دربار صحافت

ظہور عالم شہید از جمیل اطہر

کجری وال کی معافی کا مطلب

ظہور عالم شہید

دل و دماغ کسی صدمہ سے اداس و ویران ہوں تو فطری امر ہے کہ افکارِ پریشاں کی ترتیب خاصی بوجھل و دشوار ہوجاتی ہے۔ ظہور عالم شہید، جنہیں مرحوم و مغفور لکھتے ہوئے قلم کانپتا اور قلب لرزتا ہے، کی دائمی مفارقت بھی ایک ایسا ہی صدمہ ہے جس کے زیرِ اثر ذاتی تاثرات، تجربات اور مشاہدات کا بیان ڈانواں ڈول ہوتا محسوس ہوتا ہے اور خود مجھے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ میں کن الفاظ اور کس انداز میں اس شخصیت کا اظہار کروں جو۔۔۔
رفتید ولے نہ از دلِ ما
شہید صاحب سے میری شناسائی جو رفاقت و دوستی کی منزل تک پہنچی، لگ بھگ ایک تہائی صدی کی مدت پر محیط ہے اور ظاہر ہے کہ اس طویل مدت کے واقعات و تاثرات کا اظہار محال ہے اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ بے ساختہ جو نقوش ذہن میں ابھریں انہیں بیان کرتا جاؤں۔ شہید صاحب سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب 1958ء میں مجھے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لائلپور (اب فیصل آباد) میں آزمائشی بنیادوں پر سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے مقرر کیا گیا۔ ان دنوں انتظامیہ نے ’’نوائے وقت‘‘ کا لائل پور ایڈیشن بند کرکے اسے ملتان منتقل کردیا تھا۔ مجھ سے پہلے اس اخبار میں عرفان چغتائی جیسے گھاگ، جہاں دیدہ اور آزمودہ صحافی رپورٹنگ کے جوہر دکھا چکے تھے۔ شہید صاحب سے میرا تعارف حکیم آفتاب احمد قرشی کی وساطت سے ہوا تھا جو پہلے سے میرے واقف تھے، وہی شہید صاحب سے میرے تعارف کا ذریعہ بنے، ان دنوں شہید صاحب چونکہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے نیوز ایڈیٹر تھے اس لئے سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے ان سے بات چیت کا موقع روزانہ مل جاتا تھا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ صحافت میں شہید صاحب کے نام کا جو دبدبہ اور شہرت تھی میں اس سے اچھا خاصا مرعوب تھا۔ میں اس کوچے میں ایک نو آموز اور نووارد کی حیثیت رکھتا تھا جب پالا اس ہستی سے پڑا جو وادئ صحافت میں اپنی ناموری و قد آوری کے لحاظ سے ایک مثال تھی لیکن ان سے پہلی ہی ملاقات میں ان کے لہجہ کی ملائمت، رویہ کی نرمی اور بزرگانہ شفقت و محبت کے برتاؤ نے رعب وداب کو تو اٹھا کر طاق میں رکھ دیا اور اس کی جگہ ایک ہمدرد شفیق راہنما نے لے لی۔
حقیقتاً ’’نوائے وقت‘‘ ایک بڑا اخبار اور شہید صاحب ایک بڑے نیوز ایڈیٹر ضرور تھے لیکن انہیں کوئی تعلّی، خودستائی، کوئی انانیت چُھو کر بھی نہیں گذری تھی۔ بہت زیرک و ماہر صحافی ہونے کے باوجود وہ بڑے مہربان اور مشفق انسان تھے اور یہ انہی کی نظر کا فیضان ہے کہ آج میں خود کو یہ چند سطور لکھنے کے قابل محسوس کررہا ہوں۔
وہ زمانہ شہید صاحب کی صحافت کا عہدِ شباب تھا اس دور میں وہ بڑے متحرک، فعال، سرگرم اور نہایت محنتی صحافی شمار ہوتے تھے، بہر حال سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے میرا شہید صاحب سے یہ پہلا تعلق بہت تھوڑا عرصہ رہا اور بوجوہ یہ رابطہ قائم نہ رہ سکا البتہ ایک اخبار نویس کی حیثیت سے ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعہ شہید صاحب سے رابطہ میرے لئے بدستور قائم تھا کیونکہ شہید صاحب کی سرخیاں اور ان کے اخباری کالم، کم سے کم مجھ سے تو ’’باتیں‘‘ کرلیتے تھے۔
’’نوائے وقت‘‘ میں ہر ہفتے ان کا ایک کالم ’’گر تُوبرا نہ مانے‘‘ شائع ہوتا تھا اس سے ملکی سیاست کے بہت سے نشیب و فراز اور سیاسی رنگ ڈھنگ سامنے آجاتے تھے۔ بہرحال پانچ سال بعد مجھے ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں بطور سب ایڈیٹر کام کرنے کا موقع ملا تو اگرچہ میری ملازمت کی یہ میعاد بھی کچھ زیادہ لمبی چوڑی نہ تھی لیکن اس مدت میں شہید صاحب کی انسانی خوبیاں زیادہ کُھل کر سامنے آئیں مثلاً یہ کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کی ذہنی تربیت کا ایک منفرد طریقہ اختیار کر رکھا تھا وہ خبروں پر سرخیاں جماتے تو انہیں اپنے دائیں بائیں بیٹھنے والے جونیئر ساتھیوں کو بھی دکھاتے جیسے ان سے مشورہ کررہے ہیں اس طرح ایک ہمدردانہ فطری طریق سے ماتحتوں کی تربیت کا اہتمام ہوجاتا تھا۔
ان کے کردار کی یہ خصوصیت بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ وہ اپنے جونیئر ساتھیوں سے بھی اس انداز میں گُھل مِل جاتے تھے کہ چھوٹے بڑے کا کوئی فرق عملاً موجود نہیں رہتا تھا۔ وہ بہت کم غصہ میں آتے یا جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے تھے، بات کرتے ہوئے ان کے لبوں پرایک میٹھی سی مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی ایسے مواقع کم ہی آتے تھے کہ وہ کسی کشیدگی یا تناؤ کی کیفیت کا شکار ہوئے ہوں یا اپنے ساتھیوں کو اس میں مبتلا کیا ہو۔ بڑی سے بڑی خبر اور بڑے سے بڑے واقعہ پر بھی وہ ہمیشہ پُر سکون اور پُر اعتماد پائے گئے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی لکھتے تھے اس میں کانٹ چھانٹ بہت کم کرتے تھے ایک عجیب سی بات یہ تھی کہ ایک بڑے اور معروف و موثر اخبار کے نیوز ڈیسک کی ہمہ تن مصروفیات کے باوجود اپنی جوانی کے اس دور میں بھی شہیدصاحب نماز باقاعدگی سے ادا کرنے کا اہتمام کرتے، پُورے روزے رکھتے اور اپنے آزاد خیال ساتھیوں کی بھی بڑے نرم لہجہ میں گوشمالی کرتے رہتے تھے کہ وہ بھی ان مذہبی فرائض کااحساس کریں۔ لیکن یہ گوشمالی ایسے لطیف پیرایہ میں ہوتی جس سے کسی کی دل شکنی نہ ہوتی تھی اور سننے والا کسی نہ کسی حد تک صراط مستقیم کا خواہاں ضرور ہوجاتا تھا۔ شہید صاحب ایک اچھے اور بلند پایہ ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم سیاسی تجزیہ نگار بھی تھے ان کے سیاسی اندازے، تخمینے اور قیاسیات عموماً درست ثابت ہوتے تھے، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ایک ایسے صحافی نہیں تھے جو دفترہی میں زندگی گزار دیتے ہیں اور انہیں باہر کے حالات کی جھلک دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔ شہید صاحب عموماً جلسے جلوسوں میں بھی شریک ہوتے تھے، کئی کئی گھنٹے تک وہ موچی دروازے کے کسی جلسہ میں گُھوم پھر کر مقررین کی تقریریں بڑے غور سے سنتے اور اس کے ساتھ ساتھ حاضرین جلسہ کے تأثرات اور رد عمل پر بھی نظر رکھتے تھے۔ یہی وہ خوبی تھی جس نے شہید صاحب کو عوام کا نبض شناس بنادیا تھا اور اسی لئے ان کے قلم سے نکلی ہوئی سرخیاں عوام کی ترجمانی کا حق ادا کردیتی تھیں بلکہ یوں کہئے کہ یہ خود عوام کی آواز اور ان کے دلوں کی دھڑکن ہوا کرتی تھیں۔
شہید صاحب کی زندگی کا ایک دور، ایک سرگرم ٹریڈ یونین لیڈر کی حیثیت سے بھی گذرا، اس امر کے باوجود کہ انہیں جناب حمید نظامی اور مجید نظامی صاحب کی صحافت و نظریات سے گہرا لگاؤ تھا، لیکن اپنے ساتھی کارکنوں کے حقوق اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے وہ ہمیشہ شمشیر برہنہ کا کردار ادا کرتے رہے، یہی وجہ ہے کہ بنیادی طور پر دائیں بازو کے خیالات رکھنے کے باوجود انہیں بائیں بازو کے حلقوں میں بھی یکساں عزت و احترام کا مقام حاصل رہا۔ ان کی یہی وہ سرگرمیاں تھیں جن کے باعث انہیں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کو خیرباد کہنا پڑا حالانکہ اس اخبار سے ان کی وابستگی اس کے روزِ اول سے چلی آرہی تھی۔ شہید صاحب کے صحافتی کردار کا ایک دوسرا دور روزنامہ ’’جاوداں‘‘ کے اجراء سے شروع ہوا۔ اب وہ ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ اخبار کے مالک بھی تھے لیکن یہی وہ دور تھا جب ان کی صحت، اخبار کے مالی اور انتظامی مسائل کی نذر ہوکر رہ گئی۔ تمام تر مشکلات کے باوجود انہیں اپنے ساتھیوں میں یہ عزت حاصل رہی کہ کئی کئی ماہ تنخواہیں نہ ملنے کے باوجود لوگ اس امر کے لئے مسلسل کوشاں رہے کہ یہ اخبار ضرور حیاتِ جاوداں پائے، افسوس کہ یہ ممکن نہ ہوسکا اور اس صدمہ نے شہید صاحب کو بہت نڈھال و مضمحل کردیا، یہ الگ بات ہے کہ حالات کی ستم ظریفیوں کے باوجود ان کی ضرب المثل انسان دوستی بدستور قائم رہی اور اس کے مختلف مظاہر سامنے بھی آتے رہے اور وہ اکثر خاموشی سے چُپکے چُپکے اپنے بے روزگار ساتھیوں کو دوسرے اداروں میں کھپانے کی کوششیں کرتے رہے یہ احساس بھی ان کے سینے کا ناسور بن گیا تھا کہ ان کا اپنا اخبار نکالنے کا تجربہ ناکامی سے دوچار ہوا۔ ’’جاوداں‘‘ کی بندش کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے ہفت روزہ ’’استقلال‘‘ نکالا اس کے سب سے پہلے ایڈیٹر بشیراحمد ارشد اور پھر اکرام رانا مقرر ہوئے۔ ’’استقلال‘‘ کا دفتر اسی عمارت میں تھا جہاں پہلے ’’نوائے وقت‘‘ اور پھر ’’وفاق‘‘ کے دفاتر قائم تھے۔ مجھے ان دونوں دفاتر میں کام کرنے کا موقع ملا ان دنوں شہید صاحب کی رفاقت میں شب و روز کے اکثر لمحات اکٹھے رہنے سے ان کی بہت سی شخصی خوبیاں اور انسانی اوصاف سامنے آئے، مثال کے طور پر ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے احباب کے ایک وسیع حلقہ میں ان کے ذاتی، خاندانی، سماجی اور معاشی مسائل میں گہری دلچسپی لیتے اور بچوں سے لے کر بیوی تک سب کے حال احوال سے باخبر رہتے تھے، اس طرح کسی قسم کی مشکلات اور مسائل کے سلسلہ میں وہ ان کا حوصلہ بھی بڑھاتے۔
حقیقتاً میں نے انہیں تمام پہلوؤں سے ایک اچھا مسلمان، ہمدرد اور کھرا انسان پایا۔ قائد اعظمؒ ، تحریکِ پاکستان اور علامہ اقبالؒ ان کے وہ موضوعات تھے جس سے انہیں زندگی بھر گہری وابستگی رہی، ان موضوعات پر منعقد ہونے والے جلسوں، جلوسوں اور تقریبات میں شہید صاحب اپنی خطابت کے جوہر بھی دکھاتے تھے، اپنے موضوع کے لئے وہ پہلے سے تیاری کر لیتے تھے اور ایک چھوٹے سے کاغذ پر اپنی تقریر کے نکات قلم بند کر لیتے تھے، تقریر کے دوران وہ ان نکات سے پُوری مدد لیتے۔
عجب انداز تھا ان کا۔ وہ بعض موضوعات پر اپنے جونیئر ساتھیوں سے مدد اور مشورے لیتے اور اس طرح اس ’’مشاورتی طریق‘‘ سے وہ باتوں باتوں میں اپنے ان جونیئرز کو منظّم طریق سے سوچنے، سمجھنے اور غوروفکر کی عادت ڈالنے کی طرف راغب و مائل کردیتے، خود مجھ سے انہوں نے بارہا کئی اہم مسائل پر رائے طلب کی حالانکہ ’’من دانم کہ من آنم‘‘ اپنا مبلغِ علم خود سے تو بہرحال پوشیدہ نہیں ہوتا لیکن ان کے مخلصانہ اصرار پر اظہار خیال ضرور کیا، البتہ یہ بھید بعد میں کھلا کہ باتوں باتوں میں شہید صاحب کچھ پتے کی باتیں کرگئے ہیں، انہیں گرہ سے باندھ لیا۔ اس منفرد طریق سے انہوں نے مجھے بھی سیاسی واقعات اور صحافتی چشمکوں پر گہرائی اور گیرائی سے سوچ بچار کی ’’لت‘‘ ڈال دی۔
زندگی کے آخری برسوں میں شہید صاحب کو اور زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ اے پی این ایس (آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی) اور سی پی این ای (کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز) کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کراچی، کوئٹہ، پشاور اور راولپنڈی جاتے تو انہیں ائیر پورٹ تک لے جانے اور واپسی پر ائیر پورٹ سے لانے کا اہتمام اسی خاکسار ہی کے سپرد ہوتا تھا۔ لاہور کی بہت سی تقریبات میں بھی شہید صاحب کو لانے لے جانے کا فریضہ راقم ہی ادا کرتا تھا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ شہید صاحب وقت کے نہایت پابند ہیں۔ وہ کھانے پینے کے معاملات و عادات میں بھی بڑے محتاط ہوگئے تھے اس کے ساتھ ہی دینی فرائض کی انجام دہی میں پہلے سے زیادہ مستعد، معاملات کی تہہ تک پہنچنے اور ان سے کوئی نتیجہ یا پہلو برآمد کرنے میں ان کی بالغ نظری بلندیوں پر تھی، کسی واقعہ یا وقوعہ کی تفصیلات و جزئیات ابھی آرہی ہوتیں لیکن شہید صاحب اس واقعہ یا وقوعہ کے سیاسی مضمرات کو تاڑ جاتے اور ان کے اثرات کا جائزہ لینے لگتے تھے۔ کوئی ایک گروپ کسی دوسرے گروپ کو نیچا دکھانے اور اپنا بول بالا کرنے کے لئے پَر تول رہا ہوتا توشہید صاحب ملکی سیاست و صحافت کے حوالوں سے اس کے نتائج پرکھنے لگتے۔ یہ حفظِ ماتقدّم ہرگز نہ تھا بلکہ مستقبل بینی کی دانش ورانہ صلاحیت تھی جو ان کے ہاں بڑی فراواں تھی۔
چھوٹے اخبارات و جرائد کے مسائل و مشکلات حل کرنے کے لئے ان کی سوچ ہمیشہ بہت ہمدردانہ اور نہایت مثبت رہی۔ بہت سے ایسے امور جن پر ہم کبھی صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آتے تھے تو اصلاً اس کے پس منظر میں ظہورعالم شہید کے مشورے اور تجاویز کارفرما و رہنما ہوا کرتی تھیں۔
ذاتی طور پر وہ عجز و انکسار کا پیکر تھے۔ ان کی شفقت، شرافت اور حلیم الطبعی کے سبھی معترف تھے۔ نوجوانوں کی ہمت بڑھانے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے اور آج ابلاغیات کا کوئی شعبہ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات و جرائد ایسا نہیں جس میں شہید صاحب سے فیض یاب ہونے والے اہم فرائض اور ذمہ داریاں انجام نہ دے رہے ہوں۔ ان کی زندگی کا آخری دن بھی میرے ذہن پر آج تک نقش ہے، اس روز میں گیارہ بجے دن وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے لئے ان کے دفتر واقع بیڈن روڈ سے انہیں ہوٹل پرل کانٹی نینٹل لے کر گیا تھا، اس دن وہ بڑے صحت مند، ہشاش بشاش اور ذہنی طور پر نہایت چاق چوبند نظر آرہے تھے۔ اپنے دفتر و گھر (کہ دونوں ایک ہی جگہ واقع تھے) سے پرل کانٹی نینٹل تک نوجوان صحافی سعید اظہر سے ان کی اٹھکیلیاں جاری رہیں۔ ہوٹل میں پہنچ کر وہ اپنی مقررہ نشست پر جا بیٹھے لیکن پھر وہاں سے اٹھ کر جناب مجید نظامی کی نشست پر گئے اور انہیں اے پی این ایس کے آئندہ انتخابات کے سلسلہ میں کچھ مشوروں سے نواز آئے۔
میں مجیب الرحمن شامی کے ساتھ ایک روزانہ قومی اخبار کے منصوبہ پر بات چیت کر رہا تھا تو انہوں نے اپنے مخصوص روایتی پیار بھرے انداز میں مجھ سے کہا ’’شامی صاحب کی طرف منہ کرکے بات کرنے کے بجائے میری طرف رُخ کرکے بات کرو‘‘۔
شہید صاحب جو خود بھی اپنا روزنامہ نکالنے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے از راہِ تفنّن مجھ سے کہنے لگے ’’ لاکھوں کروڑوں روپے کے منصوبے کا صرف شامی صاحب کو بتاؤں البتہ انہیں کم سے کم خرچ میں اخبار نکالنے کے نسخہ سے بھی آگاہ کردوں‘‘۔
اس منصوبہ پر ان کے بقول خود انہیں عمل پیرا ہونا تھا۔ بہرحال ذکر تھا پرل کانٹی نینٹل میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا اس گفتگو کے تمام اہم نکات شہید صاحب نے بڑی دلجمعی سے نوٹ کئے اس وقت اس عمل کے دوران کون جانتا تھا کہ شہید صاحب جو ان نکات کے لکھنے میں ہمہ تن محو تھے اپنی زندگی کا آخری دن گزار رہے ہیں۔ کھانے کے بعد جب یہ نشست برخواست ہوئی تو میں انہیں اپنی گاڑی میں ان کے دفتر تک لایا، گاڑی سے اترکر انہوں نے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور پھر ڈرائیور کی طرف لپک کر اس سے بھی مصافحہ کیا کون جانتا تھا کہ یہ ان سے آخری مصافحہ ہے۔
شہید صاحب کے مجموعی کردار کو اگر چند الفاظ میں سمیٹنا ہو تو میرے خیال میں وہ علامہ اقبال کے اس مصرعہ کی چلتی پھرتی تصویر تھے،۔۔۔
نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو
اقبال نے اس نرمی و گرمی کو مرد مومن کی سرشت و صفت قرار دیا ہے اور وہ شہید صاحب میں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ اقبال نے یہ مصرع صرف شہید صاحب کے لئے کہا تھا،۔۔۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے