضر وزارت مسلم لیگ کی تحریک کو کچلنے کے درپے تھی، پُورے پنجا ب میں پولیس راج تھا ، انہوں نے اپنی گرفتاری اور نظر بندی کے خلاف ہائی کورٹ میں حبسِ بے جا کی درخواست دائر کی ۔ اسی اپیل کی سماعت کے سلسلے میں انہیں لاہور سنٹرل جیل لایا گیا تھا ۔ لاہورہائی کورٹ کے فاضل ججوں نے ان کی نظر بندی کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا ۔ پاکستان بننے کے بعد جب انہوں نے اخبار ’’انصاف‘‘ کا اجراء کیا تو جس طرح وہ خود ایک مخلص سیاسی کارکن ، قوم کے ہمدرد، پُر جوش ، بے باک اور با اصول انسان تھے اسی طرح ان کا اخبار’’ انصاف‘‘ بھی تنقید میں بے باک تھا جو عوام میں روز بروز مقبول ہورہا تھا ، ان کا اخبار لائل پور کے بد عنوان لوگوں کا محاسبہ کرتا تھا۔ انہوں نے ہر محکمے بالخصوص پولیس کے خلاف عوام کی ترجمانی کی۔ اس طرح بعض مقامی حکام اور ان کی قربت رکھنے والے بعض عناصر ان سے سخت ناراض ہوگئے ، ان پر نرم رویہ اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا ، مشورے دیئے گئے لیکن میاں شمس الحق نے ہر دباؤ اور مصالحت پسندانہ مشورہ کویہ کہہ کر رد کردیا کہ ۔۔۔۔۔اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔
1949ء کے اوائل میں مسلم لیگ پروگریسو فرنٹ کے زیر اہتمام لائل پور میں ایک کانفرنس ہوئی جس کے کنوینر عطأاللہ جہانیاں تھے ۔ میاں شمس الحق نے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف جاگیر داروں اور بڑے زمینداروں کے خلاف پُرجوش تقریر کی بلکہ سیفٹی ایکٹ کی تنسیخ ، آزاد ئ تحریر و تقریر اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس کانفرنس کے کچھ عرصہ بعد اخبارات میں خبر چھپی کہ میاں شمس الحق اپنے گھر سے تانگا میں بیٹھ کر کسی جگہ گئے تھے اور کئی روز گزر نے کے بعد بھی واپس نہیں آئے۔ اس خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ایک شخص انہیں گھر سے بُلانے آیا تھا ۔ میاں شمس الحق کی اس پُر اسرار گمشدگی پر پُورے صُوبے میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ۔ صوبائی حکومت نے اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے سپیشل سٹاف مامور کیا لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ اُسی سال اگست میں جب وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم لاہور آئے تو صوبائی مسلم لیگ کے ایک عام جلسہ میں جس کی صدارت میاں عبدالباری کررہے تھے ، لوگوں نے میاں شمس الحق کی پُر اسرار گمشدگی کی طرف وزیراعظم کی توجہ مبذول کرانے کے لئے اُٹھ اُٹھ کر نعرے لگائے، اس کے بعد میاں شمس الحق کا سراغ لگا نے کے لئے سر کاری مشینری کچھ متحرک تو ضرور ہوئی جس کا ذکر قبل ازیں کیا گیا ہے لیکن پھر بھی گوہرّ مقصود ہاتھ نہ آیا