دربار صحافت

عنایت اللہ از جمیل اطہر

ذمہ دار تو آپ ہی ہیں!...ایم ابراہیم خان

عنایت اللہ از جمیل اطہر

وطن عزیز میں جدید اردو صحافت کی تاریخ جناب عنایت اللہ کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی ۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز قومی کتب خانے کے ماہانہ جریدے ’’ہدایت ‘‘ کی ادارت سے کیا ’’ہدایت ‘‘ اس زمانے میں بچوں کا ایک مقبول ماہانہ جریدہ تھا۔’’ ہدایت‘‘ کی ادارت کے ساتھ ساتھ جناب عنایت اللہ قومی کتب خانے کے جنرل منیجر بھی تھے یہی کتب خانہ جناب نسیم حجازی کے شہرہ آفاق ناول بھی شائع کرتا تھا اسلامی تاریخی ناولوں سے شہرت پانے والے نسیم حجازی اور طباعت واشاعت کا تجربہ رکھنے والے عنایت اللہ کی دوستی نے ایک نئے اخباری ادارے کی بنیاد رکھی ۔ قومی کتب خانہ راولپنڈی سے ایک مؤقر روز نامہ’’ تعمیر ‘‘ کے نام سے شائع کرتا تھا، عنایت اللہ اس کے انتظامی امور کی بھی نگرانی کرتے تھے ۔ جناب نسیم حجازی اور عنایت اللہ نے مل کر راولپنڈی سے روز نامہ’’ کوہستان‘‘ کا ڈول ڈالا ۔نسیم حجازی کا نام ’’کوہستان‘‘ کی لوح پر نگرا ن کی حیثیت سے شائع ہوتا تھا وہ خود ایبٹ آباد میں رہتے تھے اور ان کی شبانہ روز محنت نئے سے نیا اسلامی تاریخی ناول تخلیق کررہی تھی ۔ جناب عنایت اللہ نے اخبار کے لئے ان کی اسی شہرت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جبکہ اخبار کے روز مرہ معاملات سے نسیم صاحب کا کوئی واسطہ نہیں تھا اخبار کی ادارت عملی طورپر نوجوان صحافی جناب ابو صالح اصلاحی کررہے تھے۔ وہ اداریہ بھی لکھتے تھے اور ’’آج کی بات ‘‘ کے نام سے ان کا طنز و مزاح کاکالم بھی قارئین میں بہت مقبول تھا۔ راولپنڈی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد لاہور سے روز نامہ’’ کوہستان‘‘ کے ایڈیشن کا اجراء ہوا اور پھر’’ کوہستان‘‘ ملتان سے بھی شائع ہونے لگا۔ جناب عنایت اللہ کی قارئین کی نبض پر گرفت بہت مضبوط تھی۔ انہوں نے اس اخبار کو عوام کے مقبول ترین اخبار کا مقام دلایا، مگر نسیم حجازی کو یہ گمان گزرا کہ یہ اخبار ان کے نام کی وجہ سے کامیابی کی منزلیں طے کررہا ہے۔ نسیم صاحب نے ’’کوہستان‘‘ کے روز مرہ معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو عنایت اللہ صاحب کے اعتماد کے شیشے میں غبار آگیا اور’’کوہستان‘‘ جسے ابھی عروج کے کئی اور مقامات دیکھنے تھے عنایت اللہ صاحب کی اس سے علیحدگی کے فیصلہ کے باعث زوال آشنا ہوا ۔چند ماہ کے وقفہ کے بعد عنایت اللہ صاحب نے چوہدری ظہور الٰہی کی مالی اعانت سے روز نامہ’’ مشرق‘‘ کا اجراء کیا اس کی شکل و صورت قاہرہ اور بیروت سے شائع ہونے والے عربی اخبارات سے مشابہت رکھتی تھی اور اس پر کچھ سایہ لندن کے انگریزی اخبارات کا بھی تھا جہاں عنایت اللہ اکثر جاتے رہتے تھے اور انہوں نے وہاں سے ہفت روزہ ’’اخبار وطن‘‘ بھی جاری کیا تھا ۔12 صفحات کا رنگین اخبار اور وہ بھی جہازی سائز پر کوہستان کو پیچھے چھوڑ کر ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن تھا کہ نیشنل پریس ٹرسٹ نے ’’مشرق‘‘ کو اپنی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا ، عنایت اللہ بیمار تواس وقت بھی تھے جب انہوں نے روز نامہ کوہستا ن کا اجراء کیا تھا ان کا ایک پھیپھڑا نکالاجا چکا تھا اور وہ ایک پھیپھڑے کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے اخبار کے انتظام وانصرام کی ان کی اہلیت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ گوجرہ کے رہنے والے تھے مگر ابتدائی زندگی ہی میں بمبئی چلے گئے تھے اور وہاں سے ایک ہفت روزہ کا اجراء کیا۔ہدایت کے کارٹونسٹ حفیظ سرور ان کے جگری دوست تھے اس سفر میں وہ بھی ان کے ساتھ تھے ۔میں لاہور میں روز نامہ نوائے وقت میں بحیثیت سب ایڈیٹر کام کررہا تھا کہ ایک روز مجھے خیال آیا کہ میں عنایت اللہ صاحب سے جا کر ملوں اور اگر وہ میری حوصلہ افزائی کریں تو میں کوہستان سے وابستہ ہوجاؤں ، میں-7 اے نسبت روڈ پرکوہستان کے دفتر میں ان سے جا کر ملا ایک پرچی پر اپنا نا م شورش پاکستانی لکھ کر ان کے قاصد کے حوالے کیا قاصد فوراً ہی واپس آگیا اور مجھے ساتھ چلنے کے لئے کہا ۔ دبلے پتلے خوبصورت عنایت اللہ کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی ۔ انہوں نے کرسی پر بیٹھتے ہی مجھے کہا بھائی تم تو مجھے شریف آدمی لگتے ہو۔ یہ تم نے شورش پاکستانی کیا نام رکھ لیا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں تحریک تحفظ ختم نبوت میں ایک نظم پڑھنے کی پاداش میں گرفتار ہوگیا تھا تو لوگوں نے میری رہائی پر شورش زندہ باد کے نعرے لگائے اس طرح شورش کا نام میرے مداحین نے مجھے دے دیا اور پاکستانی کا لفظ میں نے خود اس میں شامل کرلیا جب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو میرے ساتھ ہی سعادت خیالی بھی کمرے میں داخل ہوئے اور کسی خبر پر عنایت اللہ صاحب کی ناراضگی کا ہدف بنے۔ میں چپ چاپ یہ منظر دیکھتا رہا میں نے عنایت اللہ صاحب سے ان کے بڑے بھائی حکیم عبدالمجید صاحب کا بھی ذکر کیا جوگوجرہ میں حکمت کرتے تھے ۔ عنایت اللہ نے مجھے کہا کہ میں نوائے وقت فوری طور پر چھوڑ دوں اور مشرق میں آجاؤں، مگر میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ مجھ سے نوائے وقت کی ملازمت نہ چھڑوائیں اور فی الحال مجھے پارٹ ٹائم جاب دے دیں اس پر انہوں نے کہا کہ جب میں اپنی خوشی سے نوائے وقت چھوڑدوں تو مشرق آجاؤں، پارٹ ٹائم ملازمت کی تجویز انہوں نے قبول نہیں کی۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کی تحویل میں آنے کے بعد مشرق سے عنایت صاحب کا رشتہ کمزور پڑنا شروع ہوگیا اور پریس ٹرسٹ کی اخبار پر گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔ عنایت اللہ صاحب نے عمر بھر شادی نہ کی مگر عمر کے آخری حِصّے میں معلوم نہیں انہیں کیا سوجھی کہ انہوں نے مشرق میں کام کرنے والی ایک خاتون صحافی نسیم فردوس سے شادی کرلی ادھر ان کا پھیپھڑے کا عارضہ عود کرآیا اور چند ماہ کی علالت کے بعد عنایت اللہ روز نامہ مشرق میں اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی کے پاس چلے گئے اور پاکستان قومی صحافت کے ایک ایسے نابغہ اور عبقری شخص سے محروم ہوگئی جس نے اردو صحافت کو نیا رنگ و روپ عطا کیا تھا ۔