دربار صحافت

میثاق جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل؟ حذیفہ رحمن

میثاق جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل؟ حذیفہ رحمن

وزیراعظم نوازشریف سے حتمی جان چھڑانے کے لئے پی پی پی اور تحریک انصاف کو ایک صف میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ملکی سیاست میں ایسا موقع آن پہنچا ہے جب سیاسی شطرنج کے کھلاڑی آصف زرداری کا کردار نہایت اہم ہوگا۔برطانیہ میں کاسٹنگ ووٹ کی اصطلاح بہت مقبول ہے۔اگر پارلیمنٹ میں دو جماعتوں کے ووٹ برابر ہوں تو پھر اسپیکر کا ووٹ کاسٹنگ ووٹ ہوتا ہے۔آج جمہوریت کو بچانے میں زرداری کا ووٹ کاسٹنگ ووٹ ہوگا۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم در پردہ لوگوں کی اس سازش کو سمجھ ہی نہیں پارہے۔پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد ان کو موقع ملے گا۔لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔پی پی پی کے ساتھ بھی وہی چال چلی جا رہی ہے جو نوازشریف کے ساتھ چلی گئی ۔لیکن آج آصف زرداری کو مدبرانہ سوچ کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور میثاق جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل نہیں بننا ہوگا۔اگر آج اس سازش کو نہ سمجھا گیا تو پھر مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ پی پی پی کا بھی بوریابستر گول کردیا جائے گا۔عین ممکن ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت کو چلنے دیا جائے مگر جن چہروں کو سامنے لانے کی تیاری کی جارہی ہے وہ آمروں سے بھی بدتر ہونگے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی اس کا حصہ نہیں ہونگے بلکہ اپنی نااہلی کو گلے لگا کر نتھیاگلی کے پہاڑوں میں وقت گزار رہے ہونگے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو سابق آمر پرویز مشرف وزیراعظم بنانا چاہتے تھے اور اس کے لئے ہر طرح کی گارنٹی دینے کو بھی تیار تھے۔1977سے آمروں کے خلاف لڑنے والی بے نظیر غیر جمہوری لو گوںکی منصوبہ بندی سے بخوبی آگاہ تھیں۔اسی لئے انہوں نے مشرف کی دی گئی ضمانتوں کو نظر انداز کرکے اپنے روایتی حریف نوازشریف سے بات کرنے کو ترجیح دی۔پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے آج کے اختلافات کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔90کی دہائی میں دونوں نے ایکدوسرے کے ساتھ جو کچھ کیا سب کے سامنے ہے۔محترمہ نے اگر نوازشریف کو سب سے پیارے ان کے والد میاں شریف مرحوم کو گرفتار کروایا تو میاں نوازشریف نے بھی پورا پورا بدلہ اتارا۔لیکن جلاوطنی کے 7سالوں نے دونوں رہنماؤں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم جمہوری لوگ پھر بھی ایکدوسرے کو مار کر سائے میں پھینکتے ہیں مگر آمروں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔اسی لئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی زندگی میں اپنے سخت ترین روایتی حریف نوازشریف سے میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھی اور وزارت عظمیٰ کا لالچ دینے کے باوجود در پردہ لوگوں پر اعتماد نہیں کیا۔محترمہ کی شہادت کے بعد ان کے شوہر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے معاہدہ بھوربن کرکے اسی میثاق جمہوریت کو مضبوط کیا ۔پی پی پی کے پانچ سالہ دور کے دوران میثاق جمہوریت کو سبو تاژ کرنے کے کئی وار کئے گئے مگر آصف زرداری اور نوازشریف بال بال بچے۔درپردہ عناصر نے پہلا وار نوازشریف پر کروایا اور پنجاب میں گورنر راج لگوادیا۔پھر مسلم لیگ ق اور پی پی پی کا اتحاد کرادیا گیا اور ساتھ ساتھ رائیونڈ جا کر نوازشریف کو اکساتے رہے کہ کسی طرح زرداری حکومت کو کرپشن کا جواز بنا کر چلتا کروادیں۔اس وقت بھی اداروں کی معاونت کا یقین دلایا گیا لیکن نوازشریف آئندہ انتخابات کی تیاری میں لگے رہے۔پھر زرداری سے بدلہ لینے کے لئے نوازشریف کو میمو گیٹ معاملے میں سپریم کورٹ میںلاکر کھڑا کردیا گیا۔ پھر گیلانی کو توہین عدالت کیس میں سزا ہو گئی اور کچھ لوگوں نے نااہلی کافیصلہ سن لیا تھا ا س پر عملدرآمد کروانے کی بندوق نوازشریف کے کندھے پر رکھ کر چلوائی گئی۔کاش ایک منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک غیر متنازع فیصلے کو جواز بنا کر گھر نہ بھیجا گیا ہوتا تو آج ایک مرتبہ پھر چیف ایگزیکٹو کو گھر بھیجنے کی باتیں نہ ہورہی ہوتیں۔نوازشریف کو ایک منتخب وزیراعظم کی نااہلی میں رکاوٹ ڈالنی چاہئے تھی۔اس وقت ڈٹ جانا چاہئےتھا کہ منتخب وزیراعظم کوصرف پارلیمنٹ ہی گھر بھیج سکتی ہے۔ دنیا بھر کی کسی جمہوریت میں منتخب وزیراعظم کو متنازع فیصلوں پر گھر نہیں بھیجا جاتا۔مگر پاکستان سب سے منفرد ملک ہے۔بہرحال ان سب واقعات کے باوجود میثاق جموریت قائم رہا اور 2013کے عام انتخابات ہوگئے۔وزیراعظم نوازشریف نے حکومت میں آنے کے بعد وفاق میں پی پی پی کے خلاف کوئی نیا کیس نہیں کھولا۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے لے کر کسی سابق وزیر کے خلاف تحقیقات شروع نہیں کی گئی۔ایسے میں میثاق جمہوریت کو ختم کروانے کا خواب دیکھنے والے بھلا کیسے سکون سے بیٹھ سکتے تھے۔کراچی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن میںانتہائی خوبصورتی اور ہنر مندی سے پی پی پی کے سرکردہ رہنماؤں کو دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں گھسیٹ لیا گیا۔ڈاکٹر عاصم پر کرپشن کی بات سمجھ میں آتی ہے مگر انہیں بھی دہشت گردوں کا سہولت کا ر قرار دے دیا گیا،افسوس صد افسوس۔ماڈل گرل ایان علی کے معاملے میں ذاتیات پر حملے ہوئے۔جو کچھ بھی کیا جارہا تھا ،اس پر تاثر دیا جارہا تھا کہ یہ سب کچھ وزارت داخلہ کروارہی ہے اور وزارت داخلہ نوازشریف کے ماتحت محکمہ ہے۔پھرزرداری کی پشاور میں ہونے والی تقریر کے بعد انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا۔اس دوران وزیراعظم نوازشریف کو تاثر دیا جاتا رہا کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا ہے کہ آئندہ سندھ میں بھی آپکی حکومت بنے۔لیکن یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا تھا کہ Divide & Ruleتقسیم کرو اور حکومت کرو۔بالآخر زرداری کو نوازشریف سے مکمل متنفر کردیا گیا۔پھر پلان کے دوسرے حصے میں پی پی پی کے پنجاب کے رہنماؤں کو جہانگیر ترین صاحب کے ذریعے تحریک انصاف میںشامل کروانا شروع کیا گیا اور پی پی پی کے پنجابی سیاستدانوں کی طرف سے زرداری صاحب کو تاثر دیا گیا کہ ہم نوازشریف کی حمایت کی وجہ سے کمزور ہورہے ہیں۔اس لئے نوازشریف کی مخالفت اشد ضروری ہے۔
اب تیسرے مرحلے میں نوازشریف پر وار کا آغاز کیا گیا۔ایک ایسے وقت میں جب نوازشریف کو تنہا کیا جاچکا ہے۔اپنی غلطی تسلیم کرنا بڑا پن ہوتا ہے۔سرائیکی کی مثال ہے کہ “مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کو دودھ بھی دیا ہے مگر مینگنیاں ڈال کر”۔کچھ لوگوںکو میثاق جمہوریت ختم کرواتے کرواتے دس سال لگ گئے ،دو حکومتیں قربان کرنا پڑیں۔مگر اب ان کے خواب کی تعبیر کا وقت آچکا ہے۔میثاق جمہوریت کے تابوت میں آخر ی کیل آصف زرداری ہونگے۔لیکن نوازشریف اپنی دانشمندی اور بڑے پن کا مظاہرہ کرکے اس کو روک سکتے ہیں۔ڈٹنے اور لڑنے کے بجائے صرف آصف زرداری کومنا لیا جائے تو پلان اور سازشیں دفن ہوجائیں گی۔وگرنہ زرداری صاحب کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ نوازشریف کے بعد پھر ان کی باری ہوگی ۔کیونکہ آپ بہرحال جمہوریت کے داعی اور متوالے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں جمہوریت پسند لوگ پسند نہیں ہیں۔اس لئے مائنس نواز کے بعد مائنس زرداری اور مائنس عمران ہوگا۔بے شک تحریک انصاف کی حکومت بنے مگر وزیراعظم عمران خان نہیں ہونگے۔کیونکہ درپردہ عناصر آپ کو نااہل قرار دلوا کر کسی اور کو وزارت عظمیٰ کی یقین دہانی کراچکے ہیں جوآپکی جماعت کے موثر ترین آدمی ہیں۔اور آج آپکی پارٹی میں شامل ہونے والا ہر فرد انہی کے توسط سے آرہا ہے اور آپکے نااہل ہونے کے بعد وہی آپکی پوری پارٹی کے مالک ہونگے۔میری استدعا ہے کہ آپس میں جتنا مرضی لڑیں،ایکدوسرے کو برا بھلا کہیں مگر در پردہ لوگوں کے اشاروں پر مت چلیں ۔یہ آپ میں سے کسی کی خیر خواہ نہیں۔