دربار صحافت

ضیا ء الاسلام انصاری از جمیل اطہر

کجری وال کی معافی کا مطلب

ضیا ء الاسلام انصاری از جمیل اطہر

ضیاء الاسلام انصاری تقریباً نصف صدی تک پاکستان کی قومی اور ملی صحافت کے ایک اہم ستون کی حیثیت سے متحرک اور فعال رہے۔ انہوں نے اپنی اخباری زندگی کا آغاز پچاس کے عشرے میں روز نامہ’’ انجام‘‘ کراچی سے کیا۔’’انجام‘‘ اس وقت کراچی کا سب سے بڑا اُردو اخبار تھا ۔ اس کے مالک شیخ محمد عثمان آزاد تھے اور ان کے چھوٹے بھائی عمر فاروقی انجام کے ایڈیٹر تھے۔ضیاء الا سلام انصاری نے بطور سب ایڈیٹر فرائض انجام دیئے۔’’ انجام‘‘ دہلی سے منتقل ہو کر کراچی آیا تھا اور جنگ بھی قیام پاکستان سے پہلے دہلی سے نکل رہا تھا اور پاکستان بنتے ہی کراچی منتقل ہوگیا ۔ شیخ محمد عثمان آزاد اپنے نام کی طرح ہی آزاد منش تھے۔ دولت تو انہیں ’’انجام‘‘ سے حاصل ہوتی تھی مگر لٹا یا انہوں نے اسے ریس کے شوق پر۔ جناب ضیاء الاسلام انصاری بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے تقرر کے بعد ابتدائی دنوں میں بہت محنت سے کام کیا اور اخبار پران کی ترجمہ کی ہوئی خبروں کا غلبہ ہوتا تھا۔ ایک روز آزاد صاحب نے تمام سب ایڈیٹروں کو اپنی خبروں پر نشان لگا نے کی ہدایت کی انصاری صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بھی بے دلی سے اپنی خبروں پر نشان لگا دیئے مگر میرا نشان زدہ اخبار دیکھتے ہی آزاد صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا ۔ میرے کام کی استعداد کی بہت تعریف کی اور میری تنخواہ جو 150 روپے تھی بڑھا کر 300 روپے کردی۔ اس انعام و اکرام سے مجھے اپنی اہلیت اور صلاحیت کا بہت زعم ہوگیا اور اس دن سے میری خبروں کی تعداد کم ہونے لگی۔ کوئی ایک مہینہ گزرنے پر آزاد صاحب نے پھر تمام سب ایڈیٹروں کواپنی خبروں پر نشان لگانے کا حکم دیا تومیں نے بھی اخبار میں چھپی اپنی اکلوتی خبر پر نشان لگادیا۔ جب میرا نشان زدہ اخبار ان کی نظر سے گزرا تو انہوں نے نہایت برہمی کے عالم میں مجھے طلب کیا اور فوراً ہی میری تنخواہ میں 200 روپے کمی کا حکم دے دیا۔ ضیاء الاسلام انصاری کے دل و دماغ میں بغاوت کے جراثیم پہلے سے ہی موجود تھے۔ انہوں نے بطور احتجاج نہ صرف ’’انجام‘‘ سے استعفیٰ دے دیا بلکہ کراچی چھوڑ کر لاہور آگئے اور یہاں انہوں نے اپنی پہلی ملازمت جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار روز نامہ’’ تسنیم‘‘ میں کی ۔ ٹریڈ یونین ازم کے آثار’’ تسنیم‘‘ کی ملازمت کے دوران ہی ہویدا ہونے شروع ہوگئے۔ ’’تسنیم ‘‘کی مالی حالت کبھی بھی اچھی نہیں رہی تھی اور تنخواہوں کی ادائیگی میں دیر سویر تو آئے دن کا معمول تھا۔ یہ فضا انہیں بہت راس آئی اور وہ ’’تسنیم‘‘ میں آئے دن قلم چھوڑ ہڑتال کرانے لگے۔جس پر’’ تسنیم‘‘ کی انتظامیہ کو بالآخر انہیں سبکدوش کرنا پڑا۔ وہ یہاں سے’’ نوائے وقت‘‘ جانا چاہتے تھے مگر اس زمانے کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں کسی تلیئر صحافی کا داخلہ بند تھا ۔ تلیئر کا محاورہ اردو بولنے والوں کے لئے خاص طورپر یو پی سی پی سے آئے ہوئے لوگوں کے لئے بولا جاتا تھا پھر وہ ایک نوزائیدہ اخبار روز نامہ ’’ آفاق‘‘ میں چلے گئے ۔ جہاں انہوں نے جلدہی اپنی جگہ بنا لی اور جب لائل پور سے روز نامہ آفاق کے ایڈیشن کا اجرأعمل میں آیا تو ضیا الاسلام انصاری لائل پور میں ’’آفاق‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر کردیئے گئے۔ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’ آفاق‘‘ کا بھی نامہ نگار تھا اور لاہور آفس کو خبریں بھیجتا تھا ۔ضیاء الاسلام انصاری کے دستخطوں سے مجھے ایک پوسٹ کارڈ موصول ہوا جس میں مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں آئندہ خبریں لاہور آفس کے بجائے لائل پور آفس بھیجا کروں اور اس خط میں ڈاک الاؤنس کے نام پر میرا معاوضہ 10 روپے ماہانہ مقرر کرنے کی اطلاع بھی دی گئی تھی ۔ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے اکثر لائل پور کا سفر کرتا رہتا تھا اور جن اخبارات کے لئے میں کام کرتا تھا ان کے دفاتر کا چکر بھی ضرور لگاتا تھا۔’’ آفاق‘‘ کا دفتر ریلوے روڈ پر’’ نوائے وقت‘‘ کے دفتر کے بالکل قریب مرینہ ہوٹل کی انیکسی میں قائم کیا گیا تھا۔ میں جب ضیاء الاسلام انصاری سے ملنے ’’ آفاق ‘‘کے دفتر پہنچا تو سیاہ رنگ کی شیروانی میں ملبوس ایک دھان پان شخص کاپی سٹینڈ پر ’’آفاق‘‘ کی کاپی جوڑ رہا تھا ۔یہ لیتھو طباعت کا زمانہ تھااور نیوز ایڈیٹر اورریذیڈنٹ ایڈیٹر کو خود کاپی جوڑنا ہوتی تھی۔ میں نے انصاری صاحب کے متعلق دریافت کیا تو ایک شخص نے سیاہ شیروانی پہنے صاحب کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ انصاری صاحب نے میری طرف دیکھا اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ جانے کی ہدایت کی۔ میں کچھ خبریں لکھ کر لایا تھا جب وہ کاپی جوڑنے سے فارغ ہوئے تو میں نے وہ خبریں انہیں پیش کیں۔ انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں انہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں شہریوں کو پیش آنے والے مسائل پر ایک تحریر(جسے اس زمانے میں مکتوب یا ڈائری کہا جاتا تھا) لکھ کر دوں جو میں نے لکھ کر ان کے حوالے کردی۔ یہ ان سے پہلی ملاقات کا احوال تھا ابھی دوسری ملاقات کی نوبت نہیں آئی تھی کہ معلوم ہوا کہ انصاری صاحب تپ دق کے مریض ہیں اور دفتر میں کام کرتے ہوئے ضعف کی وجہ سے فرش پر گر گئے ہیں اور خرابی صحت کی وجہ سے ان کو واپس لاہور جانا پڑا ہے ۔وہ صحت کچھ بہتر ہونے پر ’’آفاق‘‘ لاہور میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔’’ آفاق‘‘ کے زمانے میں ہی انہوں نے اپنے ایک رفیق خالد لطیف کے اشتراک سے، جو بعد میں ایک بڑے بزنس مین بن گئے،’’ اردو نیوز سروس‘‘ کے نام سے پہلی اردو خبر رساں ایجنسی کی بنیاد رکھی۔یہ ایجنسی اپنی خبریں اردو ٹائپ رائیٹر پر ٹائپ کراتی تھی اور اس کی کاربن کاپیاں اخبارات کو مہیا کی جاتی تھیں۔ اس وقت فوٹو سٹیٹ یا فیکس مشین کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ یہ ایجنسی زیادہ دیر نہ چل سکی کیونکہ اسے کچھ سرکاری گرانٹ تو ملتی نہیں تھی اور اخبارات بھی چند ایک کے سوا کوئی ماہانہ معاوضہ نہیں دیتے تھے جبکہ ایجنسی کے روز مرہ اخراجات کو پُورا کرنے کے لئے اچھی خاصی رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور یوں اس اردو نیوز سروس کے حالات ویسے ہی ہوگئے جو انصاری صاحب کو’’ تسنیم‘‘ میں ملازمت کے دوران پیش آئے تھے۔ جب لاہور سے روز نامہ’’ کوہستان‘‘ کے ایڈیشن کا اجرأہوا تو ضیاء الاسلام انصاری وہاں چلے گئے اور نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اور جب عنایت اللہ جناب نسیم حجازی کے ساتھ اختلافات کے بعد کوہستان سے الگ ہوئے اور چند ماہ بعد انہوں نے چوہدری ظہور الٰہی کی مالی اعانت سے روز نامہ مشرق کا اجرأ کیا تو انصاری صاحب’’ کوہستان ‘‘چھوڑ کر ’’مشرق ‘‘میں آگئے اور چیف نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ یہ وہ دور تھا جب اخبار نویسوں میں دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش زوروں پر تھی اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے دواخبارات ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور’’ امروز‘‘ سرخوں کا قلعہ سمجھے جاتے تھے اور ان میں بڑے بڑے نامور صحافی شامل تھے۔ ضیا ء الاسلام انصاری نے دائیں بازو کے صحافیوں کو اکٹھا کیا اور نیشنل یونین آف جرنلسٹس کے نام سے کار کن صحافیوں کی نئی ملک گیر تنظیم کی بنیاد رکھی ۔ انہیں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی بھی بھر پور تائید و حمایت حاصل رہی ۔انصاری صاحب نے ’’مشرق‘‘ کے عروج کی جدو جہد میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور’’ مشرق‘‘ کے زوال کا سبب بھی وہی بنے۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جن ایڈیٹروں کو جنرل صاحب کی قربت حاصل ہوئی ان میں الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی ۔ صلاح الدین شہید، مصطفی صادق، مقبول شریف ، چوہدری غلام حسین اور اثر چوہان کے ساتھ جناب ضیاء الاسلام انصاری بھی شامل تھے ۔ وہ نہ صرف’’ مشرق‘‘ کے ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر بنے بلکہ انہیں نیشنل پریس ٹرسٹ کا چیئر مین بھی بنادیا گیا ۔ لاہور سے روز نامہ ’’جنگ ‘‘کے ایڈیشن کا اجراء ہوئے کئی سال ہوچکے تھے مگر اشاعت میں اوّلین حیثیت ’’مشرق‘‘ کو ہی حاصل رہی۔ انصاری صاحب نے جنرل محمد ضیاء الحق کو خوش کرنے کے لئے ان کے اقتدار کے دس سالہ دور پر’’ مشرق‘‘ کا ایک خصوصی ایڈیشن شائع کیا جو لگ بھگ ایک سو صفحات پر مشتمل تھا ۔اس زمانے میں اخبار کی قیمت دو روپے تھی اخبار فروش کے رہنماؤں نے انصاری صاحب پر زو ر دیا کہ وہ اس خصوصی اشاعت کی قیمت دو روپے ہی رکھیں اور اس کو بیس بیس صفحات پر پانچ شماروں پر تقسیم کردیں، مگر انصاری صاحب نہ ما نے اخبار مارکیٹ میں اخبار فروش نقد قیمت ادا کرکے اخبارات خریدتے ہیں اورجنگ کی انتظامیہ اس ساری صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ جب دس روپے قیمت کا اخبار مارکیٹ میں آیا تو کسی اخبار فروش نے وہ ایڈیشن نہ اٹھا یا اور’’ مشرق‘‘ کے بجائے ’’جنگ‘‘ خرید کر لے گئے۔ اس روز ’’مشرق‘‘ کے بجائے’’ جنگ‘‘ ہزاروں کی تعداد میں قارئین کے گھروں میں پہنچا اور پھر ’’جنگ‘‘ ہی ان کو پسند آگیا۔ ’’مشرق‘‘ اس کے بعد اپنے قارئین کے دلوں میں گھر نہ کرسکا اور ہر گھر میں جنگ ہی جنگ پہنچنے لگا یہاں سے مشرق کے زوال کا آغاز ہوا اور بالآخر نیشنل پریس ٹرسٹ نے مالی بوجھ سے نجات حاصل کرکے مشرق امروز ، پاکستان ٹائمز، مارننگ نیوز اور اخبار خواتین بند کردیئے یا ان کے ڈیکلریشن نام نہاد نیلام کے ذریعے فروخت کردیئے اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو مختلف جگہ پر مشرق کے ڈیکلریشن عطا کرکے ایک بڑے قومی اخبار کو زندہ دفن کردیا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئر مین کے عہدے سے الگ ہونے کے بعد انصاری صاحب نے چوہدری غلام حسین کے ہفت روزہ ’’سیاسی لوگ‘‘ کے لئے کام کیا اور کچھ عرصہ نوائے وقت میں کالم لکھتے رہے ایک روز وہ دوستوں کے ساتھ گاڑی میں سفر کررہے تھے کہ شیخ زائد ہسپتال کے قریب سے گزرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ذرااپنے ڈاکٹر سے مل لوں اور ان سے اپنا معائنہ کرالوں۔ وہ جب ڈاکٹرصاحب کے پاس گئے تو انہوں نے انصاری صاحب کو فوراً ہی ہسپتال میں داخل کرلیا اور یہ جنگجو صحافی دو تین دن شدید عارضہ قلب کا مقابلہ کرتے ہوئے زندگی کی جنگ ہار گیا۔