دربار صحافت

محمد فاضل از جمیل اطہر

ملزم سے معصوم تک کا سفر!

محمد فاضل از جمیل اطہر

یہ 1956-57ء کا ذکر ہے، سکول میں موسم گرما کی تعطیلات ہو چکی تھیں اور میں واہ چھاؤنی میں اپنی خالہ سے ملنے چناب ایکسپریس میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے واہ چلا گیا۔ واہ ایک نہایت خوبصورت جگہ ہے جہاں پاکستان آرڈیننس فیکٹری واقع تھی، میرے خالو شیخ عبدالشکور اس فیکٹری کے دفتری خانہ میں ملازم تھے اور اُنہیں فیکٹری نے مارکیٹ کے قریب ہی نہایت مناسب کوارٹر دے رکھا تھا، واہ کے قریب ہی حسن ابدال تھا اور واہ اور حسن ابدال کے مابین پھلوں سے لدے آلوبخارے اور لوکاٹ کے باغات تھے جن کے متعلق ہمارے خالو کا کہنا تھا کہ یہ سردار شوکت حیات خان کے ہیں، میں روزانہ واہ کی مارکیٹ میں جانے لگا جہاں ایک دوکان پر مغل نیوز ایجنسی کا بورڈ لگا ہوا تھا اور وہاں کتابوں اور سٹیشنری کے ساتھ ساتھ اخبارات بھی دستیاب تھے۔ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اپنے گھر کی گلی کے پیچھے ڈاک خانہ والی گلی میں ڈاک خانہ سے اپنی ڈاک لینے جاتا تھا ایک دن میں نے پوسٹ مین کے ہاتھ میں ایک اخبار دیکھا جس کا نام ’’تعمیر‘‘ تھا اور یہ راولپنڈی سے شائع ہوتا تھا۔ اخبار پر ’’ایڈیٹر محمد فاضل‘‘ اور ’’منیجنگ ایڈیٹر محمد صفدر‘‘ کے اسماء گرامی چھپے ہوئے تھے۔ میں نے روزنامہ ’’تعمیر‘‘ کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کی خبریں بھیجنا شروع کردیں اور مجھے ’’تعمیر‘‘ کا اعزازی پرچہ ڈاک میں موصول ہونے لگا، جس سے یہ پتہ چلا کہ یہ اخبار مشہور اشاعتی ادارے قومی کتب خانہ لاہور والوں کا ہے اور اس کے مالک شیخ محمد نصیر ہمایوں ہیں۔
میں نے ایک روز اپنی خالہ صاحبہ کو بتایا کہ میں آج راولپنڈی جارہا ہوں اور شام کو واپس آجاؤں گا۔ میں ایک بس میں سوار ہوا اور راولپنڈی پہنچ گیا اور پُوچھتا، تلاش کرتا جامع مسجد روڈ پر روزنامہ ’’تعمیر‘‘ کے دفتر میں پہنچ گیا اور چپراسی سے ایڈیٹر محمد فاضل صاحب کے متعلق دریافت کیا، اُس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا جس کا دروازہ کھلا تھا، میں کمرے میں داخل ہوا، السلام علیکم کہا اور ایک خالی کُرسی پر بیٹھ گیا۔ میرے کمرے میں داخل ہونے اور کُرسی سنبھالنے کا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، میں بھی خاموش بیٹھا رہا۔ ایڈیٹر صاحب کے سامنے بیٹھے تین چار افراد ایک ایک کرکے رخصت ہوئے، تب جناب محمد فاضل نے مجھ سے کہا، ’’کھیلوں کی خبریں ساتھ والے کمرے میں دے دیں‘‘۔ میں نے بڑے مؤدبانہ انداز میں گذارش کی، ’’میں کھیل کی کوئی خبر دینے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا، میرا نام شورش پاکستانی ہے (اس وقت میرا قلمی نام یہی تھا) اور میں ضلع لائل پور کے قصبہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’تعمیر‘‘ کا نامہ نگار ہوں، واہ چھاؤنی میں اپنی خالہ کے پاس آیا ہوا ہوں آج سوچا کہ آپ سے ملاقات کرلوں‘‘ اب میں جناب محمد فاضل کی پُوری توجہ حاصل کرچکا تھا۔ میں نے عرض کیا مجھے کوئی تقررنامہ یا ادارہ کا کوئی شناختی کارڈ نہیں ملا، صرف اعزازی اخبار مجھے ملتا ہے اور ڈاک کا کوئی خرچ تک ادارہ مجھے ادا نہیں کررہا‘‘ فاضل صاحب نے میری بات بڑے غور سے سُنی اور فرمانے لگے، ’’بھئی! یہ ٹھیک ہے کہ تم ’’تعمیر‘‘ کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کی خبریں بھیجتے ہو، یہ خبریں چھپنے سے پہلے میری نظر سے بھی گذرتی ہیں مگر مجھے یہ یقین نہیں آتا کہ یہ خبریں تم خود لکھتے ہو‘‘۔ میں اُن کی بات سُن کر پریشان تو ہوا مگر میں نے گذارش کی کہ اس کا تو آسان حل یہ ہے کہ آپ جو کچھ لکھوانا چاہتے ہیں میں آپ کے سامنے لکھنے کے لئے تیار ہوں، فاضل صاحب نے ایک بار پھر مجھ پر نظر ڈالی، ایک دُبلاپتلا چودہ پندرہ سال کا لڑکا، کُرتا اور پاجامہ پہنے اُن کے سامنے دعویٰ کررہا تھا کہ آپ جو کچھ کہیں میں لکھ دیتا ہوں، فاضل صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا تم نے آج کے اخبارات پڑھے ہیں؟ میں نے آسان جواب دیا ’’جی نہیں‘‘ اُنہوں نے پھر فرمایا ’’تمہیں یہ تو معلوم ہوگا کہ علی نہرو (وزیراعظم پاکستان محمد علی بوگرہ اور وزیراعظم ہندوستان پنڈت جواہر لعل نہرو) ملاقات ہورہی ہے، میں نے کہا ’’جی ! یہ مجھے معلوم ہے‘‘ فاضل صاحب نے بتایا ’’یہ ملاقات ناکام ہوگئی ہے‘‘۔ میں نے قدرے تعجب سے کہا ’’اچھا جی!‘‘ اب باری پھر فاضل صاحب کی تھی فرمانے لگے کہ کیا تم اس ملاقات کی ناکامی پر کچھ لکھ سکتے ہو؟ میں نے کہا ’’جی۔۔۔ میں لکھ سکتا ہوں‘‘ فاضل صاحب نے لکھنے کا پیڈ اور قلم میرے حوالے کیا اور خود کمرے سے باہر نکل گئے۔
میں نے علی نہرو ملاقات کی ناکامی کے عُنوان سے لکھنا شروع کردیا اور پندرہ بیس منٹ میں اپنی تحریر مکمل کرلی اور پیڈ فاضل صاحب کی میز پر رکھ دیا۔ وہ کچھ دیر بعد کمرے میں تشریف لائے اور مجھے بے کار بیٹھا دیکھ کر گویا ہوئے ’’تم نے ابھی تک کچھ نہیں لکھا‘‘۔ میں نے عرض کیا، ’’آپ کے سامنے پڑے ہوئے پیڈ میں میرے لکھے ہوئے صفحات موجود ہیں‘‘۔ فاضل صاحب نے بڑے اشتیاق کے ساتھ میری تحریر پڑھی اور اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے آج اداریہ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور تمہاری تحریر ہی آج کا اداریہ ہوگی‘‘ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے مجھے اپنے ہمراہ لیا اور ملحقہ کمرے میں ’’تعمیر‘‘ کے منیجنگ ایڈیٹر جناب محمد صفدر کے پاس لے گئے۔ میرا تعارف کرایا، میری تحریر اُنہیں دکھائی اور ان الفاظ کے ساتھ میری حوصلہ افزائی کی ’’صفدر صاحب! انہیں کچھ انعام دیں؟، کچھ ماہانہ معاوضہ مقرر کردیں، کل آپ فخر سے کہہ سکیں گے کہ یہ ’’تعمیر‘‘ کا نامہ نگار رہا ہے‘‘۔ صفدر صاحب نے سو روپے عنایت کیے، بیس روپے ماہانہ ڈاک الاؤنس مقرر کردیا اور فاضل صاحب سے کہا، ’’اگر آپ کو فرصت ہو تو ذرا دوسرے دفتر سے ہو آئیں‘‘۔ فاضل صاحب تو اغلباً پہلے ہی تیار تھے، معلوم ہوا کہ وہ سیدپوری روڈ پر ’’تعمیر‘‘ کے ایڈیٹوریل آفس جانا چاہتے ہیں۔ صفدر صاحب اور فاضل صاحب اپنے کمروں سے باہر آئے، ’’تعمیر‘‘ کے انتظامی دفتر سے باہر سڑک پر ایک کار اُن کی منتظر تھی جسے صفدر صاحب نے خودچلایا۔ ہم دونوں اُن کے ساتھ سید پوری روڈ والے دفتر پہنچے جہاں روزنامہ ’’تعمیر‘‘ کے نیوز ایڈیٹر آغا رفیق جاوید، اسسٹنٹ ایڈیٹر منو بھائی، سب ایڈیٹر محمد بدر منیر، نسیم شمائل پوری اور کئی دوسرے صحافیوں سے میرا تعارف کرایا گیا، کچھ دیر یہاں گذارنے کے بعد ہم دوبارہ جامع مسجد روڈ پر آگئے، محمد فاضل صاحب کی رہائش اس دفتر کی بالائی منزل پر تھی، فاضل صاحب نے مجھے کھانے کی دعوت دی، اور مجھے اپنے ساتھ لے کر اُوپر کی منزل پر گئے، اُن کی اہلیہ صحن میں کپڑے دھورہی تھیں اُنہوں نے آواز دے کر اُنہیں بُلایا اور میرے متعلق بتایا کہ یہ بچہ ہمارے اخبار کا نامہ نگار ہے اور اس کی تحریر میں بڑی پختگی ہے۔ فاضل صاحب سے اُس دن کی ملاقات عمر بھر ان کے ساتھ گہرے تعلق کا باعث بنی۔ اُنہوں نے میری ہمت بھی بہت بڑھائی اور میری غلطیوں پر مجھے ڈانٹا بھی بہت ایک مرتبہ میں نے اُنہیں لائل پور کاٹن ملز میں سالانہ انڈوپاک مشاعرہ کی روداد اشاعت کے لئے بھیج دی، یہ ایک تاریخی مشاعرہ تھا جس میں علامہ انور صابری، فیض احمد فیض، جگر مراد آبادی، احمد ندیم قاسمی، احسان دانش، ثاقب زیروی ،ساحر صدیقی، ظہیر کاشمیری اور قتیل شفائی جیسے شعراء نے اپنا کلام سنایا اب میں زود نویس تو ضرور تھا مگر شاعر نہیں تھا اور ان شعراء کرام کے اشعار نوٹ کرتے وقت جس احتیاط کی ضرورت تھی اُسے ملحوظ نہ ر کھ سکا۔ چند روز بعد ’’تعمیر‘‘ کے ادارتی صفحہ پر میری بھیجی ہوئی مشاعرہ کی رپورٹ تو شائع ہوگئی جسے دیکھ کر میں بہت خوش ہوا، مگر دو روز بعد جناب محمد فاضل کا ایک خط مجھے ملا جس میں اُنہوں نے میری سخت سرزنش کی تھی اور لکھا تھا کہ میں نے یہ رپورٹ تم پر اعتماد کرتے ہوئے کچھ غور کئے بغیر اشاعت کے لئے دے دی اور جونہی یہ شائع ہوئی کئی شعراء نے مجھے فون کرکے بتایا کہ اس میں لکھے ہوئے اشعار وزن سے گرے ہوئے ہیں، کسی کا پہلا مصرع درست نہیں ہے اور کسی کے دوسرے مصرع میں جھول ہے۔ یہ کسی مشاعرے کی میری تحریر کردہ پہلی اور آخری رپورٹ تھی اور اس کے بعد مجھے کسی مشاعرے کی روداد سپرد قلم کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
روزنامہ ’’تعمیر‘‘ ابتدا میں راولپنڈی کا ایک مؤقر روزنامہ تھا، ممتاز ناول نگار جناب نسیم حجازی اور جدید اُردو صحافت کے معمار عنایت اللہ بھی ’’تعمیر‘‘ کے ساتھ وابستہ رہے۔ نسیم حجازی کے تمام ناول قومی کتب خانہ نے ہی شائع کئے تھے، نسیم صاحب رہتے تو ایبٹ آباد میں تھے مگر قومی تہواروں پر ’’تعمیر‘‘ کے لئے اداریہ لکھ دیتے تھے، اخبار میں اُن کا نام نگران کے طور پر شائع ہوتا رہا۔ عنایت اللہ صاحب قومی کتب خانہ کے جنرل منیجر اور اس ادارے کے بچوں کے رسالہ ’’ہدایت‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ بعد میں نسیم حجازی اور عنایت اللہ نے ’’تعمیر‘‘ کی انتظامیہ سے کچھ اختلافات کے باعث علیحدگی اختیارکرلی اور ’’کوہستان‘‘ کے نام سے اپنا روزنامہ راولپنڈی سے ہی شروع کیا جس کے پہلے ایڈیٹر ابو صالح اصلاحی تھے جو جماعت اسلامی کے اخبار روزنامہ ’’تسنیم‘‘ اور آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’قلم قتلے‘‘ کے باعث بڑی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ سالہاسال ’’کوہستان‘‘ راولپنڈی کے ایڈیٹر رہنے کے بعد جب جناب نسیم حجازی اور جناب عنایت اللہ کے راستے جُدا ہوئے اور مؤخرالذکر نے نیا اخبار ’’مشرق‘‘ نکالا تو ابو صالح اصلاحی اس کے پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور 1965ء میں حادثۂ قاہرہ میں جام شہادت نوش کیا۔
روزنامہ ’’تعمیر‘‘ ایک مکمل قومی اخبار تھا، محمد فاضل کی ادارتی محنت شاقہ اور محمد صفدر کی انتظامی صلاحیتوں نے اسے اوج ثریا پر پہنچادیا تھا لیکن شیخ محمد نصیر ہمایوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے تمام اثاثے اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیئے، اس تقسیم کے باعث ’’تعمیر‘‘ اُن کے چھوٹے بیٹے نسیم ہمایوں کے پاس آگیا اور محمد صفدر اور محمد فاضل علی الترتیب منیجنگ ایڈیٹر اور ایڈیٹر کے فرائض سے سبک دوش ہوگئے۔ صفدر صاحب نے ایک بڑا پرنٹنگ پریس لگا لیا اور “PICTORIAL” کے نام سے ایک انگریزی ہفت روزہ نکال لیا۔ فاضل صاحب ’’تعمیر‘‘ میں آنے سے پہلے فوج کے ترجمان روزنامہ ’’ہلال‘‘ (بعد ازاں ہفت روزہ ’’ہلال‘‘) کے عملہ ادارت میں بھی شامل رہے تھے۔ ’’تعمیر‘‘ سے الگ ہوجانے کے بعد وہ دوبارہ ’’کوہستان‘‘ میں چلے گئے۔ جب 1977 ء میں ’’وفاق‘‘ کے ایک ایڈیشن کا راولپنڈی سے اجراء عمل میں آیا تو جناب قیوم قریشی کو ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ وہ ’’کوہستان‘‘، ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’جاوداں‘‘ میں کام کر چکے تھے اور راولپنڈی کے ممتاز صحافیوں میں شمار ہوتے تھے مگر ’’وفاق‘‘ سے اُنہوں نے جلد ہی علیحدگی اختیار کرلی۔ مصطفی صادق صاحب نے میری تجویز پر جناب محمد فاضل کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا، اُنہیں ’’وفاق‘‘ راولپنڈی کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ اُنہیں یہ ذمہ داریاں سونپتے ہی مصطفی صادق صاحب نے اپنے بیٹے ابرار مصطفی کو جس نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کی ڈگری لے لی تھی راولپنڈی دفتر بھیج دیا۔ فاضل صاحب کا ابرار کے ساتھ نباہ نہ ہوسکا، وہ مستعفی ہوگئے اور اس بات پر مجھ سے کچھ کچھ ناراض بھی رہے، میرے ’’تعمیر‘‘ سے الگ ہوجانے کے بعد میرا چھوٹا بھائی معراج ظفر (جو اٹھارہ سال کی عمر میں انتقال کرگیا) بھی لائل پور میں ’’تعمیر‘‘ کا نامہ نگار رہا تھا۔ اُنہوں نے ’’وفاق‘‘ میں معراج کے انتقال کی پڑھ کر مجھے تعزیتی خط لکھا جس میں اُنہوں نے بتایا کہ معراج نے اُنہیں کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ میرا چھوٹا بھائی ہے اور اپنی صلاحیت کی بنا پر لائل پور میں ’’تعمیر‘‘ کا نمائندہ بنا تھا، اُنہوں نے مجھ سے بھی یہ شکایت کی تھی کہ میں نے معراج کی زندگی میں اُنہیں اس تعلق سے کیوں آگاہ نہیں کیا تھا۔
جناب محمد فاضل پوٹھوار کے اُن فرزندوں میں شامل تھے جنہوں نے صحافت کا پیشہ اُس وقت اختیار کیا جب یہ زندگی فقر و فاقہ میں گذارنے کے ایک عہد کی حیثیت رکھتا تھا، وہ کہتے تھے کہ میں اُس باپ کا بیٹا ہوں جسے اپنی پوری زندگی میں سو روپے کا نوٹ نصیب نہیں ہوا تھا اور جسے ساری زندگی یہ تمنا رہی کہ وہ اپنے گاؤں کے چوہدری کے ساتھ اُس کی چارپائی پر بیٹھ سکے۔ جناب محمدفاضل راولپنڈی کی تہذیبی، ثقافتی اور صحافتی زندگی کا ایک اہم کردار رہے، اُن کے اپنے دور کے نامور لوگوں کے ساتھ قریبی تعلقات تھے لیکن اُنہوں نے زندگی ایک صحافی کی حیثیت سے شب و روز کام کرتے گذاری، سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک سادہ سا گھر جس کا ایک حصہ اُنہوں نے کرایہ پر دے رکھا تھا اُن کا واحد ورثہ تھا جہاں اُن کے انتقال کے بعدرسمِ قرآن خوانی میں شریک لوگوں میں منو بھائی اور یہ خاکسار گلے مل کر اپنے رہبر و رہنما اور مربی کی جدائی پر آنسو بہارہے تھے۔ (13 مئی 2010ء)