دربار صحافت

فخر ماتری از جمیل اطہر

کجری وال کی معافی کا مطلب

فخر ماتری از جمیل اطہر

’’ملت‘‘ گجراتی، کراچی کے ایڈیٹر اور میرے نہایت محترم اور قابل قدر دوست جناب انقلاب ماتری نے 15 فروری کو جب ہم بلوچستان ہاؤس کی مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد وزیراعظم شوکت عزیز سے کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے ایک وفد کی ملاقات کے سلسلے میں وزیر اعظم ہاؤس روانہ ہونے والے تھے اچانک میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑی اپنائیت اور معصومیت سے کہا ’’کیا تم میرے والد سے کبھی ملے تھے؟‘‘ میں نے اس سوال سے پیدا ہونے والی حیرت اور تعجب کو ایک طرف رکھتے ہوئے انقلاب ماتری کے مخصوص انداز کی نقل کرتے ہوئے کہا ’’ملا تو کبھی نہیں مگر جانتا بہت اچھی طرح ہوں فخر ماتری صاحب کو‘‘۔۔۔ ’’تو پھر ایک آرٹیکل لکھ دو ان کے بارے میں‘‘ انقلاب نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر فرمائش کردی اور پھر کہا ’’کتنے دنوں میں لکھو گے یہ مضمون؟‘‘ میں نے کہا، ’’ایک ہفتہ کے اندر اندر‘‘۔ ’’کیا مجھے یہ یاد کرانا پڑے گا تمہیں؟‘‘ انقلاب نے میرے وعدے پر یقین نہ کرتے ہوئے سوال کیا، میں نے زور دے کر کہا، ’’نہیں نہیں آپ کو یاد کرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘۔
16 فروری کو میں لاہور پہنچ چکا تھا اور ہر روز اپنے ضروری کاموں کی فہرست میں ’’فخر ماتری پر مضمون‘‘ کو اولیں ترجیح کے طور پر سب سے پہلے درج کرتا تھا مگر 16 فروری سے 25 فروری تک مضمون لکھنے کے لئے وقت نہ نکال سکا، اب بھی (26 فروری) دس بجے صبح سے چار بجے شام تک اسی کوشش میں ہوں مگر ملاقاتیوں کا سلسلہ معمول سے بڑھ کر ہے، مضمون لکھنے کے لئے جس یکسوئی کی ضرورت ہے وہ میسر نہیں لیکن انقلاب ماتری کے ارشاد کی تعمیل کے لئے قلم سنبھال لیا ہے اور چل میرے خامہ بسم اللہ کے مصداق جناب فخر ماتری کی شخصیت کے متعلق اپنے تاثرات سپرد قلم کررہا ہوں۔
جناب فخر ماتری نہایت دل کش اور دل آویز سراپا کے مالک تھے، دبلے پتلے جسم اور لانبے قد نے ان کی شخصیت کا حُسن دوبالا کر رکھا تھا۔ وہ بہت خوش پوش تھے اور انگریزی پوشاک۔۔۔ کوٹ، پتلون اور ٹائی، ان کو بہت محبوب تھے، وہ کراچی کی سماجی زندگی کا جزو لاینفک رہے۔ ان کے بغیرکراچی کی کوئی اعلیٰ تقریب مکمل نہ ہوتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی وفاقی دارالحکومت تھا۔ فخر ماتری، جناب عمر فاروقی (انجام اور آغاز)، جناب حمید نظامی (نوائے وقت) اور آغا شورش کاشمیری (چٹان) کے حلقہ دوستاں کے رکن رکین رہے۔
جناب فخر ماتری کے لئے میرے ذہن میں ’’مرد حُر‘‘ کا لقب کئی روز سے گردش کررہا ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جناب فخر ماتری نے کراچی سے گجراتی روزنامہ ’’ملت‘‘ اور شام کا انگریزی اخبار ’’لیڈر‘‘ نکالنے کے بعد جب اردو اخبار نکالا تو اس کا نام ’’حریت‘‘ رکھا اور اس کے ادارتی صفحہ پر ’’حریت‘‘ کی لوح کو ایک مصرعہ ’’قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُرکی تکبیریں‘‘ سے آراستہ کیا اس لئے مردِ حُر کا لقب صرف فخر ماتری کو زیبا ہے جنہوں نے اردو صحافت کو ایک نہایت اعلیٰ اور معیاری روزانہ اخبار کا تحفہ دیا، یہ اخبار اس وقت کے اُردو روزناموں میں جدت اور ندرت کا نہایت خوبصورت امتزاج تھا، ’’حریت‘‘ کے اولیں شمارہ کے سرورق پر جو تصویر شائع ہوئی وہ عوام کا ایک جم غفیرتھا جس سے فخر ماتری مرحوم نے قوم کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے حریت پسند عوام ہی دراصل پاکستان کی قوت کا سرچشمہ اور اس کی تقدیر کے اصل مالک ہیں۔ جب ’’حریت‘‘ منظر عام پر آیا تو اس وقت کراچی کے اردو روزنامے لکیر کے فقیر دکھائی دیتے تھے اور وہ سالہاسال سے ایک ہی ڈگر پر چل رہے تھے اور روشن خیالی اور جدیدیت سے کوسوں دور تھے۔ ’’حریت‘‘ اردو صحافت میں ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند آیا اور اس نے صحافت کو ایک نئے رنگ میں ڈھالا اور اسے ایک نیا آہنگ دیا، اس زمانے میں کراچی کے نمایاں اردو اخبارات صفحہ اول پر ان گنت دو کالمی سرخیوں کے ساتھ پچاس ساٹھ خبریں شائع کرتے تھے اور آخری صفحہ ان خبروں کے بقیہ حصوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ ادارتی صفحہ بھی ایک خاص طرز پر مرتب کیا جاتا تھا، اس دور میں ’’جنگ‘‘ کا اداریہ سید محمد تقی لکھتے تھے جو بنیادی طور پر ایک فلسفی تھے، روزنامہ ’’انجام‘‘ کا اداریہ سردار علی صابری لکھتے تھے، ’’جنگ‘‘ کا اداریہ بہت دقیق اور پیچیدہ فلسفیانہ رنگ لئے ہوتا تھا اور ’’انجام‘‘ کے اداریہ میں بھی قدامت جھلکتی تھی۔ جناب فخر ماتری نے حریت میں اداریہ نویسی کا قطعی اچھوتا انداز اختیار کیا، اداریہ نویسی کی ذمہ داری جناب حسن مثنّیٰ ندوی کو سونپی گئی۔ اداریہ کا موضوع فخر ماتری خود تجویز کرتے تھے اور اداریہ کے اہم نکات جناب حسن مثنّیٰ کو وہ خود لکھواتے تھے، جناب فخر ماتری چونکہ بنیادی طور پر گجراتی زبان کے ادیب اور افسانہ نگار تھے اس لئے ان کے حروف و الفاظ روایتی اداریہ نگاری سے قطعی ہٹ کر ہوتے تھے اور اسے اردو نثر کے قالب میں ڈھالنے کا کام جناب حسن مثنّیٰ انجام دیتے تھے۔ اداریہ میں کبھی کبھی کوئی تصویر بھی لگادی جاتی تھی جیسا کہ میرے حافظہ میں محفوظ ہے کہ ایک اداریہ میں عنوان سے پہلے اس وقت کے امریکی صدر کی تصویر شائع کی گئی۔ تصویر کا رخ کچھ اس طرح تھا کہ صدر مملکت کی پشت زیادہ نمایاں تھی اور اداریہ کاعنوان تھا ’’صدر امریکہ نے پیٹھ دکھادی‘‘ یہ طرز نگارش اداریہ نویسی کے روایتی انداز سے قطعی بغاوت کا مظہر تھا اور ’’حریت‘‘ کے قارئین اس پر اپنی پسندیدگی کااظہار کررہے تھے۔
’’حریت‘‘ میں مزاحیہ کالم بھی اچھوتے طریقے سے شائع کیا جاتا تھا، ’’حریت‘‘ سے پہلے فکاہی کالم اداریہ کی طرح لمبائی میں پورے ایک کالم پر مشتمل ہوتا تھا مگر ’’حریت‘‘ پہلا اردو اخبار تھا جس نے اسے چوڑائی میں چار پانچ کالموں میں پھیلا کر زیادہ دلکش انداز میں شائع کرنا شروع کیا۔ یہ کالم ممتاز فکاہات نویس جناب نصراللہ خان لکھتے تھے جو مولانا ظفر علی خان کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ سے وابستہ رہے تھے اور فخر ماتری مرحوم نے معلوم نہیں اس گوہر تابندہ کو کہاں سے تلاش کیا تھا لیکن ’’حریت‘‘ میں شائع ہونے والے ان کے کالموں نے بڑی شہرت پائی وہ عمر کے آخری حصے میں شہید محمد صلاح الدین کے ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ میں ہلکا پھلکا کالم لکھتے رہے جسے بہت خاصے کی چیز سمجھا جاتا تھا۔
’’حریت‘‘ میں دینی کالم کا اجرا ہوا، غالباً اس سے پہلے کوئی روزنامہ دینی کالم کی اشاعت کا اہتمام نہیں کرتا تھا، ممتاز دانش ور جناب محمود فاروقی یہ کالم لکھتے تھے، بعض لوگ اس کالم کو جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی محمود اعظم فاروقی سے منسوب کرتے تھے، ان فاروقی صاحب نے بعد میں جنرل ضیاء الحق کابینہ میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے شمولیت کی، لیکن ’’منبر و محراب‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والا کالم محمود فاروقی لکھتے تھے محمود اعظم فاروقی نہیں۔
’’حریت‘‘ کا رپورٹنگ کا شعبہ بھی بہت مضبوط تھا، اس شعبہ کے سربراہ جناب احمد اسحق مرحوم تھے جو ’’حریت‘‘ سے پہلے ’’جنگ‘‘ کے نیوز ایڈیٹر رہے تھے۔ احمد اسحق بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے لیکن زود نویسی میں انہیں کمال حاصل تھا، ’’حریت‘‘ کی سیاسی اہمیت کی خبروں کا لوہا منوانے میں جناب احمد اسحق کے صحافتی تجربہ اور تخلیقی صلاحیتوں کا بہت دخل تھا۔
جناب فخر ماتری نے روزنامہ ’’حریت‘‘ کا ادارتی شعبہ مکمل طور پر ممتاز صحافی جناب یوسف صدیقی کو سونپ رکھا تھا جو روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے بڑی شہرت کے مالک تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کا نام اخبار کے افتتاحی شمارے سے ہی لوح میں جناب فخر ماتری کے اسم گرامی بحیثیت مدیر کے ساتھ بطور مدیر معاون شائع ہوتا تھا، ’’حریت‘‘ کو اردو کا ایک مثالی اخبار بنانے میں یوسف صدیقی کا کردار بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
’’حریت‘‘ نے پاکستان کو جن مایہ ناز صحافیوں سے متعارف کرایا ان میں جناب محمد صلاح الدین بھی شامل تھے، جنہوں نے بطور سب ایڈیٹر، شفٹ انچارج اور نیوز ایڈیٹر ’’حریت‘‘ میں کام کیا اور بعد ازاں روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں بہادر اور جرأت مند ایڈیٹر کی حیثیت سے ناموری حاصل کی اور ’’جسارت‘‘ سے الگ ہوجانے کے بعد ’’تکبیر‘‘ کے نام سے اپنا ہفتہ وار سیاسی جریدہ شائع کرنا شروع کیا۔
جناب فخر ماتری نے ’’حریت‘‘ کے ذریعے ایک جرأت مند اور بہادر صحافی کی حیثیت سے اپنا تشخص منوایا، انہوں نے اپنی محنت شاقہ، خداداد صلاحیتوں اور اپنے رفقاء کے صحیح انتخاب کی بدولت ’’حریت‘‘ کو ملک کے ممتاز ترین اردو اخبار کا مقام دلایا، ابھی ان کو اس میدان میں بہت سا کام کرنا تھا کہ وہ عین اپنے عنفوان شباب میں اپنے دیرینہ دوست ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی کے سربراہ روشن علی بھیم جی کے عشائیہ میں شریک تھے کہ انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ کوئی طبی امداد ملنے سے قبل ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور روزنامہ ’’حریت‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں ان کے بڑے صاحبزادے جناب انقلاب ماتری کے کاندھوں پر آ پڑیں، جو بیرسٹر ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کرکے چند روز قبل ہی لندن سے کراچی پہنچے تھے۔
جناب فخر ماتری کی صحافتی خدمات کا جائزہ لینے کے لئے ایک مضمون کافی نہیں اس کے لئے ایک ضخیم کتاب درکار ہوگی۔ جناب انقلاب ماتری کو اپنے عظیم باپ پر لکھنے کے لئے تمام مواد کو ایک کتاب میں جمع کرنا چاہئے تاکہ مستقبل کا کوئی قاری جناب فخر ماتری کی صحافتی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہے تو اسے ایک مربوط اور مبسوط مجموعہ مضامین میسر آسکے۔
جناب فخر ماتری نے اپنے بڑے بیٹے کا نام انقلاب ماتری، اپنے گجراتی اخبار کا نام ’’ملت‘‘، انگریزی اخبار کا نام ’’لیڈر‘‘ اور اردو اخبار کا نام ’’حریت‘‘ رکھا۔ یہ چاروں نام فخر ماتری کے انقلاب آفریں نظریات اور حریت کیش افکار کے مظہر ہیں۔ وہ پاکستانی قوم کو ایک ملت کی لڑی میں پرونا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے پاکستانی سیاست دانوں میں قائد اعظمؒ جیسے دیانت دار اور بااصول لیڈر کا کردار ادا کرنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے خواہاں تھے اور اپنے گجراتی زبان کے مؤثر روزنامہ ’’ملت‘‘ کے مقدر کا ستارہ ہی نہیں آفتاب درخشندہ تھے، پاکستان کی قومی صحافت کی تاریخ میں فخر ماتری کا نام ان کی حریت پسندی کی بدولت امر ہوگیا ہے اور وہ آزادئ فکر کا چراغ روشن کرنے والوں کے دلوں میں تا ابد زندہ و پائندہ رہیں گے۔