دربار صحافت

شیخ ایم شفاعت از جمیل اطہر

کینیڈین قادری۔ پاک امریکہ

شیخ ایم شفاعت از جمیل اطہر

جب ہم نے فروری 1965ء میں لاہور سے شام کا اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا اس وقت لاہور میں ’’مشرق‘‘، ’’نوائے وقت‘‘، ’’امروز‘‘ اور ’’کوہستان‘‘ چار بڑے اخبارات صبح شائع ہوتے تھے، بی کلاس اخبارات میں ’’مغربی پاکستان‘‘، سب سے بہتر اور معیاری اخبار تھا، ’’مغربی پاکستان‘‘ کے مالک شیخ ایم شفاعت تھے اور یہ اخبار لاہور کے علاوہ بہاولپور اور سکھر سے بھی شائع ہوتا تھا۔ یہ اخبار شریف حسین سہروردی نام کے ایک صاحب نے نکالاتھا شیخ صاحب اس اخبار میں شعبہ اشتہارات کے منیجر تھے اور پھر سہروردی صاحب نے اخبار کے مالکانہ حقوق شیخ ایم شفاعت کو دے دئیے۔ اس اخبار کے پہلے ایڈیٹر معروف صحافی جناب مرتضیٰ احمد خان میکش تھے جو ’’مغربی پاکستان‘‘ کے اجراء سے پہلے روزنامہ ’’نوائے پاکستان‘‘ کے ایڈیٹر رہے تھے۔ 1965ء میں حاجی صالح محمد صدیق ’’مغربی پاکستان‘‘ کے ایڈیٹر تھے اور اس کے بعد کے ادوار میں اثر چوہان‘ نذیر ناجی اور ضیاء شاہد بھی مغربی پاکستان کے ایڈیٹر رہے۔
شیخ شفاعت انتہائی دلچسپ اور خوش باش شخص تھے وہ اپنی زندگی کے بعض واقعات بڑے مزے لے لے کر سناتے تھے، ایک بار اُنہوں نے بتایا کہ وہ مولانا چراغ حسن حسرت کے پاس گئے اور انہیں روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ کی ادارت سنبھالنے کی درخواست کی، مولانا حسرت نے ان سے پوچھا کہ آپ کے پاس اخبار نکالنے کے لئے سرمایہ کتنا ہے؟۔ شیخ صاحب نے اپنی جیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’میرے پاس دوہزار روپے ہیں‘‘۔ یہ سُن کر مولانا حسرت نے شیخ صاحب سے کہا، ’’آپ میرے کمرے سے باہر چلے جائیں‘‘۔
جب ہم کراچی اور لاہور کی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں میں اپنے اخبار کے تعارف کے لئے جاتے تو ’’مغربی پاکستان‘‘ کے نمائندے ایک ایک صفحہ کے اشتہارات کے ریلیز آرڈر لے کے باہر نکل رہے ہوتے اس طرح ’’مغربی پاکستان‘‘ کو حکومتِ پنجاب کے اشتہارات بھی وافرتعداد اورحجم میں ملتے تھے۔ شیخ صاحب کے متعلق مشہور تھا کہ وہ دفتر میں داخل ہوتے ہی ایک پیمانہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے اخبار اور دوسرے اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کے حجم کا موازنہ کرتے ہیں۔
شیخ صاحب کی ادارت و ملکیت میں ’’مغربی پاکستان‘‘ کاروباری اور مالی لحاظ سے ایک کامیاب اخبار سمجھا جاتا تھا۔ ہماری اس وقت یہی خواہش ہوتی تھی کہ کاش ہمارے اخبار کو ’’مغربی پاکستان‘‘ کی طرح اشتہارات ملنے لگیں، لیکن سالہاسال تک یہ آرزو ایک خواب ہی رہی اور حقیقت کا روپ نہ دھار سکی۔ اگست 1980ء میں جب ’’وفاق‘‘ سے علیحدگی اختیار کی تو شیخ صاحب کے ساتھ میرے تعلقات بہتر ہونے لگے، میں ایک کم آمیز شخص تھا برسوں اخبار کی چار دیواری میں گذارنے کے بعد لوگوں سے ملنا ملانابہت کم تھا حتّیٰ کہ سرکاری تقریبات اور اجلاسوں میں بھی بہت کم شریک ہوتا، اب مجھے اپنی آزادانہ حیثیت میں ایسی تقریبات میں شرکت کی دعوتیں ملنے لگیں، میرے پاس گاڑی بھی نہیں تھی اور اب تک میں بسوں، ویگنوں اور رکشاؤں میں ہی سفر کرتا تھا۔ اب شیخ صاحب میری مدد کو آئے، جب بھی کسی ایسی سرکاری تقریب میں شرکت کی دعوت ملتی جس کے متعلق انہیں یقین ہوتا کہ مجھے بھی مدعو کیا گیا ہوگا شیخ صاحب مجھ سے فون پر رابطہ کرکے یہ پیشکش کرتے کہ وہ مجھے گھر یا دفتر سے اپنے ساتھ لے جائیں گے اس طرح میری کم آمیزی شیخ صاحب کی وجہ سے کم ہونا شروع ہوئی۔ شیخ صاحب ایک فلمی ہفت روزہ ’’اجالا‘‘ بھی نکالتے تھے جس کی ذمہ داری انہوں نے بڑے بیٹے سہیل شفاعت کو سونپ دی تھی۔ اخبار چھاپنے کے لئے ان کا اپنا پریس تھا جس کا نام اُجالا پرنٹرز تھا، لاہور کے کئی روزنامے اسی پریس میں چھپتے تھے۔
شیخ صاحب اگرچہ ایک کاروباری شخص تھے اور اخبار کا نفع نقصان خوب جانتے تھے مگر بعض اوقات اچھی خاصی جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرجاتے تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا دورِ حکومت تھا اور لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن وزارت اطلاعات و نشریات کے سیکرٹری تھے، جنرل محمد ضیاء الحق نے ملک بھر سے ایڈیٹروں کو بُلا رکھا تھا۔ مختلف مسائل پر گفتگو جاری تھی کہ ہمارے ایک دوست نے شیخ صاحب کے کان میں کچھ کہا اور اگلے ہی لمحے شیخ صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب والا آپ کی وزارت اطلاعات صرف چند بڑے اخبارات کو اشتہارات سے نواز رہی ہے اور بی کلاس اخبارات کے لئے اشتہارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنرل مجیب الرحمن نے نہایت غصہ سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ ان کے پریس کی مشین چند فٹ لمبائی چوڑائی کی جگہ میں ہے اور اس میں ان کے اپنے اخبار کے علاوہ جو اخبارات چھپتے ہیں ان سب کی اشاعت چند سوہے۔ شیخ صاحب بھی مشتعل ہوکر اپنی نشست سے اٹھے اور کہا، ’’جناب والا! یہ جُھوٹ بول رہے ہیں‘‘۔ شیخ صاحب کی یہ تکرار اور جنرل مجیب کو ترکی بہ ترکی جواب کافی مہنگا پڑا اور کافی عرصہ ان کا اخبار جنرل مجیب الرحمن کے عتاب کا شکار رہا۔
ایک مرتبہ وہ لاہور کے ایک ہوٹل میں ایک سرکاری ضیافت میں ہمارے ساتھ شریک تھے اور خوب شکم سیر ہوکر کھانا تناول کررہے تھے اچانک انہوں نے مجھ سے کہا، ’’یار جمیل! میری طبیعت بہت خراب ہورہی ہے‘‘۔ میں نے خاموشی اختیار کی مگر وہ کھانا بدستور کھا رہے تھے اور یہ شکایت بھی کئے جارہے تھے کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ مجیب الرحمن شامی ایک کرسی چھوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے، مجھے اور شیخ صاحب کو سرگوشیاں کرتے دیکھ کر انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا مسئلہ ہے، میں نے بتایا کہ شیخ صاحب کی طبیعت ناساز ہے، انہوں نے فقرہ چُست کیا، ’’اگر ان کی طبیعت خراب ہے تو کھانا کیوں کھائے جارہے ہیں‘‘۔ چند لمحوں کے بعد شامی صاحب کو ایک اور فقرہ چُست کرنے کی سُوجھی، فرمانے لگے: ’’شیخ صاحب کی بیماری کا فوری علاج تو ممکن ہے لیکن افسوس ہے کہ چوہدری شجاعت حسین (اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات) یہاں نہیں وہ اسلام آباد میں ہیں۔ یہاں ہوتے تو ان سے کہہ کر ’’مغربی پاکستان‘‘ کے لئے ایک سو ٹن نیوز پرنٹ کا پرمٹ دلادیتے اور آپ دیکھتے کہ شیخ صاحب کی طبیعت بالکل ٹھیک ہوجاتی‘‘۔ شامی صاحب کے اس فقرہ پر سب نے قہقہے لگائے جن میں شیخ صاحب کا قہقہہ بھی شامل تھا۔
افسوس کہ ویج بورڈ کی طرف سے کارکنوں کو چار پانچ لاکھ روپے کے واجبات کی ادائیگی کے فیصلہ نے شیخ صاحب کو پریشان کرکے رکھ دیا اور دل کے عارضہ میں پہلے سے مبتلا شیخ شفاعت کو رات گئے درد محسوس ہوا، انہیں سمن آباد میں ان کی رہائش گاہ سے شیخ زید ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ کوئی طبی امداد ملنے سے پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے، ان کی رحلت کے بعد ان کا ایک صاحبزادہ مُلک سے باہر چلا گیا اوردُوسرے کو اخبار کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ایک اچھا بھلا اخبار جس سے بلامبالغہ سینکڑوں لوگوں کی معاش وابستہ تھی تاریخ کے صفحات میں گُم ہوگیا۔