دربار صحافت

مولانا سیّد ابولا علیٰ مودودیؒ از جمیل اطہر

مولانا سیّد ابولا علیٰ مودودیؒ از جمیل اطہر

مولانا مودودی کا نام تو ہوش سنبھالتے ہی سُنا ۔ میرے تایا قاضی نصیر الدین سرہندی جماعت اسلامی کے رکن تھے اور وہ مجھے رام پور (یو پی) سے شائع ہونے والے مولانا ابوسلیم عبدالحئی کی زیر ادارت شائع ہونے والے بچوں کے رسائل نوُر اور ا لحسنات پڑھنے کے لئے دیتے رہتے تھے اور پھر میری عمر اور تعلیمی استعداد کا اندازہ کرکے مجھے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور جماعت کے دیگر اکابرین کی کتابیں د ینے لگے ، ابتدامیں میرا رجحان ترقی پسند سیاست و صحافت کی طرف رہا مگر میرے تایا کو ہمیشہ یہ فکر رہی کہ مجھے سیدھے راستہ پر لایا جائے اور ان کے خیال میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا لٹریچر اس سلسلے میں مدد گار ثابت ہوسکتا تھا۔
میں 1958ء میں کالج میں داخل ہوا اور اس کے ساتھ ہی سعید سہگل کے اخبار روزنامہ ’’ آفاق‘‘ میں ملازمت کرلی جہاں مصطفی صادق پہلے سے کام کررہے تھے، اب ان کا سارا حلقہ احباب جماعت اسلامی اور مولانا مودودی سے اختلاف کرنے والے اصحاب پر مشتمل تھا ، مولانا عبدالرحیم اشرف، چوہدری عبدالحمید خان ، میاں فضل احمد ،حاجی برکت علی ، مولانا عبدالغفار حسن، مولانا امین احسن اصلاحی، محی الدین سلفی،ڈاکٹر اسرار احمد ،مولانا نذیر الحق میر ٹھی، سعید ملک اور ارشاد احمد حقانی۔ جناب مصطفی صادق کی وجہ سے اس حلقے میں میری آمدو رفت بھی رہی مگر ان سب لوگوں کا وصف یہ تھا کہ یہ سب مولانا مودودی کے علمی مقام و مرتبہ کا کُھلے دل سے اعتراف کرتے تھے البتہ انہیں انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کے مولانا مودودی کے فیصلہ سے اختلاف تھا ، ان کا خیال تھا کہ مولانا مودودی انتخابات کی سیاست میں شرکت کرکے اپنی بنیادی اور ابتدائی سوچ کو ترک کربیٹھے ہیں اور اس طرح جماعت اسلامی بھی ان خرابیوں میں مبتلا ہوگئی ہے جو انتخابات لڑنے والے سیاست دانوں کا وتیرہ اور شیوہ رہا ہے۔ان حضرات کا خیال تھا کہ مولانامودودی کو اپنا دائرہ کار علمی ، تعلیمی اور تربیتی دائرے تک محدود رکھنا چاہئے اور معاشرے میں سیرت و کردار کی تعمیر پر زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ اعلیٰ اخلاقی و انسانی اوصاف کے مالک لوگ اپنے فہم و شعور کی بدولت زیادہ اچھے لوگوں کو انتخابی میدان میں لائیں اور ان کی پُوری تائید و حمایت کریں مگر جماعت کا کوئی کار کن ، رُکن، متفق اور رہنما خودامیدوار نہ بنے ۔ رحیم یار خان کے قریب ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں نقطہ نظر کی یہ تقسیم زیادہ نمایاں ہوگئی اور جماعت کے کئی سر برآوردہ رہنما جماعت سے الگ ہوگئے یا ان کے لئے ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ وہ جماعت چھوڑ جائیں۔
مولانا مودودی اور ان کے رفقاء کو اس بات کا یقین تھا کہ انہوں نے جو لائحہ عمل طے کرلیا ہے ملک میں اسلامی انقلاب لانے کا یہی مختصر راستہ(شارٹ کٹ)ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی ، مولانا عبدالرحیم اشرف اور ڈاکٹر اسرار احمد اس معاملے میں بہت نکتہ چیں رہے۔ مصطفی صادق صاحب چونکہ ’’ المنبر‘‘ میں مولانا عبدالرحیم اشرف کی معاونت کررہے تھے اس بنا پر وہ بھی تنقید کرنے والوں میں شامل تھے البتہ سعید ملک اور ارشاد احمد حقانی نے عملاًخاموشی اختیار کرلی، سعید ملک صاحب کاروبار میں مصروف ہوگئے اور نئی چھاؤنیوں کی تعمیر کے ٹھیکے لینے لگے ۔ ارشاد احمد حقانی ’’تسنیم ‘‘ کی ادارت سے الگ ہوجانے کے بعد چند مہینے انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ میں سب ایڈیٹر رہے اور پھر اپنے آبائی قصبہ قصور چلے گئے اور وہاں کے اسلامیہ کالج میں علوم اسلامی کے لیکچرار مقررہوئے۔
مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے معاملے میں ہم نے نرمی کی روش اس وقت اختیار کی جب ’’وفاق ‘‘ لائل پور کی بجائے 1962ء میں سرگودھا منتقل ہوگیا اور سیٹلائٹ ٹاؤن میں اس کا دفتر جماعت اسلامی سر گودھا ڈویژن کے دفتر سے ملحق ہوگیا، یہ عمارت جماعت اسلامی ضلع سر گودھا کے امیر مولانا عبدالرحمن ہاشمی کی تھی ۔ مولانا ہاشمی ممتاز ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے چچا تھے ، یہاں ہماری سید اسعد گیلانی امیر جماعت اسلامی سرگودھا ڈویژن سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ، میرے تایا قاضی نصیر الدین سرہندی نے کچھ عرصہ کراچی میں گزارا تھا۔ اُن کی رہائش رنچھوڑ لائن میں تھی جہاں اسعد گیلانی صاحب کے ہفت روزہ ’’جہانِ نو‘‘ کا دفتر تھا اور یہ دفتر ہی ان کی رہائش گاہ بھی تھا ، اسعد گیلانی کے ساتھ پیہم نشستوں نے ہمارارُخ دوبارہ جماعت اسلامی کی طرف پھیر دیا۔ مولانا مودودی سر گودھا تشریف لائے ، انہوں نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا ، ’’وفاق ‘‘نے اس موقع پر جماعت اسلامی نمبرنکالا اور جماعت اسلامی سرگودھا ڈویژن کے سہ روزہ اجتماع کی کارروائی پر مشتمل ’’ اجتماع نمبر‘‘ بھی شائع کیا ۔ مصطفی صادق صاحب اب اخبار کے کاموں کے سلسلے میں جب بھی لاہور جاتے تو اچھرہ میں مولانا مودودی سے ضرور ملتے ، ابتداء میں تو مولانا نے کچھ بے رُخی سے کام لیا اور گفتگوصرف ’’سرگودھا کا موسم کیساہے‘‘ جیسی باتوں تک محدود رہی مگر رفتہ رفتہ مولانا اور مصطفی صادق کے مابین اعتماد کا رشتہ پھر قائم ہوگیا۔
مجھے جماعت اسلامی کے اس سالانہ اجتماع میں بھی شرکت کا موقع ملا جو صدر ایوب خاں اورگورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خاں کے دور حکومت میں موچی دروازے اور مینا ر پاکستان کی اجازت نہ ملنے کے باعث ٹکسالی گیٹ کے باہر سبزہ زار پر منعقد ہوا۔ اس جلسے میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں تھی۔ جب مولانا مودودی ؒ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو وہ اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھتے جاتے تھے اور مختلف مقامات پر متعین جماعت کے کارکن ان کی تقریر کے الفاظ اور جملوں کو دہرا کر سامعین کو پہنچاتے تھے۔ ابھی مولانا مودودیؒ کی تقریر کو چند ساعتیں ہی ہوئی تھیں کہ کچھ غنڈے اجتماع گاہ میں گھس آئے اور انہوں نے گولیاں چلانا شروع کردیں ، مولانا مودودیؒ تقریر کرنے کے لئے کھڑے تھے کہ جماعت اسلامی لاہور کے امیر اور ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ کے ایڈیٹر چوہدری غلام جیلانی نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ بیٹھ جائیں جس پر مولانا نے اپنی زبان سے یہ تاریخی فقرہ ادا کیا کہ اگر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا ۔ گولیوں کی آواز ابھی تھمی نہیں تھی کہ ایک کیمپ سے آہ وبکاکی آوازیں آنے لگیں ہم بھی اس کیمپ میں گئے جہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ سمندری سے تعلق رکھنے والے جماعت کے کارکن الٰہ بخش کو گولیاں لگی ہیں اور وہ شہید ہوگئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت کے کارکنوں نے اس موقع پر بڑے صبر کا مظاہرہ کیا اور کوئی بھی رد عمل ظاہر کئے بغیر سالانہ اجتماع کی کارروائی جاری رکھی لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی کو آمریتوں کا ساتھ دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے جمہوریت اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لئے کتنی گراں قدر اور بے بہا قربانیاں دی ہیں ۔ایوب خان کے دور حکومت میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دیا گیا، جماعت کے تمام دفاتر پر تالے ڈال دیئے گئے ۔ جماعت کے سر کردہ رہنماؤں اور کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ جماعت اسلامی کا نام لینا ایک جرم بن گیا۔ اس سے پہلے 1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں قادیانی مسئلہ کے عنوان سے ایک چھوٹا سا پمفلٹ لکھنے کی پاداش میں فوجی عدالت نے مولانا مودودی ؒ کو سزا ئے موت سنا دی اورپمفلٹ چھاپنے والے جدید اردو ٹائپ پریس چیمبر لین روڈ کے مالک مرزا نصیر بیگ کو 14 سال قید اور پمفلٹ کے ناشر جماعت اسلامی کے ایک رہنما اور مولانا مودودی ؒ کے دست راست سید نقی علی کو بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جماعت کے صف اوّل کے تمام رہنما جیلوں میں ڈال دیئے گئے ۔
مولانا مودودیؒ نے جب تفہیمُ القرآن لکھنے کا کام مکمل کرلیا تو لاہور میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ روز نامہ’’ وفاق‘‘ نے اس موقع پر ایک خصوصی ایڈیشن شائع کرنے کا اہتمام کیا۔ انٹر ویو لینے والے تھے جناب ارشاد احمد حقانی، جناب مصطفی صادق اور یہ خاکسار ، سوالات ان دونوں اصحاب نے کئے، سوالا ت اور مولانا مودودیؒ کے جوابات میں نے نوٹ کئے اور انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل کیا۔ یہ انٹر ویو ایک تاریخی دستا ویز کی حیثیت رکھتا ہے اور مولانا مودودیؒ نے قرآن حکیم کی تفسیر لکھنے کے لئے سالہا سال جو ریاضت کی اس کا آئینہ دار ہے۔
تحریک تحفظ ختم نبوت ثانی میں جب مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے الٹی میٹم کا آخری بڑا اجتماع باد شاہی مسجد میں منعقد کیا تو اس کے مقرر ین میں مولانا مودودیؒ اور مولا نا مفتی محمودؒ جیسی جید شخصیات بھی شریک تھیں ۔ مولانا مودودیؒ کی تقریر حسب معمول تحریری شکل میں تھی ۔میں روز نامہ ’’وفاق‘‘ کی طرف سے اس اجتماع میں رپورٹنگ کے لئے سٹیج پر موجود تھا ۔مصطفی صادق صاحب نے چند روز پہلے ایک پرانی گاڑی خریدی تھی۔ ہم نے بر وقت جلسے کی رپورٹنگ دفتر پہنچانے کے لئے اس گاڑی کے ڈرائیور اور دفتر کے ایک معاون کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ ہر گھنٹے کے بعد آئے اور سٹیج سے میری لکھی ہوئی رپورٹ لے جائے تاکہ دفتر میں کتابت کا کام بر وقت مکمل ہو جائے اور یکا یک ایک طویل رپورٹ کتابت کرانے کی مشکل سے بچا جاسکے۔ یہ ایک مشکل کام تھا کہ آپ جلسے میں اہم مقررین کی تقاریر کے نوٹس بھی لے رہے ہوں اور ساتھ ساتھ اسے درست کرکے ایک قابل اشاعت رپورٹ بھی لکھ رہے ہوں، بہر حال ذکر ہورہا تھا مولانا مودودیؒ کی تقریر کا۔ مولانا کی تقریر ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا مفتی محمود اپنے سینکڑوں رفقا کے ساتھ سٹیج پر پہنچے تو جلسے کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ جمعیت کے کارکن مولانا مفتی محمود کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور انہیں اس امر کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ مولانا مودودیؒ اپنی تقریر مکمل کرتے ہیں یا نہیں، اس شوروغوغا میں مولانا کے لئے یہ ممکن نہ رہاکہ وہ اپنا خطاب مکمل کرسکتے ۔میں اس شورو غوغا کے باوجود مولانا کے قریب پہنچا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی لکھی ہوئی تقریر کا مسودہ مجھے دے دیں تاکہ ہم اسے آج ہی وفاق میں شائع کرسکیں۔ مولانا نے یہ مسودہ مجھے دے دیا اور ہم نے یہ لکھ کر ان کی پوری تقریر چھاپ دی کہ جلسے میں ہنگامے کے باعث مولانا تقریر کا جو حصہ نہیں پڑھ سکے تھے ہم تاریخ میں اسے محفوظ کرنے کے لئے ’’وفاق‘‘ کے صفحات میں شائع کررہے ہیں۔ اس کے بعد تو یہ ہوا کہ مولانا کوئی سخت سے سخت بیان بھی جاری کرتے تو شعبہ نشر و اشاعت کے ناظم چوہدری صفدر علی سے کہتے تھے کہ یہ بیان کہیں اور چھپے نہ چھپے وفاق میں چھپ کر ریکارڈ پر آجائے گا ۔
مولانا مودودیؒ ایک نہایت متحمل مزاج عالم دین اور سیاست دان تھے۔ کم ازکم میں نے انہیں غصے میں کم ہی پایا لیکن جب 1970ء کے انتخابات ہورہے تھے اور مولانا کی قیام گاہ کے حلقے میں میاں طفیل محمد اور شیخ محمد رشید کے مابین مقابلہ تھا تو الطاف حسن قریشی ،مصطفی صادق ، مجیب الرحمن شامی اور میں مختلف پولنگ سٹیشنوں کے دورے پر نکلے اور دوپہر کے لگ بھگ ذیلدارپارک اچھرہ میں مولانا مودودیؒ کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ مولانا اپنے کمرے سے باہر آئے وہ غصے سے بھرے ہوئے تھے اور ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے کہا کہ آپ لوگ یہاں کیا کررہے ہیں، جائیں دیکھیں زنانہ پولنگ سٹیشنوں پر کس بُری طرح جعلی ووٹ بھگتا ئے جارہے ہیں۔ مولانا کا غصہ دیکھ کر ہم سب نے وہاں سے چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس روز بھی مولانا غیر معمولی طور پر جذبات میں تھے جب جوہر آباد کے ایک نوجوان نے ان کو قتل کرنے کے ارادے سے جوہر آباد سے لاہور تک سفر کیا تھا اور اس نے ایک چھری اپنے نیفے میں چھپا رکھی تھی مگر جماعت کے کارکنوں نے اس کی مشکوک نقل و حر کت دیکھ کر اسے پکڑ لیا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ میں اور مصطفی صادق صاحب جب مولانا کی قیام گاہ پر گئے تو وہ نوجوان جماعت کے کارکنوں کی حفاظت میں تھا اور انہیں ابھی یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اسے پولیس کے حوالے کیا جائے یا نہیں۔
میں نے عبدالکریم روڈ پر مولانا مودودیؒ کے درس قرآن کی کئی محفلوں میں بھی شرکت کی اور ذیلدار پارک میں مولانا کی قیام گاہ پر بعد نماز عصر منعقد ہونے والی سوال و جواب کی نشستوں میں بھی شریک ہوا ۔ مولانا مودودیؒ کے گھر پر ان کی میزبانی سے بھی لطف اٹھایا خاص طورپر وہ عشائیہ مجھے ابھی تک یاد ہے جو مولانا مودودیؒ نے جناب مجید نظامی کے حج کے پہلے سفر پر روانہ ہوتے وقت ان کے اعزاز میں دیا تھا ۔ اس عشائیہ میں اور لوگوں کے علاوہ آغا شورش کاشمیری بھی شریک تھے۔