دربار صحافت

مقبول احمد از جمیل اطہر

ہلکا کرنے والا بوجھ....ایم ابراہیم خان

مقبول احمد از جمیل اطہر

دُبلے پتلے مگر طویل القامت مقبول احمد سچ مچ اسم با مسمّیٰ تھے، ہر حلقہ میں مقبول و ہر دل عزیز۔۔۔ زندگی کی تمام تر تلخیوں کے باوجود ان کے لہجہ کی مٹھاس عمر بھر قائم رہی اور گفتار کی یہی وہ حلاوت تھی جو دلوں میں اترتی اور انہیں تسخیر کرلیتی تھی۔ البتہ بات چیت کی اس شیرینی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ مخاطب سے کبھی اختلاف نہیں کرتے تھے۔ اختلافات کے اس خار زار سے وہ اکثر گذرتے رہے مگر ایسی کسی بھی آزمائش کے کڑے مرحلوں میں ان کے بلند و بالا قد میں کوئی خم اور کوئی جھکاؤپیدا نہ ہوسکا۔ اپنی زندگی کے آخری مرحلوں میں بھی مقبول صاحب کی یہ بلند قامتی قائم رہی۔ صرف قد آوری کے معانی میں نہیں بلکہ کردار کے لحاظ سے بُلندی۔۔۔!
بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کی قامت کی درازی کے بھرم اکثر کھلتے رہتے ہیں۔ سنگین حقائق کے مقابل، مصلحتوں کے تحت سمجھوتے کرنا ہی پڑتے ہیں اور شاعر نے اپنے محبوب کے بارے میں سچ ہی کہا تھا کہ
بھرم کُھل جائے ظالم ترے قامت کی درازی کا
مگر مقبول صاحب ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے پیٹ بڑھ کر توند کی شکل اختیار کرلیتے اور پھر اس توند کو بھرنے کے لئے انہیں اپنے سر خم کرنا پڑتے ہیں۔ مقبول صاحب نے پُوری زندگی اپنے پیٹ کو اتنا ’’ہلکا پُھلکا‘‘ رکھا کہ اس کا بوجھ ان کی بلند قامتی میں کبھی کسی خمیدگی یا کجی کا موجب نہ بن سکا۔
اونچے لمبے، دھان پان سے مقبول احمد نے اگلے وقتوں کی شرافت و وضع داری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اس لحاظ سے وہ مشرقی روایات کا ایک جیتا جاگتا، چلتا پھرتا اور اس تکرار کے لئے معاف کیجئے گا، بلندوبالا نمونہ تھے۔ اس مثالی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں زندگی بھر اپنے آخری لمحات میں بھی مسلسل کام کرنا اور پیٹ کا دوزخ بھرنا پڑا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان کی کام کرنے کی لگن تھی یا بلند قامتی کو قائم رکھنے کی جدوجہد، اسے جو بھی نام دیا جائے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ مقبول صاحب ایک انتھک صحافی تھے۔ ان میں بلا کی ہمت تھی اور غیر معمولی استعدادِ کار بھی۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں، مجھے کہنے دیجئے کہ مقبول صاحب اپنی ذات میں ’’مکمل صحافت‘‘ تھے اور مجھے اس کا مشاہدہ مقبول صاحب سے اپنی اوّلیں ملاقات میں ہوگیا۔۔۔ یہ قِصّہ دلچسپ ہے۔
آج سے اکیتس بتیس سال قبل اپنی اخباری زندگی کی ابتدا میں مجھے جن ایڈیٹروں کی رہنمائی میں کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ان میں جناب مقبول صاحب سرِ فہرست ہیں جن سے مجھے خبرنگاری کا پہلا سبق بھی ملا اور ساتھ ہی انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع بھی۔۔۔ ایک شدید گرم دوپہر کو کچہری بازار لائل پور (اب فیصل آباد) میں واقع روزنامہ ’’غریب‘‘ کے دفتر سے روزنامہ ’’آفاق‘‘ (لائل پور) کے دفتر میں فون کرنا پڑا، دوسری طرف سے فون اٹھانے والے خود ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب مقبول احمد تھے، ان دنوں راقم الحروف ٹوبہ ٹیک سنگھ میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ کا نامہ نگار تھا اور کسی ضروری کام سے لائل پور آیا ہواتھا۔ میرے والد کی روزنامہ ’’غریب‘‘ سے دیرینہ وابستگی اور مدیر ’’غریب‘‘ چوہدری ریاست علی آزاد سے ان کا دوستانہ علاقہ تھا اور یُوں بھی میں نے اپنی ابتدائی اخباری تربیت روزنامہ ’’غریب‘‘ کے کالموں سے ہی حاصل کی، ٹیلی فون پر میں روزنامہ ’’آفاق‘‘ کے مدیران میں سے کسی ایک کو خبر لکھوانا چاہتا تھا لیکن فون خودریذیڈنٹ ایڈیٹر نے اٹھایا، انہیں جب معلوم ہوا کہ میں اسی شہر میں ایک دوسرے اخبار کے دفتر سے ’’آفاق‘‘ کو خبر لکھوانا چاہتا ہوں تو انہوں نے اس غیر رسمی، غیر روایتی طریق پر ہلکی سی خفگی کا اظہار کیا، چنانچہ میں نے ’’ابھی ’’آفاق‘‘ کے دفتر حاضر ہوتا ہوں‘‘ کہہ کر فون بند کردیا اور بھاگم بھاگ ’’آفاق‘‘ کے دفتر پہنچا، وہاں پورے نیوز سیکشن میں صرف ایک طویل القامت اور دھان پان سے انسان کو ریڈیو سے خبریں نوٹ کرتے ہوئے پایا۔۔۔ یہی صاحب ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے جو اس وقت بھی مقبول احمد تھے اور بعد میں بھی مقبول احمد ہی رہے۔ ان کے نام کے آگے پیچھے کسی سابقہ یا لاحقہ کا کبھی اضافہ نہیں ہوا۔ ریڈیو سے خبریں نوٹ کرلینے کے بعد مقبول صاحب نے ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور پھر حُقہ کا ایک کش لیا، یہ حُقہ دفتر ’’آفاق‘‘ میں دن رات ان کا ساتھی تھا، حُقہ کا کش لینے کے بعد انہوں نے ’’بھیا جی، بھیا جی‘‘ کہہ کر کسی کو آواز دی جو دراصل دفتر کا چپراسی تھا، مگر مقبول صاحب کے لئے ’’بھیا جی‘‘ تھا۔ ’’بھیا جی‘‘کمرہ میں آئے اور مقبول صاحب کے اشارہ پر ایک لمبے گلاس میں میرے لئے شربت لے آئے۔ میں نے اپنے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے حکم کی تعمیل میں شربت کا ایک گھونٹ پیا جو شکر اور پانی کا آمیزہ تھا اور برف کی تُہمت سے قطعی مبرّا۔ چند گھونٹ ’’شکر کولا‘‘ پینے کے بعد مجھ میں گلاس خالی کرنے کی تاب نہ رہی، میں نے گلاس ایک طرف رکھ دیا۔ اس دوران مقبول صاحب نے میری خبر پڑھی اور کہا، ’’مولوی صاحب (یہ مقبول صاحب کا تکیہ کلام تھا) آپ اردو اخبار کے نامہ نگار ہیں یا انگریزی اخبار کے؟‘‘
مجھے تعجب ہوا کہ ریذیڈنٹ ایڈیٹر کو خود اپنے اخبار کی ’’لسانی حدود‘‘ کا علم نہیں، تاہم ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہا، ’’جی۔۔۔ میں اُردو اخبار کا نامہ نگار ہوں‘‘۔
مقبول صاحب پھر گویا ہوئے، ’’لیکن آپ خود کو انگریزی اخبار کا نامہ نگار سمجھتے ہیں‘‘۔ میں نے پھر عرض کیا ’’جی نہیں۔۔۔ میں تو اُردو اخبار کا نامہ نگار ہوں‘‘۔ مقبول صاحب نے ایک کاغذ میری طرف بڑھایا اور کہا، ’’یہ تمہاری لکھی ہوئی خبر ہے؟ اس خبر میں تم نے دس جگہ ’’واٹر سپلائی۔۔۔ واٹرسپلائی‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں، انگریزی اخبار کے لئے تو یہ الفاظ درست ہیں لیکن اُردو اخبار کے لئے کیا اردو زبان میں ان کا کوئی متبادل موجود نہیں؟ آب رسانی یا فراہمئ آب کے الفاظ ہونا چاہئیں‘‘۔
خبر لکھنے کا یہ پہلاسبق تھا جو مجھے مقبول صاحب نے دیا اور جس پر عمل پیرا ہونے کی میں نے ہمیشہ پُوری کوشش کی اور جہاں اردو متبادل دستیاب ہوئے وہاں انگریزی لفظ کبھی استعمال نہ کیا۔
میٹرک کا امتحان دینے کے بعد میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور منتقل ہوا، ارادہ تھا کہ کسی کالج میں داخلہ لیا جائے، یہ خیال بھی تھا کہ مقبول صاحب کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور وہ یقیناًمجھے سب ایڈیٹر یا سٹاف رپورٹر کے طور پر کام کرنے کا موقع فراہم کریں گے لیکن دفتر سے اچانک یہ معلوم ہوا کہ مقبول صاحب نے ’’آفاق‘‘ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور وہ لائل پور سے لاہور منتقل ہوگئے ہیں۔
یا بوالعجبی ! یہ کیا ہوا؟ ’’آفاق‘‘ میں ایک ساتھی نے بتایا کہ روزنامہ ’’آفاق‘‘ جو سہگل پبلشرز لمیٹڈ کی ملکیت تھا اس وقت ری پبلکن پارٹی کی حمایت کررہا تھا لیکن ایک رات سعید سہگل اور کرنل سید عابد حسین کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہوگئے جس پر سعید سہگل نے ری پبلکن پارٹی کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینے کا فیصلہ کیا۔ اختلاف کی یہ صورت چونکہ رات گئے پیدا ہوئی تھی اس لئے اخبار کے مالکان اپنی پالیسی میں تبدیلی سے ایڈیٹر ’’آفاق‘‘ کو مطلع نہ کرسکے، چنانچہ اگلی صبح ’’آفاق‘‘ پہلے سے طے شدہ پالیسی کے مطابق خبریں لئے شائع ہوا تو سعید سہگل کے چھوٹے بھائی یوسف سہگل نے مقبول صاحب کو فون کرکے اپنی برہمی کا اظہار کیا اور اسی کیفیت میں ان کے منہ سے یہ جُملہ نکل گیا، ’’مقبول صاحب آپ کیسے ایڈیٹر ہیں؟ آپ کو ہماری پالیسی کا بھی علم نہیں؟‘‘ یہ جُملہ ابھی شاید مکمل نہ ہوا تھا کہ مقبول صاحب نے یوسف سہگل کو ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا، ’’یہ پالیسی آپ نے راتوں رات بدل لی اور بے خبری کا الزام آپ مجھ پر دھرتے ہیں۔۔۔ اب آپ کسی ایڈیٹر کا انتظام کرلیجئے میں ادارت سے مستعفی ہورہا ہوں‘‘
ٹیلیفون بند کرکے مقبول صاحب نے چپراسی کو بلایا اور اپنا سامان باندھنے کی ہدایت کی کچھ ہی دیر بعد انہوں نے سامان تانگے میں رکھوایا اور ’’آفاق‘‘ کو خیرباد کہہ کر لاہور کی راہ لی۔۔۔ رات کو کاپی پریس بھیجنے کے بعد ساتھی کارکنوں کا ایک وفد مقبول صاحب کو واپس لانے کے لئے لاہور گیا، گھر جاکر ان کی منت سماجت کی لیکن مقبول صاحب اپنے فیصلہ پر اٹل رہے، وہ کسی صورت ’’آفاق‘‘ میں واپسی پر آمادہ نہ ہوئے۔
چند ماہ بعد حمید نظامی مرحوم نے انہیں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے لائل پور ایڈیشن کا ایڈیٹر انچارج مقرر کردیا، پھر جب لائل پور ایڈیشن بند کرکے اسے ملتان منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تو جناب مقبول احمد روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ ملتان کے ایڈیٹر انچارج مقرر ہوئے۔ ’’نوائے وقت‘‘ سے ان کی یہ وابستگی اس وقت تک برقرار رہی جب جناب مجید نظامی نے روزنامہ ’’ندائے ملت‘‘ کو ’’نوائے وقت‘‘ میں ضم کرکے دوبارہ اس کی ادارت سنبھالی۔
1964ء کے دوران جب میں لاہور میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، ایک روز جناب اے ڈی اظہر (مرحوم) نے جو اس وقت ’’نوائے وقت‘‘ کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر تھے، مجھے لاہور سے ملتان تبادلہ کے احکامات دے دئیے، میں ملتان پہنچا تو جناب مقبول احمد نے کُھلے دل سے میرا خیر مقدم کیا اور اپنی عادت و روایت کے برعکس انہوں نے دفتر ’’نوائے وقت‘‘ کے قریب واقع ایک جدید ہوٹل میں کھانے کی پُر تکلف دعوت کا اہتمام کیا، یوں انہوں نے اپنے ایک شاگرد کو غیر معمولی عزت کا مستحق جانا اور شاگردی رفاقت میں تبدیل ہوگئی۔
جس رات امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی کو قتل کیا گیا مقبول صاحب اخبار کی کاپی مکمل کرنے کے بعد گھر جا چکے تھے، میں چونکہ دفتر کے ہی ایک کمرے میں مقیم تھا اس لئے جب لاہور ہیڈ آفس سے فون پر اس سانحہ کی خبر دی گئی تو میں نے ملتان میں اپنی آمد کے چند روز بعد ہی، ہر ممکن تدبیر اختیار کرکے اخبار کی کاپی ازسرِ نو مرتب کی اور نئی کاپی میں کینیڈی کے قتل کی خبر کو شہہ سرخی کی حیثیت دی۔ جب مقبول صاحب نے صبح کو اپنے گھر میں ’’امروز‘‘ دیکھا (ان دنوں ملتان سے ’’امروز‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ شائع ہوتے تھے، جبکہ ’’کوہستان‘‘ صوبائی گورنر کے حکم سے دو ماہ کے لئے بندتھا) کینیڈی کے قتل کی خبر دیکھ اور پڑھ کر وہ سخت پریشان ہوئے کیونکہ جو کاپی انہوں نے مکمل کی تھی اس میں یہ خبر سرے سے موجود نہ تھی، اخباری مسابقت کے لحاظ سے یہ ایک بڑی نااہلی (اگرچہ قطعی نادانستہ) تھی۔ اس پریشانی نے انہیں پیچش میں مبتلا کردیا لیکن چند گھنٹوں بعد جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ’’نوائے وقت‘‘ میں بھی یہ خبر شہہ سرخی بنی ہے تو فوراً دفتر پہنچے اور جب انہیں پتہ چلا کہ یہ کارنامہ میرے ہاتھوں انجام پایا ہے تو انہوں نے اسی شام میرے اعزاز میں ایک خصوصی دعوت کا اہتمام کیا اور مجھے تعریف و تحسین کے انمول جملوں سے نوازا۔
ان واقعات کے تذکرہ کا مقصد خودستائی نہیں بلکہ ایک فرض شناس ایڈیٹر کی حیثیت سے مقبول صاحب کے کردار کو واضح کرنا ہے۔ چنانچہ پہلے واقعہ سے ایک ایڈیٹر کے ہاتھوں ایک نامہ نگار کی تربیت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے دوسرے واقعہ سے ایک ایڈیٹر کی حیثیت میں ان کے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اور اخبار کے مالکوں کی وقتی مصلحتوں کے خلاف احتجاج کا اشارہ ملتا ہے اور تیسرے واقعہ سے ان کے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے نائب کی حوصلہ افزائی اجاگر ہوتی ہے۔
مقبول صاحب ’’نوائے وقت‘‘ ملتان میں ڈاک ایڈیشن کی کاپی بھیجنے کے بعد لوکل ایڈیشن کی تیاری کا کام شروع کرنے کے وقفہ میں صحافت سے ہٹ کر کلاسیکی شعر و ادب کی باتیں کرتے تھے یا اپنے قیام افغانستان کے دلچسپ واقعات و تجربات سنایا کرتے تھے۔ وہ شعر کے نہایت اعلیٰ ذوق کے مالک تھے اور انہیں اساتذہ کے بلا مبالغہ ہزاروں فارسی اور اردو اشعار ازبر تھے۔ مختلف موضوعات پر وہ شعر کا نہایت بر محل استعمال بڑی خوبصورتی سے کرتے تھے۔
مقبول صاحب نے اپنی صحافت کی ابتدا کابل سے کی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ تحریکِ خلافت میں ہجرت کرکے امرتسر سے افغانستان پہنچے تھے۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ پشاور سے کابل کا سفر خچروں پر کیا تھا۔ یہ سفر جس کے دوران ان کے جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنے لگاتھا نہایت تکلیف دہ اور پریشان کن تھا۔ کابل میں انہوں نے ایک معلم کے طور پر ملازمت شروع کی اس وقت افغانستان کا سرکاری روزنامہ ’’اصلاح‘‘ (جو فارسی زبان میں شائع ہوتاتھا) وزارت تعلیم کے ماتحت تھا، اس طرح مقبول صاحب نے تدریس کے پیشہ سے صحافت کی طرف ’’ہجرت‘‘ کی، وہ کئی سال تک حکومت افغانستان کے سرکاری روزنامہ ’’اصلاح‘‘ کے چیف ایڈیٹر رہے اور جب وطن واپس آئے تو انہوں نے ’’اصلاح‘‘ سے ملنے والے معاوضہ کے مقابلہ میں بہت کم تنخواہ پر روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں بطور سب ایڈیٹر ملازمت اختیار کی۔ مقبول صاحب اس دور کی یادیں بہت مزے لے لے کر بیان کیا کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ بات بات پر استعفیٰ پیش کرنے کے ’’عادی‘‘ ہوگئے تھے، لیکن وزیر تعلیم ان کا بہت مداح تھا اور وہ سمجھا بجھاکر مقبول صاحب کو استعفیٰ واپس لے لینے پر آمادہ کرلیتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب کسی اور صاحب نے افغانستان کے وزیر تعلیم کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو مقبول صاحب نے ’’حسب عادت‘‘ آؤ دیکھا نہ تاؤ استعفیٰ داغ دیا اس مرتبہ ان کا مداح دوست وزیرتعلیم نہیں تھا جو انہیں سمجھاتا چنانچہ استعفیٰ منظور کرلیا گیا اور مقبول صاحب وطن واپس آگئے۔
کچھ عرصہ بعد جب افغانستان میں پس انداز کی گئی رقم ختم ہوگئی تو انہوں نے لاہور کے اُردو اخبارات میں قسمت آزمائی کی ٹھانی، مقبول صاحب بتاتے تھے کہ جب وہ مولانا عبدالمجید سالک کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ’’انقلاب‘‘ میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انہیں ایک اشتہار ترجمہ کے لئے دیا گیا، مقبول صاحب نے فٹافٹ اشتہار کا ترجمہ کردیا مگر اس ترجمہ کو پڑھ کر مولانا سالک نے سر تھام لیا کہ اس ترجمہ میں اردو کا ایک لفظ بھی نہیں تھا اور مقبول صاحب نے اشتہار کو انگریزی سے براہ راست فارسی میں ترجمہ کر ڈالا تھا۔۔۔ مقبول صاحب کو اب فارسی سے اُردو کی طرف سفر کرنا تھا، انہوں نے یہ سفر بھی کیا اور ’’اصلاح‘‘ کے مقابلہ میں بہت کم تنخواہ پر کام کرنا قبول کرلیا۔
مقبول صاحب، آل انڈیا ریڈیو میں اپنی ملازمت کی ایک کوشش کا ذکر بھی مزے لے لے کر کرتے تھے۔ انہوں نے کسی اخبار میں یہ اشتہار پڑھا کہ آل انڈیا ریڈیو کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو خبروں کا انگریزی اور اُردو سے فارسی میں ترجمہ کرسکے اور پھر ان خبروں کو نشر بھی کرسکے انہوں نے یہ اشتہار مولانا سالک کو دکھایا جنہوں نے یہ اشتہار دیکھ کر کہا، ’’مقبول صاحب یہ جگہ تو صرف اور صرف آپ کی منتظر ہے‘‘۔
مولانا سالک نے ایک خط جناب پطرس بخاری کے نام دے دیا اور مقبول صاحب یہ خط لے کر دہلی پہنچ گئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں انہیں بہت سی خبریں ترجمہ کے لئے دی گئیں جن کاترجمہ انہوں نے بڑی خوبی اورآسانی سے بہت کم وقت میں کر ڈالا بعد ازاں انہیں یہ خبریں نشر کرنے کے لئے کہا گیا۔ انہوں نے یہ خبریں ریڈیو کے سامعین کے لئے پڑھ تو ڈالیں لیکن پڑھنے کے دوران ہی اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ نشریات ان کے بس کا روگ نہیں پھر جب ان کی آواز کی ریکارڈنگ خود انہیں سُنائی گئی تو ان کی پریشانی قابلِ دیدتھی۔ ندامت سے ان کا بُرا حال تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے پہلے کبھی اتنی کمزور اور مریل آواز کسی کی نہیں سُنی تھی۔ پطرس بخاری نے مولانا سالک کے نام ایک رقعہ لکھ کر انہیں دوبارہ دفتر ’’انقلاب‘‘ بھیج دیا کہ یہ صحافت کے آدمی ہیں، نشریات کے نہیں۔ بہرحال مقبول صاحب نشریات کے قابل بے شک نہ ہوئے مگر وہ ریڈیو مانیٹرنگ کے ماہر ضرور بن گئے تھے، اس ضمن میں ان کی مہارت و استعداد کا یہ عالم تھا کہ وہ بجٹ کی لمبی لمبی رقوم بھی ریڈیو سے بالکل صحیح صحیح نوٹ کرلیتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب خبروں کے لئے اخبارات کے وسائل انتہائی محدودتھے، دفاتر میں نہ ٹیلی پرنٹر ہوتے تھے اور نہ پریس ریلیزوں کی بھر مار، اس دور میں صرف ریڈیو خبروں اور انگریزی خبروں کے ترجموں سے اخبار کا پیٹ بھرنا دِل گُردے کی بات تھی۔
مقبول صاحب کو یہ منفرد شرف بھی حاصل تھا کہ قیام پاکستان سے قبل سب سے پہلے لاہور میں جہاں ٹیلی پرنٹر لگا وہ روزنامہ ’’احسان‘‘ کا دفتر تھا جہاں مقبول صاحب نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ اس ٹیلی پرنٹر کی تنصیب کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مبارک ہاتھوں سے ہوا۔ ریڈیو مانیٹرنگ کی مہارت مقبول صاحب میں آخری عمر میں بھی بدستور موجود تھی اور وہ ’’بی بی سی‘‘ اور ’’وائس آف امریکہ‘‘ سے خبریں سُن کر انہیں لاہور کے مختلف روزانہ اخبارات کو بھیجتے تھے اور فقط یہی شُغل ان کی آمدنی کا ایک وسیلہ تھا۔۔۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا