دربار صحافت

عبدالرشید غازی ازجمیل اطہر

عبدالرشید غازی کا نام پاکستان کی علاقائی صحافت کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ فیصل آباد کے اخبار ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘ کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اخبار 10 اکتوبر 1948 ء کو ان کے والد جناب چودھری شاہ محمد عزیز نے نکالا تھا اور 7 مئی 1979 ء کو ان کی رحلت پر ان کے صاحبزادے جناب عبدالرشید غازی نے اس کی ادارت کے فرائض سنبھالے۔ گویا ان کے والد محترم نے 31 سال تک اور خود عبدالرشید غازی نے 33 سال تک اس کی ادارت کی۔ عبدالرشید غازی کا نام ان کے دادا چودھری مہتاب الدین نے اس بنا پر غازی تجویز کیا تھا کہ ان کی ولادت اس روز ہوئی جب شاتم رسولؐ کو جہنم واصل کرنے والے غازی علم الدین شہید کو میانوالی جیل میں پھانسی دی گئی۔
عبدالرشید غازی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز لائل پور (اب فیصل آباد) میں انگریزی کے مؤقر روزنامہ ڈان کے نمائندے کی حیثیت سے کیا۔ پھر انہوں نے اپنے والد کے کاروبار سے الگ اپنا آزاد اور خود مختار پرنٹنگ پریس، فائن آرٹ پریس کے نام سے قائم کیا۔ اسی طرح انہوں نے فلیکس پرنٹنگ کی مشینری بھی نصب کی۔ اخبار کی ذمہ داریاں انہیں مجبوراً سنبھالنا پڑی تھیں کیونکہ ان کے دوسرے بھائی اس پتھر کو اٹھانے کو تیار نہیں تھے مگر غازی صاحب نے ڈیلی بزنس رپورٹ کی ملکیت و ادارت سنبھالتے ہی اس کو ایک تجارتی اخبار کے راستہ سے ہٹا کر ایک مکمل سیاسی اخبار بنا دیا اور صرف اسی ایک قدم پر اکتفا نہیں کیا بلکہ صدر ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان پیپلز پارٹی ابتلا کا شکار ہوئی تو انہوں نے اپنے اخبار کو پیپلز پارٹی کی حمایت کے لئے وقف کر دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اگرچہ ڈیلی بزنس رپورٹ ہمیشہ سے شام کا اخبار تھا مگر عبدالرشید غازی کی جرأت مندانہ پالیسی کی وجہ سے یہ ایک بڑی اشاعت کا اخبار بن گیا جو لائل پور اور سرگودھا ڈویژنوں میں شام کو فروخت ہونے کے علاوہ ملتان، بہاولپور ڈویژنوں اور صوبہ سندھ میں بھی صبح کے اخبار کی طرح پڑھا جانے والا اخبار بن گیا۔
عبدالرشید غازی نے اپنے زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ مسلمانوں کے لئے آزاد فلاحی مملکت کے حصول کے مشن میں وہ مسلسل کام کرتے رہے اور ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ جب وہ مسلم ہائی سکول طارق آباد میں نویں جماعت کے طالب علم تھے تو انہوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نکالے گئے مسلم لیگ کے ایک جلوس میں شرکت کی جس پر انہیں دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا اور ڈسٹرکٹ جیل میں نظر بند رکھا گیا۔ 1943 ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح لائل پور تشریف لائے تومسلم ہائی سکول طارق آباد کے ہیڈ ماسٹر نے بیس طلباء کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ریلوے سٹیشن پر ان کی سکیورٹی کا فریضہ انجام دیں۔ عبدالرشید غازی بھی ان طلباء میں شامل تھے جنہوں نے قائداعظم کو سلامی دی اور قائداعظم سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل کیا۔
عبدالرشید غازی سماجی بہبود کے کاموں میں بھی پیش پیش رہے۔ وہ ہر دینی تہوار پر ڈسٹرکٹ جیل کے قیدیوں میں تحائف تقسیم کرنے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے اور پھر جو قیدی جرمانے کی رقوم ادا نہ کرنے کے باعث قیدو بند کے مصائب جھیل رہے ہوتے تھے، ان کے جرمانہ کی رقم ادا کرکے انہیں رہائی دلانا بھی انہیں بہت عزیز رہتا۔ انہوں نے ایک ماڈل ہائی سکول کی ذمہ داریاں بھی اٹھا رکھی تھیں جس نے تعلیم کا اعلیٰ معیار قائم کیا اور جس کے طلباء نے مختلف امتحانات میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔
عبدالرشید غازی کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای) اور اخبارات کے ناشروں کی ملک گیر تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے پلیٹ فارموں پر طویل عرصہ تک کام کرتے رہے۔ وہ ایک جرأت مند اور دلیر انسان تھے اور علاقائی اخبارات کے مسائل اور اپنے اخبار کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے اپنی آواز اٹھانے میں کسی بڑے سے بڑے حکومتی عہدیدار کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور انہیں خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ انہوں نے اپنی شبانہ روز محنت سے ڈیلی بزنس رپورٹ کو نہ صرف فیصل آباد بلکہ ملک بھر کے علاقائی اخبارات میں ایک امتیازی مقام دلایا تھا۔ انہوں نے ڈیلی بزنس رپورٹ کو سب سے زیادہ مقام اشتہارات حاصل کرنے والا اخبار بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اخبارات کے حوالے سے فیصل آباد کا نام آتے ہی ہر زبان پر ڈیلی بزنس رپورٹ کا نام آجاتا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے نواسے ہمایو ں طارق کو اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا اور ان کا نام ڈیلی بزنس رپورٹ کی پیشانی میں بطور جائنٹ ایڈیٹر شائع کرنا شروع کر دیا تھا اور اخبار کا ڈیکلریشن اپنی صاحبزادی غزالہ سہیل کے نام منتقل کر دیا تھا۔ عبدالرشید غازی اگرچہ عرصہ سے ذیابیطس کے مریض تھے مگر صبح کو روزانہ ایک گھنٹہ سیر زندگی میں ان کا لازمی معمول رہا۔ انہیں انتقال سے چند ہفتے قبل عارضہ قلب ہوا تھا مگر وہ چند روز ہسپتال میں رہ کر اپنے گھر اور دفتر کے معمولات انجام دینے لگے تھے۔ 4 اپریل 2012 ء کو جب ان کے انتقال کا سانحہ ہوا وہ معمول کے مطابق دفتر گئے اور دفتری فرائض ادا کرنے کے بعد فائن آرٹ پریس بھی گئے، یہ سارے امور انجام دے کر شام کو گھر واپس آئے تو انہیں دل کی تکلیف ہوئی، انہیں فوری طور پر قریبی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔
سی پی این ای اور اے پی این ایس کے معاملات میں وہ میرے اور میرے رفقاء کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، ہفتہ میں دو تین بار ٹیلی فون کرکے حالات حاضرہ سے آگاہ اور مشورہ کافی عرصہ سے ان کا معمول تھا جب عارف نظامی نوائے وقت سے الگ ہوئے تو انہیں بہت صدمہ ہوا، وہ صبح شام کئی کئی بار فون کرکے اس خواہش کا اظہار کرتے کاش اللہ کاکوئی بندہ آگے آئے اور ان کے باہم اختلافات کے مسئلہ کو سلجھا دے اور نوائے وقت کے ادارے میں اتحاد و اتفاق قائم رہے، وہ ہمیشہ ادارہ نوائے وقت کے خیر خواہ رہے اور میرے ساتھ بھی ان کا قلبی تعلق استوار رہا اور زندگی کے آخری سالوں میں صحافیوں کی جماعتوں کے معاملات میں انہوں نے کوئی قدم مجھ سے الگ نہ اٹھایا۔ وہ میرے ذاتی اور نجی معاملات میں بھی ہمیشہ میری رہنمائی کرتے رہے۔ انہیں میری صحت کی بھی بہت فکر لاحق رہتی تھی اور وہ مجھے باقاعدہ سیر کی تلقین کرتے تھے۔ میں ان سے وعدہ ضرور کرلیتا تھا لیکن میں سیر میں عبدالرشید غازی جیسی باقاعدگی اور پابندی نہ کرسکا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے، ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے اور ان کے اشاعتی ادارے کو ہمیشہ قائم رکھے۔ (آمین)۔