دربار صحافت

محمد صلاح الدین شہید از جمیل اطہر

کجری وال کی معافی کا مطلب

محمد صلاح الدین شہید از جمیل اطہر

جناب محمد صلاح الدین شہید کا شمار پاکستان کے ان قابلِ فخر اور مایہ ناز صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہایت محنت ، ریاضت اور مشقت سے میدان صحافت میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا پُوری دُنیا سے لوہا منوایا ، وہ حقیقت میں مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خان اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے اہل علم و دانش کی طرزِ صحافت کے امین اور پیرو کار تھے ۔ انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی، ابتداء میں غربت کی زندگی گزاری اور اپنے خاندان کی کفالت کے لئے بظاہر بہت معمولی کام انجام دیئے ، دن میں تین تین جگہوں پر کام کیا ، ٹین کے جھونپڑا، نما مکان میں رہے ، کئی میل کی مسافت سے ندی عبور کرکے گھر والوں کے لئے پانی لانے کا فریضہ ادا کیا ۔ صحافت میں انہوں نے سب سے پہلے کراچی کے روز نامہ ’’حریت‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا ۔ جب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور جناب الطاف حسن قریشی نے ملتان سے روز نامہ ’’ جسارت‘‘ کا اجراء کیا تو انہوں نے ریاض احمد چودھری کو ایڈیٹر مقرر کیا اور کراچی اور لاہور کے کئی ممتاز صحافیوں کو ملتان لے گئے ۔کراچی سے جسارت کے قافلے میں شامل ہونے والوں میں جناب محمد صلاح الدین بھی شامل رہے جنہیں خبروں کے شعبے میں ان کی مہارت کے باعث جسارت کا چیف نیوز ایڈیٹر مقرر کیا گیا تھا ۔ ’’جسارت ‘‘ملتان سے اجراء کے ساتھ ہی ایک مقبولِ عام اخبار بن گیا جس کی پرنٹنگ مشینری بڑھتی ہوئی طلب کو پُورا کرنے سے قاصر تھی ، مگر جسارت ملتان جلد ہی ابتلاء وآزمائش سے دو چار ہوا جس کے نتیجے میں جناب صلاح الدین واپس کراچی چلے گئے اور پھر کراچی سے جماعت اسلامی نے اپنے اہتمام اور ملکیت میں روز نامہ جسارت شائع کیا جس کے پہلے مدیر الطاف حسن قریشی تھے، ان کے بعد جناب عبدالکریم عابد کو جسارت کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا ۔ بعض ذاتی وجوہ کے باعث جناب عبدالکریم عابد کراچی سے لاہور منتقل ہوگئے اور ان کی جگہ جناب محمد صلاح الدین کو جسارت کراچی کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا ۔ اخبار کے نیوز ڈیسک پر کام کرنے والوں اور کسی بھی اخبار میں نیوز ایڈیٹر یا چیف نیوزایڈیٹر کا فرض انجام دینے والوں کے متعلق عام تأثر یہی ہے کہ وہ اخبارات کی رات کی دنیا میں چمکنے والے جگنو ہوتے ہیں اور وہ کسی اخبار کے ایڈیٹر بننے کے مستحق خال خال ہی سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ بھٹو صاحب کی سول آمریت کا دور تھاا ور ان کے غیر مقبول اقدامات نے ان کی عوامی پذیرائی کا سورج گہنا دیا تھا ، ایسے میں جناب محمد صلاح الدین کی زیر ادارت روز نامہ جسارت اپنی جرأت مندانہ روش کے باعث تیزی سے مقبول ہونے لگا اور صفحہ اول پر شائع ہونے والے جناب صلاح الدین کے ادارتی مقالاتِ خصوصی نے جہاں جسارت کی شہرت کو چار چاند لگائے وہاں محمد صلاح الدین کی بہادری اور دلیری کا بھی خُوب خُوب چرچا ہوا ، اگر چہ جسارت اور محمد صلاح الدین دونوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی، بھٹو حکومت نے جسارت کی اشاعت پر پابندی عائد کردی اور محمد صلاح الدین کو پابندِ سلاسل کردیا۔
جسارت پر پابندیوں، محمد صلاح الدین کی گرفتاریوں اور نظر بندیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ ’’وفاق‘‘ کے مدیر جناب مصطفی صادق ایسے ہر موقع پر جسارت اور محمد صلاح الدین کی حکومت سے مفاہمت ومصالحت کے لئے کوشاں رہے اور انہوں نے حیدر آباد یا لاڑکانہ میں جناب محمد صلاح الدین کی جناب ذوالفقار علی بھٹو سے براہ راست ملاقاتوں کا بھی اہتمام کیا ۔ بھٹو صاحب کو اس وقت جسارت سے یہ شکایت تھی کہ وہ نیشنل عوامی پارٹی (اب عوامی نیشنل پارٹی) کی خبروں کو بہت نمایاں طورپر شائع کرتا ہے ۔ جناب محمد صلاح الدین کا موقف تھا کہ اگر چہ جسارت ایک سیاسی جماعت کا ترجمان اخبار ہے مگر قارئین کو بالخصوص اور عوام کو بالعموم حقائق کے اصل رُخ سے آگاہ کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کے بیانات اور تقاریر شائع کرنا اخبار کا بنیادی فرض ہے ، جہاں تک کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کے خیالات اور نظریات سے اختلاف کا تعلق ہے اخبار کا ایڈیٹر اداریے یا ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والے مضامین یا کالموں کے ذریعے اپنے اختلافی نقطہ نظرکا پُوری آزادی سے اظہار کرنے کا حق استعمال کرسکتا ہے ۔ بھٹو صاحب ان کی دلیل کا سامنا نہ کرسکے اور انہوں نے جسارت کی اشاعت سے پابندی اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ اِدھر جسارت کے ناشر سید ذاکر علی ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک انسان تھے ، وہ جماعت اسلامی کراچی کے ایک فعال رُکن ہونے کے باوجود فُرصت ملنے پر شمال کے پہاڑی علاقوں میں چلے جاتے اور خوب عبادت کرتے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں مصروف رہتے ۔ جب’’جسارت‘‘ کا ابتلا ختم ہونے میں نہ آتا ، آزمائش کی گھڑیاں طویل تر ہونے لگتیں، جسارت کے کارکنوں کے حوصلے جواب دینے لگتے اور اور ان کے گھروں کے چولہے اخبار کی اشاعت کی بحالی کی امید میں ٹھنڈے پڑنے شروع ہوجاتے تو سید ذاکر علی واپس کراچی پہنچ کر تمام کارکنوں کو اکٹھا کرتے اور انہیں یہ خوش خبری سنادیتے کہ اس مہینے کی فلاں تاریخ کو جسارت دوبارہ شائع ہونا شروع ہوجائے گا اور ہوتا بھی یہی کہ ذاکر علی صاحب کی پیشگوئی یا اندازہ درست ثابت ہوتا۔ اس سلسلے میں ایک بار ایسا بھی ہوا کہ سید ذاکر علی نے روز نامہ ’’جسارت ‘‘ کے دوبارہ شائع ہونے کی تاریخ پر مبنی پوسٹر بھی چھپوا لیا۔اس موقع پر بھی یہی ہوا کہ جسارت اس تاریخ کو دوبارہ شائع ہونے لگا جو ذاکر صاحب نے پوسٹر پرچھپوا رکھی تھی۔
جسارت محمد صلاح الدین کی ادارت میں آگے بڑھ رہا تھا اور یہ خبریں بھی آنے لگی تھیں کہ اب اس کا ایک ایڈیشن لاہور سے شائع ہونے لگے گا۔ جماعت نے اخبار نکالنے کے لئے پنج محل روڈ پر ایک عمارت بھی خریدلی تھی اور پریس کی مشینری بھی اس سڑک پر واقع ایک اور عمارت میں نصب کرادی تھی ۔اسی طرح کے ایک موقع پر وہ شاہ دین بلڈنگ میں روز نامہ ’’ وفاق‘‘ کے دفتر تشریف لائے ، میں نے اور باتوں کے علاوہ ان سے یہ بھی پوچھ لیا کہ ’’ جسارت‘‘ لاہور سے کب نکل رہا ہے ، محمد صلاح الدین صاحب نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر کہا ’’ ابھی تو سب کچھ خلا میں ہے‘‘ میں نے بھی اسی طرح فوراً فقرہ چُست کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا ’’یہ خلاسے شائع ہونے والا پہلا اخبار ہوگا‘‘ جناب محمد صلاح الدین میرے اس جواب سے بہت محظوظ ہوئے اور دیر تک اس فقرے کا لطف اٹھا تے رہے۔
جناب محمد صلاح الدین ایک ایسے صحافی، ایڈیٹر اور دانش ور تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں سے بدرجہ اتم نواز اتھا، مولانا سید ابو الاعلی مودودی ان کی بہت قدر کرتے تھے، جیل سے رہائی کے بعد جناب محمد صلاح الدین کی جیل میں لکھی گئی کتاب ’’ بنیادی حقوق ‘‘شائع ہوئی تو ان کی خواہش تھی کہ اس کی تقریب رونمائی میں مولانا مودودی شریک ہوں، ان دنوں مولانا کی صحت اچھی نہیں تھی اور لاہور سے کراچی جانا مولانا کے لئے ممکن نہ تھا اس لئے مولانا نے صلاح الدین صاحب سے کہا کہ آپ یہ تقریب میرے گھر کے لان میں منعقد کرلیں، اس طرح مجھے تقریب میں شرکت کا موقع مل جائے گا ۔ مولانا مودودی کی خواہش پر بنیادی حقوق کی تعارفی تقریب ذیلدار پارک اچھرہ میں مولانا مودودی کی رہائش گاہ کے لان میں منعقد ہوئی۔ جماعت اسلامی کا مرکزی دفتر بھی اسی عمارت میں تھا اور مولانا کی آخری آرام گاہ بھی اسی کوٹھی کے لان میں ہے۔
جناب محمد صلاح الدین ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک انسان تھے ، انہوں نے جہاں صحافت کے میدان میں اپنی جرأت و جسارت کا لوہا منوایا وہاں عالم اسلام اور امت مسلمہ کے مستقبل کی فکر میں مبتلا ایک دانش ور اور فلسفی کا مقام بھی حاصل کیا ۔ جسارت سے الگ ہو کر جب انہوں نے ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ نکالا تو اس کے نام کی نسبت سے ہمیشہ نعرہ تکبیر اور کلمۂ حق بلند کرتے رہے۔’’ تکبیر‘‘ نے ان کی ادارت کے دور میں کئی صحافتی معرکے انجام دیئے اور کئی چونکا دینے والی رپورٹیں شائع کیں۔ جب سعودی عرب کے ایک معروف دار الاشاعت نے پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اُردو پڑھنے والوں کے لئے ’’اردو نیوز‘‘ کے نام سے ایک اُردو اخبار شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس کے لئے پاکستان سے ادارتی اور انتظامی عملہ کے ارکان کے انتخاب کا کام جناب محمد صلاح الدین کو سونپا گیا ، انہوں نے یہ ذمہ داری بہت عمدہ طریقہ سے ادا کی ، اہلیت و صلاحیت کی میزان اور معیار پر خوب پرکھ کر ایسے لوگوں کو سعودی عرب بھجوایا جنہوں نے ’’اردو نیوز‘‘ کو ایک اچھا اخبار بنایا اور پاکستان کا نام بھی روشن کیا اور خود ان صحافیوں اور کارکنوں کے مالی حالات بھی خاصے بہتر ہوئے ۔ ہر پہلو سے جناب محمد صلاح الدین نے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دیں ، اس کام کی نگرانی کے لےء وہ خود بھی کئی سال تک ایام حج میں جدّہ جاتے رہے تاکہ حج کے موسم میں ’’اردو نیوز‘‘ کو زیادہ سے زیادہ مستند اور جامع انداز میں شائع کیا جاسکے۔
مجھے آل پاکستان نیوز پیپرز سو سائٹی(اے پی این ایس ) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے اجلاسوں میں طویل عرصہ تک جناب محمد صلاح الدین کے ساتھ شرکت کا موقع ملتا رہا ، ان اجلاسوں میں جناب محمد صلاح الدین بحث و مباحثہ کے دوران جو نکات اٹھاتے تھے اور جو لائحہ عمل تجویز کرتے تھے عام طور پر اسے بہت وزن دیا جاتا تھا اور ان کی گفتگو بہت توجہ اور انہماک سے سُنی جاتی تھی ، وہ بہت اچھی گفتگو کرتے تھے ۔ ان کے روشن دماغ ہونے کی بہت سی مثالیں اور واقعات ذہن میں آتے ہیں مگر طوالت کے خوف سے ان کا ذکر نہیں کررہا ۔
انہوں نے جب ہفت روزہ ’’ تکبیر‘‘ نکالا تو اپنے اشاعتی ادارہ کا نام ’’ ادارہ مطبوعات تکبیر‘‘ رکھا جس کے تینوں حروف کا پہلا لفظ ملا کر لفظ ’’اُمت ‘‘ بنتا تھا ۔’’ وہ ’’اُمت‘‘ کے نام سے ہی ایک روزانہ اخبار نکالنے کا منصوبہ بنا رہے تھے جو ان کی شہادت کے المیہ کے باعث ان کی زندگی میں منظر عام پر نہ آسکا اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے داماد جناب رفیق افغان نے اُن کے ادھورے خواب میں حقیقت کا رنگ بھر ا اور’’امت ‘‘ کو جناب محمد صلاح الدین کے صحافتی و اخلاقی احوال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کا ایک باوقار اور مؤقر روز انہ اخبار بنایا جو ان دنوں پاکستان کی قومی صحافت میں اپنا کردار بہت مؤثر طریقہ سے ادا کررہا ہے ۔
جناب محمد صلاح الدین شہید، ذہنی طورپر جنرل محمد ضیاء الحق کے قریب سمجھے جاتے تھے کیونکہ انہوں نے ملک اور قوم کو جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سول آمریت سے نجات دلائی تھی جس کے خلاف انہوں نے بڑی بے باکی اور دلیری سے جدوجہد کی تھی مگر جب انہی جنرل محمد ضیاء الحق نے اخبارات پر سنسر کی پابندی لگائی اور اخبارات سے کہا گیا کہ وہ اپنی کاپیاں مکمل اور تیار ہونے کے بعد محکمہ اطلاعات کے ان افسروں کے پاس پیش کریں جنہیں کوئی بھی مواد شائع کرنے سے روکنے اور اس کی جگہ متبادل مواد کا پی میں شامل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا تو انہوں نے جنرل محمد ضیاء الحق کے طلب کردہ ایڈیٹروں کے ایک اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا اور انہیں یہ خط لکھا کر بھیجا کہ آپ نے مجھے ایڈیٹر کی حیثیت سے اجلاس میں بلایا ہے جبکہ میں ان دنوں آپ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے جسارت کے ایڈیٹر کے فرائض ادا نہیں کرپا رہا اس لئے آپ میری بجائے سنسر پر مامور اس افسر کو مدعو کریں جسے میرے اخبار کے مواد میں ردو بدل کا اختیار دیا گیا ہے اور جو عملی طوپر ’’سُپر ایڈیٹر‘‘ بنا ہوا ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ ان کے تعلقات کا فی عرصہ کشیدہ رہے۔
8 مئی1983ء کو کراچی میں سی پی این ای کے زیر اہتمام ایک تاریخی قائد اعظم پریس کنونشن منعقد ہوا جس سے اس وقت کے صد جنرل محمد ضیاء الحق نے خطاب کیا ، لیکن اس سے ایک روز قبل 7 مئی کو میریٹ ہوٹل کراچی میں سی پی این ای کی سٹینڈنگ کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت سی پی این ای کے صدر جناب انقلاب ماتری کررہے تھے ، جناب مجیب الرحمن شامی اس وقت سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل تھے، میں نے تحریری طورپر اپنے دوست مدیر’’آغاز‘‘ انور فاروقی کے تائیدی دستخطوں سے یہ تجویز پیش کی کہ سی پی این ای کے تمام ارکان جو اس وقت قائد اعظم پریس کنونشن میں شرکت کے لئے ملک بھر سے کراچی آئے ہوئے ہیں کل صبح بان�ئ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزار پر حاضر ہوں اور رُوحِ قائد کو گواہ بنا کر ایک عہد کریں اور اس عہد نامہ پر حلف اٹھائیں کہ وہ پاکستان کے نظریاتی کردار کی حفاظت کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے ، میں نے اپنی تجاویز میں اس عہد کے لئے جو چند نکات تجویز کئے تھے اجلاس نے جناب محمد صلاح الدین کو اس کی نوک پلک سنوار نے اور اس میں اصلاح و اضافہ کا اختیار دیا ، جناب محمد صلاح الدین اور راقم نے کمرہ اجلاس کے ایک گوشے میں بیٹھ کر تجدیدِ عہد کے مسودہ کو آخری شکل دی اور اگلے روز گیارہ بجے مزارِ قائد پر حاضر ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ جناب انور فاروقی اور میں مزار پر چڑھانے کے لئے چادر لے کر اس تقریب میں شریک ہوئے ، عہد نامہ پڑھنے اور حلف لینے کی سعادت جناب محمد صلاح الدین کے حصے میں آئی۔ ملک بھر سے قائد اعظم پریس کنونشن کے موقع پر آئے ہوئے مدیرانِ اخبارات و جرائد نے مزار قائد اعظم پر فاتحہ خوانی کی اور پھُول چڑھائے۔ فاتحہ خوانی کے بعد مدیر ان جرائد نے ایک عہد کی تجدید کی ۔ جناب محمد صلاح الدین نے اس عہد کو بہ آواز بلند پڑھا جس کا متن حسب ذیل ہے۔
قائد اعظم پریس کنونشن کے تاریخی موقع پر آج 8 مئی 1983ء کو مزارِ قائد پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ہونے والے مدیران جرائد قائد کے حضور اللہ تعالیٰ سے اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ :
1۔ ہم مسلمان صحافی کی حیثیت سے نیکی کو پھیلانے اور بُرائی کو مٹانے کا فریضہ پُوری دیانت داری ،جرأت مندی اور خدا اور خلقِ خدا کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ انجام دیں گے۔
2۔ ہم پاکستان کی حفاظت ، سلامتی، ترقی و بقاء اور اس کے نظریاتی کردار کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داریاں پُوری فرض شناسی سے انجام دیں گے اور اس راہ میں ہر ممکن قربانی دیں گے۔
3۔ ہم آزادئ اظہار کے اس بنیادی حق کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے ۔ اس حق کو پامال یا سلب کرنے والی قوتوں کے خلاف ہماری مزاحمت ایمان کے ایک تقاضے کے طورپر مسلسل جاری رہے گی ۔
4۔ ہم پاکستان کو معمار پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کے نظریات و افکار کے مطابق ڈھالنے کی ہر ممکن کوشش میں بھر پور تعاون کریں گے اور اس کے منافی کوششوں اور سر گرمیوں کی ہر قدم پر مزاحمت کریں گے ۔
خدا ہمیں اپنے عہدکو پُورا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔
آج جناب محمد صلاح الدین کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس امر کی شہادت دینا چاہتا ہوں کہ جناب محمد صلاح الدین شہید نے عمر بھر اس عہد کی پاس داری کی ، اس کے ایک ایک لفظ پر اس کی رُوح اور معانی کو پیش نظر رکھ کر عمل کیا اور ہر ممکن قربانی کا عہد پُورا کرتے ہوئے اپنی جان اس فکر ، فلسفہ اور نظریہ کی خاطر قربان کردی جو پُوری زندگی انہیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رہا۔