دربار صحافت

عزیز مظہر کی یاد میں…تحریر سید عباس اطہر

1964-65 میں روزنامہ کوہستان لاہور میں سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہوا کرتا تھا پھر سینئر سٹاف میں کچھ اندرونی اختلاف ہوئے اور عنایت اللہ مرحوم نے کوہستان چھوڑ کر روزنامہ ’’مشرق‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ’’کوہستان‘‘ سے صحافیوں اور منیجروں کی ٹیم لیکر نسبت روڈ پر ایک پرانے سے دو منزلہ مکان میں منتقل ہوئے اور بہت ہی تھوڑے عرصے میں ایک نئے انداز کا اخبار شروع کر دیا۔ اس زمانے میں شاید (شاید اس لئے کہ میں اپنی یادداشت پر بھروسہ کر رہا ہوں) اخبارات کے 8صفحات ہوا کرتے تھے۔ عنائت اللہ مرحوم 12 صفحات کا اخبار مارکیٹ میں لائے جو چند ہی ہفتوں میں سب سے زیادہ پڑھا جانے اور چھپنے والا اخبار بن گیا۔ مشرق سے منسلک صحافیوں کی بنیادی ٹیم ابو صالح اصلاحی‘ مکین احسن کلیم‘ اقبال زبیری‘ عزیز مظہر‘ ریاض بٹالوی اور ضیا السلام انصاری جیسے لوگوں پر مشتمل تھی۔ یہ سب لوگ اپنے اخبار کی طرح مرحوم ہو چکے ہیں۔ ’’مشرق‘‘نے زندگی کے مختلف شعبوں کیلئے الگ الگ صفحات متعارف کرائے۔ خواتین کے صفحے نے گھروں میں ڈیرے جمائے تو بچوں کا صفحہ ماؤں کے لاڈلوں کی خواہش بن گیا۔ عزیز مظہر مزدوروں اور ٹریڈ یونینوں کا صفحہ بناتے تھے۔ وہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے عروج کا دور تھا اور عزیز مظہر حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔ ’’کوہستان‘‘ کے بعد ’’مشرق‘‘ نے لکھنے والوں کی تصویریں چھاپنے کے رجحان کو فروغ دیا جس کی وجہ سے اس میں لکھنے والے تمام صحافی اپنے اپنے شعبے کے ’’سٹار‘‘ بنے۔ کیا زمانہ تھا کہ گزرا تو اپنے ساتھ اپنی ہر یاد کو بھی دھندلا گیا۔
’’مشرق‘‘ اور اس سے منسلک صحافیوں نے بہت عروج دیکھا اور تقریباً دس گیارہ سال وہ پنجاب کا نمبر ون اخبار رہا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ میں کا حصہ بننے باوجود اس اخبار کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایک غیر مقبول حکومت کے دباؤ میں آ کر مشرق اپنی ساکھ کھو بیٹھا اور پھر بینظیر دور میں بند ہو گیا۔ عزیز مظہر کے اکثر ساتھی منظر سے غائب ہو گئے ۔عزیز مظہر سڑکوں پر‘ چائے خانوں میں اور پریس کلب میں مسلسل اپنے وجود کا احساس دلاتے رہے۔ پچھلے چند سال سے وہ پہلے روزنامہ ’’صحافت‘‘ اور پھر ’’وقت‘‘ کے ایڈیٹوریل سیکشن کے ’’انچارج‘‘ بلکہ عملی طور پر ایڈیٹر ہی تھے۔ دل کا دورہ پڑنے سے چند گھنٹے پہلے تک وہ معمول کے مطابق اپنے دفتری اور دوسرے معاملات انجام دیتے رہے ہیں کہ زندگی اور موت کے درمیان ایک جھٹکے کا فاصلہ اچانک طے ہو گیا۔ یہ جھٹکا نہ لگے تو کئی سال بیت جاتے ہیں اور لگ جائے تو اگلے لمحے کو بھی نہیں چھونے دیتا۔
عزیز مظہر صاحب اس طرح کے انسانوں میں شامل تھے جو زندگی کی راہوں سے یوں گزر جاتے ہیں کہ آس پاس کوئی تنکا ٹوٹتا ہے نہ مٹی اڑتی ہے۔ 70 کے عشرے میں گروپ بندی کی وجہ سے پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے الیکشنوں میں بہت سخت مقابلے ہوا کرتے تھے۔ ایک طرف برنا صاحب کا گروپ ہوتا تھا۔( دوسری طرف پی ایف یو جے کے ایک انتخاب میں امیدواروں پر اختلاف کی وجہ سے 1968ء میں ضیا صاحب کے گروپ میں شامل ہوا تھا اور پھر مستقل حصہ بن گیا) ضیاء الاسلام انصاری مرحوم، رشید صدیقی، محمود جعفری مرحوم کے ساتھ میں بھی کھڑا ہوتا تھا۔ جب کبھی ہمیں ہارنے کا خطرہ ہوتا‘ عزیز مظہر صاحب کی منت سماجت کرکے انہیں مخالف اُمیدوار کے سامنے لے آتے۔ سخت کشیدگی کے ماحول میں بھی انہیں انتخابی مہم کے دوران مخالف گروپ کی طرف سے پورا احترام ملتا تھا تاہم ہمارے لئے بعد میں نتیجہ یہ نکلتا کہ جیت کر وہ غیر جانبدار ہو جاتے ۔ ایک الیکشن مجھے آج تک یاد ہے جس میں وہ پی یو جے کی صدارت کا انتخاب صرف ایک ووٹ سے ہارے تھے اور وہ بھی اس لئے کہ ہمارے ایک پکے ووٹر نے اس ’’اصولی اختلاف‘‘ کی وجہ سے ان کے مخالف کو ووٹ دے دیا تھا کہ میں ایک ایسے آدمی کی حمایت نہیں کر سکتا جس کا کوئی دشمن ہی نہ ہو۔
کوئی آدمی خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو‘ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ اسکا سرے سے کوئی مخالف یا دشمن ہی نہ ہو۔ عزیز مظہر صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ ان کا دشمن تو کجا کبھی کوئی مخالف بھی نہیں دیکھا ۔ وجہ یہ تھی کہ مرحوم کسی کو بھی ناراض کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ انہیں ایسے انسانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے جو دوسروں کے جذبات کے احترام میں اپنے جذبات چھپانے میں ماہر تھے اور میر انیس کے اس شعر کی تصویر ہوتے ہیں کہ ؂
خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
مرحوم کسی بالکل غلط رائے سے بھی اس لئے اختلاف نہیں کرتے تھے کہ کہیں دوسرے کی دل شکنی نہ ہو‘ بہت ضروری ہو تو اشاروں میں اپنی بات کہہ دیتے تھے لیکن اس انداز سے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ ہے تو درست لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ پھر وہ اس پہلو کی وضاحت یوں کرتے کہ اُن کا مخاطب اختلاف اور اتفاق کے درمیان بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتا۔
عزیز مظہر صاحب صحافت کے سنہری دور کی آخری نشانیوں میں سے ایک تھے۔ چلو چلی کے اس میلے میں دور زندہ رہتے ہیں نہ ان کی نشانیاں ۔
(8اگست 2007ء )