دربار صحافت

مظفر احسانی از جمیل اطہر

گریبان بھی تو ہے

مظفر احسانی از جمیل اطہر

مظفر احسانی‘ قیام پاکستان کے بعد پہلے عشرے کی صحافت کا ایک معروف اور جانا پہچانا نام۔ پاکستان بننے سے پہلے یونینسٹ پارٹی کے حامی اخبار ’’شہباز‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ فکاہی کالم اچھا لکھنے کی شہرت رکھتے تھے۔ شہباز میں ان کا کالم اغلباً مطائبات کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ جب پنجاب کے وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ نے حمید نظامی کے روزنامہ نوائے وقت کی اشاعت پر پابندی عائد کی اور اس کا ڈیکلریشن منسوخ کیا تو نوائے وقت کا ڈیکلریشن مظفر احسانی کو دے دیاگیا جو سرکار دربار سے خصوصی قربت رکھتے تھے اور پنجاب کے اس وقت کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ سید نور احمد جو میر نور احمد کے نام سے معروف تھے کے اعتمادکے حامل تھے۔ حمید نظامی کو اس صورت حال میں جہاد ‘ ندائے وقت اور نوائے پاکستان کے نام سے اخبارات شائع کرنا پڑے اور جب میاں ممتاز دولتانہ نوائے وقت کے خلاف اپنی کارروائی سے پسپا ہوئے تو انہیں بڑی مشکل سے مظفر احسانی سے ڈیکلریشن واپس لینا پڑا اور کچھ رقم بھی انہیں اداکرنا پڑی۔میں 1958ء میں سہگل پبلشرز لمیٹڈ کے زیراہتمام شائع ہونے والے روزنامہ آفاق کے لائل پور ایڈیشن میں بطور سب ایڈیٹر/ رپورٹر ملازم ہوا۔ لائل پور میں آفاق کے سب سے پہلے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب ضیاء الاسلام انصاری‘ دوسرے جناب مقبول احمد‘ تیسرے جناب مصطفی صادق اور چوتھا میں خود تھا مگر مصطفی صادق اور میرے درمیان کے دور میں ایک اور صاحب بھی آفاق کے لائل پور ایڈیشن میں تشریف لے آئے‘ اور یہ تھے جناب مظفر احسانی۔ پرنٹ لائن پر ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر مصطفی صادق کا نام ہی شائع ہورہا تھا مگر مظفر احسانی بحیثیت ایڈیٹر انچارج تقرر کا پروانہ لے کر وارد ہوگئے تھے اور وہ ادارتی امور میں بڑے دھڑلے سے مداخلت کررہے تھے‘ میرا ایک کالم ہر ہفتے آفاق کے آخری صفحہ پر خبروں کے درمیان ’’گھنٹہ گھر کے آس پاس‘‘ کے عنوان سے شائع ہورہا تھا۔ مظفر احسانی صاحب تشریف لائے تو گول چنیوٹ بازار میں واقع لائل پورکے بازار گناہ کے متعلق میرا ایک جامع کالم شائع ہوا جو مظفر احسانی صاحب کو ہضم نہ ہوا۔ انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں طلب کیا اور سمجھانے لگے اس کالم کی اشاعت سے پیدا ہونے والی قانونی موشگافیاں۔مجھے مظفر احسانی کی آمد سے ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مصطفی صادق کی ریذیڈنٹ ایڈیٹر شپ چند دنوں اور ہفتوں کی مہمان ہے اور اس کے ساتھ ہی میری چُھٹی تو یقینی ہے اس لئے میں نے تاریخ کے بغیر اپنا استعفیٰ لکھ کر جیب میں رکھ چھوڑا تھا کہ جب ضرورت پڑی تو میں تاریخ ڈال کر ایڈیٹر انچارج یا ریذیڈنٹ ایڈیٹرکے حوالے کردوں گا اور اس طرح آفاق کی ملازمت کو خیرباد کہہ دوں گا۔ اگرچہ یہ ملازمت اُس وقت میری اشد ضرورت تھی کیونکہ میں اپنی رہائش کا کرایہ‘ کالج کی فیس اور اپنے روز مرہ اخراجات آفاق سے ملنے والی تنخواہ سے ہی پُورے کرتا تھا‘ مظفر احسانی میری گوشمالی کررہے تھے اور میں اپنادفاع کررہا تھا۔ مجھے اندازہ ہورہا تھاکہ وہ مجھے فارغ کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے تو میں نے جیب سے استعفیٰ نکالا‘ اس پر تاریخ ثبت کی اور مظفر احسانی کے سامنے رکھ دیا۔ انہیں اور کیا چاہئے تھا ۔ اگرچہ انہوں نے دکھاوے کے لئے مجھے اپنا استعفیٰ واپس لینے کو کہا مگر میں استعفیٰ ان کی میز پر چھوڑ کر دفتر سے باہر نکل آیا۔ آفاق کا دفتر 17 جناح کالونی میں تھا اور میری رہائش 19 جناح کالونی میں تھی جہاں اوپر کے کمروں میں میرے والدین رہتے تھے اور نیچے مصطفی صادق اپنے کنبہ کے ساتھ رہائش رکھتے تھے‘ میں 17 جناح کالونی سے نکل کر ابھی 19 جناح کالونی پہنچا ہی تھا کہ آفاق کا چپڑاسی میرے استعفیٰ کی منظوری کا خط لے کر میرے پاس پہنچ گیا۔ استعفیٰ کی منظوری کے خط کے آخر میں لکھا گیا تھا کہ ادارہ آپ کی خدمات کا معترف ہے لیکن ہاتھ سے لکھے ہوئے خط میں نہایت واضح طور پر معترف کو منحرف لکھا گیا تھا۔ میں نے بھی یہ ضرورت نہ سمجھی کہ چند قدم پر واقع دفتر آفاق میں جاتا اور مظفر احسانی سے منحرف کے لفظ کو معترف میں تبدیل کراتا۔ آفاق سے میری چُھٹی ہوگئی مگر مصطفی صادق صاحب وہیں رہے اورمظفر احسانی کو انہیں پروانہ سبکدوشی دینے کا حوصلہ نہ پڑا اور نہ ہی مصطفی صادق نے استعفیٰ دینے کا حوصلہ کیا ۔میں نے چند روز میں ہی پاک نیوز سروس (یہ نام میں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہی اخبارات کی ایجنسی اور اخبارات کی خبروں کی ترسیل کے لئے اختیار کرلیا تھا)کا اجراء کردیا۔ میں گورنمنٹ کالج میں کلاسوں سے فارغ ہونے کے بعد لائل پور کی کچہری میں عدالتوں اور سرکاری دفاتر کارُخ کرتا۔ وہاں سے خبریں حاصل کرتا اور شام اپنے گھر پر ان خبروں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا‘ ان کی کاربن کاپیاں تیار کرتا اور پھر خود جاکر لائل پور کے اخبارات‘ غریب‘ عوام‘ ڈیلی بزنس رپورٹ اور سعادت میں دے دیتا۔ میں نے ان اخبارات سے 30 روپے ماہانہ معاوضہ طے کرلیا تھا۔ اس طرح مظفر احسانی نے مجھے زبردستی نیوز ایجنسی کے قیام کی طرف دھکیل دیا‘ ابھی یہ نیوز سروس شروع ہوئے ڈیڑھ دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ مجھے نمونیہ نے آلیا اور میں قریباً ایک ماہ بیمار رہا‘ مصطفی صادق کو تو چند روز میری بیماری کا پتہ ہی نہ چلا‘ میرے پھوپھا شیخ ثناء اللہ صدیقی اپنی دکان کے لئے کپڑا خریدنے لالہ موسیٰ سے ہر مہینے لائل پور آتے تھے وہ اباجی سے ملنے ہمارے گھر ضرور آتے میرے والدین‘ میری بے روزگاری کے باعث دوبارہ ٹوبہ ٹیک سنگھ چلے گئے تھے۔ پھوپھا جی میری حالت دیکھ کر ڈاکٹر کو لے کر آئے اور اس رات میرے ہاں ہی قیام کیا اور اس طرح مصطفی صادق کو بھی میری علالت کا پتہ چلا۔ انہوں نے میری علالت کے دوران فیصل آباد کے معروف صحافی‘ قمر لدھیانوی کا تعاون حاصل کیا جو خبریں اکٹھا کرتے تھے اور انہیں باقاعدہ مرتب بھی کردیتے تھے اور ان کی کاربن کاپیوں کے لئے مولانا عبدالغفار حسن کے بڑے صاحبزادے جناب صہیب حسن کی خدمات تیس روپے ماہانہ پر حاصل کی گئیں۔ صہیب حسن کا اردو خط بہت اچھا تھا اور وہ بہت سلجھے ہوئے نوجوان تھے۔ان دنوں وہ ایک ممتاز عالم دین‘ سکالر اور لندن کے اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ اس طرح جب میں صحت یاب ہوکر اپنے کام پر واپس آیا تو مصطفی صادق آفاق سے مستعفی ہوکر کسی اعلان یا معاہدہ کے بغیر پاک نیوز سروس میں میرے رفیق کارہی نہیں بلکہ باقاعدہ پارٹنر ہوچکے تھے۔