دربار صحافت

مصطفی صادق از جمیل اطہر

پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش

مصطفی صادق از جمیل اطہر

پیر 21نومبر(2011ء ) کو 11 بجے صبح میں ایل ڈی اے کمپلیکس میں ڈاکٹر نثار احمد کو اُن کی ہدایت پر کرائے گئے خون کے ٹیسٹوں کی رپورٹیں دکھانے کے بعد دفتر جا رہا تھا کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی ، میں نے فون آن کیا لائن پر مصطفی صادق صاحب کے بیٹے ابرار مصطفی تھے جو روزنامہ’’ جنگ‘‘ راولپنڈی میں سینئر رپورٹر ہیں، وہ رو رہے تھے اور اپنے عظیم والد جناب مصطفی صادق کی رحلت کی روح فرسا خبر سنا رہے تھے ، ان کا فون بند ہوا تو ان کے بڑے بھائی وقار مصطفی کا فون تھا انہوں نے بھی یہی افسوس ناک خبر سنائی اور بتایا کہ ان کا جنازہ آج شب بعد نماز عشاء 609-N سمن آباد سے اٹھایا جائے گا۔
مصطفی صادق صاحب سے میرا تعلق کم و بیش 55برس پر محیط ہے جس میں ان کے ساتھ صحافتی اور کاروباری اشتراک کے عمل کے 22سال بھی شامل ہیں ۔میری ان سے پہلی ملاقات 1955ء میں شاہ عالم مارکیٹ میں واقع جماعت اسلامی کے ترجمان ’’روزنامہ تسنیم ‘‘ کے دفتر میں ہوئی تھی ۔وہ اس اخبار کے ناشر اور مدیر معاون تھے ۔ اخبار کے چیف ایڈیٹر جماعت اسلامی پنجاب کے (اس وقت کے )امیر جناب سعید ملک اور ایڈیٹر جناب ارشاد احمد حقانی تھے ۔ جناب مصطفی صادق جماعت اسلامی لاہور کے نائب قیم بھی تھے اور ’’تسنیم ‘‘ کے لئے رپورٹنگ کے فرائض بھی انجام دیتے تھے ، میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ’’تسنیم ‘‘ کا نامہ نگار تھا ، میں اگرچہ بائیں بازو کی سیاست و صحافت کا ذوق رکھتا تھا ۔ لیکن میرے تایا قاضی نصیر الدین سرہندی نے جو جماعت اسلامی کے رکن تھے مجھے ’’تسنیم‘‘ کا نامہ نگار بھی بنا دیا اس طرح یہ تعلق مصطفی صادق صاحب سے اس رشتے کی بنیاد بناجس میں ہم 1958ء سے 1980ء تک منسلک رہے ۔ مصطفی صادق جماعت اسلامی کے اُن رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کی جماعت اسلامی کی حکمت عملی سے ماچھی گوٹھ میں منعقدہ جماعت کے سالانہ اجتماع میں اختلاف کیا اور اس پاداش میں ارشاد احمد حقانی اور مصطفی صادق ’’ روزنامہ تسنیم ‘‘ سے الگ ہو گئے ، ارشاد صاحب تو ’’ تسنیم ‘‘ سے انگریز ی اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں چلے گئے مگر مصطفی صادق ، مولانا عبدالرحیم اشرف کے ’’ہفت روزہ المنیر ‘‘ (بعد میں ہفت روزہ المنبر ) کے مدیر بن کر لاہور سے لائل پور (اب فیصل آباد ) چلے گئے میرا تعلق چونکہ لائل پور کے اخبار ’’غریب ‘‘ سے بھی تھا اور میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور جاتا رہتا تھا اس بنا ء پر جب مجھے یہ پتہ چلا کہ مصطفی صادق ’ المنیر ‘‘ میں آ گئے ہیں تو میں ان سے ملنے جناح کالونی میں اشرف یونانی لیبارٹریز چلا گیا ۔ مصطفی صادق صاحب کے لئے یہ بہت حیرت کی بات تھی کہ دفتر ’’تسنیم ‘‘ میں ایک سرسری ملاقات کے بعد ایک نوجوان نامہ نگار ان سے ملنے آگیا تھا ، جناب مصطفی صادق نے اس ملاقات میں مجھے بتایا کہ وہ ’’ المنیر ‘‘ کے ساتھ ساتھ اب روزنامہ ’’ آفاق ‘‘ میں بھی کام کریں گے جو سہگل پبلشرز لمیٹڈ کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا اور جس کے لائل پور ایڈیشن کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب مقبول احمد تھے ۔مصطفی صادق روزنامہ آفاق سے وابستہ ہونے کے بعد ایک روز ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے جہاں ان کی ملاقات میرے دادا قاضی محمد اصغر سرہندی ،تایا قاضی نصیر الدین سرہندی اور میرے والد قاضی سراج الدین سرہندی سے ہوئی ، میں میٹرک کا امتحان دے چکا تھا ،رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا اور گورنمنٹ کالج لائل پور میں داخلہ لینے کا خواہش مند تھا ، مصطفی صادق صاحب نے مجھے دعوت دی کہ میں جب لائل پور آؤں تو ان سے ملوں ، وہ میرے لئے ’’آفاق‘‘ میں سب ایڈیٹر یا رپورٹر کی گنجائش نکالیں گے میں نے 1958ء کے آخر میں گورنمنٹ کالج لائل پور میں داخلہ لیا اور اس کے ساتھ ہی مجھے روزنامہ ’’آفاق ‘‘ میں سب ایڈیٹر کا تقرر نامہ مل گیا ۔ ہم آفاق میں پوری یکسوئی کے ساتھ فرائض انجام دے رہے تھے ۔آفاق کے عملہ ادارت میں مشہور افسانہ نگار منصور قیصر ، اداکارہ روبینہ اشرف کے والد اشرف طاہر ، منصور حیدر ، خواجہ افتخار اور یہ خاکسار شامل تھے ۔ منصور قیصر اور اشرف طاہر کچھ وقفوں سے دوسرے اخبارات میں چلے گئے ۔یکا یک آفاق میں ایک بھونچال �آ گیا انتظامیہ نے ملک مظفر احسانی کو روزنامہ ’’آفاق ‘‘ لائل پور کا ایڈیٹر انچارج مقررکر دیا ۔ احسانی صاحب وہی صحافی ہیں جنہیں حکومت نے اس وقت روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کا ڈیکلریشن دے دیا تھا ۔ جب وزیر اعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ نے ممدوٹ نواز پالیسی پر ’’نوائے وقت ‘‘کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی ۔مصطفی صادق نے تو اس تقرری پر ابھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا تھا مگر مظفر احسانی نے میرے کام میں رکاوٹیں پیداکرنا شروع کر دیا ، میرا ایک کالم روزنامہ’’ آفاق ‘‘ کے آخری صفحہ پر ’’گھنٹہ گھر سے گھنٹہ گھر تک ‘‘کے عنوان سے شائع ہوتا تھا ۔ ایک کالم کے مندرجات پر احسانی صاحب نے شائع ہو جانے کے بعد اعتراض کیا جس پر میں نے اپنی جیب میں پہلے سے لکھا ہوا استعفیٰ اس پر تاریخ درج کر کے ان کے سامنے رکھ دیا ، یہ استعفیٰ پیش کر کے میں قریب ہی واقع اپنی رہائش گاہ پہنچا ہی تھا کہ میرے استعفیٰ کی منظوری کا خط بھی مظفر احسانی صاحب کے دستخطوں سے مجھے موصول ہو گیا اور اس طرح ’’آفاق ‘‘ سے میرا تعلق ختم ہوا ، میں نے اپنی گزر بسر کے لئے ’’پاک نیوز سروس ‘‘کے نام سے ایک خبر ایجنسی قائم کی ۔میں اپنے کالج کی کلاسوں سے فارغ ہو کر کچہری جاتا ، سرکاری دفاتر کی غلام گردشوں میں گُھومتا اور تھانوں اور پولیس چوکیوں کے چکر لگاتا اور شام کو یہ خبریں مرتب کر کے اور ان کی نقول تیار کر کے مقامی اخبارات غریب ، عوام ،سعادت اور ڈیلی بزنس کے دفاتر میں خود پہنچا دیتا اور ان مقامی خبروں کے لئے ماہانہ 30روپے معاوضہ ان اخباری اداروں سے وصول کرتا ، ابھی اس ایجنسی کے قیام کو ایک ڈیڑھ ماہ ہی ہوا تھا کہ مجھے شدید نمونیہ نے آ لیا اور میرے لئے پاک نیوز سروس کے روزمرہ امور انجام دینا ممکن نہ رہا ، میری علالت کے دوران ہی مصطفی صادق صاحب نے ’’آفاق ‘‘ سے استعفیٰ دے دیا اور میری نیوز ایجنسی کا کام سنبھال لیااور لائل پور کے معروف صحافی اور ممتاز شاعر قمر لدھیانوی کو سٹاف رپورٹرمقرر کر دیا اور خبروں کی نقول تیار کرنے کا فریضہ ممتاز عالم دین مولانا عبدالغفار حسن کے بڑے صاحبزادے صہیب حسن کو سونپ دیا جو ایک عرصہ تک یہ ذمہ داری ادا کرتے رہے ، یہی صہیب حسن ان دنوں عالم اسلام کے ایک ممتاز سکالر‘ عظیم مفکر اور دانش ور ہیں اور امریکہ میں ایک اسلامی ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر اور کئی دینی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اپنااخبار نکالنے کا منصوبہ تو ہم ’’آفاق ‘‘ میں کام کرتے ہوئے ہی بنا رہے تھے مگر مسئلہ مالی وسائل کا تھا جو مصطفی صادق کے پاس تھے اور نہ میرے پاس ۔ مگر ہمارا عزم بہت پختہ تھا کہ ہم اخبار نکال کر ہی دم لیں گے ۔ ’’آفاق‘‘ سے وابستگی کی وجہ سے ہم نے نئے اخبار کا نام بھی طے کر رکھا تھا اور وہ تھا ’’وفاق ‘‘۔ بہر حال 25 دسمبر 1959ء کو وفاق کا پہلا شمارہ نکلا مگر یہ روزنامہ کی بجائے ہفت روزہ تھا ۔ یہ ڈیکلریشن بھی ہم نے اپنے ایک ساتھی حافظ بشیر سہیل کے نام پر حاصل کیا تھا کیونکہ جماعت اسلامی سے (سابق)تعلق کے باعث خفیہ ایجنسی کی رپورٹیں مصطفی صادق کے خلاف تھیں ۔ ہم نے اس کے ساتھ ساتھ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی بھی قائم کر دی تھی جس کا نام ’’پاک ایڈورٹائزرز ‘‘ رکھا گیا ۔ مصطفی صادق کو اللہ تعالیٰ نے گفتگو کا بہت ملکہ دیا ہوا تھا اور وہ دوسروں کو قائل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے ۔دنوں اور ہفتوں میں ہماری ایڈورٹائزنگ ایجنسی کوکوہ نور ٹیکسٹائل ملز کے سوا لائل پور کی تمام معروف ٹیکسٹائل ملوں نے اشتہارات دینا شروع کر دئیے ۔ہماری خبر ایجنسی اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی اچھی بھلی چلی رہی تھیں اور ہفت روزہ ’’وفاق ‘‘ کا شمار بھی چٹان ،اقدام، قندیل اور شہاب کے ساتھ ہونے لگا تھا مگر ہمارے ذہنوں پر ایک روز نامہ کے اجراء کا خبط سوار تھا، 18فروری 1962ء کو ہفت روزہ ’’وفاق ‘‘ روزانہ اخبار کی حیثیت سے شائع ہونے لگا اس کے لئے قلیل وسائل مصطفی صادق نے اپنے دوستوں اور میں نے اپنے والدین اور قریبی رشتے داروں سے حاصل کئے تھے ۔ اخباری کاغذ کی ضروریات پُورا کرنے کی ذمہ داری مولانا عبدالرحیم اشرف نے اٹھائی جو ہفت روزہ ’’ المنبر ‘‘ اور ماہنامہ ’’رہنمائے صحت‘‘ میں مصطفی صادق اور میری صلاحیتوں اور توانائیوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے اور ان صلاحیتوں میں اور اضافہ کے متمنی تھے اور اس مقصد سے ہمارا حوصلہ بڑھانے پر کمر بستہ تھے مگر ’’وفاق ‘‘ کو ابتداء میں ہی مشکلات نے آگھیرا ۔ آزاد روش کے باعث مقامی اخبارات کے پریس ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر رہے تھے اور ہمارے نیوز ایجنٹ کو ہمارے حریفوں نے خرید لیا تھا اور اشتہاری کلائنٹ ایک ایک کر کے منتشر ہونے لگے اور ایک روز ہم نے مشکلات اور مسائل سے عاجز آ کر لائل پور چھوڑنے کا فیصلہ کر لیااور اخبار کو لائل پور کی بجائے سرگودھا سے شائع کرنے کا فیصلہ کیا ،’’ وفاق ‘‘ کو ’’آفاق ‘‘ اور ’’ نوائے وقت‘‘ کے مرتبہ و معیار کا اخبار بنانے کا جنون دم توڑ چکا تھا اور سرگودھا سے 4 صفحات پر مشتمل اخبار کا اجرا ہوا ، مشکلات کم ہونے لگیں اور اخبار دن بدن آگے بڑھنے لگا اور 23 مارچ 1965ء کو وفاق کے ایک ایڈیشن کا لاہور سے اجرا عمل میں آیا اور یہ مصطفی صادق کے صحافتی اور سیاسی معرکوں کا نقطہ آغاز تھا ۔ لائل پور میں گلی وکیلاں کچہری بازار کی چار نوجوان لڑکیوں کے اغوا کا مسئلہ ہو یا گول چنیوٹ بازار سے بازارِ گناہ ہٹانے کی تحریک اورسرگودھا میں ثنائی برادران کے قتل کا سانحہ ہو یا لیڈی لیکچرار نسیم یعقوب کی پُراسرار گمشدگی‘ تحریک تحفظ ختم نبوت ہویا تحریک نظام مصطفی ،ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت ہو یا خواجہ محمد رفیق کی شہادت ، مولانا مفتی محمود کا سانحہ ا رتحال ہو یا مولانا مودودی کے انتقال کا المیہ ۔ آغا شورش کاشمیری کی گرفتاری اور ’’چٹان پر پابندی ہو یا نوائے وقت کے اشتہارات کی بندش انہوں نے آگے بڑھ کر مذاکرات سے مسائل حل کرائے ۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے اعتماد کے امین رہے ۔ جب بھٹو صاحب وزیر خارجہ کے عہدے سے مستعفی ہو کر اسلام آباد سے لاہور آئے تو ریلوے سٹیشن پر ان کے استقبال کا منظر دیدنی تھا ، فقید المثال استقبال دیکھ کر بھٹو صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔’’وفاق‘‘ نے ان کی پُرنم آنکھوں اور رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے تصویر شائع کی تو وفاق کی اشاعت و مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا او ریہی بات بھٹو صاحب سے مصطفی صادق کے رابطوں کا ذریعہ بنی۔ بھٹو صاحب نے جب ناصر باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا ، حکومتی غنڈوں نے ہنگامہ برپا کر دیا ، جلسہ میں بجلی کی ٹوٹی تاریں گرنے سے کئی لوگ زخمی ہو گئے ۔ معروف صحافی اثر چوہان وفاق کے رپورٹر تھے ۔دھینگا مشتی میں ان کے کپڑے پھٹ گئے اور چہرہ زخمی ہو گیا ۔وفاق نے چیختی چنگھاڑتی سُرخیاں لگائیں ، ذوالفقار علی بھٹو پر قاتلانہ حملہ ۔ صبح مارکیٹ سے اخبار نایاب ہو گیا ۔ پریس کھلوا کر دوبارہ پرنٹنگ شروع کی گئی اور اخبار 10,10روپے میں بِکا ۔ مصطفی صادق بعد میں کئی سیاسی معرکوں اور صحافتی مجادلوں میں شریک رہے ، اُنہیں’’ چھوٹے اخبار کا بڑا ایڈیٹر‘‘ قرار دیا گیا ۔جنرل ضیاء الحق نے اے پی این ایس کی ایک سالانہ تقریب میں چھوٹے اور بڑے اخبارات کی بحث کے حوالے سے اپنی تقریر روک کر ان سے دریافت کیا ’’مصطفی صادق صاحب !آپ کا اخبار چھوٹا ہے یا بڑا ‘‘۔ مصطفی صادق صاحب نے برجستہ کہا ’’چھوٹوں میں بڑا اور بڑوں میں چھوٹا‘‘ مصطفی صادق پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہیں ، انہوں نے 1973ء میں متفقہ آئین کی تیاری میں سیاست دانوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے ایک خط لکھ کر اُن کی خدمات کا اعتراف کیا ، یہ ایک منفرد اعزاز تھا جو جناب مصطفی صادق کو حاصل ہوا ، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلانے میں بھی اُن کی مساعی وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ جسارت پر سے پابندی اُٹھانے کا معاملہ ہویا مدیر جسارت صلاح الدین کی رہائی کا ، الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمن شامی کے جرائد پر پابندیوں اور گرفتاریوں سے اُن کی رہائی کا مسئلہ ہو ‘مولانا مودودی سے ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخی ملاقات ہو یا نوابزادہ نصر اللہ خان سے بہاول پور جیل میں رات گئے خفیہ ملاقات ، ایسے درجنوں واقعات ہیں جن میں مصطفی صادق صاحب کا پس پردہ کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ، وہ ایک ایسے صحافی کی حیثیت سے کبھی بھلائے نہیں جا سکیں گے جنہوں نے ضلع ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) کے ایک غریب کسان چوہدری حسین علی کے گھر میں آنکھ کھولی، تحریک پاکستان میں حصہ لیا ۔مسلم کش فسادات میں حملہ آور سکھ کی گردن اپنی تلوار سے جدا کی ۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی کے سائے تلے سیاسی سفر کا آغاز کیا ، ملک نصر اللہ خان عزیز ، سعید ملک اور ارشاد احمد حقانی کے ساتھ صحافتی سفر میں شریک ہوئے اور شبانہ روز محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں اے پی این ایس اور سی پی این ای کی صدارت کے منصب پر فائز کئے گئے اور جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنی آخری کابینہ میں انہیں وزیر امور عامہ کا قلمدان سونپا ۔میں 25 دسمبر 1959ء سے 22 اگست 1980ء تک روزنامہ ’’وفاق‘‘ میں ان کے ساتھ رہا اور پھر ایک شام ہماری یہ رفاقت ختم ہو گئی مگر 22 اگست 1980ء سے 20نومبر 2011ء تک ان کے ساتھ قلب و ذہن کا رشتہ بدستور استوار رہا ، وہ میرے دوست بھی تھے ، میرے رہنما بھی ، انہوں نے میری تربیت کی ، اور میری انگلی پکڑ کر مجھے میدان صحافت میں چلنا سکھایا، ’’ وفاق‘‘ کی ابتداء میں پیشانی پر ادارہ تحریر مصطفی صادق ، جمیل اطہر کے الفاظ شائع ہوتے تھے جو بعد میں مدیر اور مدیر معاون اور پھر ایڈیٹر اور ایگزیکٹو ایڈیٹر میں تبدیل ہوتے گئے ۔ افسوس صد افسوس کہ آج ایک ایسا شخص دُنیا سے اٹھ گیا جس کے سینے میں کئی سیاسی داستانیں اور کہانیاں دفن رہ گئیں ۔سید محمد قاسم رضوی نے حمید نظامی کی رحلت پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کاش وہ ایوب خان کے نافذ کردہ نئے آئین پر ہی کچھ لکھ گئے ہوتے میں بھی آج ان کی پیروی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ کاش مصطفی صادق صاحب ان تاریخی معرکہ آرائیوں پر ایک دو کتابیں ہی سپردِقلم کر گئے ہوتے تو یہ کہانیاں ان کے ساتھ ہی دفن نہ ہوگئی ہوتیں ۔
آخر میں مصطفی صادق صاحب کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے ستمبر 1961 ء میں لکھی تھی اور یہ ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ لائل پور کے شمارہ مورخہ 17 ستمبر 1961 ء میں شائع ہوئی تھی‘ نظم کا عنوان تھا ’’ جانے تو کہاں کب آجائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہوں۔‘‘
’’روتا ہُوں آہیں بھرتا ہُوں، جب تیرا تصور کرتا ہوں
جانے تُو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں
پل بھر میں مسل دیتی ہے تُو معصوم سی نازک کلیوں کو
چپکے سے اُچک لے جاتی ہے اُف ننھے ننھے غنچوں کو
ٹہنی سے جدا کر دیتی ہے خوش رنگ اور شوخ شگوفوں کو
جانے تو کہاں کب آجائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہوں
تُو آتی ہے، لے جاتی ہے بچوں اور جوانوں کو
مٹی کا ڈھیر بناتی ہے دنیا پر مرنے والوں کو
اوندھے منہہ آن گراتی ہے شہہ زور قوی انسانوں کو
جانے تُو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہوں
اس دنیا سے اے ہم نفسو! اک روز ہمیں بھی جانا ہے
اس وقت سے بچنا ناممکن یہ وقت تو آخر آنا ہے
اس زیست کے اک اک لمحہ کا عقبیٰ میں بدلہ پانا ہے
جانے تُو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں
کیا گُزرے گی گھر والوں پر جب میرا جنازہ اُٹھے گا
ہر فرد مجسم غم ہوگا کہرام سا اک مچ جائے گا
اس نوحہ خوانی کے عالم میں کون کسے سنبھالے گا
جانے تُو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں
ہوں نُور میں جس کی آنکھوں کا اُس اماں پر کیا گُزرے گی
جن کا بازو کٹ جائے گا اُن بھائیوں پر کیا بیتے گی
بیگم سے بنے گی جو بیوہ اس غم کو وہ کیونکر سہہ لے گی
جانے تُو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں
اباّ کو کہاں لے جائیں گے، ننھے مُنے چلاّئیں گے
میت سے مری یہ لپٹیں گے بلکیں گے اور کُرلائیں گے
بہنوں کے بِین ارے توبہ دھرتی کا دل دہلائیں گے
جانے تُو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں
اک گہرے گڑھے میں جب میری میت کو اُتارا جائے گا
ہر آنکھ میں آنسو تیریں گے، ہر دل کا کنول کُملائے گا
اس نالہ وشیون کے باعث اک حشر بپا ہو جائے گا
جانے تُو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں
اُف دُور کہیں ویرانے میں دفنا کے مجھے سب دوڑیں گے
تنہائی سے جو ڈرتا تھا تنہا اُسے آخر چھوڑیں گے
ہر محفل کی جو رونق تھا اب اُس سے سب منہہ موڑیں گے
جانے تُو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں
ہر درد کا درماں ممکن ہے پر موت سے بچنا ناممکن
اک وقت معین ہے اس کا اس وقت کا ٹلنا ناممکن
ہر چیز بدل سکتی ہے مگر تقدیر بدلنا ناممکن!
جانے تو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں
اے کاش گناہوں کا میرے کُچھ بار تو ہلکا ہو جائے
میں تائب ہوتا ہُوں یا رب فریاد میری مولا سُن لے
اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہوں اے موت مجھے کچھ مہلت دے
جانے تو کہاں کب آ جائے اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہُوں‘‘
مصطفی صادق اور ’’وفاق‘‘ کا تذکرہ لازم و ملزوم ہے ’’وفاق‘‘ کے اجرا کی کہانی کے عنوان سے روزنامہ ’’وفاق‘‘ کے راولپنڈی سے اجرا کے مو قع پر وفاق لاہور کے شمارہ 23 ستمبر 1977ء میں وفاقی کے قلمی نام سے راقم الحروف کا تحریر کردہ یہ مضمون شائع ہو اتھا جسے اب جناب مصطفی صادق کے تذکرہ کا حصہ بنایا جا رہا ہے ۔
روزنامہ وفاق کے اجراء اور ارتقاء کی کہانی تاریخِ صحافت میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے افسانے کی طرح دلچسپ ہے۔ ادارہ’’وفاق‘‘ کے بانی ارکان 1958ء میں سہگل پبلشرز لمٹیڈ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے لائل پورایڈیشن سے وابستہ تھے۔اُس دور میں لائل پور کو اخباری صنعت میں ایک اہم مرکز کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ یہاں سے مقامی روزناموں کے علاوہ لاہور کے دو مؤقر روزناموں’’ آفاق‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ کے ایڈیشن بھی شائع ہوتے تھے۔ جناب مصطفی صادق جوجماعت اسلامی سے وابستگی کے دور میں جماعت کے سرکاری آرگن روزنامہ’’تسنیم‘‘ لاہور کے مدیر وناشرتھے جماعت سے اختلافات کے باعث ’’تسنیم‘‘کی ادارت سے سبکدوش ہوکرلاہور سے لائل پورمنتقل ہوچکے تھے اور انہوں نے چند ماہ مولانا عبدالرحیم اشرف کے ہفت روزہ’’المنبر‘‘ کی ادارت کے بعدروزنامہ’’آفاق‘‘ لائل پور سے بحیثیت ریذیڈنٹ ایڈیٹر وابستگی اختیار کرلی تھی۔آفاق میں ان کے رفقاء کار حافظ بشیر سہیل (مینجر) اور جناب منصور حیدر(نیوز ایڈیٹر) تھے۔ مئی1958 ء میں جناب جمیل اطہر نے جو اُس زمانہ میں شورش پاکستانی کے قلمی نام سے معروف تھے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جہاں وہ اپنے سکول کے زمانہ تعلیم میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ اور لاہور کے بعض اردو و انگریزی روزناموں کی نامہ نگاری کے فرائض انجام دے رہے تھے ٹوبہ ٹیگ سنگھ سے لائل پور منتقل ہو کر روزنامہ ’’آفاق‘‘ میں بطور سب ایڈیٹر ملازمت اختیار کی۔ان اصحاب کی ذہنی ہم آہنگی نے روزنامہ آفاق سے علیحدگی کی راہ ہموار کی اور ’’وفاق‘‘ کے اجراء کے تصور نے جنم لیا۔یہ وہ دور تھا جب ایوب خان ملک میں جمہوریت کی صف لپیٹ چکے تھے اور اخبارات کا دائرۂ کار بہت تنگ ہوگیا تھا اور اس طرح اخبار کے ڈیکلریشن کا حصول جُوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن چونکہ اخبار کے اجراء کا عزم ہو چکاتھا،ڈیکلریشن کی درخواست دی جاچکی تھی،اس لئے اس کے حصول کے لئے آئے دن پریس برانچ کا طواف بھی ہورہاتھا،روزنامہ’’وفاق‘‘ کے ڈیکلریشن کی درخواست حافظ بشیر سہیل کی طرف سے دی گئی تھی ،جو کہنہ مشق اور بزرگ صحافی جناب شیر محمد سہیل (جوروزنامہ انقلاب اور لاہور کے بعض دوسرے روزناموں میں کام کرنے والے ممتاز صحافیوں میں شمار ہوتے تھے) کے صاحبزادے ہیں،مگر یہ درخواست منظوری کے مراحل طے نہیں کررہی تھی کیونکہ خفیہ پولیس نے اپنی رپورٹ میں یہ لکھ دیا تھا کہ یہ اخبار دراصل جناب مصطفی صادق کی ادارت میں شائع ہوگا، جوجماعت اسلامی کے ایک لیڈر ہیں۔خدا خدا کرکے دسمبر59ء میں ڈیکلریشن تو مل گیا،لیکن یہ روزنامہ کی بجائے ہفت روزہ کا اجازت نامہ تھااور اس دوران اخبار نکالنے کے لئے عزیزوں اور دوستوں سے جو چند ہزار روپے قرض لئے گئے تھے،وہ لاہور سے لائل پور کے مسلسل سفرکے اخراجات کی نذر ہو چکے تھے۔’’ آفاق‘‘ سے علیحدگی اور’’ وفاق‘‘ کے ڈیکلریشن کی منظوری کے انتظار کے دنوں میں لائل پورسے ایک خبر ایجنسی،پاک نیوز سروس شروع کی گئی۔یہ خبر ایجنسی ایک ایڈیٹرو رپورٹر اور ایک جزوقتی کلرک پر مشتمل تھی، اور یہ مقامی اخبارات کو جو خبریں مہیا کرتی تھی اس کا معاوضہ تھا تیس روپے ماہانہ۔۔۔جو بیشتر صورتوں میں نہ پُورا ملتا تھا،اور نہ ہی ماہ بہ ماہ، اور جب معاوضہ کی وصولی کا مسئلہ زیادہ پریشان کن ہوگیا،تو ان اخبارات کے لئے جنہیں نیوز سروس مہیا کی جاتی تھی، اشتہارات کے حصول کی کوشش کی گئی، تاکہ پاک نیوز سروس اپنی خبروں کا معاوضہ اشتہارات کے بلوں کی رقم سے منہاکر سکے۔
25دسمبر1959ء کو ہفت روزہ وفاق کا پہلا پرچہ منصہ شہود پر آیا۔یہ اس وقت کے رائج اخباری سائز2023530 / 2کے بارہ صفحات پر مشتمل تھا ،پیشانی پر ادارہ تحریر مصطفی صادق، شورش پاکستانی اور پرنٹ لائن میں حافظ بشیر سہیل کانام بطورپبلشر اور مینجنگ ایڈیٹر درج تھا، صفحہ اول معروف شاعر جناب ماہرالقادری کی نظم سے آراستہ کیا گیا تھا۔ سرورق کے اندرونی صفحہ پر پیغامات چھاپے گئے تھے جن میں اس وقت کے وزیر خارجہ شیخ منظور قادر کا پیغام خاص طور پر قابلِ ذکر تھا۔ سب سے دلچسپ پیغام شہرہ آفاق ہفت روزہ ’’ریاست‘‘ دہلی کے جری ایڈیٹر سردار دیوان سنگھ مفتون کا تھا،ادارہ ’’وفاق‘‘نے ان سے پیغام کی درخواست کرتے ہوئے جو خط لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ ہفت روزہ’’وفاق‘‘ تہی دست کا رکن صحافیوں کے اہتمام میں شائع ہوگا،اور بامقصد صحافت کے فروغ کے لئے کام کرے گا۔اتفاق سے سرداردیوان سنگھ مفتون کو یہ خط اس روز موصول ہوا،جب انہوں نے اپنے معروف و مشہور ہفت روزہ کو بند کرکے صحافت کو خیر باد کہہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے ادارہ وفاق کاخط پڑھا،اور اس خط کے نیچے اپنے قلم سے یہ جملہ لکھ کر خط ایڈیٹر’’وفاق‘‘ کو واپس بھجوا دیا:
’’میرا پیغام یہ ہے کہ اخبار شروع نہ کیجئے‘‘۔
سردار دیوان سنگھ مفتون کے اس تاریخی اور معنی خیز پیغام کے باوجود ’’وفاق‘‘ شائع ہونا شروع ہوگیا،چونکہ بنیادی طور پر ادارہ وفاق کے بانی ارکان کا مقصد ایک روز نامہ کا اجراء تھا۔اس لئے اخبار کے دو سرے شمارہ میں صفحہ اول پر محض اپنے عزم کے اظہار کے لئے یہ اعلان شائع کیا گیا کہ وفاق بہت جلد ایک روزانہ اخبار کی حیثیت سے شائع ہوگا۔ ہفت روزہ وفاق ایک ایسے پریس میں چھپتا تھا،جس کے مالک خود ایک روزانہ اخبار نکالتے تھے،جب وفاق کی کاپی لے کر ایک بجے رات چپراسی پریس پہنچا،تو اس پریس کے مالک کے بھائی نے کاپی پر ایک نظر ڈالی،اور جب اس کی نظر اس اشتہار پر پڑی کہ وفاق جلد روزانہ اخبار بن جائے گا تو اس نے طیش کے عالم میں کاپی پریس سے باہر پھینک دی،اور کہا ’’جاؤ اور اپنا روزنامہ نکالو‘‘ چپراسی مایوس و پریشان دفتر واپس پہنچا،جلدی میں پریس کی تبدیلی کا اہتمام کیا گیا،اور وفاق ایک اور پریس میں چھپنا شروع ہوگیا۔ ادھر روزانہ اخبار نکالنے کا جنون سر پر سوار تھا،اور اُدھر ہفت روزہ نکالنے میں طرح طرح کی دشواریاں پیش آرہی تھیں۔چھ ماہ بعد ’’وفاق‘‘ کو اخباری سائز کی بجائے ہفتہ وار جرائد کے معروف سائز2023530 4/ میں تبدیل کردیا گیا ،اور اسے ادبی ،سیاسی اور معاشرتی جریدہ کی حیثیت دے دی گئی۔ اس عرصہ میں اسے معروف اہل قلم کا تعاون حاصل ہوا جن میں ابوالاثر حفیظ جالندھری،پروفیسر محمد منور، پروفیسر کرامت حسین جعفری، نعیم صدیقی، محمد خورشید عاصم، اثرصہبائی،قابل اجمیری ،ڈاکٹر گذن ،نسیم شما ئل پوری ،آغا صادق ،عبد الکریم ثمر، عبدالصمد صارم، ہوش تر مذی،افتخار احمد چشتی اور عرفان چغتائی جیسے اصحاب فکرو نظر شامل تھے۔
ہفت روزہ وفاق کو روز نامہ میں تبدیل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا،لیکن یہ تمنا کیسے بر آئی ،یہ بھی ایک کہانی ہے۔ روزنامہ وفاق کے ڈیکلریشن کا مسئلہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا تھا ،کیونکہ خفیہ پولیس اب بھی وہی رٹ لگارہی تھی کہ مصطفی صادق درپردہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں،اور وہ ’’وفاق‘‘ کو جماعت اسلامی کی خاطر روزانہ اخبار بنانا چاہتے ہیں،اس مشکل کا کوئی حل نہ تھا، اور صوبائی محکمہ تعلقات عامہ پولیس اور سی آئی ڈی کی رپورٹ کی روشنی میں وہ کسی ایسے شخص کو ڈیکلریشن دینے کے لئے تیار نہ تھاجواُن کے خیال میں جماعت اسلامی سے متعلق ہو، حالانکہ اگر جماعت اسلامی سے تعلق کوئی جرم بھی تھا،تو مصطفی صادق اس وقت جماعت سے الگ ہو چکے تھے،اور پھر وفاق بطور ہفتہ وار تونکل ہی رہا تھا اور اس کے نکلنے سے حکومت پر کوئی قیامت نہ ٹُوٹ رہی تھی۔
اس دوران پریس برانچ میں پشتو کے معروف شاعر جناب فضل حق شیدا کا بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تقرر ہوا۔ فضل حق شیدا اپنے نظریات میں کٹڑ ،لیکن آزادی صحافت کے معاملے میں پسندیدہ تصورات رکھتے تھے۔اس سلسلے میں ایک موقع پر جب ان کی توجہ ڈیکلریشن کے سلسلے میں تاخیر کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے کہا:
’’جب ایوب خان،ملک کونیاآئین دیں گے، آپ اپنے اخبار میں اس پر کیا لکھیں گے ‘‘۔
مصطفی صادق نے کہا:’’شیدا صاحب! ابھی نیا آئین سامنے نہیں آیا،میں قبل ازوقت آپ کو کیا بتا سکتا ہوں کہ وفاق اس آئین پر کیا لکھے گا۔یہ سوال تو آئین سامنے آنے کے بعد پیدا ہوگا۔‘‘
شیدا صاحب نے کہا:
’’فرض کیجئے،وہ آئین ایسا ہوتاہے جس میں سارے اختیارات فردِواحد کو دے دیئے جاتے ہیں،اور وہ اسلام اور جمہوریت کے تقاضے پُورے نہیں کرتا، توآپ کا ردِّ عمل کیا ہوگا؟
مصطفی صادق نے کہا:
’’ایسے آئین پر ’’وفاق‘‘ کا مؤقف یہ ہوگا کہ قوم کو یہ آئین قابلِ قبول نہیں ہے‘‘
شیدا صاحب اپنی کُرسی سے اچھل پڑے،اور انہوں نے کہا،آپ کو ڈیکلریشن ضرور ملنا چاہئے؟مگر ان کی یہ نیک تمنا بھی پُوری نہ ہو سکی۔
یہ 1961ء کا ذکر ہے، سید محمد قاسم رضوی جو تحریک پاکستان میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پر چم تلے کام کرنے کے باعث غیر معمولی عزت واحترام کے مستحق سمجھے جاتے تھے،لائل پورمیں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے، ہفت روزہ وفاق ان کے پاس باقاعدگی سے پہنچتا تھا۔وفاق میں ان کا تحریک پاکستان کی یادوں کے بارے میں ایک خصوصی انٹر ویوبھی شائع ہوچکا تھا۔ ایک روز سیدکرامت حسین جعفری(مرحوم) جو اس دور میں گورنمنٹ کالج لائل پور کے پرنسپل تھے سید محمد قاسم رضوی کی کوٹھی پر تشریف فرماتھے اوروہاں لائل پور کے اخبارات کا تذکرہ چل نکلا،رضوی صاحب نے جناب خلیق قریشی مرحوم کی تعریف کی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے لیکن وہ اپنے اخبار کوصحیح معنوں میں اخبار بنانے پر توجہ نہیں دے سکے۔ دورانِ گفتگو وفاق کا ذکر بھی ہوا،اور رضوی صاحب نے وفاق کے معیار اور شکل و صورت پر پسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مدیران’’وفاق‘‘ اچھا روزانہ اخبار نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جعفری صاحب نے کہا کہ وفاق کے مدیر مصطفی صادق ایک منجھے ہوئے صحافی ہیں،اور ان کے رفیق کار جمیل اطہر میرے شاگرد ہیں اور ان میں بھی اچھے اخبار نویس کے اوصاف موجود ہیں ۔قاسم رضوی صاحب نے اس موقع پر اس خواہش کا اظہار کیاکہ آپ مجھے ان سے ملوائیں،تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کیا وہ لائل پور سے روزانہ اخبار نکال سکتے ہیں۔جعفری صاحب نے ازراہِ لطف و کرم اس ملاقات کا اہتمام کیا۔ جب قاسم رضوی صاحب کو یہ معلوم ہواکہ ہفت روزہ’’ وفاق‘‘ نکالنے والے روزنامہ وفاق کے اجراء کے لئے خود بے چین ہیں اور مسئلہ صرف ڈیکلریشن کا ہے اور اس میں بڑی رکاوٹ سی آئی ڈی کی رپورٹیں ہیں تو انہوں نے کہا یہ مشکل تو دُور ہو جائے گی آپ ڈیکلریشن کے لئے نئی درخواست دے دیجئے۔
نئی درخواست پیش کی گئی اور جلد ہی’’ وفاق‘‘ کو روزنامہ کا ڈیکلریشن مل گیا،خوشی خوشی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے ڈیکلریشن کی توثیق کرائی گئی اور کچہری بازار کی جامع مسجد میں شکرانہ کے نفل پڑھے گئے۔راستے میں وہ پریس واقع تھا،جہاں پرچہ چھپنا تھا مناسب سمجھا گیا کہ پریس کے مالک کو یہ اطلاع دی جائے کہ وفاق دو چار روز کے اندر روزانہ چھپا کرے گا۔جب مالک پریس کو یہ خوشخبری سنائی گئی،اس کا چہرہ لٹک گیا اور اس نے مدیرانِ وفاق کے جذبات و احساسات کا کوئی لحاظ کئے بغیر کہا ،میرے پاس تو پہلے ہی تین روزنامے چھپ رہے ہیں میں آپ کا اخبار کس طرح چھاپ سکتا ہوں ؟ ’’یہ روزنامہ وفاق کے والہانہ خیر مقدم کا حوصلہ شکن منظرتھا،مدیرانِ وفاق بوجھل دل کے ساتھ ایک نئے اور کٹھن سفر کے آغاز کا عزم لئے اپنے دفتر واپس پہنچ چکے تھے۔جی ہاں!یہ دفتر ہی تھا۔19جناح کالونی لائل پور۔سہگل فیملی کے اخبار روزنامہ’’ آفاق‘‘ لائل پور کے دفتر واقع 17 جناح کالونی سے دو مکانات کا فاصلہ۔ایک نہایت مختصر کمرہ جس میں ایک پُرانی اور بوسیدہ میز،چار پانچ کرسیاں اور ایک پُرانی ٹائپ رائٹر دفتر کی رونق کو دوبالا کر رہی تھیں۔اس دفتر کے پیچھے دو کمروں میں مصطفی صادق کی رہائش تھی جو روزانہ اخبار کے دفتر کی ضرورت کے پیشِ نظر ایک کمرے میں مختصر کی جارہی تھی اور ان کی رہائش کا ایک کمرہ دفتر میں شامل کیا جارہاتھا۔
روزنامہ’’وفاق‘‘ لائل پور کا پہلا شمارہ 18فروری1962ء کو منظر عام پر آیا ۔لائل پور کے اخبارات کے معیار سے کہیں بلند،خوبصورت کتابت،شاندار ادارت، لیکن صبح جب پرچہ فروخت کے لئے مارکیٹ میں گیا تو ایجنٹ ہی غائب جس کے سرگرم تعاون کا سو فیصد یقین اور بھروسہ تھا ،یہ خیرسگالی کادوسرا بھرپور مظاہرہ تھا۔روزنامہ’’ وفاق‘‘ لائل پور سے قریباً دو ماہ شائع ہو ا لیکن اس حالت میں کہ سارے اراکین ادارہ پر ایک اچھا اخبار نکالنے کی دُھن سوار تھی اور یہ اچھا اخبار نکل بھی رہا تھا لیکن اشتہارات سے بالکل خالی اور اس حدتک اشتہارات سے پاک کہ لائل پور کے ایک بزرگ خوشنویس جناب محمد صدیق صاحب جوایک کم گو اور کم آمیز شخصیت ہیں کچہری بازار میں اپنی بیٹھک سے خاصافاصلہ پیدل طے کرکے جناح کالونی میں دفتر وفاق پہنچے اور کہا کہ اس صورت میں جب کہ ایک بھی اشتہار نہیں ہوتاآپ کب تک پرچہ نکالتے رہیں گے یہ ایک دردمندانہ اظہار تشویش تھا اور اسے خطرے کی گھنٹی کی حیثیت حاصل تھی۔
اخبار کے اخراجات جُوں تُوں پُورے کئے جارہے تھے،عزیزوں اور دوستوں سے ایک ایک دوماہ کے لئے ادھار کے وعدے پر پانچ سو اور ایک ہزار روپے کی رقوم حاصل کی جارہی تھیں اور دن رات اخبار مرتب کرنے میں بسر ہو رہے تھے مگر اخبار پریس میں بروقت نہیں چھپ رہاتھا ۔ گاڑیوں اور بسوں سے اخبار کے بنڈل غائب ہونے لگے۔کارکنوں کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ یہ ماہ رمضان تھا مشقت اور ریاضت کا مہینہ ،مدیرانِ ’’وفاق‘‘ کے دیرینہ کرم فرما حکیم عبدالرحیم اشرف نے جو خود بھی ایک اخبار نویس ہیں اور ہفتہ وار المنیر اور المنبر کے علاوہ لائل پورسے روزنامہ’’ اعلان‘‘ بھی نکالتے رہے ہیں کمال فیاضی اور فراخ دلی سے یہ وعدہ کیاتھا کہ وہ ابتدائی مہینوں میں وفاق کی کاغذ کی ضروریات پُوری کرتے رہیں گے اس مقصد کے لئے ہر دو چار روز بعد ان سے کاغذ کے ایک بیوپاری کے لئے چند رم کاغذ کی چٹ حاصل کی جاتی تھی اور اس طرح ’’وفاق‘‘ پُوری آن بان سے روزانہ چھپ رہا تھا اور اپنی جرأت دبے باکی کے پھریرے لہرا رہا تھالیکن اچانک معلوم ہو اکہ حکیم صاحب اعتکاف میں بیٹھ گئے ہیں ۔ کاغذ کی رسد رک چکی تھی اور مدیرانِ ’’وفاق‘‘ اگلے ماہ کی تنخوا ہوں کی ادائیگی کی فکر ،پریس میں بروقت طباعت کی دشواریوں اور مخالفانہ مہم کے ہاتھوں زچ ہو رہے تھے، رات کو آخری کاپی پریس بھجوانے کے بعد سر براہی اجلاس منعقد ہوا ۔مصطفی صادق اورجمیل اطہر سر جوڑ کر بیٹھے ’’یا اللہ ہمیں مشکلات و مسائل سے اپنی پناہ میں رکھ‘‘ ایک تجویز یہ سامنے آئی کہ لائل پور کو خیر باد کہہ دیا جائے ااور کسی دوسری جگہ سے اخبار نکالا جائے۔
oساہیوال (منٹگمری)
oلاہور
o جھنگ
تین مقامات زیر غور آئے ،لاہور بہت بڑا اخباری مرکز،وہاں سے اخبار کا نکلنا مشکل ،جھنگ اور ساہیوال میں طباعت کی دشواری،یکایک سر گودھا کا نام سامنے آیا،دونوں اصحاب اپنی کرسیوں سے اُچھل پڑے، سرگودھا جسے ایک ماہ قبل ضلع کی بجائے کمشنری کا درجہ دیاگیا ہے مصطفی صادق اورجمیل اطہر نے فوراً ہی سرگودھا کے لئے رختِ سفر باندھا ، لائل پور سے سر گودھا پہنچے۔قاضی مرید احمد(سابق ایم پی اے ) سے ان کی ملاقات بسوں کے اڈے کے باہر ہی ہو جاتی ہے۔وہ سرگودھا آمد کا مقصد پُوچھتے ہیں اور اخبار کے اجراء کا ارادہ سُن کر دفتر کے لئے اپنی زیر تعمیر کوٹھی بلا تأمل پیش کر دیتے ہیں ۔ثنائی پریس جاتے ہیں ،ذکاء اللہ ثنائی اور بہاء اللہ ثنائی (مولانا ثنا ء اللہ ،امرتسری مرحوم کے پوتے جو بعد میں ایک شقی القلب انسپکٹر پولیس احسان اللہ صابر کے ہاتھوں گولی لگنے سے شہید ہو گئے) اس طرح خیر مقدم کرتے ہیں جیسے برسوں سے تعلقات کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں حالانکہ یہ ان سے پہلی ملا قات تھی ۔ انہوں نے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ مصطفی صادق یہیں سے لاہور چلے جاتے ہیں تا کہ ’’ وفاق‘‘ کو لائل پور سے سر گودھا منتقل کرنے کا اجازت نامہ حاصل کر سکیں اور جمیل اطہر واپس لائل پور چلے جاتے ہیں تاکہ اگلے دن کا اخبار تیار ہو سکے ۔دو روز بعد تبدیلی مقام کا ڈیکلریشن مل جاتا ہے ۔۹۱ جناح کالونی کے باہر ایک ٹرک گھریلواور دفتری سامان لئے سرگودھا روانگی کا منتظر ہے ۔یہ روز نامہ’’ وفاق‘‘ لائل پور کا آخری پرچہ ہے جس کے صفحہ ا ول پر یہ اعلان درج ہے کہ کل سے روزنامہ ’’ وفاق‘‘ لائل پور کے بجائے سرگودھا سے شائع ہو گا اور اگلے روز روزنامہ وفاق سرگودھا منظر عام پر آتا ہے ۔چھ صفحات کی بجائے چار صفحات پر مشتمل ۔ایک حقیر ابتدا،ایک عاجزانہ آغاز۔ایک بڑا اخبار نکالنے کا خبط باقی نہ رہا تھا۔اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں یہ عاجزی و انکساری قبول ہوئی اور آج یہی اخبار لاہو ر میں مسلمہ طور پر صحافت کا اعلیٰ معیار قائم کرنے کے بعد ملک کے دارالحکومت سے اشاعت کے آغاز کی جسارت کر رہا ہے۔
ماضی کا ایک چھوٹا اخبار۔۔۔ بڑے عزائم اور ارادوں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے بھروسے پاکستان کی صحافت کی شاہر اہ پر ایک اور سنگ میل نصب کر رہا ہے ۔