دربار صحافت

قصہ ایک شہزادی کا .. کالم بلال غوری

قصہ ایک شہزادی کا .. کالم بلال غوری

جو لوگ مریم نواز صاحبہ کے پروٹوکول اور سکیورٹی پر معترض ہیں، وہ سیاسی طور پر متعصب ہیں یا پھر تاریخ سے نابلد۔ اگر آپ بادشاہوں کی کہانیاں پڑھنے اور سننے کا شوق و ذوق رکھتے ہیں تو یقینا اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ دربار میں شہزادی کا مقام و مرتبہ کیا ہوتا ہے۔ بیشتر شاہی قصے کسی ایسے بادشاہ کی سرگزشت پر مشتمل ہوتے ہیں جس کے بیٹے نااہل ہوتے ہیں اور امور سلطنت میں قطعاً دلچسپی نہیں لیتے مگر شہزادی بہت ذہین و فطین اور قابل ہوتی ہے۔ جب کبھی بادشاہ پر کڑا وقت آتا ہے یا کوئی لاینحل مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو عقلمند شہزادی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ انہیں خصوصیات کے باعث بادشاہ اپنے بیٹوں کے بجائے بیٹی کو تاج و تخت کا وارث بنانا چاہتا ہے اور یہیں سے محلاتی سازشوں کا آغاز ہوتا ہے۔ بظاہر تو بادشاہت کا زمانہ گزر گیا اور اس کی جگہ پارلیمانی سیاست نے لے لی ہے مگر عملاً شاہانہ اقدار و روایات کا سلسلہ برقرار ہے۔ مثال کے طور پر ازبکستان کے صدر اسلام کریموف کی بیٹی گلنارا عوام میں بیحد مقبول تھیں، وہ لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھاتیں اور انہیں ”شہزادی‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ اسلام کریموف کی جانشین گلنارا ہوں گی مگر ازبکستان کی اسٹیبلشمنٹ وزیر اعظم شفقت مرزائیوف کو آگے لانا چاہتی تھی۔ اسلام کریموف کے دور صدارت میں ہی گلنارا کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، اس کے ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشن بند کر دیئے گئے، اس کے کاروباری شراکت داروں کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر گلنارا کو بھی حراست میں لے کر نظر بند کر دیا گیا۔ اسے نفسیاتی مریض قرار دیتے ہوئے ایک پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا اور اس دوران جب اسلام کریموف چل بسے اور اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ مکمل ہو گیا تو گلنارا کو مبینہ طور پر زہر دے کر مار دیا گیا۔
گلنارا بھی کم و بیش ایسی ہی پُرکشش شخصیت کی مالک تھیں جو مریم نواز کے حصے میں آئی ہے۔ مریم نواز 43 برس کی ہیں تو گلنارا 44 برس کی تھیں مگر دونوں کے خد و خال سے ان کی عمر کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ جب مریم نواز کی جے آئی ٹی کے روبرو پیشی پر ”درباری چیخے‘‘ آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے تو مجھے شہزادی گلنارا کی المناک داستان یاد آرہی تھی۔ خدا نہ کرے کہ ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات پیش آئیں مگر قیادت کا تاج سر پر سجانے والوں کو مصائب و آلام کی بھٹیوں سے گزر کر کندن تو ہونا پڑتا ہے۔ سپین کے بادشاہ ہوآن کارلوس کی بیٹی کو عدالت نے منی لانڈرنگ اور ناجائز اثاثہ جات کے مقدمے میں تب عدالت طلب کیا جب کالوس برسر اقتدار تھے۔ جھگڑا شاید وہاں بھی اسی نوعیت کا تھا کہ بادشاہ اور اس کی بیٹی کو کرپشن کے الزامات لگا کر اقتدار سے نکالا جائے مگر ان الزامات کے تحت ہسپانوی شہزادی کرسٹینا کو تفتیش کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کئی بار عدالت میں بھی پیش ہوئیں۔ رومانیہ کے سابق بادشاہ مائیکل اول کی بیٹی شہزادی ارینا واکر کو تو ایک بودے الزام کے تحت عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ رومانوی شہزادی ارینا واکر کو مرغے لڑانے کی پاداش میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ بینظیر بھٹو بھی قوم کی بیٹی اور اپنے بابا کی شہزادی تھیں۔ حسن اور حسین کی طرح شاہنواز اور مرتضیٰ کی بھی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بھٹو کا خیال تھا کہ ”پنکی‘‘ اس کی سیاسی جانشین ہو سکتی ہے، لیکن اس خواہش کو دل میں لئے بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ خدا نہ کرے کہ ہم پھر سے ایسے تاریک دور کی طرف دھکیل دیئے جائیں۔ خاتون اول نصرت بھٹو نے سیاسی جدوجہد کے دوران ڈنڈے کھائے، نازوں سے پلی بینظیر نے اسیری دیکھی، احتساب عدالتوں میں پیش ہوئیں، معصوم بچے اپنی ماں کو جیلوں کے چکر لگاتے دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے۔ امید ہے یہ شرمناک دن پھر سے لوٹ کر نہیں آئیں گے مگر ایسی بھی کیا نزاکت کہ جے آئی ٹی میں طلب کئے جانے پر غل مچ گیا؟
مریم نواز نے نپے تلے انداز میں خود اعتمادی کے ساتھ گفتگو کی لیکن بہتر ہوتا کہ وہ اپنی بات چیت کا آغاز رونالڈ ریگن کے مشہو زمانہ قول سے کرتیں۔ ریگن ایک مرتبہ صحافیوں سے گفتگو کرنے کے لئے آئے تو رپورٹرز سوالات کرنے کے لئے بیتاب تھے۔ ریگن نے کہا ”اس سے پہلے کہ میں آپ کے سوالات لینے سے انکار کروں، آپ میرا بیانیہ سن لیں‘‘۔ مریم نے بھی اپنے والد اور ریگن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میڈیا کے سوالات کا سامنا نہیں کیا۔ وہ ”درباری چیخے‘‘ جو کل تک اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ مریم نواز کو کیوں طلب کیا گیا ہے، اب وہ پانسہ پلٹ کر یہ کہ رہے ہیںکہ مریم کی لانچنگ ہو گئی۔ اس کا قد کاٹھ بلند ہو گیا اور اب آئندہ وزیر اعظم وہی ہوں گی۔ اس کے برخلاف مخالفین یہ کہہ کر ہنسی اڑا رہے ہیں کہ وہ تو ایک ملزم کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے جتنے لوگ پیش ہو رہے ہیں ان کی حیثیت گواہ یا معاون کار کی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی نہ تو ملزم ہے اور نہ بر ی الذمہ۔ یہ فیصلہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کرنا ہے کہ کس کے خلاف کیا چارج شیٹ عائد کی جائے۔
لگ بھگ دو برس ہوتے ہیں، جب دھرنے کے باعث حالات مخدوش تھے اور یہ سرگوشیاں ہونے لگی تھیں کہ اگر میاں نواز شریف کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو ان کے ممکنہ جانشین کون ہوں گے؟ باقی جانشین بہت پیچھے رہ گئے اور مریم نواز بتدریج پیشقدمی کرتی رہیں۔ اس لئے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ مریم نواز، نواز شریف کی جانشین ہوں گی اور ان کی جانشینی کو ممکنہ طور پر شہباز شریف سے خطرہ ہو سکتا ہے‘ جن کا خیال ہے کہ ان کا حق فائق ہے۔ میں نے نواز شریف صاحب کے ایک قریبی ساتھی سے استفسار کیا کہ اس بابت آپ کا کیا خیال ہے؟ یہ صاحب پرویز مشرف کی آمریت کے دوران ڈٹ کر
کھڑے رہے اور گزشتہ دور حکومت میں بھی انہیں نواز شریف کا قرب اور اعتماد حاصل رہا۔ پہلے تو ان کا اصرار تھا کہ نواز شریف ہی وزیر اعظم رہیں گے اور کوئی انہیں ہلا نہیں سکتا‘ مگر جب میں نے بار بار استفسار کیا تو کہنے لگے، ایسی صورت میں ایک ہی شخصیت ہے جس پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے اور وہ ہے بیگم کلثوم نواز۔ گزشتہ روز میں نے ایک مرتبہ پھر ان سے رجوع کیا تو کہنے لگے، اس مرحلے میں بھی نواز شریف سرخرو ہوں گے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے ذریعے انہیں ہٹانا ممکن نہیں ہو گا لیکن بالفرض محال اگر نیا وزیر اعظم لانا پڑا تو عبوری وزیر اعظم لا کر بیگم کلثوم نواز کو رکن قومی اسمبلی منتخب کروایا جائے گا۔ ان کی بات میں کسی حد تک وزن ہے۔ خواجہ آصف ہوں، اسحاق ڈار، احسن اقبال یا پھر چوہدری نثار، ان میں سے کسی ایک کے بھی وزیر اعظم بننے سے پارٹی میں ویسا ہی انتشار پیدا ہو گا جیسا یوسف رضا گیلانی کے وزیر اعظم بننے پر برپا ہوا تھا۔ میرے خیال میں پنجاب کے اندازِ حکومت اور مزاج سے بہت سے ارکان پارلیمنٹ خفا ہیں اور اگر صوبائی قیادت کو سامنے لایا گیا تو پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ مریم نواز ابھی نووارد ہیں اور پھر ان کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ سے ہونا باقی ہے۔ ایسی صورت میں بیگم کلثوم نواز ہی وہ شخصیت ہیں جن پر سب کا اتفاق ہو سکتا ہے کیونکہ بیشتر سیاسی خاندان یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کی وفاداری نواز شریف کے ساتھ استواری میں ہے اگر کسی اور کو قیادت سونپی گئی تو پھر وہ حالات کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔