دربار صحافت

مولانا کوثر نیازی، صحافی بھی ، سیاستدان بھی۔۔۔تحریر سید عباس اطہر

بعض موتیں ایسی ہوتی ہیں، جنہیں دیکھ کر وقتی طور پر زندگی، اس کی طاقتوں اور اس کے تماشوں پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک حادثہ مولانا کوثر نیازی کی اچانک موت ہے۔ وہ گزشتہ پچیس تیس سال سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم حصہ تھے، صحافی، ادیب شاعر، خطیب اور عالم دین تھے۔ اس سارے عرصے میں وہ ڈوبتے ابھرتے رہے، نبض ڈوبنے سے پہلے آخری بار ابھرے اور اب ان کی کہانیاں باقی رہ گئی ہیں۔
مرحوم مولانا صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا تھا۔ جب محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان الیکشن شروع ہوا وہ جماعت اسلامی سے الگ ہو گئے، ان پر الزام تھا کہ وہ بہت پہلے سے ہی مرحوم ایوب خان کے ساتھ ملے ہوئے تھے، صرف وقت کے انتظار میں تھے۔حقیقت جو بھی ہو اس دور میں انہیں عورت کی قیادت خلاف اسلام نظر آتی تھی اس لئے انہوں نے اپنا فیصلہ ایوب خان کے حق میں دے دیا۔ جماعت اسلامی لاہور کے امیر کا عہدہ چھوڑا اور ایوب خان کی حمایت میں سرگرم عمل ہو گئے۔ یحییٰ خان کے دور میں مولانا کوثر نیازی صحیح معنوں میں ایک اہم سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرے۔ ان کا ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ ایک نئے انداز میں شائع ہونا شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پسے ہوئے طبقوں کی آواز بن گیا۔ بعض لوگ اس دور کے ’’شہاب‘‘ کو زرد صحافت کہتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی اس دور کا تقاضا تھا۔ نذیر ناجی شہاب کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے عوامی موڈ کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے اس دور کی جماعت اسلامی پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے جو جمہوری تبدیلی کے خلاف دیوار بنی ہوئی تھی۔ اسی دور میں مولانا کوثر نیازی، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے قریب ہوئے اور ایک عجیب قسم کا رشتہ قائم ہوا جس میں بھٹو صاحب یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے مولانا کو شیشے میں اتار لیا ہے اور مولانا کا خیال تھا کہ وہ بھٹو کو شیشے میں اتار چکے ہیں۔ بھٹو مرحوم سے قریبی تعلق کے ساتھ ساتھ مولانا کوثر نیازی شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ بھی پینگیں بڑھا رہے تھے۔ایک مرحلے پر بھٹو صاحب نے ان پر زور دیا کہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ مولانا متذبذب تھے۔ انہوں نے عبداللہ ملک صاحب کو پکڑا اور کہا کہ’’ جا کر بھٹو صاحب کو سمجھائیے میں اپنی موجودہ پوزیشن میں اُن کیلئے زیادہ مفید ہوں۔ کسی نازک مرحلے پر آپ اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان پل بن سکتا ہوں‘‘۔ عبداللہ ملک بھٹو صاحب کے خاصے قریب تھے۔ بھٹو مختلف مواقع پر اس خصوصی تعلق کا مظاہرہ یوں کیا کرتے تھے۔ ائرپورٹ پر ان کا کی فیلٹ اتار کر اپنے سر پر رکھ لیتے۔ ملک صاحب کو دوسروں سے الگ کرکے اتنی سنجیدگی سے اُن کے مشورے سنتے کہ دیکھنے والے یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتے کہ عبداللہ ملک کے ذریعے بھٹو صاحب سے ہر بات منوائی جا سکتی ہے۔ بہرحال ملک صاحب مولانا کوثر نیازی کی سفارش لے کر بھٹو مرحوم کے پاس گئے اور لمبے چوڑے دلائل کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی سے باہر رہ کر مولانا کی افادیت زیادہ ہے لیکن بھٹو صاحب نے ایک ’’بے رحمانہ فقرے‘‘ کے ساتھ یہ سارے دلائل مسترد کر دئیے جسے دہرانا مناسب نہیں۔ مہذب الفاظ میں جواب یہ تھا کہ مولانا پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں۔ چند روز بعد مولانا کوثر نیازی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور جلد ہی پارٹی کے اندر اس چھوٹے سے گروپ کے لیڈر بن گئے جو ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کے نعرے کو قابل اعتراض سمجھتا تھا۔مولانا شعلہ بیان مقرر تھے۔ چند ’’اشتعال انگیز‘‘ تقریروں کے نتیجے میں گرفتار ہوئے۔ جیل سے الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے جیت گئے۔
جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی، مولانا کوثر نیازی بھٹو مرحوم کے وزیر اطلاعات تھے۔ انہوں نے بڑی مہارت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں لیکن وہ ہمیشہ پارٹی کے اندر متنازعہ رہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بھٹو صاحب کو استعمال کر رہے ہیں لیکن اصل میں بھٹو مرحوم انہیں استعمال کر رہے تھے کبھی انہیں شیخ محمد رشید سے لڑا دیتے تھے اور کبھی اُن سے خورشید حسن میر کا تماشا بنوا دیتے تھے بہرحال اسی ’’عاشقی‘‘ میں مولانا صاحب کی اپنی پسندیدہ وزارت اطلاعات چلی گئی اور انہیں وزارت مذہبی امور پر اکتفا کرنا پڑا۔
بھٹو حکومت کے آخری دنوں تک مولانا کوثر نیازی کی اہمیت قائم رہی۔ وہ پی این اے کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کے اہم رکن تھے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شروع میں وہ کچھ عرصہ بیگم بھٹو کے ساتھ رہے ۔پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی بنے پھر باقی ماندہ پارٹی لیڈروں کے برعکس وہ اس نقطہ نظر کے وکیل بن گئے کہ پیپلز پارٹی کو مارشل لا کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کرنا چاہئے۔ وہ چاہتے تھے کہ محاذ آرائی کی راہ اختیار نہ کی جائے۔ بھٹو صاحب کی جان بھی بچا لی جائے اور پارٹی کی پالیسیاں اور عمل اتنا تبدیل کر دیا جائے کہ ملک کی دوسری جماعتوں کی طرح وہ بھی ہر ایک کیلئے قابل قبول بن جائے۔ اس جدوجہد میں مولانا مرحوم تنہا رہ گئے اور پارٹی سے نکل گئے۔ ایک عرصہ تک ان کا نام پارٹی حلقوں میں گالی بنا رہا۔ انہوں نے اپنی پروگریسو پارٹی بنائی جو نہیں چل سکی۔ وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ ایک بار ضیاء الحق دور میں سینیٹر بنے لیکن حکومت میں کوئی رول نہیں مل سکا۔1988ء کی بینظیر حکومت میں تحفظ ناموس رسالت کیلئے اسلام آباد میں ایک جلوس نکال کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کی۔ 8 لاشیں بھی حاصل کیں لیکن بات نہیں بنی۔
طویل انتظار کے بعد 1993ء میں مولانا کوثر نیازی کو سیاست میں واپس آنے کا ایک شاندار موقع ملا۔ وہ مزاری کی عبوری حکومت میں وزیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے۔ اس مختصر سے دور میں انہوں نے نئے پتے لگائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کا دل صاف کیا اور آصف علی زرداری سے راہ و رسم بڑھائی جو مافی تلافی کے معاملے میں حد سے زیادہ فیاض ہیں۔ پیپلز پارٹی نے مولانا کوثر نیازی کو ٹکٹ نہیں دیا لیکن انتخابی مہم میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا اور ملک بھر میں اپنی خطابت کے جادو جگائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو عام خیال تھا کہ کسی نہ کسی شکل میں اطلاعات و نشریات کی ذمہ داری مولانا مرحوم کو ملے گی لیکن انہیں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ پر قناعت کرنی پڑی۔ زندگی کے آخری دور میں وہ تمام علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتے ہیں اور تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کیلئے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ موت نے مولانا کوثر نیازی کو اپنا یہ مشن مکمل کرنے کی مہلت تونہیں دی لیکن اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت انہیں یہ اطمینان ضرور ہو گا کہ جو کچھ وہ 1977ء میں کہتے تھے، جس قسم کی سیاست کا خواب دیکھنے کی پاداش میں وہ پیپلزپارٹی سے نکالے گئے تھے، وہی 1993ء کی پیپلز پارٹی کی مجبوری بن رہا ہے۔ زندگی میں آدمی کے بہت کم خواب پورے ہوتے ہیں۔ مولانا کے تو بہت سارے خواب پورے ہوئے کیونکہ زندگی کے نظام میں بادشاہ ہوں یا فقیر، کسی کو بھی حسب آرزو سب کچھ نہیں ملتا۔ (23مارچ 1994ء)